مسبوق عیدین میں نماز کیسے پوری کرے؟
جس شخص سے امام کی نماز کی کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں، اور وہ بعد کی رکعتوں میں امام کے ساتھ شریک ہوا ہو اس کو ”مسبوق“ کہتے ہیں۔ جو شخص ابتدا میں امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوا تھا، مگر کسی وجہ سے اس کی بعد کی رکعتیں امام کے ساتھ نہیں ہوئیں، اس کو ”لاحق“ کہتے ہیں۔ مثلاً جو شخص امام کے ساتھ دُوسری رکعت میں شریک ہوا وہ ”مسبوق“ ہے، اور جو شخص امام کے ساتھ پہلی رکعت میں شریک تھا، مگر دُوسری رکعت میں کسی وجہ سے شریک نہیں رہا، وہ ”لاحق“ ہے۔
جس شخص سے امام کی نماز کی کچھ رکعتیں رہ گئی ہوں، اور وہ بعد کی رکعتوں میں امام کے ساتھ شریک ہوا ہو اس کو ”مسبوق“ کہتے ہیں۔ جو شخص ابتدا میں امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوا تھا، مگر کسی وجہ سے اس کی بعد کی رکعتیں امام کے ساتھ نہیں ہوئیں، اس کو ”لاحق“ کہتے ہیں۔ مثلاً جو شخص امام کے ساتھ دُوسری رکعت میں شریک ہوا وہ ”مسبوق“ ہے، اور جو شخص امام کے ساتھ پہلی رکعت میں شریک تھا، مگر دُوسری رکعت میں کسی وجہ سے شریک نہیں رہا، وہ ”لاحق“ ہے۔
مسئلہ (۴۶): نماز عیدین میں اگر کسی کی پہلی رکعت چھوٹ گئی اور وہ امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شریک ہوا، تو وہ شخص امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہو اور پہلے قرأت کرے، پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین زائد تکبیرات کہے، اور اپنی نماز پوری کرے۔(۱)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لو سبق برکعۃ یقرأ ثم یکبر لئلا یتوالی التکبیر أی لأنہ إذا کبر قبل القراء ۃ وقد کبر مع الإمام بعد القراء ۃ لزم توالی التکبیرات فی الرکعتین ، ولم یقل بہ أحد من الصحابۃ ۔ (۳/۵۲)
ما فی ’’النہر الفائق ‘‘: إن المسبوق برکعۃ إذا قام إلی القضاء وکان علی رأی ابن مسعود قرأ أولا ثم کبر، وفی النوادر : أنہ یکبر أولا ، وجہ الظاہر أن البداء ۃ بالتکبیر تؤدی إلی الموالاۃ بین التکبیر وہو خلاف الإجماع ۔ (۱/۳۶۹ ، باب صلاۃ العیدین)
ما فی ’’ البحر الرائق ‘‘ : المسبوق برکعۃ إذا قام إلی القضاء ، فإنہ یقرأ ثم یکبر لأنہ لو بدأ بالتکبیر یصیر موالیًا بین التکبیرات ولم یقل بہ أحد من الصحابۃ ۔ (۲/۲۸۲)
ما فی ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ‘‘: لو کان الإمام صلی الرکعۃ الأولی ، وکبر ابن عباس ، ودخل الرجل معہ فی الرکعۃ الثانیۃ ، فلما سلم الإمام قام الرجل یقضی الرکعۃ الأولی ، وہو یدی تکبیر ابن مسعود ، یکبر تکبیر ابن مسعود لأنہ مسبوق فی الرکعۃ الأولی۔
(۱/۵۶۲، بدائع الصنائع : ۱/۶۲۳، الموسوعۃ الفقہیۃ : ۱۳/۲۰۹ ، تکبیر، تکبیرات الزوائد فی صلاۃ العیدین) (فتاوی رحیمیہ :۶/۱۷۴، أحسن الفتاوی:۴/۱۵۳)
........
نماز عید میں مسبوق (یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کے احکام علمائے کرام وائمہ مساجد سے گزارش ہے انہیں عید سے پہلے ہی بیان کردیں، تاکہ بہت سے نمازی حضرات کی نماز ِعید خراب ہونے سے بچ سکے۔ ذیل میں وہ صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم مذکور ہے:
1= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ کر تلاوت شروع چکا تھا،
تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔(ردالمحتار:3/64، دارالمعرفہ، بیروت)
2= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا،
تو یہ شخص اندازہ کر ے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور
اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا،
تو اس آ نے والے کو چاہئے کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کی بجائے تکبیرات کہے،
لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے،
بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں،
ہاں! اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں
اور اگر آنے والا رکوع میں چلا گیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایاتھا، یازیادہ، یاکچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ
امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔
(عالمگیریہ: 1/ 151، مطبعہ مکتبہ رشیدیہ)
3= اگر کوئی ایسے وقت نمازمیں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرا ت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے،
یعنی جس طرح امام کررہا ہے اسی طرح کرتا رہے،
پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہو کر ثناء پڑھے،
پھرسورةالفاتحہ پڑھے، پھرسورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے،
یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے“ دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے۔ (البحر الرائق:2/282، دارالکتب العلمیہ)
4= اگرکوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچاجب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جا چکا تھا،
تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پا سکتا ہے، یا نہیں؟
اگر پا سکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جا کر تکبیرات کہے
اور اگرامام ر کوع سے اٹھ گیا یعنی مقتدی سے دونوں رکعتیں رہ گئیں،
تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں۔
(تاتارخانیہ: 2/73، قدیمی)
5= اگر کوئی ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیرچکا تھا، تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا، اس شخص کو چاہئے کہ کسی ایسی مسجد، یا عیدگاہ کو تلاش کرے جہا ں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو، وہاں جاکر نماز ادا کرے اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ چاشت کے وقت چار رکعت نفل اداکرے۔
(ردالمحتار:3/67، دارالمعرفہ)
الغرض! مذکورہ بالا ممکنہ صورتیں ہی کسی کو پیش آ سکتی ہیں، اگر علمائے کرام اور ائمہ مساجد انہیں ”عید“ سے کچھ دن پہلے ہی سے ایک ایک کرکے بیان کردیا کریں، تو
یقینا بہت سارے مسلمانوں کی ”عیدین“ کی نماز خراب ہونے سے بچ جائے گی۔ اللہ تعالی تمام مسلما نوں کے روزے اور عبادتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
آمین.
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما فی ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لو سبق برکعۃ یقرأ ثم یکبر لئلا یتوالی التکبیر أی لأنہ إذا کبر قبل القراء ۃ وقد کبر مع الإمام بعد القراء ۃ لزم توالی التکبیرات فی الرکعتین ، ولم یقل بہ أحد من الصحابۃ ۔ (۳/۵۲)
ما فی ’’النہر الفائق ‘‘: إن المسبوق برکعۃ إذا قام إلی القضاء وکان علی رأی ابن مسعود قرأ أولا ثم کبر، وفی النوادر : أنہ یکبر أولا ، وجہ الظاہر أن البداء ۃ بالتکبیر تؤدی إلی الموالاۃ بین التکبیر وہو خلاف الإجماع ۔ (۱/۳۶۹ ، باب صلاۃ العیدین)
ما فی ’’ البحر الرائق ‘‘ : المسبوق برکعۃ إذا قام إلی القضاء ، فإنہ یقرأ ثم یکبر لأنہ لو بدأ بالتکبیر یصیر موالیًا بین التکبیرات ولم یقل بہ أحد من الصحابۃ ۔ (۲/۲۸۲)
ما فی ’’ الفتاوی التاتارخانیۃ‘‘: لو کان الإمام صلی الرکعۃ الأولی ، وکبر ابن عباس ، ودخل الرجل معہ فی الرکعۃ الثانیۃ ، فلما سلم الإمام قام الرجل یقضی الرکعۃ الأولی ، وہو یدی تکبیر ابن مسعود ، یکبر تکبیر ابن مسعود لأنہ مسبوق فی الرکعۃ الأولی۔
(۱/۵۶۲، بدائع الصنائع : ۱/۶۲۳، الموسوعۃ الفقہیۃ : ۱۳/۲۰۹ ، تکبیر، تکبیرات الزوائد فی صلاۃ العیدین) (فتاوی رحیمیہ :۶/۱۷۴، أحسن الفتاوی:۴/۱۵۳)
........
نماز عید میں مسبوق (یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کے احکام علمائے کرام وائمہ مساجد سے گزارش ہے انہیں عید سے پہلے ہی بیان کردیں، تاکہ بہت سے نمازی حضرات کی نماز ِعید خراب ہونے سے بچ سکے۔ ذیل میں وہ صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم مذکور ہے:
1= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ کر تلاوت شروع چکا تھا،
تو ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔(ردالمحتار:3/64، دارالمعرفہ، بیروت)
2= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلا گیا تھا،
تو یہ شخص اندازہ کر ے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہو سکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور
اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا،
تو اس آ نے والے کو چاہئے کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کی بجائے تکبیرات کہے،
لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے،
بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں،
ہاں! اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں
اور اگر آنے والا رکوع میں چلا گیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایاتھا، یازیادہ، یاکچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ
امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔
(عالمگیریہ: 1/ 151، مطبعہ مکتبہ رشیدیہ)
3= اگر کوئی ایسے وقت نمازمیں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرا ت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے،
یعنی جس طرح امام کررہا ہے اسی طرح کرتا رہے،
پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہو کر ثناء پڑھے،
پھرسورةالفاتحہ پڑھے، پھرسورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے،
یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے“ دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے۔ (البحر الرائق:2/282، دارالکتب العلمیہ)
4= اگرکوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچاجب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جا چکا تھا،
تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پا سکتا ہے، یا نہیں؟
اگر پا سکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جا کر تکبیرات کہے
اور اگرامام ر کوع سے اٹھ گیا یعنی مقتدی سے دونوں رکعتیں رہ گئیں،
تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں۔
(تاتارخانیہ: 2/73، قدیمی)
5= اگر کوئی ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیرچکا تھا، تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا، اس شخص کو چاہئے کہ کسی ایسی مسجد، یا عیدگاہ کو تلاش کرے جہا ں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو، وہاں جاکر نماز ادا کرے اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ چاشت کے وقت چار رکعت نفل اداکرے۔
(ردالمحتار:3/67، دارالمعرفہ)
الغرض! مذکورہ بالا ممکنہ صورتیں ہی کسی کو پیش آ سکتی ہیں، اگر علمائے کرام اور ائمہ مساجد انہیں ”عید“ سے کچھ دن پہلے ہی سے ایک ایک کرکے بیان کردیا کریں، تو
یقینا بہت سارے مسلمانوں کی ”عیدین“ کی نماز خراب ہونے سے بچ جائے گی۔ اللہ تعالی تمام مسلما نوں کے روزے اور عبادتوں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔
آمین.
..............
١. اگر ایسے امام کے پیچھے عیدین کی نماز پڑھی جس کے نزدیک زائد تکبیروں میں رفع یدین نہیں ہے تو مقتدی رفع یدین کر لے
٢. اگر امام نے چھ سے زیادہ تکبیریں کہیں تو تیرہ تکبیروں تک مقتدی امام کی پیروی کرے جبکہ امام کے قریب ہو اور خود سنتا ہو، تیرہ سے زیادہ میں پیروی نہ کرے کیونکہ تیرہ تکبیروں سے زائد صحابہ کرام سے منقول نہیں اور کسی فقہ کا مذہب بھی نہیں ہے اگر امام سے دور ہو اور تکبیریں دوسرے تکبیر کہنے والوں سے سنے تو جتنی سنے سب کی پیروی کرے کیونکہ اس میں تکبیروں کی غلطی کا امکان ہے اس لئے امام کی تکبیروں کا متعین کرنا ممکن نہیں ہے
٣. اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ایسے وقت پہنچا کہ امام عید کی زائد تکبیریں کہہ چکا ہےاور ابھی قیام میں ہے اگرچہ قرآت شروع کر چکا ہو تو یہ شخص نیت باندھ کر اسی وقت عید کی تین تکبیریں کہہ لے
٤. اگر عید کی نماز میں کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے تو یہ تکبیر تحریمہ کہے پھر اگر اس کو گمان غالب ہے کہ تین زائد تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل سکتا ہے تو کہہ لے پھر رکوع میں جائے اور اگر تکبیریں کہہ کر رکوع ملنے کا گمان غالب نہیں ہے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع کی تسبیح کے بجائے یہ تین زائد تکبیریں کہہ لے اور ان میں ہاتھ نہ اٹھائے اگر تین تکبیریں پوری نہ کہہ سکا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھا دیا تو یہ بھی باقی تکبیریں چھوڑ کر امام کی مطابعت کرے اور رکوع سے اٹھ جائے باقی تکبیریں اس سے ساقط ہو جائیں گی اور اگر امام کو قومہ میں پایا تو اس وقت تکبیریں نہ کہے اور جب امام کے سلام کے بعد اپنی پہلی رکعت مسبوقانہ پڑھے اس میں ان تکبیروں کو ادا کرے لیکن اس مسبوقانہ رکعت میں ثنا کے بعد اور الحمد سے پہلے نہ کہے بلکہ الحمد اور سورة کی قرآت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے سے پہلے کہے
٥. اگر عید کی نماز میں اس وقت شریک ہوا جبکہ امام تشہد پڑھ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا یا سجدہ سہو کے لئے سلام پھیر چکا ہے لیکن ابھی سجدہ سہو نہیں کیا یا سجدہِ سہو کر چکا ہے لیکن اس کے بعد کے تشہد میں ہے اور ابھی ختم کا سلام نہیں پھیرا تو وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد عید کی مسبوقانہ نماز پوری کرے اور تکبیرات دونوں رکعتوں میں اپنے مقام پر کہے اس کی عید کی نماز میں شمولیت صحیح ہو گی یہی صحیح ہے
٦. اگر مقتدی دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھے اس وقت قرآت کے بعد رکوع میں جانے سے پہلے کہے جیسا کہ اوپر نمبر ٤ میں بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام کے ساتھ نہ ملی یعنی وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہو اور دوسری رکعت امام کے ساتھ نہیں ملی تو دونوں رکعتیں مسبوقانہ پڑھے اور زائد تکبیریں ہر رکعت میں اپنے اپنے موقع پر پڑھے جیسا کہ نمبر ٥ میں بیان ہوا
٧. لاحق امام کے مذہب کے مطابق تکبیریں کہے یعنی جب اپنی لاحقانہ نماز میں تکبیریں کہے تو جتنی امام نے کہیں اتنی کہے اس لئے کہ وہ امام کے پیچھے ہے اور مسبوق اپنی مذہب کے مطابق تکبیریں کہے
٨. اگر امام عید کی نماز میں پہلی رکعت میں زائد تکبیریں کہنا بھول گیا اور الحمد شروع کر دی تو وہ قرآت کے بعد تکبیریں کہہ لے اور اگر رکوع میں یاد آئے تو رکوع میں سر اٹھانے سے پہلے کہہ لے اور قرآت کا اعادہ نہ کرے اور اگر دوسری رکعت میں تکبیریں بھول گیا اور رکوع میں چلا گیا تب بھی رکوع میں کہہ لے اور قیام کی طرف نہ لوٹے اگر قیام کی طرف لوٹ جائے گا تب بھی جائز ہے نماز فاسد نہ ہو گی لیکن رکوع کا اعادہ کرے اور قرآت کا اعادہ نہ کرے
٩. عیدین کی نماز میں دوسری رکعت کے رکوع میں جاتے وقت کی تکبیر واجب ہے پس اگر امام سے زائد تکبیریں کل یا بعض یا رکوع میں جانے کی تکبیر فوت ہو گئی تو سجدہِ سہو لازم آتا ہے اگر کر لے تو جائز ہے لیکن جمعہ و عیدین میں کثرت ہجوم کی وجہ سے سجدہِ سہو کا ترک افضل ہے خواہ کسی وجہ سے لازم ہوا ہو اگر ان واجب تکبیروں کو قصداً ترک کرے گا تو مکروہِ تحریمی ہو گا
١٠. اگر کسی کو عید کی نماز نہ ملی ہو یا شامل ہوا اور اس کی نماز فاسد ہو گئی ہو اور سب لوگ پڑھ چکے ہوں تو وہ شخص تنہا عید کی نماز نہیں پڑھ سکتا کیونکہ اس میں جماعت شرط ہے اور فاسد ہو جانے کی صورت میں قضا بھی لازم نہیں ہے، لیکن اگر دوسری جگہ عید کی نماز مل سکتی ہو تو وہاں جا کر شامل ہو جائے کیونکہ عید کی نماز بالاتفاق ایک شہر میں متعدد جگہ جائز ہے اور اگر کئی آدمیوں کو عید کی نماز نہ ملی ہو تو وہ دوسری مسجد میں جہاں عید کی نماز نہ پڑھی گئی ہو نماز عید کی جماعت کر لیں اور ان میں کوئی ایک شخص امام ہو جائے یہ جائز ہے اور اگر یہ صورت بھی ممکن نہیں اور دوسری جگہ بھی نماز نہ ملے تو گھر آ کر چار رکعت نماز چاشت پڑھ لے اور ان میں زائد تکبیریں نہ کہے کیونکہ یہ نماز عید کی قضا نہیں بلکہ چاشت کے نوافل ہیں
١١. اگر امام نے عید الفطر کی نماز پڑھائی اور نماز کے بعد زوال سے پہلے نیز لوگوں کے متفرق ہونے سے پہلے معلوم ہوا کہ امام نے بےوضو نماز پڑھائی تھی تو نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال سے پہلے لیکن لوگوں کے متفرق ہونے کے بعد معلوم ہوا تو اب اعادہ نہ کریں نہ اس روز اور نہ دوسرے روز، اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا تو دوسرے دن نماز کا اعادہ کریں اور اگر دوسرے دن زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کریں اور اگر عید الاضحٰی میں ایسا ہو تو اگر اسی روز زوال سے پہلے معلوم ہو گیا تو سب آدمیوں میں نماز کے اعادہ کے لئے منادی کرا دیں اور اعادہ کریں اور جس نے معلوم ہونے سے پہلے قربانی کر لی ہے اس کی قربانی جائز ہے معلوم ہونے کی بعد سے زوال تک قربانی جائز نہیں اور اگر زوال کے بعد معلوم ہوا اور لوگوں نے قربانیاں کر لیں تو قربانیاں جائز ہیں، دوسرے روز نماز کا اعادہ کریں، دوسرے روز معلوم ہو تو زوال سے پہلے نماز کا اعادہ کریں اور اگر زوال ہو چکا تو تیسرے دن ( بارہویں ذی الحجہ کو) زوال سے پہلے پڑھ لیں اگر تیسرے روز زوال کے بعد معلوم ہو تو اعادہ نہ کرے
١٢. اگر عید کی نماز کے وقت جنازہ بھی حاضر ہو تو عید کی نماز کو مقدم کریں گے اور عید کے خطبے پر نماز جنازہ کو مقدم کریں گے
١٣. عیدین کی نماز کے بعد یا خطبے کے بعد دعا مانگنا منقول نہیں ہے لیکن عموماً ہر نماز کے بعد دعا مانگنا سنت ہے اس لئے عیدین میں بھی نماز کے بعد دعا مانگنا بہتر و افضل ہونا چاہئے نماز کے بعد کی بجائے خطبے کے بعد دعا مانگنا خلاف اولٰی ہونا چاہئے اور اگر دونوں جگہ ترک کرے تو اس کی بھی گنجائش ہے
No comments:
Post a Comment