مادہ پر ست اور ملحدین خواہ کتنی ہی ضد اورہٹ دھرمی اختیار کریں اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ کائنات میں پائی جانے والی تمام مخلوقات اور ان کے نظام ہائے زندگی ‘سب کے سب خدا کے پیدا کردہ ہیں۔ اس لیے یہ امر یقینی ہے کہ سائنس او رمذہب کے درمیان ہم آہنگی اور توافق ہے۔ ان کے مابین ہم آہنگی ماضی اورحال کے ان سائنس دانوں کی وجہ سے پیداہوئی ہے جنہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کئی اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بے شمار سائنس دان جنہوں نے سائنسی کمالات کا مظاہرہ کیا وہ لوگ تھے جن کو قلب ونظر کی وسعت مذہب کے مطالعہ سے حاصل ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے نہ صرف مذہب اور سائنس کے مابین گہری مطابقت کو ثابت کیا بلکہ سائنس اوردنیا ئے انسانیت کی بے حد خدمت بھی کی۔ان میں سے چند ایک کا ذکر ذیل کی سطور میں کیا جاتاہے جن سے ہمارے اس مؤقف کو تقویت ملے گی کہ سائنس نے مذہب کی خد مت کی ہے اور دونوں لازم وملزوم ہیں۔آئزک نیوٹن جسے دنیا کے عظیم ترین سائنس دانوں میں شمار کیا جاتاہے ا س کا نظریہ ٔ کائنات اس کے اپنے الفاظ میں اس طرح ہے :
”سورج’ستاروں اوردمدار تاروں کا حسین ترین نظام ایک ذہین ترین اور انتہائی طاقتور ہستی کی منصوبہ بندی اورغلبے کا نتیجہ ہو سکتاہے ۔ وہی ہستی تما م موجودا ت پر حکمرانی کررہی ہے جس کی عمل داری اور اقتدارمیں سب کچھ ہو رہا ہے۔ وہ اس امر کا استحقاق رکھتا ہے کہ اسے خدائے عظیم وبرتر اورہمہ گیر حکمران تسلیم کیا جائے۔
وہ اپنی دوسری کتاب ”پر نسیپیا میتھیمیٹیکا”میں اس طرح لکھتاہے :
”وہ (خدا )لافانی ‘قادر مطلق ‘ہمہ گیر ،مقتدراورعلیم وخبیر ہے’یعنی وہ ازل سے ابد تک رہے گا۔ایک انتہا سے دوسری انتہا تک ہمہ وقت موجود ہے، تمام مخلوقات پر حکمرانی کرتاہے اوران سب کاموں کو جانتا ہے جو کرنے ہیں یا کیے جاسکتے ہیں۔وہ ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا۔ اسے بقائے دوام حاصل ہے۔ وہ ہر جگہ اورہر مقام پر حاضروناظر ہے۔ہم اس سے اس کی بے مثال صناعی اور اس کی پیداکردہ اشیا میں کمال کی جدتوں کی وجہ سے متعارف ہوئے ہیں۔ہم اس کے عاجز بندے ہیں اورتہہ دل سے اس کی حمدوثنا بیان کرتے ہیں”
جرمن ماہر ریاضی وفلکیا ت کیپلر Keplerکے بارے میں یہ مشہورہے کہ اس کے سائنسی کارنامے اس کے مذہبی رجحانات کے مرہونِ منت تھے۔1978ء میں فزکس کا نوبل پرائز جیتنے والے سائنس دان ارنوپینزیاس Arno Penziasنے جو کلمک بیگ گراؤنڈ ریڈی ایشن کی دریافت میں بھی شریک تھا’کیپلر کو ایک صاحب ایمان سائنس دان قرار دیا ہے۔بطور سائنس دان کیپلراس بات پر بھی یقین رکھتاتھا کہ کائنات ‘خالقِ حقیقی کی پیداکردہ ہے۔ اس سے پوچھا گیا کہ آپ سائنس دان کیوں بنے ہیں؟تو اس نے جواب دیا
”میں عالم دین بننا چاہتا تھا….لیکن اب میں نے اپنی کوششوں سے معلو م کرلیا کہ خدا کیسا ہے ‘علم فلکیا ت میں بھی تحقیق سے مجھ پریہ بات آشکار ہوئی کہ یہ آسما ن خدا کی عظمت وجلا ل کا اقرار کررہے ہیں”۔
لوئی پاسچر Louis Pasteurخداپرپختہ ایمان رکھتا تھا۔ ڈارون کے نظرئیے کی سخت مخالفت کرنے کی وجہ سے اسے شدید
تنقید کا بھی نشانہ بننا پڑا۔وہ سائنس اور مذہب میں کامل ہم آہنگی کا قائل تھا۔ اس کے الفاظ ہیں:
”میرا علم جتنا بڑھتاہے ‘میرا ایمان اتنا ہی زیادہ پختہ ہو تا جاتاہے۔ سائنس کی تعلیم کی کمی انسان کو خدا سے دُور لے جاتی ہے اور علم کی وسعت اور گہرائی اسے خداکے قریب پہنچا دیتی ہے”
سر جیمز جینزSir James Jeansنامورماہر طبیعیات تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ کائنات کو دانش وحکمت کے مالک نے تخلیق کیا ہے۔ اس موضوع پر اس کے متعدد بیانات میں سے دو بیانات ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں جن میں اس کے عقیدے کا بھرپور اظہار ہو رہا ہے۔
”ہمیں اپنی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات ایک خاص مقصد کے تحت تخلیق کی گئی ہے یایہ اس کنٹرولنگ پاور کی تخلیق ہے جو ہمارے ذہنوں کے ساتھ کچھ اشتراک رکھتی ہے ”
”کائنات کے سائنسی مطالعے کا نتیجہ مختصر ترین الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا ڈیزائن کسی خالص ریاضی دان نے تیا ر کیا تھا۔”البرٹ آئن سٹائن Albert Einsteinجو پچھلی صدی کے اہم ترین سائنس دانوں میں سے تھا او رخداپر ایمان رکھنے کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔وہ اس نظرئیے کا حامی تھاکہ سائنس مذہب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ‘اس سلسلے میں اس کے الفاظ یہ تھے
”میں ایسے سائنس دان کا تصور ہی نہیں کرسکتا جو گہرے مذہبی رجحانات نہ رکھتا ہو۔ شاید میری بات اس تمثیل سے واضح ہو جائے
کہ مذہب کے بغیر سائنس لنگڑی ہے”
آئن سٹائن اس امر پر بھی پختہ یقین رکھتا تھا کہ کائنات کا منصوبہ اتنی زبردست ہنرمندی سے بنایا گیا ہے کہ اسے کسی طرح بھی اتفاقی مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا۔اسے یقینا ایک خالق نے بنایا ہے جو اعلیٰ ترین حکمت ودانش کا مالک ہے۔ آئن سٹائن اپنی تحریرو ں میں اکثر خدا پر ایمان کا اظہار کیا کرتاتھا اورکہتا تھا کہ کائنات میں حیرت انگیز فطری توازن پایا جاتاہے جو غوروفکر کے لیے بے پناہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس نے اپنی ایک تحریر میں کہا”ہر سچے محقق کے اندرگہرے مذہبی رجحانات پائے جاتے ہیں”
آئن سٹائن کو ایک بچے نے خط لکھا جس میں اس نے پوچھا کہ کیا سائنس دان دعاکرتے ہیں ؟ اس کے جواب میں آئن سٹائن نے اسے لکھا:
”جو شخص سائنس کے مطالعہ اورتحقیق کی راہ اپناتاہے اسے اس امر کا قائل ہوناپڑتاہے کہ قوانین فطرت میں واضح طورپر ایک روح موجود ہے۔یہ روح ‘انسانی روح سے بلند ترہے۔اس طرح سائنس کا مشغلہ انسان کو ایک خاص قسم کے مذہبی جذبے سے سرشارکر دیتاہے۔”
ورنہر وان بران Wernher Von Branu کادنیا کے چوٹی کے سائنس دانوں میں شمار ہوتا تھا۔ وہ ایک ممتاز جرمن راکٹ انجنیئرتھا جس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ”V-2” راکٹ تیا رکیے۔ڈاکٹر بران جو ناسا(امریکی ادارہ خلائی تحقیق)کا ڈائریکٹر بھی رہ چکا تھا’پختہ ایمان رکھنے والا سائنس دان تھا۔ اس نے ”فطرت کی تحقیق ومنصوبہ بندی ”کے موضوع پر چھپنے والے ایک مجلّے کے پیش لفظ میں لکھا کہ
” انسان بردارخلائی پرواز ایک حیرت انگیز تجربہ ہے لیکن اس سے یہاں تک پہنچنے والے انسان کے لیے خلا کی پر جلال وسعتوںمیں جھانکنے کے لیے ایک چھوٹا سا در کھلا ہے جو کائنات کے بے کراں اسرارمیں جھانکنے کے لیے محض ایک سوراخ ہے۔ اس سے ہمارے اس عقیدے کو تقویت پہنچنی چاہیے کہ کائنات کا ایک خالق موجود ہے۔ میرے لیے اس سائنس دان کو سمجھنا بہت مشکل بات ہے جو اس کائنات کے وجود کے پیچھے کارفرما اعلیٰ ترین حکمت ودانش کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو ‘اسی طرح اس مذہبی شخصیت کو بھی سمجھنا بہت مشکل امر ہے جو سائنس کو تسلیم کرنے سے انکار کردے ”۔
ورنہر وان بران نے مئی 1947ء میں اپنے ایک مقالے میں لکھا:
”کوئی بھی شخص کائنات کے نظم وضبط کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ اس کارخانۂ قدرت کے پیچھے کارفرما واضح منصوبہ بندی اورمقصد کو تسلیم نہ کرتا ہو۔ہم نے کائنات کے رازوں کو جتنا بہتر سمجھنے کی کوشش کی ہے اس کے منصوبے پر ہماری حیرت میں اتنا ہی اضافہ ہوا ہے۔کسی کا خودکو صرف اس نتیجے پر پہنچنے پر مجبور پانا کہ یہ سب کچھ محض اتفاقاًہو گیا ہے خود سائنسی علم کے منافی ہے۔و ہ کون سا اتفاقی امر ہے جو انسانی دماغ یا اس کی آنکھ کے نظام کو جنم دے سکتا ہے؟
پروفیسر مالکم ڈنکن ونٹرجونیئرMalcolm Duncan Winter , Jr نے میڈیسن میں ایم ڈی کی ڈگری نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میڈیکل ا سکول سے حاصل کی ‘بے شمار سائنس دانوں کی طرح وہ بھی کائنات اور جملہ انسانوںکو عظیم خالق کی
قدرت ِ تخلیق کا شاہکار سمجھتے ہیں۔اس مسئلے پر انہوں نے یوں اظہار خیال کیا:
”زمین اوریہ کائنات جو اتنی پیچیدگیوں اورزندگی کی مختلف اشکال سمیت ہمارے سامنے موجود ہے اور وہ انسان بھی جو سوچ سمجھ کی
اتنی زبردست صلاحیتیں رکھتا ہے یہ تو اتنی لطیف اور پیچیدہ حقیقتیں ہیں کہ اپنے آپ تو نہیں بن سکتیں۔ ان کے بنانے کے لیے ایک عظیم مفکر ماسٹر مائنڈ خالق کا موجود ہونا ضروری تھا۔ اس سارے کارخانے کے پیچھے ایک خالق کی قدرت کارفرما ہو نی چاہیے اوروہ یقینا خداہے۔”
پروفیسرڈیل سوارزنڈ روبرDale Swartzendruberپہلے کیلی فورنیا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ سوائل سائنٹسٹ تھے۔ پھر پر ڈیویونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقررہوگئے۔اب سوائل سائنس آف امریکہ کے ممبر بھی منتخب ہوگئے ہیں، وہ خداپر ایمان رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ کائنات محض اتفاق کانتیجہ نہیں بلکہ ایک خالق کی قدرت کا نتیجہ ہے ‘ان کا بیان حسب ذیل ہے:
” حقیقت یہ ہے کہ آپ اوپر آسمان کی طرف دیکھیں یا نیچے زمین کی جانب ‘ہر طرف ایک مقصدیت اورایک منصوبہ بندی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔ اس عظیم منصوبہ ساز کی موجودگی سے انکار اتنی غیر منطقی بات ہے جتنی کہ گندم کی لہلہاتی زردزرد فصلوں کی تعریف بھی آپ کریں اور ساتھ ہی کسان کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیں۔”
ڈاکٹر الن ساندیجAllan Sandage موجودہ دور کے عظیم ماہر فلکیات ہیں۔ انہیں 50سال کی عمر میں خداپر ایمان لانے کی توفیق ہوئی۔ انہوں نے امریکی جریدہ نیوز ویک کو انٹرویودیا جو کور سٹوری کے طورپر اس سرخی کے ساتھ شائع ہو ا۔
”سائنس نے خدا تلاش کرلیا ساندیج نے اپنے قبول کردہ مذہب کے بارے میں کہا یہ سائنس ہی کا نتیجہ تھاکہ جس نے مجھے اس نتیجے
پر پہنچایا کہ کائنات اتنی زیادہ پیچیدہ ہے کہ سائنس کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ چنانچہ میں موجودات کے معّمے کو مافوق الفطرت حوالوں سے ہی سمجھ سکا ہوں۔ ”
پروفیسر البرٹ کومبس ونچسٹر Albert Mcombs Winchester نے یونیورسٹی آف ٹیکساس سے پوسٹ گریجویشن کرنے کے بعد بیلر یونیورسٹی میں طبیعیات کے پروفیسرکے طورپر خدمات انجام دیں اورفلوریڈا اکیڈمی آف سائنس کے صدربھی رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سائنسی تحقیق خداپران کے یقین کو مزید کو مستحکم کررہی ہے۔
”آج میں نہایت مسر ت سے کہہ رہا ہوں کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سالہا سال کے تحقیقی کاموں کے نتیجے میں خدا پر میر اایمان متزلزل ہونے کی بجائے مستحکم تر ہوگیا ہے اور اب پہلے کی نسبت مضبوط تر بنیادوں پر استوارہو چکا ہے۔سائنس نے اس عظیم ترین ہستی کے بارے میں انسان کی بصیرت کو گہرائی بخشی ہے او ر یہ اس کی قدرت کاملہ پر ایمان بڑ ھاتی ہے اورہر نئی دریافت ایمان میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔”
تہران میں شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ماہر طبیعیات پروفیسر گلشنی Mehdi Golshaniنے نیوزویک کوانٹرویو دیتے ہوئے خداپر ایمان کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ سائنسی تحقیق مذہب کی توثیق و تصدیق کا ذریعہ بن رہی ہے۔
”مظاہر فطرت ‘کائنات میں خدا کی نشانیاں ہیں۔ان کا مطالعہ کرنا ‘اس لحاظ سے ایک مذہبی فریضہ بن جاتاہے۔ قرآن انسانوں کوزمین میں سفر وسیاحت کی تلقین کرتاہے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ اس نے تخلیق کا کیسے آغاز کیا۔ ”تحقیق کرنا خدا کی عبادت کرنے کی طرح ہے کیونکہ اس سے عجائب تخلیق کا انکشاف ہوتاہے
ہر آئیڈیا کسی بھی ایجاد میں بیج کی طرح ہوتا ہے ۔ ہر دریافت ،ہر ایجاد، ہر انقلاب، ہر تحریک کے پیچھے کوئی نہ کوئی آئیڈیا کارفرما ہو تا ہے ۔ آئیڈیا کسی ایٹم میں پنہاں ایٹمی قوت کی طرح ہوتا ہے، آئیڈیا جتنا طاقت ور ہوگا اس سے جنم لینے والی چیز اتنی ہی کوہ شکن ہوگی ۔ آئیڈیاز دوسرے آئیڈیاز سے ہی جنم لیتے ہیں ۔ نئے آئیڈیاز کے لئے دانشوروں سے ملنا، گفتگو کر نا، بحث کرنا، کتابیں پڑہنا، مطالعہ کرنا، تنہائی میں غوروفکر کرنا، دوسروں کے آئیڈیاز پر تنقید کر نا اور تنقید کو حوصلے کے ساتھ قبول کرنا ، آئیڈیاز کو بیان کر نے کے لئے ہمت ہونا، ہر آئیڈیا کو ضروری سمجھنا اور نوٹ کر لینا، آئیڈیاز کو پرکھنا، یہ سب ضروری عوامل ہیں ۔
کہا جا تا ہے کہ خالد نام کا ایک عرب ایتھوپیا کے علاقہ کافہ میں ایک روزبکریاں چرارہا تھا ۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جا نور ایک خاص قسم کی بوٹی کھانے کے بعد چاق و چوبند ہوگئے تھے ۔ چنانچہ اس نے اس درخت کی بیریوں کو پانی میں ابال کر دنیا کی پہلی کافی تیار کی ۔ ایتھوپیا سے یہ کافی بین یمن پہنچے جہاں صوفی ازم سے وابستہ لوگ ساری ساری رات اللہ کا ذکر کرنے اور عبادت کر نے کے لئے اس کو پیتے تھے ۔ پندرھویں صدی میں کافی مکہ معظمہ پہنچی، وہاں سے ترکی جہاں سے یہ 1645 ء میں وینس (اٹلی) پہنچی ۔ 1650ء میں یہ انگلینڈ لائی گئی ۔ لانے والا ایک ترک پاسکوا روزی Pasqua Rosee تھا جس نے لند ن سٹریٹ پر سب سے پہلی کافی شاپ کھولی ۔ عربی کا لفظ قہوہ ترکی میں قہوے بن گیا جو اطالین میں کافے اور انگلش میں کافی بن گیا ۔
شطرنج:
شطرنج ہندوستان کا کھیل ہے لیکن جیسے یہ آج کل کھیلی جاتی ہے یہ ایران میں ہزاروں سال قبل کھیلی جاتی تھی ۔ ایران سے یہ اندلس پہنچی اور وہاں سے دسویں صدی میں یورپ۔ فارسی میں شاہ مات (بادشاہ ہار گیا)کو انگریزی میں چیک میٹ کہتے ہیں نیز روک (Rookپیادہ )کا لفظ فارسی کے رکھ سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی ہیں رتھ، سپینش میں اس کوroque کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کو ہاتھی کہتے، عربی میں وہ الفیل ، سپینش میں elalfil،انگلش میں بشپ ہے ۔
باغات:
باغات سب سے پہلے مسلمانوں نے بنانے شروع کئے تھے یعنی ایسی خوبصورت جگہ جہاں بیٹھ کر انسان مراقبہ یا غور و فکر کر سکے ۔ یورپ میں شاہی با غات اسلامی سپین میں گیارہویں صدی میں بننے شروع ہوئے تھے ۔ کا رنیشن اور ٹیولپ کے پھول مسلمانوں کے باغات ہی کی پیداوار ہیں ۔
فضائی مشین:
امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک اسٹرانومر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مو?رخ کے مطابق 852ء میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا ۔875ء میں ا س نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پروازکی کوشش کی ۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیارکی تھی ۔ وہ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی ۔پلینی ٹیریم:
شطرنج:
شطرنج ہندوستان کا کھیل ہے لیکن جیسے یہ آج کل کھیلی جاتی ہے یہ ایران میں ہزاروں سال قبل کھیلی جاتی تھی ۔ ایران سے یہ اندلس پہنچی اور وہاں سے دسویں صدی میں یورپ۔ فارسی میں شاہ مات (بادشاہ ہار گیا)کو انگریزی میں چیک میٹ کہتے ہیں نیز روک (Rookپیادہ )کا لفظ فارسی کے رکھ سے اخذ ہوا ہے جس کے معنی ہیں رتھ، سپینش میں اس کوroque کہتے ہیں ۔ اردو میں جس کو ہاتھی کہتے، عربی میں وہ الفیل ، سپینش میں elalfil،انگلش میں بشپ ہے ۔
باغات:
باغات سب سے پہلے مسلمانوں نے بنانے شروع کئے تھے یعنی ایسی خوبصورت جگہ جہاں بیٹھ کر انسان مراقبہ یا غور و فکر کر سکے ۔ یورپ میں شاہی با غات اسلامی سپین میں گیارہویں صدی میں بننے شروع ہوئے تھے ۔ کا رنیشن اور ٹیولپ کے پھول مسلمانوں کے باغات ہی کی پیداوار ہیں ۔
فضائی مشین:
امریکہ کے رائٹ برادرز سے ایک ہزار سال قبل اندلس کے ایک اسٹرانومر، میوزیشن اور انجنئیر عباس ابن فرناس نے سب سے پہلے ہوا میں اڑنے کی کوشش کی تھی ۔ ایک مو?رخ کے مطابق 852ء میں اس نے قرطبہ کی جامع مسجد کے مینار سے چھلانگ لگائی تاکہ وہ اپنے فضائی لباس کو ٹیسٹ کر سکے ۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے گلا ئیڈر سے پرندوں کی طرح پرواز کر سکے گا ۔875ء میں ا س نے گلائیڈر سے ملتی جلتی ایک مشین بنائی جس کے ذریعہ اس نے قرطبہ کے ایک پہاڑ سے پروازکی کوشش کی ۔ یہ فضائی مشین اس نے ریشم اور عقاب کے پروں سے تیارکی تھی ۔ وہ دس منٹ تک ہوا میں اڑتا رہا مگر اترتے وقت اس کو چوٹیں آئیں کیونکہ اس نے گلائیڈر میں اترنے کے لئے پرندوں کی طرح دم نہ بنائی تھی ۔پلینی ٹیریم:
Dictionary of Scientific Biography, Vol 1, page 5 دنیا کا سب سے پہلا پلینی ٹیریم Planetarium اسلامی سپین کے سائنسداں عباس ابن فرناس (887ء )نے قرطبہ میں نو یں صدی میں بنا یا تھا ۔ یہ شیشے کا تھا اس میں آسمان کی پر و جیکشن اس طور سے کی گئی تھی کہ ستاروں، سیاروں، کہکشاو?ں کے علاوہ بجلی اور بادلوں کی کڑک بھی سنائی دیتی تھی ۔ #قدیم یونانی حکماء کا نظریہ تھا کہ انسان کی آنکھ سے شعاعیں (لیزر کی طرح) خارج ہوتی ہیں جن کے ذریعہ ہم اشیا کو دیکھتے ہیں ۔ دنیا کا پہلا شخص جس نے اس نظریہ کی تردید کی وہ دسویں صدی کا عظیم مصری ریاضی داں اور ما ہر طبیعات ابن الہیثم تھا ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا پن ہول کیمرہ ایجاد کیا ۔ اس نے کہا کہ روشنی جس سوراخ سے تاریک کمرے کے اند رداخل ہوتی ہے وہ جتنا چھوٹا ہوگا پکچر اتنی ہی عمدہ (شارپ ) بنے گی ۔ اس نے ہی دنیا کا سب سے پہلا کیمرہ آبسکیورہ (camera obscura ) تیا رکیا ۔ کیمرا کا لفظ کمرے سے اخذ ہے جس کے معنی ہیں خالی یا تاریک کوٹھڑی ۔
پن چکی:
دنیا کی سب سے پہلی پن چکی ایران میں سا تویں صدی میں بنائی گئی تھی ۔ شہرہ آفاق مورخ المسعودی نے اپنی کتاب میں ایران کے صوبہ سیستان کو ہوا اور ریت والا علاقہ لکھا ہے ۔اس نے مزید لکھا کہ ہوا کی طاقت سے باغوں کو پانی دینے کے لئے پمپ پن چکی کے ذریعہ چلائے جاتے تھے ۔
سو ئیز نہر:
خلیفہ ہارون الرشید ایک عالی دماغ انجنئیر تھا ۔ سو ئیز نہر کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے ۔ اس نے عین اس مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے
گھڑیاں:
(The empire of the Arabs, Sir John Glubb, page 287) یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھیں ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی ۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185ء ) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا ۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی ۔ اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا ۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی ۔ جرمنی میں گھڑیاں1525ء اور برطانیہ میں 1580ء میں بننا شروع ہوئی تھیں ۔
[2:54PM, 3/6/2015] +91 98333 90455: مسلمان سائیندان قسط4
پن چکی:
دنیا کی سب سے پہلی پن چکی ایران میں سا تویں صدی میں بنائی گئی تھی ۔ شہرہ آفاق مورخ المسعودی نے اپنی کتاب میں ایران کے صوبہ سیستان کو ہوا اور ریت والا علاقہ لکھا ہے ۔اس نے مزید لکھا کہ ہوا کی طاقت سے باغوں کو پانی دینے کے لئے پمپ پن چکی کے ذریعہ چلائے جاتے تھے ۔
سو ئیز نہر:
خلیفہ ہارون الرشید ایک عالی دماغ انجنئیر تھا ۔ سو ئیز نہر کھودنے کا خیال سب سے پہلے اس کو آیا تھا تاکہ بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو آپس میں ملا دیا جائے ۔ اس نے عین اس مقام پر نہر کھودنے کا سوچا تھا جہاں اس وقت سوئیز کینال موجود ہے
گھڑیاں:
(The empire of the Arabs, Sir John Glubb, page 287) یورپ سے سات سو قبل اسلامی دنیا میں گھڑیاں عام استعمال ہوتی تھیں ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے ہم عصر فرانس کے شہنشاہ شارلیمان کو گھڑی (واٹر کلاک )تحفہ میں بھیجی تھی ۔ محمد ابن علی خراسانی (لقب الساعتی 1185ء ) دیوار گھڑی بنانے کا ماہر تھا ۔ اس نے دمشق کے باب جبرون میں ایک گھڑی بنائی تھی ۔ اسلامی سپین کے انجنیئرالمرادی نے ایک واٹر کلاک بنائی جس میں گئیر اور بیلنسگ کے لئے پارے کو استعمال کیا گیا تھا ۔ مصر کے ابن یونس نے گھڑی کی ساخت پر رسالہ لکھا جس میں ملٹی پل گئیر ٹرین کی وضاحت ڈایاگرام سے کی گئی تھی ۔ جرمنی میں گھڑیاں1525ء اور برطانیہ میں 1580ء میں بننا شروع ہوئی تھیں ۔
[2:54PM, 3/6/2015] +91 98333 90455: مسلمان سائیندان قسط4
الجبرا:
الجبرا پر دنیا کی پہلی کتاب عراق کے شہر ہ آفاق سائنس داں الخوارزمی (850ء ) نے لکھی تھی ۔ اس نے 19 اور صفر کے اعداد 825ء میں اپنی شا ہکار کتاب الجبر والقابلہ میں پیش کئے تھے ۔اس سے پہلے لوگ حروف استعمال کر تے تھے ۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا لفظ اخذ ہے ۔ اس کے تین سو سال بعد اطالین ریاضی داں فیبو ناچی (Fibonacci) نے الجبرا یورپ میں متعارف کیا تھا ۔ الخوارزمی کے نام سے الگو رتھم یعنی ایسی سائنس جس میں 9 ہندسوں اور 0 صفر سے حساب نکالا جائے(process used for calculation with a computer )کا لفظ بھی اخذ ہوا ہے ۔
الخوارزمی دنیا کا پہلا موجد مقالہ نویسی ہے ۔ ہوا یہ کہ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور بغداد کی سا ئنس اکیڈیمی کو بھیج دیا ۔ اکیڈیمی کے سائنسدانوں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات کئے ۔ اس کے بعد وہ اکیڈیمی کا رکن بنا دیا گیا ۔ یونیورسٹیوں میں مقالہ لکھنے کا یہ طریق اب تک رائج ہے ۔
پینڈولم:
مصر کے سائنسداں ابن یو نس (1009ء )نے پینڈولم دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا ۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن(oscillation) سے کی جانے لگی ۔ اس کی اس زبردست ایجاد سے مکینکل کلاک دریافت ہوئی تھی ۔ ((Science and civilization is Islam, Dr. S.H. Nasr, page 1
سلفیورک ایسڈ:
ایران کا محقق زکریا الرازی (925ء ) دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے سلفیورک ایسڈ تیار کیاجو ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اس نے ایتھونول بھی ایجاد کیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا ۔ اس نے کیمیائی مادوں کی درجہ بندی(نا میاتی اور غیر نا میاتی ) بھی کی ۔
آپٹو میٹر سٹ:
زکریاالرازی پہلا آپٹو میٹر سٹ تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل ظاہرکر تی ہے ۔ الرازی نے اپنے علمی شاہکار کتاب الحاوی میں گلاو? کوما کی تفصیل بھی بیان کی ہے ۔ اس نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ' الجدری والحسبہ لکھی جس میں اس نے چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایا تھا ۔اس نے سب سے پہلے طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا طریقہ جاری کیا تھا ۔ اس نے عمل جراحی میں ایک آلہ نشتر setonبنا یا تھا ۔ اس نے ادویہ کے درست وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کیا ۔ یہ ایسا ترازو ہے جس سے چھوٹے سے چھوٹا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ سا ئنس روم میں یہ اب بھی استعمال ہو تا ہے ۔ الکحل بھی رازی نے ایجاد کی تھی ۔
طبیب اعظم زکریاالرازی پہلا انسان ہے جس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ الرازی نے ہی طب میں الکحل کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا سب سے پہلا رسالہ لکھا ۔ اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) دریافت کیا ۔ اس نے ہی ہے فیور(hay fever) دریافت کیا تھا ۔
الجبرا پر دنیا کی پہلی کتاب عراق کے شہر ہ آفاق سائنس داں الخوارزمی (850ء ) نے لکھی تھی ۔ اس نے 19 اور صفر کے اعداد 825ء میں اپنی شا ہکار کتاب الجبر والقابلہ میں پیش کئے تھے ۔اس سے پہلے لوگ حروف استعمال کر تے تھے ۔ اس کتاب کے نام سے الجبرا کا لفظ اخذ ہے ۔ اس کے تین سو سال بعد اطالین ریاضی داں فیبو ناچی (Fibonacci) نے الجبرا یورپ میں متعارف کیا تھا ۔ الخوارزمی کے نام سے الگو رتھم یعنی ایسی سائنس جس میں 9 ہندسوں اور 0 صفر سے حساب نکالا جائے(process used for calculation with a computer )کا لفظ بھی اخذ ہوا ہے ۔
الخوارزمی دنیا کا پہلا موجد مقالہ نویسی ہے ۔ ہوا یہ کہ اس نے علم ریاضی پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور بغداد کی سا ئنس اکیڈیمی کو بھیج دیا ۔ اکیڈیمی کے سائنسدانوں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے اس مقالے کے بارے میں اس سے سوالات کئے ۔ اس کے بعد وہ اکیڈیمی کا رکن بنا دیا گیا ۔ یونیورسٹیوں میں مقالہ لکھنے کا یہ طریق اب تک رائج ہے ۔
پینڈولم:
مصر کے سائنسداں ابن یو نس (1009ء )نے پینڈولم دسویں صدی میں ایجاد کیا تھا ۔ اس ایجاد سے وقت کی پیمائش پینڈولم کی جھولن(oscillation) سے کی جانے لگی ۔ اس کی اس زبردست ایجاد سے مکینکل کلاک دریافت ہوئی تھی ۔ ((Science and civilization is Islam, Dr. S.H. Nasr, page 1
سلفیورک ایسڈ:
ایران کا محقق زکریا الرازی (925ء ) دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا جس نے سلفیورک ایسڈ تیار کیاجو ماڈرن کیمسٹری کی بنیادی اینٹ تسلیم کیا جا تا ہے ۔ اس نے ایتھونول بھی ایجاد کیا اور اس کا استعمال میڈیسن میں کیا ۔ اس نے کیمیائی مادوں کی درجہ بندی(نا میاتی اور غیر نا میاتی ) بھی کی ۔
آپٹو میٹر سٹ:
زکریاالرازی پہلا آپٹو میٹر سٹ تھا جس نے بصارت فکر اور تحقیقی انہماک سے نتیجہ اخذ کیا کہ آنکھ کی پتلی روشنی ملنے پر رد عمل ظاہرکر تی ہے ۔ الرازی نے اپنے علمی شاہکار کتاب الحاوی میں گلاو? کوما کی تفصیل بھی بیان کی ہے ۔ اس نے چیچک پر دنیا کی پہلی کتاب ' الجدری والحسبہ لکھی جس میں اس نے چیچک اور خسرہ میں فرق بتلایا تھا ۔اس نے سب سے پہلے طبی امداد (فرسٹ ایڈ) کا طریقہ جاری کیا تھا ۔ اس نے عمل جراحی میں ایک آلہ نشتر setonبنا یا تھا ۔ اس نے ادویہ کے درست وزن کے لئے میزان طبعی ایجاد کیا ۔ یہ ایسا ترازو ہے جس سے چھوٹے سے چھوٹا وزن معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ سا ئنس روم میں یہ اب بھی استعمال ہو تا ہے ۔ الکحل بھی رازی نے ایجاد کی تھی ۔
طبیب اعظم زکریاالرازی پہلا انسان ہے جس نے جراثیم (bacteria) اور تعدیہ (infection) کے مابین تعلق معلوم کیا جو طبی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ بغداد میں کس مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے تو اس نے تجویز کیا کہ جہاں ہوا میں لٹکا گوشت دیر سے خراب ہو اسی مقام پر ہسپتال تعمیر کیا جائے ۔ الرازی نے ہی طب میں الکحل کا استعمال شروع کیا ۔ اس نے حساسیت اور مناعت (allergy & immunology) پر دنیا کا سب سے پہلا رسالہ لکھا ۔ اس نے حساسی ضیق النفس (allergic asthma) دریافت کیا ۔ اس نے ہی ہے فیور(hay fever) دریافت کیا تھا ۔
ابو الحسن طبری دنیا کا پہلا طبیب ہے جس نے خارش کے کیڑوں(itchmite) کو دریافت کیاتھا ۔
کوپرنیکس سے صدیوں پہلے شام کے سا ئنسداں علاء الدین ابن شاطر نے تیرھویں صدی میں اس سائنسی مشاہدہ کا انکشاف کیا تھا کہ سورج اگرچہ آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے مگر اس کے باوجود زمین سورج کے گرد گردش گرتی ہے ۔ علم ہئیت میں ابن شاطر کی متعدد دریافتوں کا سہرامغربی سائنسدانوں کے سر با ندھا جا تا ہے جیسے سیاروں کی گردش کے بارے میں بھی سب سے پہلے دعوی ابن شاطر نے کیا تھا مگر اس کا کریڈٹ کیپلر کو دیا جا تا ہے ۔
[2:54PM, 3/6/2015] +91 98333 90455: مسلمان سائینسدان قسط5
[2:54PM, 3/6/2015] +91 98333 90455: مسلمان سائینسدان قسط5
اصطرلاب کا آلہ اگرچہ یونان میں ایجاد ہوا تھا مگر اس کا سب سے زیادہ استعمال اور اس میں اضافے سب سے زیادہ مسلمانوں نے کئے ۔ مسلمانوں نے درجنوں قسم کے اصطرلاب بنائے جو ایک ہزار سال گزرنے کے باوجود ابھی تک برطانیہ،امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کے عجائب گھروں میں محفوظ ہیں ۔ لاہورمیں جو اصطرلاب بنائے گئے وہ شکاگو کے ایڈلر میوزیم (Adler) میں راقم الحروف نے خود دیکھے ہیں ۔ اصطرلاب ستاروں کو تلاش کر نے اور ان کا محل وقوع کا تعین کر نے کا آلہ ہے ۔ اس کے ذریعے لوگ صحرا یا سمندر میں راستہ تلاش کر تے تھے نیز اس کے ذریعہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت بھی معلوم کیا جا تا تھا ۔ شہرہ آفاق اسٹرانومرعبد الرحمن الصوفی نے دسویں صدی میں اصطرلاب کے ایک ہزار فوائد گنائے تھے ۔
علم بصریات پر دنیا کی سب سے پہلی اورشاہکار تصنیف کتاب المناظرابن الہیثم نے لکھی تھی ۔ (Age of Faith, Will Durant)۔ کروی اور سلجمی (spherical/parabolic)آئینوں پر اس کی تحقیق بھی اس کا شاندار کارنامہ ہے ۔ اس نے لینس کی میگنی فا ئنگ پاور کی بھی تشریح کی تھی ۔ اس نے اپنی خراد پرآتشی شیشے اورکروی آئینے (curved lenses )بنائے ۔ حدبی عدسوں پر اس کی تحقیق اور تجربات سے یورپ میں ما ئیکرو سکوپ اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد ممکن ہوئی تھی ۔ ابن الہیثم نے محراب دار شیشے (concave mirror) پر ایک نقطہ معلوم کر نے کا طریقہ ایجادکیا جس سے عینک کے شیشے دریافت ہوئے تھے ۔
ابن الہیثم نے آنکھ کے حصوں کی تشریح کے لئے ڈایا گرام بنائے اور ان کی تکنیکی اصطلاحات ایجاد کیں جیسے ریٹنا (Retina)، کیٹاریکٹ (cataract)، کورنیا(Cornea) جو ابھی تک مستعمل ہیں ۔ آنکھ کے بیچ میں ابھرے ہوئے حصہ (پتلی)کو اس نے عدسہ کہا جو مسور کی دال کی شکل کا ہوتا ہے ۔ لا طینی میں مسور کو لینٹل (lentil)کہتے جو بعد میںLens بن گیا ۔
ابن الہیثم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیاجو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لاء آف موشن کا حصہ بنا ۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی جو آسان ہو نے کے ساتھ تیز تر بھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسداں فرمیٹ(Fermat )نے دریافت کیا تھا ۔ (ارمان اور حقیقت، عبد السلام صفحہ 283)۔
ابن الہیثم نے اصول جمود (law of inertia) دریافت کیاجو بعد میں نیوٹن کے فرسٹ لاء آف موشن کا حصہ بنا ۔ اس نے کہا کہ اگر روشنی کسی واسطے سے گزر رہی ہو تو وہ ایسا راستہ اختیار کرتی جو آسان ہو نے کے ساتھ تیز تر بھی ہو۔ یہی اصول صدیوں بعد فرنچ سائنسداں فرمیٹ(Fermat )نے دریافت کیا تھا ۔ (ارمان اور حقیقت، عبد السلام صفحہ 283)۔
طبیبوں کی رجسٹریشن کا کام سنان ابن ثابت نے (943ء ) بغداد میں شروع کیا تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ ملک کی تمام اطباء کی گنتی کی جائے اور پھر امتحان لیا جائے ۔ کا میاب ہو نے والے 800 طبیبوں کو حکومت نے رجسٹر کر لیا اور پر یکٹس کے لئے سرکاری سر ٹیفکیٹ جا ری کئے ۔ مطب چلانے کے لئے لا ئسنس جاری کر نے کا نظام بھی اس نے شروع کیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ڈپلوما دینے اور رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہو گیا جو ابھی تک جاری ہے ۔
مشاہدہ افلاک کے جامع النظر ماہر محمد بن جابرالبتانی (929ء ) نے ایک سال کی مدت معلوم کی جو 365دن، 5گھنٹے، اور 24سیکنڈ تھی ۔ اس نے سورج کا مدار بھی معلوم کیا تھا ۔
عبد الر حمن الصوفی (903986 ء ،ایران) پہلا عالمی ماہر افلاک تھا جس نے 964ء میں اینڈرو میڈا گیلکسی(M31 andromeda
galaxy
)کو دریا فت کیا تھا ۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلاتحر یری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الکواکب الثا بت المصور( Book of Fixed Stars )میں کیا ۔ یہی کہکشاں سا ت سو سال بعد جر من ہئیت دان سا ئمن Simon Marius d1624))نے دسمبر1612 ء میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریا فت کی تھی ۔ #علم طب کی آبرو شیخ بو علی سینا (1037ء ) نے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہو نا دریافت کیا تھا ۔ شیخ الرئیس نے پانی کے ذریعہ بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے شہرہ آفاق تصنیف ''القانون'' میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے (ما ئیکروب) ہوتے جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں ۔ اس نے مریضوں کو بے ہوش کر نے کے لئے افیون دینے کا کہا ۔ اس نے ہی پھیپھڑے کی جھلی کا ورم (Pleurisy) معلوم کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ سل کی بیماری (Phthisis) متعدی ہوتی ہے ۔ اس نے فن طب میں علم نفسیات کو داخل کیااور دواو?ں کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا ۔ اس نے بتلایا کہ ذیا بیطس کے مریضوں کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے ۔ اس نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) ہونے کا ذکر کیا ۔ اس نے ہرنیا کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا ۔ اس نے دماغی گلٹی (برین ٹیومر) اور معدہ کے ناسور (سٹامک السر) کا ذکر کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ نظام ہضم لعاب دہن سے شروع ہوتا ہے ۔
galaxy
)کو دریا فت کیا تھا ۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سٹار سسٹم کے ہونے کا یہ پہلاتحر یری ثبوت تھا جس کا ذکر اس نے اپنی تصنیف کتاب الکواکب الثا بت المصور( Book of Fixed Stars )میں کیا ۔ یہی کہکشاں سا ت سو سال بعد جر من ہئیت دان سا ئمن Simon Marius d1624))نے دسمبر1612 ء میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے دریا فت کی تھی ۔ #علم طب کی آبرو شیخ بو علی سینا (1037ء ) نے سب سے پہلے تپ دق کا متعدی ہو نا دریافت کیا تھا ۔ شیخ الرئیس نے پانی کے ذریعہ بیماری کے پھیلنے کا بھی ذکر کیا ۔ اس نے شہرہ آفاق تصنیف ''القانون'' میں انکشاف کیا کہ پانی کے اندر چھوٹے چھوٹے مہین کیڑے (ما ئیکروب) ہوتے جو انسان کو بیمار کر دیتے ہیں ۔ اس نے مریضوں کو بے ہوش کر نے کے لئے افیون دینے کا کہا ۔ اس نے ہی پھیپھڑے کی جھلی کا ورم (Pleurisy) معلوم کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ سل کی بیماری (Phthisis) متعدی ہوتی ہے ۔ اس نے فن طب میں علم نفسیات کو داخل کیااور دواو?ں کے بغیر مریضوں کا نفسیاتی علاج کیا ۔ اس نے بتلایا کہ ذیا بیطس کے مریضوں کا پیشاب میٹھا ہوتا ہے ۔ اس نے سب سے پہلے الکحل کے جراثیم کش (اینٹی سیپٹک) ہونے کا ذکر کیا ۔ اس نے ہرنیا کے آپریشن کا طریقہ بیان کیا ۔ اس نے دماغی گلٹی (برین ٹیومر) اور معدہ کے ناسور (سٹامک السر) کا ذکر کیا ۔ اس نے انکشاف کیا کہ نظام ہضم لعاب دہن سے شروع ہوتا ہے ۔
علم طبیعات میں ابن سینا پہلا شخص ہے جس نے تجربی علم کو سب سے معتبر سمجھا ۔ وہ پہلا طبیعات داں تھا جس نے کہا کہ روشنی کی رفتارلا محدود نہیں بلکہ اس کی ایک معین رفتارہے ۔ اس نے زہرہ سیارے کو بغیر کسی آلہ کے اپنی آنکھ سے دیکھا تھا ۔اس نے سب سے پہلے آنکھ کی فزیالوجی، اناٹومی، اور تھیوری آف ویڑن بیان کی ۔ اس نے آنکھ کے اندر موجود تمام رگوں اور پٹھوں کو تفصیل سے بیان کیا ۔اس نے بتلایا کہ سمندر میں پتھر کیسے بنتے ہیں ، پہاڑ کیسے بنتے ہیں ، سمندر کے مردہ جانوروں کی ہڈیاں پتھر کیسے بنتی ہیں ۔
مسلمانوں کے لئے صفائی نصف ایمان ہے ۔صابن مسلمانوں نے ہی ایجاد کیا تھا جس کے لئے انہوں نے سبزی کے تیل کو سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ میں ملا کر صابن تیار کیا تھا ۔ یورپ کے صلیبی سپاہی جب یروشلم آئے تو مقامی عربوں کو ان سے سخت بد بو آتی تھی کیونکہ آج کے تہذیب یافتہ فرنگی غسل نہ لیتے تھے ۔ برطانیہ میں شیمپو ایک ترک مسلمان نے متعارف کیا جب اس نے 1759ء میں برائی ٹن (Brighten )کے ساحل پر Mahomed's Indian vapour bath کے نام سے دکان کھولی ۔ بعد میں یہ مسلمان، بادشاہ جارج پنجم اور ولیم پنجم کا شیمپو سرجن مقرر ہوا تھا ۔ ملکہ وکٹوریہ غسل لینے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی تھی اس لئے وہ خوشبو بہت استعمال کرتی تھی ۔
عمل کشید کی دریافت نویں صدی کے عظیم کیمیاداں جا بر ابن حیان نے کوفہ میں کی تھی ۔ جابر نے کیمیا کے بہت سے بنیادی آلات اور عوامل بھی ایجاد کئے جیسے oxidisation, evaporation, filtration, liquefaction, crystallisation & distillation۔ اس نے سلفیورک ایسڈ اور نا ئٹرک ایسڈ ایجاد کیا ۔ اس کو ماڈرن کیمسٹری کا با وا آدم تسلیم کیا جاتا ہے ۔
مغربی ممالک کے ہسپتالوں میں سرجری کے آلات با لکل وہی ہیں جو دسویں صدی کے جلیل القدر اندلسی سرجن ابو القاسم زہراوی (1013ء )نے ایجاد کئے تھے ۔ اس نے 200سے زیادہ سرجری کے آلات بنائے تھے جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں: scalpels, bone saws, forceps, fine scissors for eye surgery.۔ وہ پہلا سر جن تھا جس نے کہا کہ گھوڑے کی آنتوں سے بنے ٹانکے قدرتی طور پر جسم میں تحلیل ہو جا تے ہیں-
یو این اے
متین خان
متین خان
No comments:
Post a Comment