سات آسمانوں کے نام اور ان کے رنگ کی کیا حقیقت ہے؟
سوال: 'سات آسمانوں کے نام اور ان کے رنگ' کی کیا حقیقت ہے، براہ کرم رہنمائی فرمائیں
جواب: آسمانوں کا وجود برحق ہے۔ سینکڑوں گواہیاں ہیں کہ آسمان موجود ہیں۔ قرآن کریم کے اندر ڈھائی سو سے زیادہ مقامات پر آسمان کا ذکر آیا ہے۔
رہا یہ اشکال کہ اہل سائنس ابھی تک پہلے آسمان تک نہیں پہنچ پائے اس لیے آسمانوں کا وجود ہی نہیں تو جناب! یہ مدعا ہی سرے سے بے بنیاد ہے اور کم نظری اور عناد کا نتیجہ ہے، اس لیے کہ اول تو یہ کائنات کی وسعت اور اللہ تعالی کی بےپایاں قدرت کی نشانی ہے کہ اس قدر پاور اور ٹیکنالوجی کے حصول کے باوجود وہ پہلے آسمان تک کا سرا نہیں پاسکے۔ خود قرآن نے چیلنج کیا ہے کہ انسان آسمان زمین کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا، ارشاد ہے:
یامعشرالجن والانس ان استطعتم ان تنفذوا من اقطار السموات والارض فانفذوا لاتنفذون الا بسلطن( الرحمان)
دوسرے، یہ کہ کسی چیز کا نظر نہ آنا اس کی دلیل نہیں کہ وہ موجود نہیں، کیونکہ بہت سی ایسی چیزیں ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکے لیکن وہ موجود ہیں، جیسے: ہوا، بخار، بجلی، گیس، خوشبو، احساسات، غصہ اور نفرت، عقل وروح کہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا وجود سب مانتے ہیں لیکن دیکھا آج تک کسی نے نہیں۔ ہم ان چیزوں کوصرف اس لیے مانتے ہیں کہ یہ ہمارے مشاہدے کی چیزیں ہیں اور مشاہدے کا انکار نہیں کرسکتےحالانکہ اللہ تعالی کی قطعی کہی ہوئی بات مشاہدے سے زیادہ قوت رکھتی ہے۔ اسے تو اور زیادہ اعتماد اور یقین سے ماننا چاہئے!
آسمان کے منکر کاحکم:
آسمانوں کے وجود کا انکار گمراہ کن نظریہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے! ایسا عقیدہ رکھنے والے کو دلائل کی بنیاد پر سمجھایا جائے ۔ اللہ تعالی اہل اسلام کی ہر طرح کی اعتقادی گمراہیوں سے حفاظت فرمائے، آمین!
آسمانوں کی تخلیق وترتیب:
اللہ تعالی نے پہلےزمینوں کا مادہ تخلیق فرمایا، پھر آسمانوں کا مادہ جو گیسز اور دھوئیں کی شکل کی کوئی چیز تھی تخلیق کیا، پھر زمینوں کو بچھایا، اس میں ہر چیز سینچی، ان کے تمام تر اصول واسباب وضع فرمائے اور آخر میں آسمانوں کے مادے سے سات آسمانوں کو چھت کی طرح ٹھوس بنادیا۔ (معارف القرآن:7/ 634بحوالہ بیان القرآن)
آسمان ٹھوس شکل میں ہیں:
قرآن وسنت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آسمان ٹھوس شکل میں ہیں۔بہت ہی بلند ہیں۔آسمانوں کو اللہ تعالی نے ستونوں کے بغیر پیدا کیا ہے۔اس کے اندر دروازے ہیں جس سے مختلف کام لیے جاتے ہیں،معراج کے سفر میں نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ان دروازوں سے اوپر آسمانوں میں تشریف لے گئے۔
انشقت السماء فکانت وردۃ کالدھان۔ یعنی قیامت میں آسمان پھٹ جائے گا یہ اس کی دلیل ہے کہ آسمان ٹھوس ہے کیونکہ ٹھوس چیز ہی پھٹ سکتی ہے۔ ان اللہ یمسک السموات والارض ان تزولا ۔ یعنی آسمان وزمین کو اللہ تعالی نے تھاما ہوا ہے ورنہ وہ گرجائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین کی طرح آسمان بھی ٹھوس شکل میں ہے۔
آسمانوں کی تعداد اور فاصلہ:
آسمانوں کی تعداد سات ہے۔ دوآسمانوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنازمین اور پہلے آسمان کے درمیان ہے۔سات آسمانوں کے اوپرایک بڑا سمندر ہے جس کا فاصلہ بھی آسمان زمین کے بیچ فاصلے کے برابر ہے۔
آسمان کے معنی:
تاہم خود قران کریم میں بعض مقامات پرآسمان بول کر بادل یا محض بلندی مراد لی گئی ہے، مثلا: قرآن میں جہاں یہ آتا ہے کہ آسمان سے بارش برسائی تو اس کا معنی یہ نہیں کہ بارش آسمان سے ہوتی ہے بلکہ مطلب ہے بارش بادلوں سے ہوتی ہے جس کی دلیل خود قرآن کی آیت ہے : ءانتم انزلتموہ من المزن ام نحن المنزلون۔ (الواقعہ) (مزن بادل کو کہتے ہیں)
یعنی بادلوں سے بارش تم اتارتے ہو یا ہم اتارتے ہیں؟
وانزلنا من المعصرات ماء ثجاجا (سورۃ النباء)
( معصرات پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کو کہتے ہیں)
یعنی ہم پانی سے بھرے ہوئے بادلوں سے موسلادھار بارش برساتے ہیں۔
اسی طرح ولقد زینا السماءالدنیا بمصابیح اور وجعلنا فی السماء بروجا کا یہ معنی ہرگزنہیں کہ ستارے آسمان کے اندرپیوست اور اس کے اندر گڑے ہوئے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ستارے آسمان کی بلندیوں میں ہیں۔سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ان النجوم قنادیل معلقۃ بین السماء والارض ۔ (روح المعانی:ج3ص50)
یعنی ستارے آسمان زمین کے درمیان نوری زنجیروں سے معلق ہیں، آسمان کے اندر پیوست نہیں ہیں۔
آسمان کی طرف دیکھنا:
وضو کے بعد آسمان کی طرف دیکھنابعض احادیث سے ثابت ہے، لیکن حضرت مفتی رشیداحمدلدھیانوی رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ وضو کےبعدآسمان کی طرف دیکھنے والی روایت علم اصول حدیث کے مطابق ثابت نہیں۔ ان کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے والی بات صرف ایک راوی سے ثابت ہے اور وہ راوی مجہول ہیں،بقیہ راویوں سے یہ اضافہ کہیں منقول نہیں، اس لیے یہ اضافہ یا تو راوی کی طرف سے ادراج ہے یا ضعیف راوی نے ثقات رواۃ کی مخالفت کی ہےجس کی وجہ سےروایت منکر ہے۔(تتمہ احسن الفتاوی:ص136،137)
آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے رہنا چاہیے، اس سے اللہ کی یاد آتی ہے۔ مشہورہے کہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھانے سے نظر تیز ہوتی ہے اور بھولی ہوئی بات یاد آجاتی ہے۔
آسمان کی طرف انگلی اٹھانا:
وضوکے بعدآسمان کی طرف انگلی اٹھانے کو علامہ طحطاوی نے علامہ غزنوی کے حوالے سے نقل کیا ہے جو کہ متاخرین احناف میں سے ہیں، غزنوی نام کے کئی فقہا گزرے ہیں سبھی متاخرین میں سے ہیں اور متاخرین سے منقول اقوال کا ضابطہ یہ ہے کہ بغیر تحقیق کے قبول نہیں کرسکتے، چوں کہ یہ قول بغیر دلیل کے ہے اس لیے اسے قبول نہیں کیا جاسکتا۔
(تتمہ احسن الفتاوی:ص136،137)
جنازے کی نماز میں ہرتکبیر پر نگاہ آسمان کی طرف اٹھانا مکروہ ہے۔ (کتاب الفتاوی:3/168)
آسمان کے نیچے نماز:
کہاجاتا ہے کہ عورتیں کھلے آسمان کے نیچے نماز نہیں پڑھ سکتیں، یہ بات ایک بے پردہ ماحول میں جہاں عورتوں پر نامحرم مردوں کی نظر پرسکتی ہے، درست ہے لیکن جہاں ایسی بے پردگی نہ ہوتی ہو وہاں کھلے آسمان تلے یا گھر کی چھت پر مستورات نماز پڑھ سکتی ہیں، گو کہ بہتر یہی ہے کہ عورتیں گھر کے اندر چھت کے نیچے نماز پڑھیں!
http://www.suffahpk.com/aasman/
No comments:
Post a Comment