Tuesday, 31 March 2015

انا اللہ یامربالعدل والاحسان

حضرتِ عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ(1) امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں مصر کے حاکم تھے۔ مصر کا ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی۔
"اے امیر المومنین! میں ظلم سے آپ کی پناہ لینے آیا ہوں"
حضرتِ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تم نے ایسے آدمی کی پناہ حاصل کی جو تمہیں پناہ دے سکتا ہے"
مصری بولا: میں حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کیا، میں اس سے آگے بڑھ گیا تو وہ مجھے کوڑے سے مارنے لگا اور کہنے لگا:
"میں شریف خاندان کا بیٹا ہوں"
یہ شکوہ سن کر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے مصر کے حاکم حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ تشریف لائیں۔
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے کے ساتھ امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا:
"مصری کہاں ہے"
وہ سامنے آیا تو کہا"یہ کوڑا لے اور مار"۔
امیر المومنین کا حکم ملتے ہی مصری عمرو بن العاص کے بیٹے پر کوڑا برسانے لگا اور امیر المومنین کہتے جاتے تھے:
۔"شریف خاندان کے بیٹے کو مارو"۔
حضرتِ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :مصری نے عمرو بن العاص کے بیٹے کو کوڑے لگائے۔اور اللہ کی قسم! بہت مارا اور ہم اس کی پٹائی چاہتے بھی تھے۔ لیکن مصری برابر مارے جا رہا تھا،حتیٰ کہ ہماری خواہش ہوئی کہ اب اس کی پٹائی بند ہو جائے۔
پھر حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ نے مصری سے فرمایا؛
۔"کوڑا عمروبن العاص کی چندیا(گنجے سر) پر بھی لگاؤ"۔
مصری نے عرض کی: اے امیر المومنین!ان کے بیٹے نے میری پٹائی کی تھی اور میں نے اس سے قصاص لے لیا۔
پھر امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:۔
"تم نے لوگوں کو کب سےغلام بنا رکھا ہے جب کہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟"۔
عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کی:"اے امیر المومنین! مجھے اس معاملے کی کچھ خبر نہیں اور نہ ہی یہ میرے پاس شکایت لے کر آیا تھا"(2)
----------------------------------------
(1) حضرتِ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو سہم سے تھا۔ انہوں نے 8 ہجری میں اسلام قبول کیا۔نبی کریم ﷺ نے انہیں عُمان کی طرف روانہ کیا اور ان کی تبلیغ سے وہاں کے حاکم حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔
وہ بڑے خوش گفتار،شریں بیان،خطیب،قادر الکلام،مدبر،سیاستدان اور سپہ سالار تھے۔ان سے 39 احادیث مروی ہے۔ انہوں نے تقریباً 42 ہجری میں وفات پائی۔
(اٹلس سیرتِ نبوی۔ص 385۔386)

(2)حیاۃ الصحابہ۔از محمد یوسف کاندھلوی:338/2)۔مؤسسۃ 
الرسالۃ۔کنز العمال:98/7)

No comments:

Post a Comment