Friday 20 March 2015

ایماں کی حلاوت....

ایماں کی حلاوت کا مزہ کیوں نہیں لیتے
سڑکوں پہ نگاہوں کو جھکا کیوں نہیں لیتے

کوّے تو نہیں ہو کہ ہو مرغوب غلاظت
تم ہنس ہو موتی کی غذا کیوں نہیں لیتے

کرتے ہو معاصی کے مرض کو نظر انداز
روحانی طبیبوں سے دوا کیوں نہیں لیتے

اب آتشِ الفت کی درآمد بھی کہاں تک
یہ آگ ہی سینے میں لگا کیوں نہیں لیتے

ہر بے کس و مجبور کی کرتے ہو خوشامد
اک صاحب قدرت کو منا کیوں نہیں لیتے

سرکارﷺ کی صورت سے اگر پیار ہے تم کو
رخسار پہ سنت کو سجا کیوں نہیں لیتے

کیوں مسٹر و ملّا کے ہو مابین مرے دوست
داڑھی کو تم اک مشت بڑھا کیوں نہیں لیتے

کہتے ہو مرض کبر کا جب تم میں نہیں پھر
شلوار کو ٹخنے سے اٹھا کیوں نہیں لیتے

کیا رنگ و چمک دیکھتے پھرتے ہو بتوں کی
تم خالقِ سورج سے ضیا کیوں نہیں لیتے

ہیں تیز بہت ساقی دوراں کی شرابیں
تم اپنی شراب اس میں ملا کیوں نہیں لیتے

ہیں داغ جو عصیاں کے اثرؔ دامنِ دل پر
اشکوں کے سمندر میں نہا کیوں نہیں لیتے

No comments:

Post a Comment