ممتاز سعودی عالم ابو عبدالرحمن محمد العریفی کہتے ہیں:
میں یمن گیا اور شیخ عبدالمجید زندانی سے ملا جو جید عالمِ دین ہیں اور شیخ نے قرآنِ کریم کے علمی اعجاز اور سائنسی تجربات جو قرآن کریم کی تصدیق کرنے پر مجبور ہیں, پر کافی کام کیا
میں نے شیخ سے پوچھا کوئی ایسا واقعہ کہ کسی نے قرآن کریم کی کوئی آیت سنی ہو اور اُس نے اسلام قبول کیا ہو شیخ نے کہا بہت سے واقعات ہیں
میں نے کہا مجھے بھی کوئی ایک آدھ واقعہ بتائیں
شیخ کہنے لگے
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا، یہ بیالوجی اور اس علم میں جو نئے اکتشافات ہوئے اُن کے متعلق تھا، ایک پروفیسر امریکی یا جرمن (شیخ عریفی بھول گئے) نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کے ذریعے ہمیں "تکلیف" کا احساس ہوتا ہے ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے، پھر اس نے مثالیں دیں، مثال کے طور پر جب انجیکشن لگتا ہے تو تکلیف کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے اس کے بعد تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اُس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں "تکلیف" کا مرکز اور تکلیف کا احساس صرف جلد تک محدود ہے جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو تکلیف کا احساس نہیں ہوتا
شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو اس سے چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں، پروفیسر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا
شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں اُس نے کہا وہ کیسے
شیخ نے کہا میں نے قرآن کی آیت پرھی:
جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقینًا آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وه عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے (النساء: 56)
یعنی کہ جب اھل جہنم کی جلد اور کھال جل جائے گی اللہ مالک نئی جلد اور کھال دیں گے تاکہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں
معلوم ہوا کہ تکلیف کا مرکز جلد ہے، جب اھل جہنم کی جلد اور کھال ہی نہیں ہو گی تو انہیں تکلیف کا احساس نہیں ہو گا
شیخ کہتے ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکڑز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟
سب نے کہا صحیح ہے!
وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا
شیخ زندانی کہتے ہیں جب وہ باہر نکلا میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور بریطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ
انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا
وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں
اُس نے کہا مجھے قرآن کا ترجمہ دو
شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا
شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا:
میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے
الحمدللہ
كافر قرآن كی ايک آيت سن كر مسلمان (الله كا فرمانبردار) بن گيا، ليكن كتنے هی (نام نهاد) مسلم هيں جو قرآن كی واضح آيات سن كر بهی روگردانی كرتے هیں
جيسا كه الله كا فرمان هے
اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وه اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ اور جب تو صرف اللہ ہی کا ذکر اس کی توحید کے ساتھ، اس قرآن میں کرتا ہے تو وه روگردانی کرتے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں.
میں نے شیخ سے پوچھا کوئی ایسا واقعہ کہ کسی نے قرآن کریم کی کوئی آیت سنی ہو اور اُس نے اسلام قبول کیا ہو شیخ نے کہا بہت سے واقعات ہیں
میں نے کہا مجھے بھی کوئی ایک آدھ واقعہ بتائیں
شیخ کہنے لگے
کافی عرصہ پہلے کی بات ہے میں جدہ میں ایک سیمینار میں شریک تھا، یہ بیالوجی اور اس علم میں جو نئے اکتشافات ہوئے اُن کے متعلق تھا، ایک پروفیسر امریکی یا جرمن (شیخ عریفی بھول گئے) نے یہ تحقیق پیش کی کہ انسانی اعصاب جس کے ذریعے ہمیں "تکلیف" کا احساس ہوتا ہے ان کا تعلق ہماری جلد کے ساتھ ہے، پھر اس نے مثالیں دیں، مثال کے طور پر جب انجیکشن لگتا ہے تو تکلیف کا احساس صرف جلد کو ہوتا ہے اس کے بعد تکلیف کا احساس نہیں ہوتا، اُس پروفیسر کی باتوں کا لب لباب یہی تھا کا انسانی جسم میں "تکلیف" کا مرکز اور تکلیف کا احساس صرف جلد تک محدود ہے جلد اور چمڑی کے بعد گوشت اور ہڈیوں کو تکلیف کا احساس نہیں ہوتا
شیخ زندانی کہتے ہیں میں کھڑا ہوا اور کہا پروفیسر یہ جو آپ نئی تحقیق لیکر آئے ہیں ہم تو اس سے چودہ سو سال پہلے سے آگاہ ہیں، پروفیسر نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ نئی تحقیق ہے جو تجربات پر مبنی ہے اور یہ تو بیس تیس سال پہلے تک کسی کو پتہ نہیں تھا
شیخ زندانی نے کہا کہ ہم تو بہت پہلے سے یہ بات جانتے ہیں اُس نے کہا وہ کیسے
شیخ نے کہا میں نے قرآن کی آیت پرھی:
جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقینًا آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وه عذاب چکھتے رہیں، بے شک اللہ زبردست ہے اور بڑی حکمت والا ہے (النساء: 56)
یعنی کہ جب اھل جہنم کی جلد اور کھال جل جائے گی اللہ مالک نئی جلد اور کھال دیں گے تاکہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں
معلوم ہوا کہ تکلیف کا مرکز جلد ہے، جب اھل جہنم کی جلد اور کھال ہی نہیں ہو گی تو انہیں تکلیف کا احساس نہیں ہو گا
شیخ کہتے ہیں جب میں نے یہ آیت پڑھی اور ترجمہ کیا وہ پروفیسر سیمینار میں موجود ڈاکڑز اور پروفیسرز سے پوچھنے لگا کیا یہ ترجمہ صحیح ہے؟
سب نے کہا صحیح ہے!
وہ حیران و پریشان ہو کر خاموش ہو گیا
شیخ زندانی کہتے ہیں جب وہ باہر نکلا میں نے دیکھا وہ نرسوں سے پوچھ رہا تھا جو کہ فلپائن اور بریطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں کہ مجھے اس آیت کا ترجمہ بتاؤ
انہوں نے اپنے علم کے مطابق ترجمہ کیا
وہ پروفیسر تعجب سے کہنے لگا سب یہی ترجمہ کر رہے ہیں
اُس نے کہا مجھے قرآن کا ترجمہ دو
شیخ کہنے لگے میں نے اُسے ایک ترجمے والا قرآن دے دیا
شیخ زندانی کہتے ہیں کہ ٹھیک ایک سال بعد اگلے سیمینار میں مجھے وہی پروفیسر ملا اور کہا:
میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہی نہیں بلکہ میرے ہاتھ پر پانچ سو افراد نے اسلام قبول کیا ہے
الحمدللہ
كافر قرآن كی ايک آيت سن كر مسلمان (الله كا فرمانبردار) بن گيا، ليكن كتنے هی (نام نهاد) مسلم هيں جو قرآن كی واضح آيات سن كر بهی روگردانی كرتے هیں
جيسا كه الله كا فرمان هے
اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وه اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ اور جب تو صرف اللہ ہی کا ذکر اس کی توحید کے ساتھ، اس قرآن میں کرتا ہے تو وه روگردانی کرتے پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے ہیں.
No comments:
Post a Comment