Thursday 19 March 2015

جان کا فدیہ


حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس ایک شخص حاضر ہوا۔ اور کہنے لگا حضور! مجھے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے مجھے اس بات کا بڑا شوق ہے۔ آپ نے فرمایا تمہارا یہ شوق اچھا نہیں ، تم اس بات کو رہنے دو۔ اس نے کہا حضور آپ کا اس بات میں کیا نقصان ہے۔ میرا ایک شوق ہے اسے پورا کر ہی دیجئے۔حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اللہ سے عرض کی کہ مولا یہ بندہ مجھ سے اس بات کا اصرار کر رہا ہے میں کیا کروں؟ حکم الٰہی ہوا کہ جب یہ شخص باز نہیں آتا تو اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیجئے۔ چنانچہ حضرت موسٰی علیہ اسلام نے اسے جانوروں کی بولیاں سکھا دیں۔ اس شخص نے ایک مرغ اور ایک کتا پال رکھا تھا۔ ایک دن کھانا کھانے کے بعد اس کی خادمہ نے جب دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ایک ٹکڑا گرا تو کتا اور مرغ دونوں اس کی طرف لپکے اور وہ روٹی کا ٹکڑا اس مرغ نے اٹھا لیا۔ کتے نے اس مرغ سے کہا۔
ارے ظالم میں بھوکا تھا یہ ٹکڑا مجھے کھا لینے دیتے، تیری خوراک تو دانہ دنکا ہے مگر تم نے یہ ٹکڑا بھی نہ چھوڑا۔
مرغ بولا گھبراؤ نہیں، کل ہمارے مالک کا یہ بیل مر جائے گا تم کل جتنا چاہو گے اس کا گوشت کھا لینا۔
اس شخص نے ان کی یہ گفتگو سن لی تو بیل کو فورن بیچ ڈالا۔ وہ بیل دوسرے دن اس آدمی کے پاس جا کر مر گیا۔
کتے نے مرغ سے کہا۔
بڑے جھوٹے ہو تم، خواہ مخواہ مجھے آج کی امید میں رکھا، بتاؤ کہاں ہے وہ بیل؟ جس کا گوشت میں کھا سکوں۔
مرغ نے کہا میں جھوٹا نہیں ہوں۔ ہمارے مالک نے نقصان سے بچنے کے لئے بیل بیچ ڈالا ہے اور اپنی بلا دوسرے کے سر ڈال دی ہے، مگر لو سنو! کل ہمارے مالک کا گھوڑا مرے گا۔ کل گھوڑے کا گوشت جی بھر کے کھانا۔
اس شخص نے یہ بات سنی تو گھوڑا بھی بیچ ڈالا۔ دوسرے دن کتے نے شکایت کی تو مرغ بولا۔ بھئی کیا بتاؤں ہمارا مالک بڑا بے وقوف ہے جو اپنی آئی غیروں کے سر ڈال رہا ہے۔ اس نے گھوڑا بھی بیچ ڈالا ہے اور گھوڑا خریدار کے گھر جا کر مر گیا، اسی گھر میں مرتے تو ہمارے مالک کی جان کا فدیہ بن جاتے۔ مگر اس نے ان کو بیچ کر اپنی جان پر آفت مول لی ہے۔ لو سنو اور یقین کرو۔ کل ہمارا مالک خود ہی مر جائے گا اور اس کے مرنے پر جو کھانے دانے پکیں گے، اس میں سے بہت کچھ تمھہیں بھی ملے گا۔
اس شخص نے جب یہ بات سنی تو اس کے ہوش اڑ گئے کہ اب میں کیا کروں۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا تو دوڑتا ہوا حضرت موسٰی علیہ اسلام کے پاس آیا اور بولا حضور! میرے غلطی معاف فرمائیے اور موت سے مجھے بچا لیجئے۔
حضرت موسٰی علیہ اسلام نے فرمایا۔
نادان! اب یہ بات مشکل ہے۔ آئی قضا ٹل نہ سکے گی۔ تمہیں اب جو بات سامنے نظر آئی ہے مجھے اسی دن نظر آ رہی تھی جب تم جانوروں کی بولیاں سیکھنے کی ضد کر رہے تھے اب مرنے کے لیے تیار رہو۔ 
چنانچہ دوسرے دن وہ شخص مر گیا۔
سبق: مال و دولت پہ اگر کسی قسم کی آفت آ جائے تو انسان کو صبر کرنا چاہئے، اور غم اور شکوہ نہ کرنا چاہئے بلکہ اپنی جان کا فدیہ سمجھ کر اللہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ جو ہوا بہتر ہوا۔ اگر مال پر یہ آفت نازل نہ ہوتی تو ممکن ہے جان ہلاکت میں پڑ جاتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ کتاب: مثنوی شریف
اور ہر جان، جس نے ظلم کا ارتکاب کیا، اگر اس کو مل جائے وہ سب کچھ جو زمین میں ہے تو وہ اس کو فدیہ میں دے دینا چاہے گی اور وہ پشیمان ہوں گے جب عذاب کو دیکھیں گے اور ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔ (تفسیر)
اُس وقت) ہر شخص کے پاس جس نے ظلم کا ارتکاب کیا ہے، اگر وہ سب کچھ ہو جو زمین میں ہے تو (اپنے آپ کو بچانے کے لیے) وہ اُس کو فدیے میں دینا چاہے گا۔ (اُس وقت) یہ دل ہی دل میں پچھتائیں گے، جب عذاب کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھ لیں گے اور اِن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور اِن پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔(تفسیر)

ابن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ھیں 
جس نے پر ھیزگاری کے ساتھ علم حاصل نہیں کیا اللہ تعالی اسکو تین سزاؤں میں سے کوئ ایک سزا دیتے ھیں
1  یا تو  جوانی میں موت دے دیتے ھیں
2 یا تو بادشاہ کی خدمت میں لگا دیتے ھیں
3 یا ایسی جگہ اسکا رھنا مقرر کر دیتے ھیں جھاں اسکے علم سے کوئ فائدہ حاصل کرنے والا نہو
( حلیہ 7 / 273 )

No comments:

Post a Comment