ابن سینا پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم نفسیات کو علم طب میں شامل کیا اُن کی رائے میں تمام نفسیاتی حالات جیسے خوشی، غم، غصہ اور فکروتدبر کا تعلق قلب کی ساخت سے ہے خون کی اقسام اور دوسری رطوبات بدنیہ کا ان میں بہت دخل ہے نفسیاتی بیماریاں جیسے کے رشک، حسد، عداوت، بزدلی، بخل وغیرہ طبی تدابیر سے دور ہوسکتی ہیں نفسیاتی طریق علاج کے بارے میں شیخ کی زندگی کے کئی مشہور واقعات ہیں شیخ کے شاگرد ابوعبید لکھتے ہیں ایک دفعہ شاہ گرگان امیر قابوس کا بھانجا بیمار پڑ گیا اور تمام طبیبوں نے لاعلاج قرار دے دیا آخر کار ابن سینا کو بلایا گیا انہوں نے امیر سے کہا کے ایسے شخص کو بلائیں جسے گرگان شہر کے گلی کوچوں کے ناموں کا علم ہو، جب وہ شخص آیا تو شیخ نے مریض کی ننض پر ہاتھ رکھ کر اُس شخص سے کہا ایک ایک محلے کا نام لیتا جائے ایک خاص محلے کے نام پر مریض کی نبض میں عجیب حرکت ہوئی اور اُسکے چہرے کا رنگ بدل گیا اب ایک ایسے شخص کو بلایا گیا جو اُس محلے کے رہنے والوں کو جانتا تھا چنانچہ شیخ نے وہی عمل دہرایا اور امیر کو بتایا کے شہزادے کی شادی فلاں گھر میں کرادی جائے تحقیق کرنے پر تشخیص دُرست ثابت ہوئی اور لوگ شیخ کی ذہانت اور مہارت طب پر حیران رہ گئے۔۔۔
آپ کے قدردان عروضی سمرقندی نے ایک اور واقعہ قلمبند کیا ہے خاندان آل بویہ کا ایک شہزادا سودائی مرض میں مبتلا ہوگیا اور اپنے آپ کو بیل سمجھنے لگا وہ ڈکارمارتا اور کہتا کے مجھے ذبح کرو، نہ کھانا کھاتا نہ دوا لیتا۔۔۔ بادشاہ علاء الدین کے وزیز خواجہ ابوعلی نے ابن سینا کو بلایا آپ نےمریض کا معائنہ کیا اور گھر والوں سے کہا کے شہزادے سے کہیں کے قصاب آگیا ہے اور اب تمہیں ذبح کیا جائے گا۔۔۔ شہزادہ بخوشی تیار ہوگیا ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد شیخ چھری لیکر اُس کے سینے پر سوار ہوگئے۔۔۔ شہزادے کے بدن کو ٹٹؤل کر کہنے لگے کے بیل کمزور ہے اسے خوب کھلاؤ پلاؤ چند دن میں موٹا تازہ ہوجائے گا تو پھر ذبح کریں گے شہزادہ راضی ہوگیا اور اب غذا کے ساتھ ساتھ دوائیں بھی لینے لگا اور چند دنوں میں صحت مند ہوگیا۔۔۔
٩ صدی عیسویں کے ماہر طب الکندی نے تجرباتی نفسیات کی بنیاد رکھی اُنکی وضع کردہ عملی نفسیات سے بعد میں یہ اُصول دریافت ہوا کے محرک (Stimulus) کے تناسب سے ہی احساس (Sensation) پیدا ہوتا ہے انہوں نے “نیند اور خواب“ رنج وغم جیسے عنوانات سے طبی مقالات لکھے دُکھ کو وہ نفسانی رنج کا نام دیتے ہیں جو کسی عزیز کے کھوجانے سے پیدا ہوتا ہے یا کسی ایسی چیز کے نہ ملنے سے جنم لیتا ہے جسے آپ چاہتے ہیں ایسے لوگ جو دُکھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اُن کو وہ “عالم دانش“ سے محبت کرنے کا درس دیتے کیونکہ علم ضائع نہیں ہوتا۔۔۔ اُن کا قول ہے “رنج ہمارے اندر نہیں ہوتا بلکہ ہم اسے اپنے اوپر سوار کرتے ہیں“۔۔۔
No comments:
Post a Comment