آپ کے شرعی مسائل
اگر ایک شہر میں رویت ہلال ہو، دوسرے شہر میں نہیں ہو؟
سوال: اگر کسی شہر میں چاند نظر نہیں آئے ؛ لیکن کچھ دوسرے شہر میں چاند نظر آیا ہو اور معتبر طریقے پر اس کی رویت ثابت ہو ئی ہو تو جس شہر میں چاند نظر نہیں آیا، کیا وہاں کے لوگوں کو بھی اس فیصلے پر عمل کرنا چاہئے اور اس کی وجہ سے ان پر بھی روزہ رکھنا اور عید منانا واجب ہوگا؟ خاص کر ہندوستان میں کیا حکم ہے؟ (محب اللہ، بھیونڈی)
جواب: یہ بات حدیثوں سے مستفاد ہے کہ ہر بلد کے لوگوں کے لیے وہاں چاند دیکھنے کا اعتبار ہے، اسی لئے فقہا کہتے ہیں:
'لأھل کل بلد رؤیتہم'
بلد ایک شہر بھی ہوسکتا ہے، ایک علاقہ اور ایک ملک بھی ؛ اس لیے فقہا نے اُس پورے علاقہ کو ایک بلد مانا ہے، جہاں کا مطلع ایک ہو ، اگر ان میں کہیں بھی چاند نظر آگیا تو اس پورے خطہ کے لوگوں پر اس کے مطابق عمل کرنا لازم ہے ، یہ ضروری نہیں کہ اس خطہ میں جتنے شہر پڑتے ہوں، ہرہر جگہ چاند دیکھا گیا ہو ، مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:
”نعم لو استفاض الخبر فی البلدۃ الأخریٰ لزمہم علی الصحیح من المذھب” (الدر المختار مع الرد:3/359)
اور یہ حکم اس صورت میں بھی ہے، جس میں خبر مستفیض یا رویت عامہ کی شرط ہے کہ ہرہر جگہ خبر مستفیض کا پایا جانا ضروری نہیں؛ بلکہ ایک مطلع کے دائرے میں جتنے شہر آجائیں، ان میں سے ایک میں بھی رویت عامہ کا ہوجانا کافی ہے ؛ چنانچہ حصکفیؒ کی اسی عبارت پر علامہ شامیؒ نےجو نوٹ لکھا ہے، وہ یہ ہے:
'الصحيح من مذھب أصحابناأن الخبر إذا استفاض و تحقق فيما بين أھل البلدۃ الأخریٰ یلزمہم حکم ھٰذہ البلدۃ' (رد المحتار 2/390،کتاب الصوم،سبب صوم رمضان)
جواب: یہ بات حدیثوں سے مستفاد ہے کہ ہر بلد کے لوگوں کے لیے وہاں چاند دیکھنے کا اعتبار ہے، اسی لئے فقہا کہتے ہیں:
'لأھل کل بلد رؤیتہم'
بلد ایک شہر بھی ہوسکتا ہے، ایک علاقہ اور ایک ملک بھی ؛ اس لیے فقہا نے اُس پورے علاقہ کو ایک بلد مانا ہے، جہاں کا مطلع ایک ہو ، اگر ان میں کہیں بھی چاند نظر آگیا تو اس پورے خطہ کے لوگوں پر اس کے مطابق عمل کرنا لازم ہے ، یہ ضروری نہیں کہ اس خطہ میں جتنے شہر پڑتے ہوں، ہرہر جگہ چاند دیکھا گیا ہو ، مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفیؒ فرماتے ہیں:
”نعم لو استفاض الخبر فی البلدۃ الأخریٰ لزمہم علی الصحیح من المذھب” (الدر المختار مع الرد:3/359)
اور یہ حکم اس صورت میں بھی ہے، جس میں خبر مستفیض یا رویت عامہ کی شرط ہے کہ ہرہر جگہ خبر مستفیض کا پایا جانا ضروری نہیں؛ بلکہ ایک مطلع کے دائرے میں جتنے شہر آجائیں، ان میں سے ایک میں بھی رویت عامہ کا ہوجانا کافی ہے ؛ چنانچہ حصکفیؒ کی اسی عبارت پر علامہ شامیؒ نےجو نوٹ لکھا ہے، وہ یہ ہے:
'الصحيح من مذھب أصحابناأن الخبر إذا استفاض و تحقق فيما بين أھل البلدۃ الأخریٰ یلزمہم حکم ھٰذہ البلدۃ' (رد المحتار 2/390،کتاب الصوم،سبب صوم رمضان)
لہٰذا جن علاقوں کا مطلع ایک ہے، ان میں ایک جگہ بھی شرعی اصولوں کے مطابق رویت ہلال ثابت ہوجائے تو دوسرے شہروں میں جو لوگ چاند کا فیصلہ کرتے ہیں ، ان کے لیے بھی اس کو قبول کرنا واجب ہے ۔
فلکیاتی اصول کے اعتبار سے بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ہی مطلع کے دائرے میں آنے والے بعض مقامات پر مطلع صاف ہونے کی وجہ سے چاند نظر آجائے اور بعض مقامات پر چاند نظر نہیں آئے ؛ کیوں کہ بعض دفعہ مطلع ابر آلود نہیں ہوتا ؛ لیکن فضا غبار آلود ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے چاند دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے، اسی طرح افق پر چاند کی پیدائش کے بعد اس کے قابل رویت ہونے میں کچھ وقت مطلوب ہوتا ہے اور پھر چاند ڈوب جاتا ہے ، تو بعض جگہ غروب آفتاب جلدی ہوتا ہے اور چاند دیکھنے کے لیے زیادہ وقت میسر آتا ہے ، اور بعض جگہ آفتاب دیر سے غروب ہوتا ہے اور آفتاب کے ڈوبنے اور چاند کے اوجھل ہونے کے درمیان بہت تھوڑا وقفہ ہوتا ہے، لوگ نماز مغرب ادا کرکے جب باہر آتے ہیں، تو چاند ڈوب چکا ہوتا ہے ؛ اس لیے اتحاد مطلع کے باوجود ایک جگہ رویت عامہ ہونا اور دوسری جگہ چاند نہ دیکھ پانا کوئی مستبعد بات نہیں ہے۔
جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی ہمیشہ ملک کے معتبر اداروں، تنظیموں اور علمی و دینی مراکز کا یہی معمول رہا ہے کہ کیرالا کے علاوہ پورے ملک کی شہادت یا خبر کو قبول کیا گیا ہے، اور با لخصوص ابتداء رمضان کے سلسلے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی روزہ چھوٹ نہ جائے، ہاں اگر بر وقت صحیح اطلاع نہیں پہنچ پائے اور اس کی وجہ سے فیصلہ میں کوئی چوک رہ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور یہ فیصلہ کرنے والوں کی غلطی نہیں ہے؛ بلکہ ایک معقول عذر ہے ،انسان کوشش کا مکلف ہے، اور جب اس میں کوتاہی نہیں کی گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو مورد طعن بنایا جائے، البتہ ایسی صورت میں بعد میں ایک روزہ قضا کرنےکا اعلان کردینا چاہیے ۔
فلکیاتی اصول کے اعتبار سے بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ہی مطلع کے دائرے میں آنے والے بعض مقامات پر مطلع صاف ہونے کی وجہ سے چاند نظر آجائے اور بعض مقامات پر چاند نظر نہیں آئے ؛ کیوں کہ بعض دفعہ مطلع ابر آلود نہیں ہوتا ؛ لیکن فضا غبار آلود ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے چاند دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے، اسی طرح افق پر چاند کی پیدائش کے بعد اس کے قابل رویت ہونے میں کچھ وقت مطلوب ہوتا ہے اور پھر چاند ڈوب جاتا ہے ، تو بعض جگہ غروب آفتاب جلدی ہوتا ہے اور چاند دیکھنے کے لیے زیادہ وقت میسر آتا ہے ، اور بعض جگہ آفتاب دیر سے غروب ہوتا ہے اور آفتاب کے ڈوبنے اور چاند کے اوجھل ہونے کے درمیان بہت تھوڑا وقفہ ہوتا ہے، لوگ نماز مغرب ادا کرکے جب باہر آتے ہیں، تو چاند ڈوب چکا ہوتا ہے ؛ اس لیے اتحاد مطلع کے باوجود ایک جگہ رویت عامہ ہونا اور دوسری جگہ چاند نہ دیکھ پانا کوئی مستبعد بات نہیں ہے۔
جہاں تک ہندوستان کی بات ہے تو آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی ہمیشہ ملک کے معتبر اداروں، تنظیموں اور علمی و دینی مراکز کا یہی معمول رہا ہے کہ کیرالا کے علاوہ پورے ملک کی شہادت یا خبر کو قبول کیا گیا ہے، اور با لخصوص ابتداء رمضان کے سلسلے میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی روزہ چھوٹ نہ جائے، ہاں اگر بر وقت صحیح اطلاع نہیں پہنچ پائے اور اس کی وجہ سے فیصلہ میں کوئی چوک رہ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور یہ فیصلہ کرنے والوں کی غلطی نہیں ہے؛ بلکہ ایک معقول عذر ہے ،انسان کوشش کا مکلف ہے، اور جب اس میں کوتاہی نہیں کی گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کو مورد طعن بنایا جائے، البتہ ایسی صورت میں بعد میں ایک روزہ قضا کرنےکا اعلان کردینا چاہیے ۔
اگر سفیر سے زکوٰۃ کی رقم ضائع ہو جائے
سوال: آج کل مدارس کے سفیر مختلف شہروں میں زکوٰۃ وصول کرنے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ایسے حادثات بھی پیش آتے ہیں کہ جیب کٹ جاتی ہے، یا غنڈے عناصر رقم چھین لیتے ہیں، کبھی دوڑ بھاگ میں جیب سے رقم گر جاتی ہے، اگر یہ حادثات زکوٰۃ کی رقم میں پیش آئے تو زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ (عبادہ شارب، کریم نگر)
جواب: اس مسئلے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خود زکوٰۃ ادا کرنے والے نے اپنی طرف سے زکوٰہ کی رقم کسی کے حوالہ کر دی، اور اس سے وہ رقم گم ہو جائے یا چوری ہوجائے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اور صاحب مال کو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے؛ لیکن موجودہ نظام مدارس میں علماء کی رائے ہے کہ مدرسہ کا ناظم یا سفیر طلبہ کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا وکیل ہوتا ہے، اور جب کوئی جیز وکیل کے قبضے میں آجائے تو وہ مؤکل کے قبضہ کرنے کے درجے میں ہے؛ اس لئے زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ادا ہوگئی، اور اس کو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں:
سوال: آج کل مدارس کے سفیر مختلف شہروں میں زکوٰۃ وصول کرنے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ایسے حادثات بھی پیش آتے ہیں کہ جیب کٹ جاتی ہے، یا غنڈے عناصر رقم چھین لیتے ہیں، کبھی دوڑ بھاگ میں جیب سے رقم گر جاتی ہے، اگر یہ حادثات زکوٰۃ کی رقم میں پیش آئے تو زکوٰۃ ادا ہوگی یا نہیں؟ (عبادہ شارب، کریم نگر)
جواب: اس مسئلے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خود زکوٰۃ ادا کرنے والے نے اپنی طرف سے زکوٰہ کی رقم کسی کے حوالہ کر دی، اور اس سے وہ رقم گم ہو جائے یا چوری ہوجائے تو زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی، اور صاحب مال کو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنی چاہئے؛ لیکن موجودہ نظام مدارس میں علماء کی رائے ہے کہ مدرسہ کا ناظم یا سفیر طلبہ کی طرف سے زکوٰۃ وصول کرنے کا وکیل ہوتا ہے، اور جب کوئی جیز وکیل کے قبضے میں آجائے تو وہ مؤکل کے قبضہ کرنے کے درجے میں ہے؛ اس لئے زکوٰۃ ادا کرنے کی ذمہ داری ادا ہوگئی، اور اس کو دوبارہ زکوٰۃ ادا کرنا ضروری نہیں:
لو ضاعت لا تسقط عنہ الزکوٰۃ ولو مات کانت میراثا عنہ، بخلاف ما اذا ضاعت في ید الساعي لأن یدہ کید الفقراء (رد المحتار:۲؍۲۷۰) اب اگر رقم ضائع ہونے میں سفیر کی کوتاہی نہیں ہو تو اس پر ہرجانہ لازم نہیںہوگا؛ لیکن وہ اپنی محنت کا مستحق بھی نہیں ہوگا: ولو ھکلت الزکوٰۃ في ید العامل سقط أجرہ لأن حقہ فیما أخذ وأجزأت من أخذ منہ (الاختیار لتعلیل المختار: ۱؍۱۱۹)
اور اگر اس کی کوتاہی کی وجہ سے رقم ضائع ہوئی تو وہ اس کا ضامن ہوگا، جیسا کہ دوسرے مال امانت کا حکم ہے۔
نابالغ شادی شدہ لڑکی کا صدقۃ الفطر
سوال: ہمارے علاقہ میں نابالغ بچوں اور بچیوں کا بھی نکاح ہوا کرتا ہے؛ چنانچہ زید نے اپنی نابالغہ لڑکی ہندہ کا نکاح راشد سے کر دیا، اور لڑکی کی رخصتی بھی ہو گئی، اب اس کا صدقۃ الفطر کون ادا کرے گا، باپ یا شوہر؟ جب کہ شوہر بھی نابالغ ہے۔ (عبدالرحمٰن، جے پور)
جواب: بہتر طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کیا جائے؛ تاکہ نکاح میں خود ان کی رضامندی شامل ہو؛ لیکن اگر نابالغہ کا نکاح کر ہی دیا گیا اور اس کی رخصتی بھی ہو گئی تو باپ پر اس کا صدقۃ الفطر نہیں ہے: زوج ابنتہ الصغیرۃ من رجل وسلمھا الیہ ثم جاء یوم الفطر لا تجب علی الأب صدقۃ الفطر (ہندیہ: ۱؍۱۹۲، کتاب الزکوٰۃ ، باب الثامن فی صدقۃ الفطر) اور اس کے شوہر پر بھی واجب نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وہ ابھی نابالغ ہے، اور لڑکا یا لڑکی جب تک بالغ نہ ہو جائے فرائض وواجبات ان سے متعلق نہیں ہوتا ہے۔
سوال: ہمارے علاقہ میں نابالغ بچوں اور بچیوں کا بھی نکاح ہوا کرتا ہے؛ چنانچہ زید نے اپنی نابالغہ لڑکی ہندہ کا نکاح راشد سے کر دیا، اور لڑکی کی رخصتی بھی ہو گئی، اب اس کا صدقۃ الفطر کون ادا کرے گا، باپ یا شوہر؟ جب کہ شوہر بھی نابالغ ہے۔ (عبدالرحمٰن، جے پور)
جواب: بہتر طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد لڑکوں اور لڑکیوں کا نکاح کیا جائے؛ تاکہ نکاح میں خود ان کی رضامندی شامل ہو؛ لیکن اگر نابالغہ کا نکاح کر ہی دیا گیا اور اس کی رخصتی بھی ہو گئی تو باپ پر اس کا صدقۃ الفطر نہیں ہے: زوج ابنتہ الصغیرۃ من رجل وسلمھا الیہ ثم جاء یوم الفطر لا تجب علی الأب صدقۃ الفطر (ہندیہ: ۱؍۱۹۲، کتاب الزکوٰۃ ، باب الثامن فی صدقۃ الفطر) اور اس کے شوہر پر بھی واجب نہیں ہوگا؛ کیوں کہ وہ ابھی نابالغ ہے، اور لڑکا یا لڑکی جب تک بالغ نہ ہو جائے فرائض وواجبات ان سے متعلق نہیں ہوتا ہے۔
اعتکاف کی حالت میں گھر سے سحری لانا
سوال: میں نے اپنے محلہ ہی کی مسجد میں اعتکاف کی نیت کر رکھی ہے؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ سحری کے وقت کھانا لانے کے لئے کوئی بڑا آدمی میسر نہیں، گھر میں بعض نوجوان بچے ہیں؛ لیکن وہ اس وقت نیند سے بیدار نہیں ہو پاتے، ایسی صورت میں کیا میں گھر جاکر کھانا کھا سکتا ہوں۔ (محمد افروز، بنگلور)
جواب: اگر نفل اعتکاف ہے یعنی دس دنوں سے کم کے اعتکاف کی نیت ہے اور اس کی نذر بھی نہیں مانی تھی تو گھر جاکر کھنا کھاکر آسکتا ہے، اور اگر اعتکاف کی نذر مانی تھی تو اب یہ اعتکاف واجب ہے، اگر نذر مانتے وقت ہی نیت کرلی تھی کہ گھر جاکر کھانا کھایا کروں گا تب بھی اس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ منت کے طور پر جو اعتکاف ہو اس میں اگر کسی مستثنیٰ کرلیا جائے تو اس کا اعتبار ہے، تیسری شکل اعتکاف مسنون کی ہے، جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے، تو اس میں گھر یا ہوٹل میں جاکر کھانا کھانا درست نہیں ہے، اس سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا:
سوال: میں نے اپنے محلہ ہی کی مسجد میں اعتکاف کی نیت کر رکھی ہے؛ لیکن مشکل یہ ہے کہ سحری کے وقت کھانا لانے کے لئے کوئی بڑا آدمی میسر نہیں، گھر میں بعض نوجوان بچے ہیں؛ لیکن وہ اس وقت نیند سے بیدار نہیں ہو پاتے، ایسی صورت میں کیا میں گھر جاکر کھانا کھا سکتا ہوں۔ (محمد افروز، بنگلور)
جواب: اگر نفل اعتکاف ہے یعنی دس دنوں سے کم کے اعتکاف کی نیت ہے اور اس کی نذر بھی نہیں مانی تھی تو گھر جاکر کھنا کھاکر آسکتا ہے، اور اگر اعتکاف کی نذر مانی تھی تو اب یہ اعتکاف واجب ہے، اگر نذر مانتے وقت ہی نیت کرلی تھی کہ گھر جاکر کھانا کھایا کروں گا تب بھی اس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ منت کے طور پر جو اعتکاف ہو اس میں اگر کسی مستثنیٰ کرلیا جائے تو اس کا اعتبار ہے، تیسری شکل اعتکاف مسنون کی ہے، جو رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتا ہے، تو اس میں گھر یا ہوٹل میں جاکر کھانا کھانا درست نہیں ہے، اس سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا:
لا یخرج لأکل وشرب ونوم ولا عیادۃ مریض ولا صلاہ جنازۃ، فان خرج فسد اعتکافہ عمداََ أو ناسیاََ بخلاف ما لو خرج مکرھاََ ( البنایۃ بشرح الہدایۃ: ۴؍۱۳۰)
البتہ جا کر کھانا کھانا اور کھانا لے کر آنا دونوں میں فرق ہے، اگر کوئی کھانا لانے والا نہیں ہے، اور بھوک کا تقاضہ ہے، اگر سحری نہ کھانے تو آئندہ دن روزہ رکھنے میں مشقت ہوگی تو اس کی گنجائش ہے؛ کیوں کہ یہ بھی ایک حاجت ہے اور حاجت انسانی کے لئے معتکف کا باہر نکلنا جائز ہے:
ولا یخرج من المسجد الا لحاجۃ الانسان أو الجمعۃ (ہدایہ: ۱؍۱۲۹)
البتہ اس صورت میں بھی یہ بات ضروری ہے کہ کھانا لے کر فوراََ آجائے مزید رکنے سے اجتناب کرے اور مسجد میں لاکر ہی کھائے۔
شیئرز کی زکوٰۃ نکالنے کا طریقہ
سوال: اس وقت شیئرز کی خریدوفروخت کا رواج بہت بڑھ گیا ہے، مگر اس کی قیمت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا ہے، ہمیشہ اس کی قیمت بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، ایسی صورت میں کیا اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور واجب ہوگی تو اس پر زکوٰۃ کا حساب کس طرح کیا جائے گا؟ (محمد فیاض، ممبئی)
جواب: آج کل عام طور پر شیئرز تجارتی کمپنیوں کے ہوا کرتے ہیں؛ لہٰذا وہ مال تجارت ہے اور شیئرز لینے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کو بیچنے ہی کی نیت سے لیا جائے تو یہ پورا کا پورا مال تجارت ہے، جس روز زکوٰۃ ادا کرنی ہو اس دن دیکھنا چاہئے کہ مارکیٹ میں اس کی کیا قیمت ہے، جو مارکیٹ قیمت ہو اس کے لحاظ سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، عام طور پر آج کل شیئرز رکھتے ہوئے صرف اس کا سالانہ فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے خرید کیا تو اس صورت میں کمپنی سے معلوم کرنا چاہئے کہ اس کا کتنا فیصد سرمایہ ٹھوس اثاثہ جیسے زمین، مکان، گاڑی وغیرہ کی شکل مین ہے، اور کتنا فی صد سرمایہ سیال شکل میں ہے، یعنی نقد رقم ہے، یا کسی کاقرض ہے تو اس سیال سرمایہ کے بقدر مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی، مثلاََ پچاس فی صد سرمایہ ٹھوس اثاثے کی شکل میں ہے، اور پچاس فی صد سیال اثاثے کی شکل میں، تو شیئرز کی مارکیٹ قیمت کے پچاس فی صد پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور پچاس فی صد پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
سوال: اس وقت شیئرز کی خریدوفروخت کا رواج بہت بڑھ گیا ہے، مگر اس کی قیمت میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا ہے، ہمیشہ اس کی قیمت بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہے، ایسی صورت میں کیا اس پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، اور واجب ہوگی تو اس پر زکوٰۃ کا حساب کس طرح کیا جائے گا؟ (محمد فیاض، ممبئی)
جواب: آج کل عام طور پر شیئرز تجارتی کمپنیوں کے ہوا کرتے ہیں؛ لہٰذا وہ مال تجارت ہے اور شیئرز لینے کی دو صورتیں ہیں، ایک یہ کہ اس کو بیچنے ہی کی نیت سے لیا جائے تو یہ پورا کا پورا مال تجارت ہے، جس روز زکوٰۃ ادا کرنی ہو اس دن دیکھنا چاہئے کہ مارکیٹ میں اس کی کیا قیمت ہے، جو مارکیٹ قیمت ہو اس کے لحاظ سے زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی، عام طور پر آج کل شیئرز رکھتے ہوئے صرف اس کا سالانہ فائدہ حاصل کرنے کی نیت سے خرید کیا تو اس صورت میں کمپنی سے معلوم کرنا چاہئے کہ اس کا کتنا فیصد سرمایہ ٹھوس اثاثہ جیسے زمین، مکان، گاڑی وغیرہ کی شکل مین ہے، اور کتنا فی صد سرمایہ سیال شکل میں ہے، یعنی نقد رقم ہے، یا کسی کاقرض ہے تو اس سیال سرمایہ کے بقدر مال پر زکوٰۃ واجب ہوگی، مثلاََ پچاس فی صد سرمایہ ٹھوس اثاثے کی شکل میں ہے، اور پچاس فی صد سیال اثاثے کی شکل میں، تو شیئرز کی مارکیٹ قیمت کے پچاس فی صد پر زکوٰۃ واجب ہوگی اور پچاس فی صد پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی۔
مریض کو دوا کی صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی
سوال: میرے پاس بعض مریض آتے ہیں، جو زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں، اگر میں ان کو نقد رقم دے دون تو وہ اسے دوسرے کاموں میں خرچ کر لیں گے، اور علاج کا مسئلہ اپنی جگہ باقی رہ جائے گا، تو کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے بجائے دوائیں دی جا سکتی ہیں؟ (ڈاکٹر منصور احمد، کوکٹ پلی)
جواب: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جار ہی ہے وہ زکوٰۃ کا مستحق ہو، اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ زکوٰۃ کس شکل میں دی جارہی ہے، زکوٰۃ کا مقصد ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا ہے، اور دوا تو انسان کی اہم ترین ضرورت ہے؛ اس لئے جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اتنی قیمت کی دوا زکوٰۃ کے مستحق مریض کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
سوال: میرے پاس بعض مریض آتے ہیں، جو زکوٰۃ کے مستحق ہوتے ہیں، اگر میں ان کو نقد رقم دے دون تو وہ اسے دوسرے کاموں میں خرچ کر لیں گے، اور علاج کا مسئلہ اپنی جگہ باقی رہ جائے گا، تو کیا ایسے شخص کو زکوٰۃ کی رقم دینے کے بجائے دوائیں دی جا سکتی ہیں؟ (ڈاکٹر منصور احمد، کوکٹ پلی)
جواب: زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ جس کو زکوٰۃ دی جار ہی ہے وہ زکوٰۃ کا مستحق ہو، اس بات کی اہمیت نہیں ہے کہ زکوٰۃ کس شکل میں دی جارہی ہے، زکوٰۃ کا مقصد ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا ہے، اور دوا تو انسان کی اہم ترین ضرورت ہے؛ اس لئے جتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے اتنی قیمت کی دوا زکوٰۃ کے مستحق مریض کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
اگر طلاق دینے میں شک ہو جائے
سوال: زید نے اپنے سسرال والوں کے گالی گلوج اور حملہ آور ہونے کی وجہ سے غصہ میں بے قابو ہوگیا، اور اپنی بیوی کو خطاب کرکے کہا کہ میں تم کو تین طلاق دے دوں گا، پھر دو مرتبہ طلاق، طلاق، کہا، اور اسے شک ہے کہ تیسری بار کہا یا نہیں، تو ایسی صورت میں اس کی بیوی پر کتنی طلاق واقع ہوگی؟
جواب: اولاََ تو غصہ کا حل طلاق نہیں ہے؛ بلکہ اس کو بیوی کے اس طرز عمل کے لئے سمجھانا اور کوئی دوسری تدبیر اختیار کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلاق آخری درجہ کا عمل ہے، اور بہت مجبوری ہی میں طلاق دینے کی گنجائش ہے؛ لیکن چوں کہ اسے دو طلاق دینے کا یقین ہے اور تیسری بار طلاق دینے اور نہ دینے کے سلسلے میں شک ہے، اور طلاق کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ صرف شک کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لئے اس صورت میں دو طلاق واقع ہوگئیں، صرف شک کی وجہ سے تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی:
سوال: زید نے اپنے سسرال والوں کے گالی گلوج اور حملہ آور ہونے کی وجہ سے غصہ میں بے قابو ہوگیا، اور اپنی بیوی کو خطاب کرکے کہا کہ میں تم کو تین طلاق دے دوں گا، پھر دو مرتبہ طلاق، طلاق، کہا، اور اسے شک ہے کہ تیسری بار کہا یا نہیں، تو ایسی صورت میں اس کی بیوی پر کتنی طلاق واقع ہوگی؟
جواب: اولاََ تو غصہ کا حل طلاق نہیں ہے؛ بلکہ اس کو بیوی کے اس طرز عمل کے لئے سمجھانا اور کوئی دوسری تدبیر اختیار کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلاق آخری درجہ کا عمل ہے، اور بہت مجبوری ہی میں طلاق دینے کی گنجائش ہے؛ لیکن چوں کہ اسے دو طلاق دینے کا یقین ہے اور تیسری بار طلاق دینے اور نہ دینے کے سلسلے میں شک ہے، اور طلاق کے سلسلے میں اصول یہ ہے کہ صرف شک کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے؛ اس لئے اس صورت میں دو طلاق واقع ہوگئیں، صرف شک کی وجہ سے تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی:
عدم الشک من الزوج في الطلاق وھو شرط الحکم بوقوع الطلاق حتی لو شک فیہ، لا یحکم بوقوعہ حتی لا یجب علیہ ان یعتزل امرأۃ ؛ لأن النکاح کان ثابتاََ بیقین ووقع الشک في زوالہ، بالطلاق فلا یحکم بزوالہ بالشک ( بدائع الصنائع: 3/126)
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ
No comments:
Post a Comment