Friday, 1 June 2018

تصویر اور ہماری انتہا پسندی

تصویر اور ہماری انتہا پسندی

تصویر کی حرمت کی احادیث معنوی طور پر تواتر تک پہنچی هوئی ہیں، اور تصویر کشی پر روایات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، لیکن ہمارا رویہ اور عمل بہت افسوسناک صورت اختیار کرچکا هے.....
چوده صدیوں تک جمهور امت جاندار کی تصویر کی هر شکل کو ناجائز سمجھتی رهی....
اس کے بعد زمانہ نے معکوس ترقی کی اور ڈیجیٹل دور شروع هوا تو علماء کے درمیان ڈیجیٹل تصویر کے بارے میں ایک علمی اختلاف چلا، اور "جمهور علماء" (بقول مفتی عبد الرؤوف سکھروی صاحب دامت برکاتھم) نے اسے ناجائز قرار دیا اور کئی علماء نے اسے عکس قرار دیا اور بعض شرائط کے ساتھ اس کے استعمال کی گنجائش رکھی......
لیکن آج تصویر سے متعلق همارا تساهل انتها پسندی کی حد تک پهنچ چکا هے.........
تقوی تو اس معامله میں ایک عرصه هوا هم سے رخصت هوچکا هے، لیکن فتوے سے بھی دن بدن هم دور هوتے جارهے هیں........
جن علماء نے جواز کی رائے پیش کی هے تو کیا ان کے نزدیک برهنه سر یا نیم برهنه صنف نازک کو بھی دیکھنا جائز هے ؟
کیا عورت کے مستور اعضاء کی رونمائی کی بھی ان بزرگ حضرات نے اجازت مرحمت فرمائی هے؟؟!
کیا دن رات اپنے تصویری البم بنانا اور انهیں شیئر کرتے رهنا مجوزین کے نزدیک ایک مستحسن عمل هے یا لایعنی کام؟
مفتی صاحب فلاں اسٹائل میں مفتی صاحب فلان سواری پر مفتی صاحب برگر کھاتے هوئے یه سب کیا ھے ؟
کیا ساز بجتی اور تھرتھراتی ویڈیوز (مردوں کی کیوں نه هوں) انهیں دیکھنا کار ثواب هے؟
کیا فنی ویڈیوز محرمات کا مجموعه هونے کے باوجود تفریح طبع کے لیے دیکھی جاسکتی هیں؟
کیا باتصویر پرنٹ میڈیا اور کاغذی تصویر کو همارے اکابر بالاتفاق ناجائز نهیں کهتے؟
آج ذرا هماری اسلامی تنظیموں کے رسائل کو ٹٹولیں تو صورت حال اس کے الٹ نظر آئے گی...
مختلف فیه اور مجتهد فیه کا ڈھنڈورا پیٹ کر متفق علیه مسائل کی دھجیاں بکھیرنا کهاں کا انصاف هے ؟
اگر کوئی ڈیجیٹل تصویر کو ناجائز سمجھتا هے تو اس کی تصویر لینے پر همیں بڑی خوشی هوتی هے اور اس گنگا میں اسے نهلا کر همیں دلی تسکین ملتی هے، اور اگر اس پر وه احتجاج کرے تو متشدد یا متعصب کے لقب سے نوازا جاتا هے......
مقصد صرف یه هے که هم شتر بے مهار نه بنیں که جهاں منه اٹھا چل دیے......
مجوزین کے هاں بھی شرائط هیں ان کی بھی رعایت کریں..........
زخمی کرنے کے بعد کهنا که نماز بھی اسی خون کے ساتھ پڑھوگے کیونکه همارے نزدیک نماز اس طرح هوجاتی هے عجیب منطق هے.........
تالی ایک هاتھ سے نهیں بجتی شدت بعض اوقات وهاں آتی هے جهاں دوسرے کو اپنے موقف کے اپنانے پر مجبور کیا جاتا هے.........
جهاں مانعین کی تصویروں کا ایصال ثواب کرکے ان کے موقف کو خراج تحسین پیش کیا جاتا هے........
جهاں مهمان نوازی کیکڑے سے کی جاتی هے که یه میزبان کے هاں حلال هے...
جهاں مجلس کے آداب سکھلاکر اهل مجلس کی توهین کی جاتی هے......
ابتداء هماری مصافحه سے هوئی تھی اور اب هم تصویر سے معانقه میں مصروف هیں.....
خدا کے لیے هم اس تساهل پسندی یا دوسرے الفاظ میں انتها پسندی کو چھوڑدیں، اگر تقوی پر عمل گراں هے تو کم از کم فتوے کا دامن تو نه چھوڑیں.......
پھر آپ علماء هیں امت کے مقتدی هیں هماری یه حالت هے تو عوام کهاں جائے گی؟
میں آپ کو یه نهیں کهتا که آپ فلاں فتوے پر عمل کریں اور فلاں پر نهیں، کیونکه آپ علماء هیں، راجح مرجوح سے بخوبی واقف هیں، لیکن اتنا ضرور کهوں گا که حدود الله سے تجاوز نه کریں اور انتها کو کراس نه کریں........
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه...

سيد عطاء الرحمن بخاری
استاد جامعہ فاروقیہ کراچی۔

No comments:

Post a Comment