عرب سے اسلام پھیلانا شروع ہوا تو اس نے ابتدائی دور میں افریقہ کا رخ کیا حبشہ جو آج کل ایتھوپیا کے نام سے جانا جاتا ہے کہ راستے مصر، تیونس، الجزائر، مراکش اور افریقہ کے دیگر ممالک میں پہنچا۔ ان علاقوں میں اسلام اور مسلمانوں کے پہنچنے کے بعد مساجد کی تعمیر کا بھی آغاز ہوا، افریقہ کے ملک مالی میں اسلام پہنچا تو اس علاقے میں تعلیم اور اسلامی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا۔ 800 عیسوی میں مالی کے شہر جینے کو اسلامی علوم کے مرکز کی حیثیت حاصل ہوگئی، جینے افریقہ کے قدیم شہروں میں شامل ہے جہاں جابجا اسلامی تہذیب و تمدن کے خوب صورت آثار آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں مگر جینے کے مرکز میں مارکیٹ چوک پر بنی قدیم مسجد کو تمام آثار پر فوقیت حاصل ہے-
سوڈانی ساحلی طرز تعمیر (Sudano Sahelian) کا یہ شاہکار 1907 میں تیار ہوا جبکہ اس مقام پر 13 ہویں صدی میں ایک بہت بڑی مسجد عمر موجود تھی، لیکن 19 ویں صدی میں مرمت نہ ہونے کی وجہ سے اس کے مینار گر گئے اور عمارت بوسیدہ ہوگئی اور ہزاروں چھوٹے پرندوں نے اسے اپنا مسکن بنالیا۔1893 میں جب فرانسیسیوں نے اسی علاقے کو فتح کیا تو اس مقام پر موجود عمارت کو منہدم کر کے اسکول بنا دیا بعدازاں مسجد کو ازسر نو تعمیر کیا گیا۔ جامع مسجد جینے کی تعمیر میں دھوپ میں سکھائی گئی اینٹوں کو استعمال کیا گیا ہے اور گارے کا لیپ کیا گیا ہے۔
دیواروں کی تعمیر میں 16 اور 24 انچ چوڑائی کے بلاک استعمال کیے گئے ہیں۔ تعمیر میں کجھور اور تاڑ کا استعمال بھی کیا گیا ہے تاڑ کے درخت کی موٹی اور مضبوط لکڑی کے شہتیر دیواروں اور چھتوں میں استعمال کیے گئے ہیں، تاکہ ٹوٹ پھوٹ کے امکانات کم کیے جاسکیں ساتھ ہی موسم کی سختی سے بھی بچا جاسکے اس مقصد کے لیے مچان بھی بنائے گئے ہیں۔ مسجد کی دیواروں اور چھتوں میں تاڑ کے درخت کی موٹی اور مضبوط شہتیروں یا ستونوں کو اس طرح لگایا گیا کہ یہ دیواروں سے باہر کی طرف نکلے ہوئے ہیں۔ یہ شہتیر مسجد کی سالانہ مرمت کے موقع پر چبوترے کا کام بھی کرتے۔ چھت پر مٹی اور چینی کے پائپ بھی نصب ہیں۔ ان کے ذریعے بارش کا پانی باہر نکل جاتا ہے ورنہ یہی پانی مسجد کی دیواروں اور اس کے لیپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
مسجد کو بارش اور سیلاب کے پانی سے بچانے کے لیے بھی خاص اہتمام کیا گیا ہے، مسجد کو زمین سے تین میٹر بلند چبوترے پر بنایا گیا ہے اس چبوترے پر جانے کے لیے سیڑھیوں کے چھے درجے ہیں جس کو دل فریب کنگوروں سے سجایا گیا ہے ۔ جامع مسجد جینے مٹی سے بنی دنیا کی سب بڑی عمارت ہے، اس کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے 1988 میں عالمی ورثہ قرار دیا ہے ساتھ ہی جینے شہر کے دیگر قدیم حصوں کو بھی عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔
جامع مسجد جینے کا قبلہ مشرق کی طرف واقع ہے۔ قبلے والی دیوار بہت خوب صورت اور اتنی بلند ہے کہ اسے شہر کے کسی بھی حصہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ قبلے والے مقام پر صندوق نما تین بڑے میناروں کے اوپر کلس بنائے گئے ہیں جن کی نوک پر شتر مرغ کے انڈے لگے ہیں۔مشرقی دیوار تین فٹ موٹی ہے اس کی بیرونی جانب 18 پشتے کے اوپر کنگورے بنائے گئے ہیں جنہیں مخصوص لکڑی کے نقش ونگار سے سجایا گیا ہے۔ نماز کے لیے مخصوص بڑے کمرے کی پیمائش لگ بھگ 26X50 میٹر 85X165 فٹ ہے۔
یہ قبلے کی دیوار کے پیچھے مسجد کے مشرقی نصف پر مشتمل ہے۔ مسجد کا فرش ریتیلی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ قبلے کی دیوار میں بنائے گئے تینوں میناروں میں محرابیں بھی موجود ہیں۔ امام صاحب سب سے بڑے اور مرکزی مینار کی محراب میں کھڑے ہوکر نماز پڑھاتے ہیں۔جینے کے لوگ اس مسجد سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں۔ اس پر ذرا بھی آنچ نہیں آنے دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تیز اور موسلادھار بارش کا زمانہ آئے تو جینے کے لوگ اس کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجاتے ہیں۔ سالانہ مرمت کے لیے ہر سال ایک منفرد تقریب منعقد کی جاتی ہے۔ کھانے پینے کا اہتمام ہوتا ہے۔
سالانہ مرمت کی تقریب کا وقت آنے سے پہلے ہی لوگ اس کی تیاری کرتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں زمین میں بڑے بڑے گڑھے بناکر ان میں مٹی اور گارا جمع کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں پانی ڈال کر مسالا تیار کرتے ہیں۔ مسالا تیار کرنے کے لیے بنائے گئے گڑھوں میں لڑکے کھیلتے ہیں جس سے گارا اچھی طرح یکجان ہوجاتا ہے۔ پھر علاقے کے مرد مسجد کے بیرونی حصے پر تیار مسالے کی لپائی کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ جینے کی اصل جامع مسجد عہد وسطی میں پورے افریقہ میں اسلامی تعلیمات کا ایک اہم مرکز تھی۔ اس زمانے میں قرآنی تعلیم حاصل کرنے ہزاروں طلبہ جینے کے مدرسوں میں آیا کرتے تھے۔ جینے میں متعدد ایسی تاریخی مساجد موجود ہیں جو جامع مسجد سے زیادہ قدیم ہیں تاہم وہی شہر کی سب سے اہم اور نمایاں علامت ہے۔
No comments:
Post a Comment