علمائے کرام سے بے ادبی اور بے اعتباری کی بات
یہ کس قدر بے ادبی اور بے اعتباری کی بات ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی علماء سے پوچھتے ہیں اور قید یہ لگاتے ہیں کہ قرآن و سنت کی دلیل بھی دیں!!!
ایک مرتبہ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ:
بعض اوقات علماء سے سوال کیا جاتا ہے اور آخر میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ صرف قرآن و سنت کی دلیل سے جواب دیجئے گا۔
پھر فرمایا:
یہ کس قدر بے ادبی اور بے اعتباری کی بات ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی علماء سے پوچھتے ہیں اور قید یہ لگاتے ہیں کہ قرآن و سنت کی دلیل بھی دیں۔ اس بات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے علماء قرآن و سنت سے نہیں بلکہ اپنی طرف سے مسائل بیان کرتے ہیں یا قرآن و سنت سے نہیں بلکہ تورات و انجیل سے جواب دیتے ہیں۔ معاذ اللہ
بعض اوقات عوام الناس کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف عوام الناس ہی قرآن و سنت کو سمجھتی ہے جبکہ علماء کہ جن کی ساری زندگی قرآن و سنت سیکھنے اور سکھانے میں گزری ہوتی ہے وہ قرآن و سنت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ علماء پر ایسے عالمانہ انداز میں جراح کی جاتی ہے کہ جیسے علماء نے آج تک جتنا پڑھا اور پڑھایا ہے وہ سب غلط ہے یا ان کو آج تک قرآن و سنت سمجھ ہی نہیں آیا۔ معاذ اللہ
عوام الناس سے گزارش ہے کہ جو بھی سوال علماء سے پوچھیں تو اس پر دلیل اس طرح نہ مانگیں کہ ابے ادبی اور بے اعتباری ظاہر ہو۔ یا تو علماء پر اعتماد کریں یا خود علم دین سیکھیں۔
بعض اوقات علماء سے سوال کیا جاتا ہے اور آخر میں یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ صرف قرآن و سنت کی دلیل سے جواب دیجئے گا۔
پھر فرمایا:
یہ کس قدر بے ادبی اور بے اعتباری کی بات ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی علماء سے پوچھتے ہیں اور قید یہ لگاتے ہیں کہ قرآن و سنت کی دلیل بھی دیں۔ اس بات سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے علماء قرآن و سنت سے نہیں بلکہ اپنی طرف سے مسائل بیان کرتے ہیں یا قرآن و سنت سے نہیں بلکہ تورات و انجیل سے جواب دیتے ہیں۔ معاذ اللہ
بعض اوقات عوام الناس کی باتوں سے ایسا لگتا ہے کہ صرف عوام الناس ہی قرآن و سنت کو سمجھتی ہے جبکہ علماء کہ جن کی ساری زندگی قرآن و سنت سیکھنے اور سکھانے میں گزری ہوتی ہے وہ قرآن و سنت کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ علماء پر ایسے عالمانہ انداز میں جراح کی جاتی ہے کہ جیسے علماء نے آج تک جتنا پڑھا اور پڑھایا ہے وہ سب غلط ہے یا ان کو آج تک قرآن و سنت سمجھ ہی نہیں آیا۔ معاذ اللہ
عوام الناس سے گزارش ہے کہ جو بھی سوال علماء سے پوچھیں تو اس پر دلیل اس طرح نہ مانگیں کہ ابے ادبی اور بے اعتباری ظاہر ہو۔ یا تو علماء پر اعتماد کریں یا خود علم دین سیکھیں۔
No comments:
Post a Comment