ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْش
سوال: قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ حق جل مجدہ عرش پر مقیم ہے اور آپ لوگوں کو معلوم ہوگا کہ قائم وہ شخص ہوتا ہے جو ذوجسم ہو اور ذی روح ہو. نتیجتاً محدود ہونا لازم آتا ہے اور جو جسم مادہ سے مرکب ہوتا ہے تو وہ مادہ محدث و تجدد کا مقتازی ہے اور یہی دونوں تعدد الہ کو مستلزم ہے.
جواب: جناب آپ نے استویٰ کو تو سمجھا ہی نہیں استویٰ سے وہ مراد قطعاً نہیں جو آپ نے سمجھا ہے استویٰ کے معنی متمکن ہونا نہیں جیسا کہ آپ نے ترجمہ کیا ہے کہ الله تعالى عرش پر مقیم ہے حق جل مجدہ کا یہ فرمان کہ ثم استویٰ علی العرش کا مفہوم حقیقی یہی ہے کہ حق تعالى عرش پر محیط ہے اب یہ احاطت غالبیت پر دال ہے اب یہ بات واضح ہوگئی کہ الله تعالى عرش پر مقیم نہیں بلکہ حاوی علی العرش ہے ذات الہی کا عرش پر حاوی ہونا عدم جسم و محدود لازم آتا ہے اور جب آپ کی ذات جسم و جہات سے اور تحدید سے بالاتر ہوگئی تو تحدث و تجدد اس پر لازم نہیں آتا چنانچہ اس صحت معنی کے ساتھ اپ کے سوال کی دیوار منہدم ہو جاتی ہے
مولانا قاسم نانوتویؒ
No comments:
Post a Comment