Sunday, 22 March 2015

کلام اور خاموشی

انسان کے جسم کا ہر عضو زبان سے فریاد کرتا رہتا ہے کہ خدا کے لئے ہمیں جہنم میں نہ ڈال دینا۔
تکلم اور خاموشی کا موازنہ کیا جائے تو تکلم چاندی ہے اور سکوت سونا
یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی کلام سونا بن جاتا ہے اور خاموشی مٹی بن جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کلام فقہ، علم دین، موعظہ و نصیحت، آدابِ شریعت اور اخلاقیات سے متعلق ہو۔ بلکہ ایسے وقت میں سکوت زہر قاتل بن جاتا ہے جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ کر سکوت اختیار کیا جائے۔

تمام نیکیون کو تین خصلتون مین جمع کیا گیا ہے نظر, خاموشی, اور کلام پس ہر وہ نظر جس مین عبرت نہ ہو سہو ہے, وہ خاموشی جس مین غوروفکر نہ ہو وہ غفلت ہے اور وہ کلام جس مین ذکرِ خدا نہ ہو لغو ہے پس خوش نصیب ہے وہ شخص جس کی نظر مین عبرت اور جس کی خاموشی مین غوروفکر اور جس کے کلام مین ذکر اللہ ہے. اور وہ اپنے گناہون پر گریہِ ندامت کرتا ہے اور لوگ اس کے شر سے محفوظ رہتے ہین.

زبان کو بے معنی باتوں سے محفوظ رکھو کہ انسان کی خطاؤں کا زیادہ حصہ زبان ہی سے متعلق ہے اور زبان سے زیادہ کسی عضو کے گناہ نہیں ہیں۔آئیےکلام اور خاموشی کے متعلق اپنے  دوستوں کو کچھ عجیب حکمت بھری باتیں بتاتے ہیں
۔1۔ خاموشی حکمت کے ابواب میں سے ایک دروازہ ہے
۔2۔ اپنی زبان کو ہمیشہ محفوظ رکھو اور صرف وہ بات کرو جو جنت تک پہنچا سکے
۔3۔ بندۂ مومن جب تک خاموش رہتا ہے اسکا شمار نیک کرداروں میں ہوتا ہے
۔4۔ جو شخص دنیا و آخرت کی سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ خاموش رہے
۔5۔ انسان منہ کے بل جہنم میں صرف اپنی زبان کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے
۔6۔ پروردگار جب کسی بندے کو نیکی دینا چاہتا ہے تو اس کی زبان محفوظ بنانے میں اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دوسروں کے عیوب کے بجائے اپنے جائزہ میں مصروف کردیتا ہے
۔7۔ جس کا کلام کم ہوتا ہے اس کی عقل کامل اور قلب صاف ہوتا ہے اور جسکا کلام زیادہ ہوتا ہے اس کی عقل کم اور دل سخت ہوتا ہے
۔8۔انسان کا ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جب دل درست ہوتا ہے اور دل اسی وقت درست ہوتا ہے جب زبان درست ہوتی ہے
۔9۔ مومن کی زبان کو دل کے پیچھے رہنا چاہئے کہ پہلے فکر کرے پھر مناسب ہو تو کلام کرے ورنہ خاموش رہے۔ منافق کا معاملہ اس کے بر عکس ہوتاہے وہ صرف بکتا رہتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کیا کہہ رہا ہے
۔10۔ خاموشی سے شرمندگی نہیں ہوتی لیکن کلام بعض اوقات دنیا اور آخرت دونوں میں شرمندہ بنا دیتا ہے
۔11۔ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے
۔12۔ پہلے تولو پھر بولو۔مطلب بات کو عقل و معرفت کے پیمانہ پر پرکھو۔ اگر اس میں دنیا و آخرت کی بھلائی کی بات ہو توکلام کرو ورنہ خاموش رہو
۔13۔انسان کے جسم کا ہر عضو زبان سے فریاد کرتا رہتا ہے کہ خدا کے لئے ہمیں جہنم میں نہ ڈال دینا
۔14۔کلام اور خاموشی کا موازنہ کیا جائے تو کلام چاندی ہے اور خاموشی سونا
۔15۔یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی کلام سونا بن جاتا ہے اور خاموشی مٹی بن جاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب کلام فقہ، علم دین، موعظہ و نصیحت، آداب ِشریعت اور اخلاقیات سے متعلق ہو۔ بلکہ ایسے وقت میں سکوت زہر قاتل بن جاتا ہے جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ کر سکوت اختیار کیا جائے
۔ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مختصر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ ان کا کلام مختصر مگر جامع ہوتا تھا۔ جس میں بے شمار حکمتوں کے پھول ہوتے تھے۔ تو آپ بھی اپنے اندر فضول گوئی کی عادت نکال کر سنت پر عمل کریں۔
فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم :۔"حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں اور بے حیائی اور فضول گوئی نفا ق کا حصہ ہیں۔ '' ) جامع الترمذی، کتاب البر والصلۃ ،رقم ۲۰۳۴، ج۳، ص ۴۱۴( —
٭ انسان منھ کے بل جہنم میں صرف اپنی زبان کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے۔

٭ پروردگار جب کسی بندے کو نیکی دینا چاہتا ہے تو اس کی زبان محفوظ بنانے میں اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دوسروں کے عیوب کے بجائے اپنے جائزہ میں مصروف کردیتا ہے جس کا کلام کم ہوتا ہے اس کی عقل کامل اور قلب صاف ہوتا ہے اور جسکا کلام زیادہ ہوتا ہے اس کی عقل کم اور دل سخت ہوتا ہے۔ 

٭ انسان کا ایمان اس وقت درست ہوتا ہے جب دل درست ہوتا ہے اور دل اسی وقت درست ہوتا ہے جب زبان درست ہوتی ہے۔

٭ مومن کی زبان کو دل کے پیچھے رہنا چاہئے کہ پہلے فکر کرے پھر مناسب ہو تو کلام کرے ورنہ خاموش رہے۔ منافق کا معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے وہ صرف بکتا رہتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کیا کہہ رہا ہے۔ 

٭ خاموشی سے شرمندگی نہیں ہوتی لیکن کلام بعض اوقات دنیا اور آخرت دونوں میں شرمندہ بنا دیتا ہے۔ 

٭ انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا رہتا ہے۔

بیٹا! پہلے تولو پھر بولو۔ بات کو عقل و معرفت کے پیمانہ پر پرکھو برائے خدا ہو تو تکلم کرو ورنہ خاموش رہو۔ بالکل خاموش رہو بلکہ گونگے بن جاؤ۔
لفظ ’’ خاموشی ‘‘ چپ رہنے کا نام ہے ، ہم خاموش رہ کر بہت سے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ خاموشی عبادت بھی ہے کیونکہ اگر ہم صرف بولتے ہی رہیں تو اپنے الفاظ سے کسی کو دکھ بھی پہنچا سکتے ہیں۔کسی کی دل آزاری بھی کر سکتے ہیں۔ جب ہم خاموش رہتے ہیں تو ہم دوسروں کو ان کی بات کہنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔اور بہت سے لوگوں کی رائے اور ان کی زندگی کے تجربات سے زندگی کے کچھ حسین اور تلخ چہروں سے روشناس ہو تے ہیں۔خاموشی کو عبادت اس لئے بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ خاموش انسان ہر لمحہ اپنے دل میں اپنے رب کا قرب محسوس کرسکتا ہے۔وہ اپنے رب سے ہی حقیقی معنوں میں ہم کلام ہوتا ہے اور دنیاوی چیزوں سے خود کو دور رکھتا ہے۔ اگرہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو جتنے بھی پیغمبر ، ولی، صوفی اور دانشمند لوگ گزرے ہیں۔ ان کا حسین شیوا ’’خاموشی ‘‘ ہی تھا ۔ خاموشی حقیقت میں کامیابی کا راز ہے۔ خاموشی کا مطلب یہ بھی نہیںہے کہ ہم کسی کی تعریف بھی نہ کریں بلکہ خاموشی کا مطلب تو ہے ہی یہ کہ ہم کسی کو برا نہ کہیں۔گفتگو سے ہم اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جو اپنے دل کی بات اپنے ذہن کی سوچ دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔لہٰذا ہمارا انداز گفتگو اس طرح کا ہونا چاہئے جو سب کو اچھا معلوم ہو۔گفتگو ہی سے لوگ ایک دوسرے کے ذہنی معیار، قابلیت اور شخصیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ گفتگو کا اندازہ متوازن، دھیما اور شیریں ہوگا تو انسان کی شخصیت کو اچھا جاناجائے گا۔اور اگر بیان میں مٹھاس نہیں تو کوئی شخص بھی ہمارے بارے میں اچھی رائے قائم نہیں کرے گا۔گفتگو کرتے وقت مرتبے کا خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی بزرگ ہے تو اس کے ساتھ ادب واحترام سے گفتگو کرنی چاہئے۔ اگر کوئی آپ سے چھوٹا ہے تو شفقت کے انداز سے بات کرنی چاہئے۔ گفتگو کرنے کے دوران دوسرے شخص کو بات کرنے کا موقع دینا چاہئے۔مجلس میں بیٹھ کر کسی کی عیب جوئی نہیں کرنی چاہئے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ:۔ ’’ جو شخص عیب جوئی کرتا ہے وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے۔ ‘‘کسی کا مذاق اُڑا کر دوسروں کی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے۔ اسی طرح بیہودہ گفتگو سے بھی پرہیز کرنا چاہئے ۔ جیسے گالی گلوچ وغیرہ۔خوش اخلاق انسان کو حضورﷺ نے بھی بہت پسند فرمایا ہے اور اسے ہمارے دین میں اعلیٰ مقام حاصل ہے۔




No comments:

Post a Comment