Sunday, 22 March 2015

حکایات مولانا رومی

مولاناجلال الدین رومی کی شخصیت اور ان کا کالام دونوں هی کسی تعارف کے محتاج نهیں۔ چھبیس ھزار چھ سو چھیاسٹھ اشعار پر مبنی ان کی مشهور زمانه مثنوی تصوف اور عشق الهٰی کے جمله موضوعات کو انتهائ سادگی روحانی اور عام فهم انداز مین بیان کرتی ھے۔ عشق الهٰی اور معرفت کے انتهائ مشکل و پیچیده نکات سلجھانے کے لیے مولانا نے سبق آموز حکایات و قصے کهانیوں سے مدد لی ھے جو بھی لکھا ھے قرآن و حدیث نبوی سے اس کی سند بھی بیان کی جاتی هے اس لیۓ آج آٹھ سو سال گزر جانے کے باوجود ان کے کلام کی اهمیت و افادیت میں کوئ کمی واقع نهین ھوئ۔
مولانا جلال الدین رومی الملقب به مولوی معنوی سن باره سو سات میں بلخ میں پیدا ھوۓ۔ آپ کے والد بزرگوار بهاء الدین اپنے دور کے مشهور علماء مین شمار کیۓ جاتے تھے، حتی کے ان حلقهء درس میں حاکم وقت خوارزم شاه بھی شرکت کیا کرتے تھا۔ وحشی منگولوں کے حملوں کے منڈلاتے خطرات کے پیش نظر مولانا کے خاندان نے بلخ کو خیر باد کها اور پناه کی تلاش مین انا طویه کی راه لی، راستے میں نیشاپور میں رکے جهاں مشهور صوفی بزرگ عطار نیشا پوری سے ملاقات کی۔ عطا بڑے قیافه شناس تھے۔ جلال الدین رومی کو دیکھ کر سمجھ گۓ که آگے چل کر یه بچه عشق و معرفت کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ چناں چه انهوں نے بهاء الدین کو ان کی تربیت پر خصوصی توجه دینے کی هدایت کی۔ حج کی سعادت حاصل کرتے هوۓ بهاء الدین اناطولیه پهنچے جهاں کے سلجوتی حاکم علاءالدین کیقباد نے انکا پرتپاک استقبال کیا۔ قونیه میں بهاء الدین نے ایک مدرسے میں تدریس شروع کی اور بهت جلد مشهور ھوگۓ، ان کے انتقال کے بعد مولانا رومی نے والد کی گدی سنبھال لی۔ حلقهء درس میں شریک هونے والے حاکم وقت اور اعیان دولت ان سے بے انتها عقیدت رکھتے تھے۔
مولانا کی زندگی بڑے سکون سے گزررهی تھی، ایک دن گرمیوں کی صبح وه حوض کے پاس معمول کے مطابق درس دے رهے تھے، ایک خوانچه فروش حلوه بیچتا ھوا مدرسے کے احاطے میں آگیا۔ اپنے اطراف اور ماحول سے بے پرواه اور بے خبر اس جگه جا کر کھڑا ھواگیا جهاں مولانا تدریس میں مشغول تھے۔ خوانچه فروش نے تعجب سے پوچھا که یه سب کیا ھے، کیا ھورھا هے۔ مولانا نے بڑے تحمل سے کها یه تم نهین جانتے جاؤ، اپنا کام کرو۔ وه آگے بڑھا اور کتاب مولانا کے هاتھ سے لے کر اٹھا اور حوض میں پھینک دی۔ مولانا نے کها یه تم نے کیا کیا۔ میں نے تو کچھ بھی نهیں کیا۔ یه کهه کر اس نے حوض سے کتاب نکال کر رومی نے حیرت سے پوچھا، یه کیا ھے، اب باری اس کی تھی، یه تم نهیں جانتے یه که کر اس نے اپنا خوانچه اٹھایا اور اسی طرح صدا لگاتا ھوا باهر چلا گیا۔ یه حضرت شمس تبریز تھے۔ مولانا رومی، شمس تبریز کو اپنے ساتھ لے آۓ۔ انهوں نے علم کی انتھائ اعلیٰ منازل طے کررکھی تھین، اب عشق الهٰی و معرفت کے سفر کا آغاز کیا جس مین قدم قدم پر انهیں اپنے مرشد شمس تبریز کی راه نمائ حاصل تھی۔ مولانا رومی نے رفته رفته اپنا رابطه اپنے ماحول اور گردو پیش سے منقطع کرلیا۔ بس وه تھے اور شمس تبریز کی صحبت۔ یه صورت حال ان کے شاگردوں کے لیے کسی طرح بھی قابل قبول نه تھی۔ چنانچه شمس تبریز انکے نزدیک متنازع شخصیت بن گۓ، شاگردوں و عقیدت مندوں کے بدلتے هوۓ تیور دیکھ کر ایک رات اچانک حضرت شمس تبریز غائب ھوگۓ۔ بعض روایات کے مطابق انھیں شهید کردیا گیا۔ 
شمس تبریز کی جدائ مولانا رومی کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اپنے مرشد کے فراق میں خود و ارفتگی کے عالم میں انهوں نے فی البدیهه شعر کهنا شروع کردیۓ۔ یوں عرفان و آگهی کی مضبوط ترین دستاویز مثنوی تخلیق ھوئ۔
اس مثنوی کے علاوه مولانا رومی کا دیوان کبیر، جو چالیس هزار اشعار پر مشتمل ھے، جس میں بائیس شعری مجموعے بشمول دیوان شمس تبریز عربی، ترکی اور یونانی زبانوں میں ان کا کلام۔ تصوف پر ایک کتاب فی مافیه، مجالس سبع اور مکتوبات، ایسی کتابیں هیں جو ان کے نام کو صوفیانه ادب میں همیشه روشن اور تابنده رکھیں گی۔ 
سن دوهزار سات کو ان کی ولادت کی آٹھ سو ساله تقریبات کے طور پر منایا۔ مئ کے مهینے میں یونیسکو نے استنبول میں ایک شاندار کانفرنس کا اهتمام کیا تھا، 

حکایت مولانا رومی
 دربار لگا ہوا تھا۔
 سلطان محمود غزنویؒ تشریف لائے۔ 
تمام وزراء اور امراء بھی حاضر خدمت ہیں بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں ایک موتی تھا۔ اس نے وہ ہیرا وزیرِ دربار کو دکھا کر پوچھا:
اس موتی کی قیمت کیا ہو گی؟ وزیر اچھی طرح دیکھ بھال کر عرض کی حضور نہایت قیمتی چیز ہے۔ غلام کی رائے میں ایک من سونے کے برابر اس کی مالیت ہو گی۔
سلطان نے کہا: بہت خوب، ہمارا اندازہ بھی یہی تھا۔ سلطان نے حکم دیا اسے توڑ ڈالو۔ وزیر نے حیرت سے ہاتھ باندھ کر کہا:

حضور اس قیمتی موتی کو کیسے توڑ دوں میں تو آپ کے مال کا نگران اور خیر خواہ ہوں۔
سلطان نے کہا ہم آپ کی اس خیر خواہی سے خوش ہوئے۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد سلطان نے وہ موتی نائب وزیر کو دیا اور اس کی قیمت دریافت کی۔ وزیر نے عرض کی حضور میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہوں۔ سلطان نے کہا اسے توڑ دو۔ وہ عرض کرنے لگا حضور ایسے بیش بہا موتی کو میں کیسے توڑ سکتا ہوں جس کا ثانی ملنا محال ہے اور جس کی چمک دمک ایسی کہ سورج کی روشنی مانند پڑ جائے۔ سلطان نے اس کی فہم و فراست کی تعریف فرمائی۔ پھر چند لمحوں کے بعد وہی موتی امیر الامرا کو دیا اور کہا اسے توڑ ڈالئیے۔ اس نے بھی عذر پیش کیا اور توڑنے اسے معزرت کی۔ بادشاہ نے سب کو انعام و اکرام دیا اور ان کی وفا شعاری اور اخلاص کی تعریف کی، بادشاہ جوں جوں درباریوں کی تعریف کر کے ان کا مرتبہ بڑھاتا گیا توں توں وہ ادنٰی درجے کے لوگ صراط مستقیم سے بھٹک کر اندھے کنوئیں میں گرتے گئے۔ وزیر دربار کی دیکھا دیکھی امیروں اور وزیروں نے ظاہر کیا کہ وہ دولت شاہی کے وفادار اور نگران ہیں۔
”آزمائیش اور امتحان کے لمحوں میں تقلید کرنے والا ذلیل و خوار ہوتا ہے۔“
سلطان نے تمام درباریوں اور خیر خواہان دولت کی آزمائش کر لی۔ آخر سلطان نے وہ موتی ایاز کو دیا اور فرمایا: اے نگہ باز! اب تیری باری ہے بتا اس موتی کی کیا قیمت ہو گی۔ ایاز نے عرض کیا اے آقا! میرے ہر قیاس سے اس کی قیمت زیادہ ہے۔ سلطان نے کہا: اچھا ہمارا حکم ہے تو اسے توڑ دے۔ ایاز نے فوراً اس ہیرے کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ وہ غلام آقا کے طریق امتحان سے آگاہ تھا۔ اس لئے اس دھوکہ میں نہ آیا۔ موتی کا ٹوٹنا تھا کہ سب درباری چلا اٹھے اور کہا ارے بیوقوف تیری یہ جرات کہ ایسا قیمتی اور نادر موتی توڑ ڈالا۔ ان کا واویلا سن کر ایاز نے کہا: اے صاحبو ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر بتاؤ کہ اس موتی کی قیمت زیادہ تھی یا حکم شاہی کی؟ تمھاری نگاہ میں سلطانی فرمان زیادہ وقعت رکھتا ہے یا حقیر موتی، تم نے ہیرے کو دیکھا اس کی قیمت اور چمک کو دیکھا مگر اس حکم دینے والے کو نہ دیکھا۔ وہ روح ناپاک اور بد حصلت ہے جو ایک حقیر پتھر کو نگاہ میں رکھے اور فرمان شاہی کو نظر انداز کر دے۔ جب ایاز نے یہ راز کھولا تو تو درباریوں کی آنکھیں کھُل گئیں اور ذلت و ندامت سے گردنیں جھک گئیں۔ سلطان نے کہا معمولی پتھر کے مقابلے میں تم میرا حکم توڑنا ضروری سمجھتے ہو۔ یہ کہہ کر شاہی جلاد کو سب کی گردنیں اڑانے کا حکم دے دیا۔ سب نافرمان تھر تھر کانپنے لگے۔ ایاز کو ان کی بے بسی پر رحم آیا بادشاہ سے کہا کہ ان کی نافرمانی کا سبب محض آپ کا کرم اور صفتِ عفو کی زیادتی ہے۔ بے شک یہ بازی ہار گئے مگر اتنا تو ہوا کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس لئے انھیں معاف کر دیجئے۔ بادشاہ نے ایاز کی سفارش قبول کی اور سب کو معاف کر دیا۔
(حکایات رومیؒ)

No comments:

Post a Comment