Friday, 20 March 2015

آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصرحضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
ڈاکٹر کا کمیشن لینا
سوال: ایک ڈاکٹر صاحب مریضوں کو چیک اپ (checkup ) کے لئے قابل اعتماد لیب (Lab)کوبھیجتے ہیں ، ان Labکی فیس بھی مناسب ہوتی ہیں ، ان مریضوں سے ڈاکٹر صاحب کوئی فیس نہیں لیتے خود (Lab )والے کمیشن دیتے ہیں۔ کیا یہ کمیشن حلال ہے ؟ ایسے مریضوں سے کوئی فیس بھی نہیں لی جاتی۔
(محمداسلم ۔دہلی )
جواب :- شریعت میں کوئی اجرت اس وقت جائز ہوتی ہے۔ جب وہ اجرت دینے والے اور اجرت لینے والے کے درمیان متعین ہواور یہاں صورت حال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب مریض سے کوئی فیس براہ ست نہیں لیتے اور مریض یہ سمجھ کرعلاج کراتا ہے کہ وہ ڈاکٹر معائنہ کی فیس تک نہیںلیتے ہیں ۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ وہ (Lab)کے واسطہ سے مریض سے فیس وصول کررہے ہیں ۔ گویامریض کو لاعلم رکھ کران سے پیسے لیے جارہے ہیں۔ دوسرے کمیشن اداکرنے کی وجہ سے (Lab) والے ٹسٹ کا چارج بڑھاکر لیتے ہیں ۔ تیسرے ایسی صورت حال میں ڈاکٹرزیادہ سے زیادہ ٹسٹ لکھناچا ہتاہے ، کیونکہ براہ راست اسے کوئی فیس نہیں مل رہی ہے ، اسلئے یہ صورت حال جائز نہیں ۔ اور اکثراوقات اس میں رشوت کی صورت پائی جاتی ہے ، یعنی لیب والے کمیشن اس لئے دیتے ہیں کہ ڈاکٹرزیادہ سے زیادہ مریضوں کوان کے پاس بھیجاکریں ، البتہ معالج کے لئے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ مریض سے اپنے مشورہ کی فیس طے کرکے لے لے ، یاخود دوابناکر مریض کودے ، اور اس سے بازار کی قیمت سے بڑھ کر پیسے وصول کرے ، کیونکہ مبیع کی قیمت متعین کرنا بائع کا حق ہے ۔
نوکری کے ساتھ ساتھ کمیشن
سوال : مسئلہ کی تحقیق کے لئے آپ کو زحمت دے رہاہوں امید کہ مفصل ومدلل نیز شوافع اور احناف کا اختلاف ہوتو اس کی وضاحت کے ساتھ جواب مرحمت فرماکر عند اللہ ماجورہوں گے ، زید کا اپنا ہوٹل ہے ، عمرکو نوکری پراس شرط کے ساتھ رکھا کہ ماہانہ تنخواہ کے ساتھ 2% (دوفیصد ) کمیشن دیاجائے گا ، سوال یہ ہے کہ (۱) عمر کو تنخواہ کے ساتھ کمیشن لیناصحیح ہے ؟ (۲) اس سلسلہ میں شوافع اور احناف میں کوئی اختلاف تونہیں ہے؟ (۳) شوافع میں جواب مثبت ہویا منفی ، تو اس کی علت ، سبب یادلیل کیاہے ؟
واضح ہوکہ زید ہوٹل کا خود مالک ہے ، اور عمر کا زید کے ہوٹل کے تعلق سے تجارت یامالی طورپر کچھ بھی تعاون نہیں ہے اور اب نوکری کے لئے عمر کو بلایاہے … مذکورہ بالامسئلہ کا جواب واضح عنایت فرمائیں تاکہ زندگی میں حلال وحرام کی تمیزباقی رہے اور علماء سے تعلقات قائم رہیں۔
( محمد یٰسین، بھٹکل،کرناٹک )
جواب : اجرت کا معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے ، کمیشن کی صورت میں اجرت کی قطعی مقدار متعین نہیں ہوتی ہے ، اس لئے عام طور پر فقہاء نے اس صورت میں مقررہ فیصد کے بجائے مروجہ اجرت واجب قرار دیاہے ، … وفی الدلائل ، السمسار یجب أجرۃ المثل وماتو اضعواعلیہ أن فی کل عشرۃ دنانیر کذافہوحرام علیہم ( ردالمحتار : ۹/۸۷)
فقہاء شوافع کی بھی یہی رائے معلو م ہوتی ہے … فلوقال : اعمل کذ الأرضیک أو أعطیک شیئاً وما أشبہہ ، فسد العقد وإذاعمل استحق أجرۃ المثل ‘‘ (روضۃ الطالبین :۵/۱۶۷ )
فقہاء نے اس صورت کو اس لئے منع کیاہے کہ یہ ابہا م بعض اوقات فریقین کے درمیان نزاع کا باعث بن سکتاہے ، لیکن چونکہ آج کل اسطرح کا تعامل ہوگیاہے ، اور اس تعامل کی وجہ سے یہ عام طور پر باعث نزاع نہیں بنتاہے ، اس لئے فقہاء متاخرین نے اس کی اجازت دی ہے ، وفی الحاوی سئل محمد بن مسلمۃ عن أجرۃ السمسار فقال : ارجوالابأس بہ وإن کان فی الأصل فاسدًا ، لکثرۃ التعامل وکثیراً من ہذاغیر جائز ، فجوزہ لحاجۃ الناس کدخول الحمام (ردالمحتار : ۹/۸۷) اس لئے جوصورت آپ نے لکھی ہے کہ ماہانہ تنخواہ بھی مقررہو اور فروخت پردوفیصد کمیشن بھی ، یہ صورت جائز ہے ، سمجھاجائے گا کہ اجرت کے ایک حصہ میں قطعی مقدار متعین کردی گئی ہے ، ایک حصہ میں تناسب مقرر کیاگیا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ تاہم فقہ شافعی کے بارے میں مجھے زیادہ تحقیق نہیں ہے ، بہترہوگا کہ شافعی عالم سے بھی رجوع کرلیاجائے ۔
لڑکی والوں پر پہلی زچگی کے اخراجات
سوال: – ہمارے معاشرہ میں ایک رواج یہ ہے کہ لڑکی سے جو پہلی ولادت ہوتی ہے، لڑکی والوں کو اس کے اخراجات ادا کرنے پڑتے ہیں، اگر لڑکے سے طلب بھی کیا جائے ، تو وہ یہ کہہ کر انکار کرجاتا ہے ، کہ پہلی زچگی آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے ، اس سلسلہ میں شرعی حکم کیا ہے ؟
( محمد تبریز عالم، بہادر پورہ )
جواب :- اولاد کی نسبت باپ کی طرف ہوتی ہے ، قرآن نے باپ کے لئے ’’مولودلہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ، (البقرۃ : ۲۳۳ ) یعنی ’’ جس کی اولاد ہے ‘‘ جب اولاد کا تعلق باپ سے ہے ، تو ظاہر ہے کہ اس سے متعلق تمام اخراجات کی ذمہ داری باپ ہی پر ہے، ان ہی اخراجات میں ولادت کامرحلہ بھی شامل ہے ، لہٰذا لڑکی والوں پر پہلی زچگی کے اخراجات کو لازم قرار دینا اور لڑکے کا اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے انکار کرنا نہایت ہی بے شرمی کی بات ہے ، اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہے ، جو رواج اسلامی اصولوں کے خلاف ہو ، اس کا اعتبار نہیں ، اس لئے چاہے اس کا رواج ہوگیا ہو ، شرعاً اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور مرد پر ان اخراجات کا ادا کرنا واجب ہوگا ، اللہ تعالیٰ ایسی ظالمانہ رسموں سے مسلم سماج کو نجات عطا فرمائے ۔
ملازمت کے اوقات میں نماز اور ذکر
سوال :- ( الف )ایک حافظ صاحب سرکاری اسکول میں ٹیچر ہیں ، انہوں نے سرکاری مسجد میں امامت بھی حاصل کرلی ہے اور ایسا دھوکہ دے کر کیا ہے ، کیوں کہ ایک آدمی دو جگہ سرکاری ملازمت نہیں کرسکتا ، یہ صاحب جمعہ کے دن دوپہر سے آدھے دن اسکول سے غائب رہتے ہیں ۔
(ب) اسکول کی بعض معلمات تعلیم کے اوقات میں خالی گھنٹوں میں اذکار و تسبیحات اور نوافل کا اہتمام کرتی ہیں ، تو کیا اسکول کے اوقات میں اپنے خالی گھنٹوں میں ایسا کرنا درست ہے ؟
(محمد سفیان ، حیدرآباد )
جواب :- اللہ تعالیٰ کی عبادت انسانیت کا مقصود ہے ، اور تلاوت ، تسبیح و نفل نماز عبادت ہی کی مختلف صورتیں ہیں ، اس لئے ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، البتہ نفل عبادتوں کو اپنے وقت ہی میں کرنا جائز ہے، نہ کہ اس وقت میں جس کی اجرت آپ دوسروں سے لیتے ہیں: ’’ إذا استأجر رجلا یوما لیعمل کذا فعلیہ أن یعمل ذلک العمل إلیٰ تمام المدۃ و لا یشتغل بشئ آخر سوی المکتوبۃ و فی فتاوی أہل سمرقند قال بعض مشائخنا رحمہم اللہ تعالیٰ : أن لہ أن یؤدي السنۃ أیضا ، و اتفقوا أنہ لا یؤدي نفلا‘‘ (الفتاوی الہندیۃ : ۴/ ۴۱۷ ) گویا فرض نمازیں تو بلااجازت بھی پڑھی جائیں گی ، نفل نماز کا بلا اجازت پڑھنا جائز نہیں ہے اور سنت کے بارے میں اختلاف ہے ، اسی طرح جمعہ کے بارے میں فقہاء نے صراحت کی ہے کہ اگر دور جانا پڑتا ہو اور زیادہ وقت لگتا ہو تو اس وقت کے بقدر اجرت تنخواہ میں سے وضع کرلی جائے گی :’’ المستاجر لا یمنع الأجیر فی المصر عن إتیان الجمعۃ فیسقط من الأجر بقدر اشتغالہ بذلک إن کان بعیدا الخ ‘‘(فتاوی ہندیہ : ۴/ ۴۱۷ ) لہٰذا :
( الف ) امام صاحب کا جمعہ کے دن پورے آدھے دن ڈیوٹی چھوڑ دینا جائز نہیں اور ایسی صورت میں انہیں نصف یوم کی رخصت بلا تنخواہ لے لینی چاہئے ، نیز یہ بات بھی درست نہیں کہ جھوٹ بول کر اور دھوکہ دے کر دوہری سرکاری ملازمتیں حاصل کی جائیں ، اس لئے گورنمنٹ کے قانون کے مطابق ان کو ایک ملازمت سے سبکدوش ہوجانا چاہئے ۔
(ب ) معلمات کوچاہئے کہ جو وقفہ کا وقت ہے اس میں فرض و نفل نمازیں پڑھیں اور تلاوت و تسبیح کا اہتمام کریں ، نیز اسکول کے اوقات کے علاوہ دوسرے اوقات کو ان نیک کاموں کے لئے استعمال کریں ، جو گھنٹہ تعلیمی مقاصد کے لئے خالی رکھا گیا ہے ، اس کو تعلیم ہی میں صرف کیا جائے ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملازمت کے اوقات کو دینی کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے دین اور اہل دین کی ناحق بدنامی ہوتی ہے ۔
شادی کے لئے خوبصورتی کو معیار بنانا
سوال :- آج کے مقامی انگریزی اخبار میں اطلاع آئی ہے کہ ایک اسکول کی خاتون ٹیچر نے اس لئے خود کشی کرلی کہ اس کا رنگ کالا تھا اور وہ خوبصورت نہیں تھی ؛ اس لئے اس کی شادی نہیں ہورہی تھی ، اس سلسلہ میں شرعی نقطۂ نظر کیا ہے ؟
(امجد خاں ، سعید آباد)
جواب :- رنگ و روپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور شکل وصورت ہی سب کچھ نہیں ہے ، مزاج و اخلاق اور طور و طریق کی اہمیت صورت سے بھی زیادہ ہے ، بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے ہیں کہ خوش شکل لڑکی دیکھ کر شادی کی گئی ، لیکن وہ نبھ نہیں سکی اور مقابلۃ کم خوبصورت لڑکی کا انتخاب کیا گیا اور یہ رشتہ فریقین کے لئے بڑا سکون کا باعث ثابت ہوا ، اس لئے سماج کے اس رجحان کو بدلنا چاہئے ، رسول اللہ ا نے فرمایا کہ دین کی بنیاد پر رشتہ کا انتخاب کامیابی کا باعث ہے ، باقی رہ گیا حسن و جمال تو یہ ڈھل جانے والی چیز ہے ؛ اس لئے اس جواب کی وساطت سے نوجوانوں اور ان کے سرپرستوں سے خواہش کی جاتی ہے کہ وہ اس طرز فکر کو بدلنے کی کوشش کریں ، ورنہ ایسے واقعات کے سلسلہ میں بالواسطہ پورا سماج گنہ گار تصور کیا جائے گا۔
khalidrahmani
(بصیرت فیچرس)

No comments:

Post a Comment