Friday 15 June 2018

واٹس اپ اور فیس بک پر میسیج یا خبر آگے بڑھانا

واٹس اپ اور فیس بک پر میسج یا خبر آگے بڑھانا
سوال:- آج کل فضا چل پڑی ہے کہ فیس بک اور واٹس اپ پر کوئی میسیج آیا کہ اسے آگے بھیج دو پتہ نہیں کہ سچ ہے یا جھوٹ، بس شیئر کردیا، ایسے میں کہیں جھوٹی خبر تیزی سے پھیلتی ہے، اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟
تفصیل سے بیان کردیں تو ان شآء اللہ فیس بک اور واٹس اپ پر بھی شیئر کیا جاسکتا ہے، ہوسکتا ہے لوگ اس سے راہ راست پر آجائیں۔

بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب وباللہ التوفیق:
حدیث میں ہے:
”کفی بالمرإ کذبًا أن یحدّث بکل ما سمِع، (مسلم، مقدمہ: ۱/۱۰)
یعنی آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات دوسروں کو بتلائے، شراح حدیث نے لکھا کہ اس میں زجر (ڈانٹ) ہے، ان لوگوں کے لئے جو بلا تحقیق ہر سنی ہوئی یا پڑھی ہوئی بات آگے دوسروں کو بتلادیتے ہیں۔
وہذا زجر عن التحدیث بشيء لم یعلم صدقة؛ بل علی الرجل أن یبحث في کلہا سمع خصوصاً فی أحادیث النبي صلی اللہ علیہ وسلم؛ ولذا ورد ہذا الحدیث في باب الاعتصام
(مرقاة المفاتیح: ۱/ ۳۵۸، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، ط: دار الکتب العلمیة)؛

اس لئے جب کسی کے پاس واٹس ایپ، ای میل یا کسی اور ذریعے سے کوئی میسیج آئے تو جب تک معتبر طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا مضمون صحیح اور سچ ہے اُسے آگے بڑھانا درست نہیں ہے،
خصوصاً جب دین وشریعت کے حوالے سے کوئی بات اس میں تحریر ہو، اگر وہ بلا تحقیق ہرسچ وجھوٹ میسیج کو آگے بڑھائے گا تو وہ اس حدیث کی رو سے ”کاذب“ کہلائے گا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
.........
خبر اور اس کے مسائل
خبروں کی اشاعت کے متعلق ضابطہ قرآنی
1.…﴿وَإِذَا جَاء ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ ردُّوہُ إِلَی الرَّسُولِ وَإِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُمْ﴾․ (سورةالنساء: آیت83)
”اور جب ان لوگوں کو کسی امر کی خبر پہنچتی ہے، خواہ امن یا خوف، تو اس کو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ اس کو رسول کے اور جواُن میں ایسے امور کو سمجھتے ہیں ان کے اوپر حوالہ رکھتے تو اس کو وہ حضرات تو پہچان ہی لیتے ہیں جوان میں اس کی تحقیق کرلیا کرتے ہیں۔“
2.…﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِن جَاء کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَیَّنُوا أَن تُصِیْبُوا قَوْماً بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِیْن﴾․ (سورةالحجرات :آیت 6)
”اے ایمان والوں !اگر کوئی شریر آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لاوے تو خوب تحقیق کرلیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی ضرر نہ پہنچا دو، پھر اپنے کیے پرپچھتانا پڑے۔“
3.…﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُولا﴾․(سورة بنی اسرائیل:آیت 36)
”جس بات کا یقینی علم نہ ہو ( اٹکل پچو) اس کے پیچھے نہ ہولیا کرو، (کیوں کہ) کان، آنکھ اور دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔“
4.…﴿ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین﴾ (سورہ لقمان)
اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جوواہیات قصے مول لیتا ہے تاکہ (لوگوں کو سنا کر) بے سمجھے بوجھے راہ خدا سے بھٹکائے اور آیات الہٰی کی ہنسی بنائے، ایسے لوگوں کو ( قیامت کے دن) ذلت کی سزا ہونی ہے۔“
بے تحقیق باتوں کی اشاعت گناہ ہے
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹی ہے تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔“
حضرت عمر (رضی اللہ تعالٰی عنہ) فرماتے ہیں کہ مجھے اطلاع ملی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ہے، اس وحشت ناک خبر کو سن کر میں اپنے گھر سے چل کر مسجد میں گیا، کچھ دیر وہاں توقف کیا تو کچھ لوگ وہاں بھی یہی باتیں کر رہے تھے یہ دیکھ کر میں نے سوچا کہ اس خبر کی تحقیق کرنی چاہئے، میں اجازت لے کر حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا: یا رسول الله! کیا حضور نے اپنی بیبیوں کو طلاق دے دی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ میں نے تعجب سے کہا: الله اکبر اور پھر مسجد کے دروازے پر آکر بلند آواز سے ندا کردی کہ یہ خبر غلط ہے اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کو طلاق نہیں دی۔
حدود شرعیہ کے اندر رہ کر اخبار کی اشاعت مفید ہے
شمائل ترمذی میں (ایک لمبی حدیث میں) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی تلاش رکھتے تھے اور (خاص) لوگوں سے پوچھتے رہتے کہ (عام) لوگوں میں کیا واقعات ہورہے ہیں؟ جواخبار حدود شرعیہ کے اندر ہوں، سو اس کا مفید ہونا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ (بوادرالنوادر: 694)
تحریر بھی تقریر کی طرح ہے
شرع میں تحریر کا حکم بمنزلہ تقریرکے اور مطالعہ کا حکم مثل استماع کے ہے، جس چیز کا تلفظ وتکلم اور استماع گناہ ہے ،ا س کا لکھنا اور چھاپنااور مطالعہ کرنا بھی گناہ ہے ۔تحریر کا حکم زبان کی طرح ہے، کیوں کہ قلم سے جو گناہ سرزد ہوگا وہ زبان کے اعتبار سے زیادہ سنگین ہوگا، کیوں کہ تحریری بات محفوظ ہوتی ہے۔
کسی بات کا قلم سے لکھنا بعینہ وہی حکم رکھتاہے جو زبان سے کہنے کاہے،جس بات کا زبان سے ادا کرنا ثواب ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی ثواب ہے اور جس کا بولنا گناہ ہے اس کا قلم سے لکھنا بھی گناہ ہے،بلکہ لکھنے کی صورت میں ثواب اورگناہ دونوں میں ایک زیادتی ہوجا تی ہے، کیوں کہ تحریر ایک قائم رہنے والی چیز ہے، مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے، اس لئے جب تک وہ دنیا میں موجود رہے گی اور لوگ اس کے اچھے یا برے اثر سے متاثر ہوتے رہیں گے اس وقت تک کاتب کے لئے اس کا ثواب یا عذاب جاری رہے گا۔ (الطرائف والظرائف:9)
گناہ کی پردہ پوشی کرنا اشاعت سے افضل ہے
1.…حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے ایک محرر نے ایک روزان سے بیان کیا کہ ہمارے بعض پڑوسی شراب پیتے ہیں، میرا خیال ہے کہ میں محکمہ احتساب (پولیس) میں ان کی اطلاع کردوں۔ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ایسامت کرو، بلکہ ان کو سمجھاؤ اور ڈراؤ۔ محرر نے عرض کیا کہ: میں یہ سب کچھ کرچکا ہوں، وہ باز نہیں آتے، اس لیے میں تو اب پولیس میں اطلاع کروں گا۔حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ایسا نہ کرو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے:
من ستر عورة فکأنما أحیا موؤدة فی قبرھا․ (ابو داود، الترغیب والترھیب: 4/103)
”جو شخص کسی کا عیب چھپاتا ہے وہ اتنا ثوا ب پاتا ہے جیسے کوئی زندہ درگور لڑکی کو دوبارہ زندہ کردے“۔
2.…حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں:
”جو شخص اپنے بھائی کا عیب چھپائے، اللہ تعالیٰ اس کے عیوب قیامت کے دن چھپائیں گے اور جو شخص اپنے بھائی کے عیب کھولتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کھول دیتے ہیں، یہاں تک کہ اس کو گھر کے اندر بیٹھے ہوئے رسوا کردیتے ہیں۔“ (الترغیب والتر ہیب ص: 104)
3.…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: بیہودہ بات کو چھوڑ نا ان چیزوں میں سے ہے، جو انسان کے اسلام کو آراستہ کرنے والی ہیں۔ (مشکوٰة)
نیز ارشاد فرمایا: کسی انسان کے جھوٹے ہونے کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے کردے۔
4.…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: اپنے بھائی مسلمان کی مصیبت کے وقت خوشی ظاہر نہ کر، (ایسانہ ہو) کہ خداوند کریم اس پر رحم فرمائے اور تجھ کو اس میں گرفتار کرے۔ (مشکوٰة)
5.…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چار باتیں مومن کی شان نہیں:
1.طعن کرنا  
2. لعنت کرنا 
3. فحش بکنا 
4. بدخو ہونا۔ (مشکوٰة)
کسی مسلمان کا کوئی عیب یاگناہ مشاہدہ یا حجت شرعیہ سے بھی ثابت ہوجائے، تب بھی پردہ پوشی سے کام لے اور تنہائی میں اس کو سمجھائے، کیوں کہ یہی طرززندگی موثر ہے، لیکن یہ اس عیب کی بات ہے،جس میں کسی دوسرے کا ضررنہ ہو، لیکن اگر وہ عیب کسی کی حق تلفی اور اضرار کا سبب بنتا ہو تو اس کے تدارک کے لئے امکانی کوشش کرنا ضروری ہے، اس وقت پردہ پوشی کرنا درست نہیں۔
مضمون نگاری اور اخبار نویسی میں شرعی گرفت سے بچنے کا ایک زریں اصول
مضمون نگاری اور اخبار نویسی میں مذہبی جرائم اور شرعی گرفت سے بچنے کا سب سے بہتر ذریعہ اور جامع مانع اصول یہ ہے کہ جس وقت کسی چیز کے لکھنے کا ارادہ کرے، پہلے اپنے ذہن میں استحضار کرے کہ اس کا لکھنا میرے لئے جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ثابت ہو تو قدم آگے بڑھائے، ورنہ محض لوگوں کو خوش کرنے کے لئے گناہ میں ہاتھ رنگ کر اپنی ناک نہ کاٹے، اگر خود احکام شرعیہ میں پابند نہ ہو تو کسی ماہر سے استفتا کرنا ضروری ہے، ایک شرعی اجمالی قانون ہے، جو فقط اخبار نویسی میں نہیں، بلکہ ہر قسم کی تحریر میں، مسلمان کا مطمح نظر ہو نا چاہئے۔ (الطرئف والظرئف)
مسلمان پر کافروں کے ظلم کی خبر شائع کرنے کا شرعی طریقہ
اگر مسلمان پر کافروں کے ظلم کی خبر شائع کرنا ہوں جب تک اس ظلم کی نسبت کافروں کی طرف حجت شرعیہ سے ثابت نہ ہو،اس طرح شائع کی جائے کہ فلاں مقام کے مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں، مسلمان ان مظالم کا انسداد کریں اور جائز طریقہ پر ان کی جانی ومالی امداد کریں، کیوں کہ بعض اوقات کفار کے مظالم کو اخبار والے بہت بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں۔ (الطرئف والظرائف)
خلاف شرع مضامین کی اشاعت کا ایک زریں اصول
خلاف شرع مضامین اور عقائد باطلہ اول تو شائع نہ کئے جائیں اور اگر کسی ضرورت سے اشاعت کی نوبت آئے تو جس پرچہ میں وہ شائع ہوں، اسی میں ان کی تردید اور شافی جوابات بھی ضرور لکھ دیے جائیں ، آئندہ پرچہ پر اس کو حوالہ نہ کیا جائے، کیوں کہ بہت سے آدمی وہ ہوتے ہیں، جن کی نظر سے آئندہ پرچے نہیں گزرتے، خدانخواستہ اگر وہ اس سے کسی شبہ میں گرفتار ہوگئے تو اس کا سبب شائع کرنے والا ہو گا۔ (الطرائف والظرائف)
اگر کسی اخبار میں کوئی قابل تردید غلط مضمون کسی شخص کے نام سے طبع ہوا ہو تو اس کے جواب میں صرف اس پر اکتفا کیا جائے کہ فلاں اخبار نے ایسا لکھا ہے، اس کا جواب یہ ہے۔ اس شخص کی ذات پر کوئی حملہ نہ کیا جائے، کیوں کہ ابھی تک کسی حجت شرعیہ سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ واقع میں یہ مضمون اسی شخص کا ہے۔ ( الطرائف والظرائف)
حجت شرعیہ کے ثبوت کے بغیر کسی شخص پر جھوٹا الزام یا عیب جوئی کی خبر چھاپنا حرام ہے
جو خبر کسی شخص کی مذمت اور مصائب پر مشتمل ہو اس کو اس وقت تک ہرگز شائع نہ کیا جائے جب تک حجت شرعیہ سے اس کا کافی ثبوت نہ مل جائے۔ کیوں کہ جھوٹا الزام لگانا یا افترا باندھنا کسی کافر پر بھی جائز نہیں، حجت شرعیہ کے لئے کسی افواہ کا ہونا یا کسی اخبار کا لکھ دینا ہرگز کافی نہیں، بلکہ شہادت شرعیہ ضروری ہے۔ ( بوادر النوادر)
دور حاضر کے اخبارات کی خرابیاں
دور حاضر کے موجودہ تمام اخبارات کے صدہا تجربات نے اس بات کو ناقابل انکار کردیا ہے کہ بہت سے مضامین اور واقعات اخبارات میں شائع ہوتے ہیں، لیکن جس شخص کی طرف سے شائع کئے جاتے ہیں، اس غریب کو خبر تک نہیں ہوتی اور یہ صورت کبھی تو قصداً کی جاتی ہے اور کبھی سہواً وخطا ہو جاتی ہے، اس لئے اگر کسی اخبار میں کسی شخص کے حوالے سے کوئی مضمون یاو اقعہ نقل کردیا جائے تو شرعا اس کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ( الطرائف والظرائف)
حجت شرعیہ کسی کا عیب یا گناہ ثابت ہونے پر اس کی اشاعت اور درج اخبار کرنا جائز نہیں
کسی شخص کے عیب یا گناہ کا واقعہ اگر حجت شرعیہ سے بھی ثابت ہوجائے تب بھی اس کی شاعت اور درج اخبار کرنا جائز نہیں، بلکہ اس وقت بھی اسلامی فرض یہ ہے کہ خیر خواہی سے تنہائی میں اس کو سمجھایا جائے، اگر سمجھانے کو نہ مانے اور آپ کو قدرت ہو تو بالجبر (یعنی ہاتھ سے) اس کو روک دیں، ورنہ کلمہٴ حق پہنچاکر آپ اپنے فریضہ سے سبک دوش ہوجائیں۔ اس کی اشاعت کرنا اور رسوا کرنا علاوہ نہی شرعی کے تجربہ سے ثابت ہے کہ بجائے مفید ہونے کے ہمیشہ مضر ہوتا ہے۔ (الطرائف والظرائف)
مظلوم کو ظالم کے عیب یاگناہ جو حجت شرعیہ سے ثابت ہو اس کی برائی علانیہ شائع کرنے کی اجازت
کسی مسلمان کا ایسا عیب یا گناہ جو حجت شرعیہ سے ثابت ہو کہ جس کا نقصان اپنی ذات کو پہنچتا ہے او ریہ اس سے مظلوم ٹھہرتا ہے تو پھر اس کی برائی کو علانیہ شائع کر سکتا ہے ، الله تعالیٰ برائی کے اعلان کو پسند نہیں فرماتے، مگر جس پر ظلم کیا گیا ہو ۔ (وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرسکتا ہے۔) امام تفسیر مجاہد کہتے ہیں:
”اس آیت کی مراد یہ ہے کہ الله تعالیٰ اس کو پسند نہیں فرماتے کہ کوئی شخص کسی کی مذمت یا شکایت کرے، لیکن اگر کسی پر ظلم ہو تواس کے لئے جائز ہے کہ ظالم کی شکایت کرے اور اس کے ظلم کو لوگوں پر ظاہر کرے۔“ (بوادر النوادر)
لیکن اس صورت میں بھی بہتر یہ ہے کہ عام اعلان واشاعت کے بجائے صرف ان لوگوں کے سامنے بیان کرے، جو اس کی داد رسی کرسکیں۔
جو واقعہ کسی مضرت یا مذمت وعیب جوئی پرمشتمل نہ ہو اس کی اشاعت جائز ہے
جو واقعہ یاخبر کسی شخص کی مذمت اور ضرر پر مشتمل نہ ہو اس کی اشاعت جائز ہے، مگر اس شرط سے کہ اس کی اشاعت کسی مسلمان کی خاص مصلحت یا عام مصالح کے خلاف نہ ہو اور جس میں ایسا احتمال ضعیف بھی ہو تو بجز ان لوگوں کے جوعقل اور شرع کے موافق اس معاملے کو ہاتھ میں لیے ہوئے ہوں، عام لوگوں پر اس کو ظاہر کرنا نہ چاہئے، کیوں کہ ممکن ہے کہ اس کے نقصانات کی طرف خبر شائع کرنے والے شخص کی نگاہ تک نہ پہنچی ہو۔
اخبار سے متعلق چند مسائل
مسئلہ نمبر1… کسی ایسی کتاب کا، جو دین کے لیے مضر ہو، یعنی جسے مسلمان پڑھ کر خدشات میں مبتلا ہو جائیں، اشتہار نہ دیا جائے۔
مسئلہ نمبر2… ایسی دوا، جو شرعاً حرام ہو عام مسلمانوں کو اس کی حرمت کا پتہ نہ ہو، اشتہار شائع کرنے والے کو پتہ ہو، تو ایسا اشتہار اخبار میں نہ شائع کیا جائے۔ (الطرائف والظرائف)
مسئلہ نمبر3… اخبار میں تصویر جاندار شے کی نہ بنائی جائے اور بنانے والے اپنے کو گناہ گار سمجھیں، کبھی توبہ کی توفیق ہوجائے گی۔
لیکن افسوس! تصویر سے مطلقاً نفرت نہیں رہی، شہوت انگیز اور فحش تصویریں شائع کی جاتی ہیں، عریاں تصویریں چھاپنے والے بھی اس کو گناہ نہیں سمجھتے اور دیکھنے والوں کے دل سے بھی عورت کی تصویر کو شہوانی نظر سے دیکھنے کے گناہ کا خیال جاتا رہا حالاں کہ فقہائے کرام نے اجنبیہ کی چادر پر نظر کرنے کو حرام فرمایا ہے۔ (جامع)
اخبار پڑھنے کا شرعی طریقہ
اخبار میں عورت کی تصویریں کثرت سے شائع کی جاتی ہیں، اخبار پڑھتے وقت اس کا خیال رکھا جائے کہ عورت کی تصویر پر نگاہ نہ پڑے، تصویر پر ہاتھ رکھ کر صرف خبر پڑھ لی جائے، کیوں کہ تصویر سے نفس کو لطف اندوز ہونے کا موقع بہت ملتا ہے، اجنبیہ عورت کو دیکھنے سے ڈر تو ہوتا ہے کہ وہ کہیں ناراض نہ ہوجائے، گھورنے پر برا بھلا کہنا نہ شروع کر دے، برخلاف اجنبیہ کی تصویر کے کہ اس سے التذاذ کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
اخبارات کے لئے راہ عمل
1... اخبار کا ایڈیٹر ایسا شخص بنے، جو تمام علوم اسلامیہ پر عبور رکھتا ہو، یا کم ازکم علماء سے رجوع کرنے کا پابند ہو اور مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو، ورنہ ظاہر ہے کہ اخبار کی اشاعت بے دینی اور بے قیدی کا ایک کام یاب آلہ ہے۔ (بوادرالنوادر)
2... علماء حضرات کو چاہئے کہ خبر کے ساتھ اپنی تصویر شائع نہ کروائیں، اگر کسی اخبار والے نے تصویر شائع کردی تو اس کی تردید کردی جائے، تاکہ لوگ اس کو سند نہ بنالیں، کیوں کہ بلاشرعی عذر کے تصویرکشی ناجائز ہے۔
3... اخبارات میں قرآنی آیات یا ان کا ترجمہ بھی ہوتا ہے،بعض دکان دار اس کو ردی کے طور پر گاہکوں کو اس میں سوداڈال کر دیتے ہیں،جوشرعاً درست نہیں۔ راستے میں اگر کوئی اخبارکا ٹکڑا، جس پر اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہو، زمین سے اٹھاکر کسی محفوظ جگہ رکھ دینا بہت ثواب ہے۔(جامع)
اخبار بینی میں بے اعتدالی
اخبار بینی کا مذاق اس درجہ پھیل گیا ہے کہ وہ مثل غذا، بلکہ غذا سے بھی زیادہ ہوگیا ہے کہ کسی وقت بے غذا تو صبر بھی کرسکتے ہیں، مگر بدون اخبار بینی کے صبر نہیں آتا، اکثر اس میں ایسا انہماک ہوا کہ کتب دینیہ کے مطالعہ کی طرف اصلاً التفات یا اس کی ضرورت ذہن میں بھی نہیں رہی، اس شغف میں دین کا بھی نقصان ہے اور مال کا بھی نقصان ہے، آدمی دنیا میں ذخیرئہ آخرت جمع کرنے کے لیے آیا ہے، پس اصل کام اس کا شغلِ دینی ہے، لیکن بضرورت اسے شغل دینی کی اعانت وتقویت کے لئے دنیوی مشاغل کی بھی اجازت دی گئی، بشرط اعتدال واباحت۔ پس اسی قاعدہ کو پیش نظر رکھ کر جوچیز اس دائرہ سے باہر ہو، اس سے مجتنب رہے اور اسی قاعدہ کی معرفت کے لئے کتب ورسائل کا پڑھنا اور علماء کی صحبت لازم ہے۔ (بوادرالنوادر)
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ

No comments:

Post a Comment