اردو کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نہیں رہے
اپنی مزاح نگاری کے راستہ معاشرے کی اصلاح میں سرگرم مشتاق احمد یوسفی 95 برس کی عمر میں بدھ کے روز کراچی میں انتقال کرگئے۔ وہ طویل عرصے سے علیل تھے۔ ان کی نماز جنازہ جمعرات کو کراچی کے علاقے ڈیفنس فیز 5 کی سلطان مسجد میں ادا کی جائے گی۔
مشتاق یوسفی چار ستمبر 1923 کو انڈیا کی ریاست راجھستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مشتاق احمد یوسفی کو ادب میں نمایاں کارکردگی پر حکومت پاکستان کی جانب سے 1999 کے دوران ستارۂ امتیاز اور 2002 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
مشتاق احمد یوسفی نے آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا جس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔
مشتاق احمد یوسفی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتانوں میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگذشت، آب گم اور آخری کتاب شام شعریاراں شامل ہے۔
مشتاق یوسفی چار ستمبر 1923 کو انڈیا کی ریاست راجھستان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق مشتاق احمد یوسفی کو ادب میں نمایاں کارکردگی پر حکومت پاکستان کی جانب سے 1999 کے دوران ستارۂ امتیاز اور 2002 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔
مشتاق احمد یوسفی نے آگرہ یونیورسٹی سے فلسفے میں ایم اے کیا جس کے بعد انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔
مشتاق احمد یوسفی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی مشہور کتانوں میں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگذشت، آب گم اور آخری کتاب شام شعریاراں شامل ہے۔
اقوالِ حضرتِ یوسفی
* مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دَم سب سے آخر میں نکلتا ہے.
* جون ایلیا ایک دن کہنے لگے یوسفی صاحب میرے پاس اب پینتیس کُرتے اور ایک پاجامہ رہ گیا ہے
عرض کیا اسے بھی کسی کو دے دیجئے تاکہ ایک طرف سے تو یکسوئی ہو
* قہقہوں سے قلعوں کی دیواریں شق نہیں کرتیں- چٹنی اور اچار لاکھ چٹخارے دار سہی، لیکن ان سے بھوکے کا پیٹ نہیں بھرا جاسکتا
* قومیں جب اللہ کی زمین پر اِترا اِترا کر چلنے لگتی ہیں تو زمین اپنے ہی زہرخند سے شق ہوجاتی ہے اور تہذیبیں اس میں سما جاتی ہیں
* ہمارے زمانے میں تربوز اِس طرح خریدا جاتا تھا جیسے آج کل شادی کی جاتی ہے - محض صورت دیکھ کر
* کراچی کی ہوا میں اتنی رطوبت ہے کہ یہاں بال، سائیلنسر اور لچھّن قبل از وقت جھڑ جاتے ہیں۔ لاہور میں کم از کم اتنا تو ہے کہ سائیلنسر نہیں جھڑتے
وقت گزرتا دِکھائی نہیں دیتا۔ مگر ہر چہرے پر ایک داستان لِکھ جاتا ہے
* سات آٹھ مرد یکجا ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے صرف ایک بولتا ہے۔ باقی نہیں بولتے۔ اور نہ سُنتے ہیں---------جہاں سات آٹھ عورتیں جمع ہوں سب بیک وقت بولتی ہیں اور اچنبھے کی بات یہ ہے کہ بولتے میں سب کچھ سُن بھی لیتی ہیں
* بہت سارے شاعر ایسے ہوتے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں- شاعر مرجاتا ہے مگر کلام باقی رہ جاتا ہے۔ اُردو شاعری کو یہی چیز لے ڈُوبی
* انسان جی کڑا کرکے ہر چیز سے ناتا توڑ لے تو پھر دُکھ سُکھ کے بے انت چکر سے باہر نکل جاتا ہے- پھر وہ شاد رہتا ہے، نہ ناشاد، مسرور نہ مغموم
دل شکنی سے صرف پتھر دل ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔
* حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے، وہ یا تو ولی اللہ ہے- یا پھرخود ہی حالاتِ حاضرہ کا ذمہ دار ہے
* سڑک کہیں نہیں جاتی- وہ تو وہیں کی وہیں رہتی ہے- مسافر خود کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے- راہ کبھی گُم نہیں ہوتی، راہ چلنے والے گُم ہوجاتے ہیں
* آدمی اتنا ہی تنہا ہوتا ہے جتنا محسوس کرتا ہے- تنہائی آدمی کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ جدھر نظر اُٹھاتا ہے، آئینے کو مدِّ مُقابل پاتا ہے
* ہماری کمزوری ہےکہ اپنی ٹیم کسی کھیل میں جیت جائے تو اسےقومی کھیل سمجھنے لگتے ہیں اور اس وقت تک سمجھتے رہتے ہیں جب تک کہ ٹیم دوسرا میچ ہار نہ جائے
* تن کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں---موٹاپے میں ایک خرابی یہ ہے کہ تمام عُمر کو گلے کا ہار ہوجاتا ہے اور بعض خواتین گھر کے اندیشوں اور ہمسائیوں کی خوشحالی سے بھی دُبلی نہیں ہوتیں-- زن اور وزن کی جنگ میں پلّہ فریقِ اوّل کا ہی بھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریقِ ثانی کی ہوتی ہے---وزن حُسن کا دُشمن ہے اس لئے ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کےخول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کر اپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے
Renowned humourist Mushtaq Ahmad Yusufi has passed away in Karachi after prolonged ailment.
He contracted pneumonia a few days ago after which he was admitted to a hospital in Karachi.
He was shifted on ventilator after his condition worsened, however, doctors pronounced him dead a while ago. He was aged 97.
According to his family, Yusufi did not suffer from any serious disease, but he would often fall ill because of his old age.
Yusufi was born in Rajasthan, India on September 4, 1921. He acquired a master's degree in philosophy from Agra University after which he completed his LLB from Aligarh Muslim University.
He arrived in Karachi after the partition of Sub-continent and got employment in a bank.
Yusufi had his five books published: Chiragh Talay, Khakam-ba-Dahan, Zarguzasht, Aab-i-Gum and Sham-e-Shair-e-Yaaraan.
The Government of Pakistan, in recognition of his literary services, bestowed him with Sitara-e-Imtiaz and Hilal-e-Imtiaz.
Pakistan Peoples Party (PPP) co-chairman Asif Ali Zardari has expressed sorrow over the demise of Mushtaq Ahmad Yusufi.
No comments:
Post a Comment