Saturday, 30 June 2018

مسجد کے شرعی حدود میں اذان دینا ناجائز ہے مکروہ یا خلاف ادب؟

مسجد کے شرعی حدود میں اذان دینا ناجائز ہے مکروہ یا خلاف ادب؟
سوال: مسجد کے شرعی حدود میں اذان دینا ناجائز ہے مکروہ یا خلاف ادب؟
ممبئی کے وہ مساجد جو مکاتب یا مدارس کے نام سے منسوب ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
الجواب وبا لله التوفيق:-
مسجد کے اندر بلا مائیک کے اذان دینا خلاف اولی ہے
مائک کا ہارن اندر ہو تو اب داخل مسجد اذان خلاف اولی بھی نہیں ہے
واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقًا کما فہِم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہٰذا الأذان؛ بل مقیدًا بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر - إلی قولہ - في الجلابي: أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولی إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم۔ (إعلاء السنن، أبواب الجمعۃ / باب التأذین عند الخطبۃ ۸؍۸۶-۸۷
دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے: بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) مسجد میں اذان دینا خلافِ اولیٰ ہے؛ کیونکہ اذان سے مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کا علم ہوجائے کہ جماعت قائم ہونے والی ہے، اور ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز اتنی دور نہیں جاتی جتنی مسجد سے باہر اور اونچی جگہ پر اذان دینے سے 
قال في الہندیة: وینبغي أن یوٴذن علی المأذنة أو خارج المسجد ولا یوٴذن في المسجد (الہندیة: ۱/۵۵) 
پتہ چلا کہ مسجد میں اذان دینے سے مقصود صرف تبلیغ صوت ہے، آج کل عام طور پر لاوٴڈ اسپیکر پر اذان ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسجد میں اذان دی جائے یا دوسری نیچی جگہ پر رفعِ صوت بہرحال ہوجاتا ہے؛ اس لیے لاوٴڈ اسپیکر پر مسجد میں اذان دینے میں کوئی کراہت معلوم نہیں ہوتی؛ البتہ مسجد کے اندر جہر مفرِط بالخصوص مسقف حصہ میں خلافِ ادب معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ لاوٴڈ اسپیکر مسجد سے باہر رکھا جائے، اگر باہر کوئی انتظام بسہولت نہ ہوسکے تو مسجد کے اندر بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ 
(مزید من التفصیل راجع احسن الفتاوی: ۲/۴/۲۹۴، ۲۹۵)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment