مال کی بےجا محبت،جمع کرنے کی ہوس اور اس پر اترانا تو بے شک بہت بڑی بُرائی ہےاور اسلامی زندگی میں اس کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔ لیکن اچھے کاموں میں خرچ کرنے کے لیے مال کمانا ایک پسند یدہ کام ہے۔اور اسلام نے اس پر ابھارا ہے۔
پیارے رسول ﷺ نے ایک بار حضرتِ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا"اگر تم اپنے وارثوں کو خوش حال چھوڑ جاؤ،تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں غریب چھوڑ جاؤ،اور وہ تمہارے بعد بھیک مانگتے پھریں"۔
حضرتِ قیس ؒ اپنے بیٹے حضرتِ حاکمؒ سے فرمایا کرتے تھے" مال جمع کرو۔ کیونکہ مال شریفوں کی عزت ہوتی ہے اور وہ کمینے لوگوں سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں"۔حضرتِ سعید بن مسبب ؒ فرمایا کرتے ہیں"خدا کی قسم وہ آدمی کسی کام کا نہیں ہے جو اپنی عزت و آبرو بچانے کے لیے مال جمع نہیں کرتا"۔
حضرتِ ابو قلابہ ؒ فرمایا کرتے تھے"بازار میں جم کر کاروبار کرو۔تم دین پر مضبوطی کے ساتھ جم سکو گے اور لوگوں سے بے نیاز ہو جاؤ گے"۔حضرتِ عبداللہ بن عمر ؒ فرمایا کرتے تھے"اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور میں اس کی زکٰوۃ ادا کرتا رہوں تو مجھے مال سے کوئی خطرہ نہیں"۔بزرگوں کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کمانا کوئی برائی نہیں جس سے گھن کی جائے۔بُرائی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی مال و دولت کی محبت میں دین سے غافل ہو جائے۔آخرت کو بھول کر عیاشی میں پڑ جائے۔ ہمارے بزرگوں نے دین کی اونچی سے اونچی خدمت کی ہے ۔لیکن ہمیشہ اپنی روزی خود کماتے، کاروبار کرتے،یا اور کوئی پیشہ کرتے۔دوسروں کے سہارے پر کبھی زندگی نہ گزارتے۔
حضرتِ عبداللہ ؒ بہت بڑے کاروباری آدمی تھے۔ ان کی تجارت بہت بڑے پیمانے پر تھی۔ خراسان سے قیمتی سامان لاتے اور حجاز میں بیجتے تھے۔ اللہ نے تجاتے میں خوب برکت دی تھی۔ سال میں ایک لاکھ تو غریبوں اور مسکینوں کو خیرات دیتے۔
حضرتِ قیس ؒ اپنے بیٹے حضرتِ حاکمؒ سے فرمایا کرتے تھے" مال جمع کرو۔ کیونکہ مال شریفوں کی عزت ہوتی ہے اور وہ کمینے لوگوں سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں"۔حضرتِ سعید بن مسبب ؒ فرمایا کرتے ہیں"خدا کی قسم وہ آدمی کسی کام کا نہیں ہے جو اپنی عزت و آبرو بچانے کے لیے مال جمع نہیں کرتا"۔
حضرتِ ابو قلابہ ؒ فرمایا کرتے تھے"بازار میں جم کر کاروبار کرو۔تم دین پر مضبوطی کے ساتھ جم سکو گے اور لوگوں سے بے نیاز ہو جاؤ گے"۔حضرتِ عبداللہ بن عمر ؒ فرمایا کرتے تھے"اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور میں اس کی زکٰوۃ ادا کرتا رہوں تو مجھے مال سے کوئی خطرہ نہیں"۔بزرگوں کے ان اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مال کمانا کوئی برائی نہیں جس سے گھن کی جائے۔بُرائی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی مال و دولت کی محبت میں دین سے غافل ہو جائے۔آخرت کو بھول کر عیاشی میں پڑ جائے۔ ہمارے بزرگوں نے دین کی اونچی سے اونچی خدمت کی ہے ۔لیکن ہمیشہ اپنی روزی خود کماتے، کاروبار کرتے،یا اور کوئی پیشہ کرتے۔دوسروں کے سہارے پر کبھی زندگی نہ گزارتے۔
حضرتِ عبداللہ ؒ بہت بڑے کاروباری آدمی تھے۔ ان کی تجارت بہت بڑے پیمانے پر تھی۔ خراسان سے قیمتی سامان لاتے اور حجاز میں بیجتے تھے۔ اللہ نے تجاتے میں خوب برکت دی تھی۔ سال میں ایک لاکھ تو غریبوں اور مسکینوں کو خیرات دیتے۔
ایک مرتبہ ان کے مشہور شاگرد حضرتِ فضیلؒ نے ان سے پوچھا :حضرت! آپ لوگوں کو تو نصیحت کرتے ہیں کہ دنیا سے دور رہو اور آخرت کمانے کی فکر کرو، اور خود قیمتی قیمتی سامانوں کی تجارت کرتے ہو؟
فرمایا"فضیل! تم نے یہ بھی سوچا کہ میں تجارت کس لیے کرتا ہوں۔میں تجارت صرف اس لیے کرتا ہوں کہ مصیبتوں سے بچ سکوں، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت کر سکوں، اپنے پرایوں کے جو حقوق مجھ پر آتے ہیں انہیں اچھی طرح ادا کر سکوں،اور اطمینان کے ساتھ اللہ کی بندگی کرسکوں"۔
(کتاب : بکھرے موتی/صفحہ 496)
No comments:
Post a Comment