Sunday, 8 March 2015

فرید خان قتل معاملہ کے پس پردہ کیا؟


مرکزی اور ریاستی حکومتیں کریںموثرکارروائی،جمعیةعلماءانصاف دلانے کیلئے اختیار کرے گی ہرممکن طریقہ،قانون ہاتھ میں لے کر قتل کرنا ہے ایک سنگین مجرمانہ عمل : مولانامدنی
نئی دہلی8مارچ 2015(پریس ریلیز)جمعیة علماءہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی نے ناگالینڈ کے دیماپور میں آسام کے ضلع کریم گنج بدرپور علاقے میں واقع بوسلہ گاوں کے شہری سید شریف الدین عرف فرید خان کے بھیانک قتل پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے ، انھوں نے کہاکہ بنگلہ دیشی دراندازوں کے نام پراخراج کی مہم چلانے والے گروپ، پولس انتظامیہ اور سینٹر ل و ریاستی سرکاریں سب کے سب اس دردناک واقعہ کیلئے ذمہ دار ہیں، دیماپور کے سینٹرل جیل کی نگرانی سینٹرل فوج کی ذمہ داری ہے ، مولانا مدنی نے کہاکہ صورت حال کو بگاڑنے کیلئے میڈیا اورپولس انتظامیہ میں گھس پیٹھ کرچکے فرقہ پرست عناصر ذمہ دار ہیں کہ انھوں نے ملز م فرید کو ابتدائی طور پر بنگلہ دیشی بتانے کی کوشش کی ،جبکہ مقتول ابتدائی تحقیقات سے ثابت ہوتاہے کہ وہ ضلع کریم گنج آسام کے رہنے والے ہندستانی شہری تھے، انھوں نے سوال اٹھایا کہ اگر وہ بنگلہ دیشی تھے تو ان کے بھائی فوج میں کیسے ہیں ، ان کی والدہ کو سرکاری پنشن مل رہی ہے اور ان کے والد سید حسین خان ایئر فورس سے سبکدوش ہوئے ہیں ، مولانا مدنی نے کہاکہ بنگلہ دیشی یاکسی بھی غیر ملکی کو ہندستانی شہری قراردینے کے وہ خلاف ہیں، لیکن بنگلہ زبان بولنے والے کو بنگلہ دیشی قراردے کر ان کو ملک سے نکالنے اور ماحول خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ، ملز م جب تک مجرم ثابت نہ ہوجائے اس کو سزادیناانسانیت اور انصاف کا خون ہے اور سزا دینے کااختیار صرف عدالتی کارروائیوں کی تکمیل او رحکم کے بعد سرکار ی اتھارٹی کو ہی ہے ، کسی بھی فرد یاتنظیم کا قانون کو ہاتھ میں لے کر قتل جیسا اقدام کرنا سراسر ایک مجرمانہ عمل ہے ، انھوں نے کہاکہ واقعہ کے دن سے میں معاملہ کی مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد اب اس نتیجہ پرپہنچاہوں کہ فرید خان کا قتل اور معاملہ ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے کہ اس کے بہانہ سے ناگالینڈ دیماپور کے علاقہ میں کاروبار اور کام کررہے بنگلہ بولنے والے آسامی مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر باہرنکالنے کا راستہ نکالا جارہاہے ،واقعہ ¿ قتل کے بعد مسلم اقلیت کی دکانوں ،مکانوں کونشانہ بنایاگیا، اس میں خوف و دہشت ہے ، اور علاقہ کی مسلم اقلیت کے افراد پلائن کررہے ہیں، شروع میں یہ پروپیگنڈا کیاگیا کہ متعلقہ مقتول فرید خان نے قبائلی لڑکی کے ساتھ آبروریزی کیا ہے ،جبکہ جمعیة علماءکے خدام اور دیگر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ آبروریزی کی بات مشکوک ہے ، اور الزام لگانے والی مقامی ویمین کالج کی طالبہ مقتول کے بھائی کی بیوی کے رشتہ کی بہن ہے ،پیسہ کے لین دین کی بات تھی،اب متعلقہ لڑکی کا یہ بیان آرہاہے کہ پیسے لے کر زبان بند رکھنے کیلئے کہاجارہاہے، ڈاکٹری کی ابتدائی رپورٹ میں بھی آبروریزی ثابت نہیں ہوئی ہے ، اس کے مدنظر ان تمام لوگوں کے خلاف ایک ایک کرکے گرفتار کرکے مقدمہ چلایا جائے جنھوں نے بھیڑ کا حصہ بن کر جیل پرحملہ کیا اور ملزم کو باہر نکال کر برہنہ کیا اور پیٹ پیٹ کر مارڈالا اور 7 میل تک رسی میں باندھ کر گھسیٹتے ہوئے لے گئے ، سوشل میڈیا ،ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع میں بہت سارے ان افراد کے چہرے صاف نظرآرہے ہیں جو اس بھیانک قتل کے واقعہ میں شریک ہیں ، پولس انتظامیہ کا یہ عذر انتہائی نامعقول اور لغو ہے کہ بھیڑ کے آگے آگے کالج کی لڑکیاں تھیں اس لئے کارروائی نہیں کی جاسکی، اگر اسی طرح کچھ لوگ خدائی فوجدار کی شکل میں قانون سے بالاترہوکر وحشت و بربریت اور قتل و غارت گری کا مظاہرہ کریں گے تو امن و قانون، سرکار اور مہذب سماج کا کوئی معنی نہیں رہ جائے گا۔ جس طرح یہ قتل کا واقعہ ہواہے ،وہ قانون اورفوجداری انصاف کے نظام کی سنگین کوتاہی کو ظاہر کرتاہے اس طرح کے کا واقعہ کوعوامی غم وغصہ کے اظہار کا نام دے کر جائز قرار نہیں دیا جاسکتاہے ، قانون کی برتری اور امن کوبنائے رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس کیلئے مو
ثر اقدام لازمی ہے ،مولانا مدنی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جمعیة علماءقتل کے ذمہ دار افراد کو کیفرکردار تک پہنچانے اور فرید خان کے لواحقین کو انصاف دلانے کیلئے ہرممکن طریقے کو اختیار کرے گی۔ 







No comments:

Post a Comment