مکاتب کو صدقہ و زکات للہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
سوال # 162286
مکاتب چلانے والی تنظیم کو صدقہ و زکات للہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جو تنظیمیں مکاتب چلاتی ہیں شہروں اور دیہاتوں میں، کیا ان کو زکات عشر صدقہ دے سکتے ہیں؟ مدرسہ ظہیرالعلوم دھڑا، ضلع: بلدھانہ، ۴۴۳۱۰۶، مہاراشٹر۔
جواب # 162286
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1041-921/D=9/1439
زکات عشر صدقہ فطر وغیرہ کی رقمیں غرباء مساکین کو مالک بناکر دینا ضروری ہے بغیر اس کے زکات فطرہ ادا نہ ہوگا۔ زکات فطرہ کی رقم مکاتب کے اساتذہ کو تنخواہ میں نہیں دیا جا سکتا اسی طرح مکاتیب کی تعمیر میں بھی نہیں لگ سکتی۔
آپ کے یہاں مکاتب چلانے والی تنظیمیں زکات فطرہ کی رقم کس طرح خرچ کرتی ہیں پوری وضاحت انہیں کے قلم سے لکھوا کر منسلک کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........
سوال # 162286
مکاتب چلانے والی تنظیم کو صدقہ و زکات للہ دینا جائز ہے یا نہیں؟
جو تنظیمیں مکاتب چلاتی ہیں شہروں اور دیہاتوں میں، کیا ان کو زکات عشر صدقہ دے سکتے ہیں؟ مدرسہ ظہیرالعلوم دھڑا، ضلع: بلدھانہ، ۴۴۳۱۰۶، مہاراشٹر۔
جواب # 162286
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 1041-921/D=9/1439
زکات عشر صدقہ فطر وغیرہ کی رقمیں غرباء مساکین کو مالک بناکر دینا ضروری ہے بغیر اس کے زکات فطرہ ادا نہ ہوگا۔ زکات فطرہ کی رقم مکاتب کے اساتذہ کو تنخواہ میں نہیں دیا جا سکتا اسی طرح مکاتیب کی تعمیر میں بھی نہیں لگ سکتی۔
آپ کے یہاں مکاتب چلانے والی تنظیمیں زکات فطرہ کی رقم کس طرح خرچ کرتی ہیں پوری وضاحت انہیں کے قلم سے لکھوا کر منسلک کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........
سوال: کیا مکاتب کو زکات دینا جائز ہے؟
الجواب و باللہ التوفیق:
صورت مسئولہ میں اگر دارالاقامہ اور طلبہ رہنے والے نہیں ہیں تو ایسے مکاتب میں پیسہ دینا درست نہیں ہے کیونکہ زکات کا مقصد ہے غریبوں کی پرورش وہ یہاں مفقود ہے لہذا ایسے مکاتب میں پیسہ نہ دیں
واللہ اعلم بالصواب
ابو حنیفہ
محمد توحید سالم قاسمی
ریاض
سعودی عرب
......
سوال # 155096
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
نمبر ۱ : ایک مدرسہ ہے جو مسجد سے منسلک ہے اور اس مدرسہ میں طلبہ و طالبات روزانہ کچھ وقت دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اور اس مدرسہ کے ترسٹیان نے ہر ایک طالب علم کو ایک صندوق دی ہیں جس پر لکھا ہے صدقہ بلا کو ٹالتا ہے، اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو۔ اب یہاں بات یہ ہے کہ طلبہ و طالبات صرف دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور باقی ضروریات ان کے اہل خانہ کرتے ہیں تو اس مدرسہ کو صدقہ یا یا زکاة کی رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو اس کی صورت حال بتائیں کہ کس طرح جائز ہے؟ اور اگر ناجائز ہے تو بھی اس کی صورت حال بتائیں کہ کس طرح ناجائز ہے؟
نمبر۲: مدرسہ نے جو صندوق چندہ کے لئے طلبہ و طالبات کو دیئے ہیں، وہ مہینے میں ایک بار جمع ہوتے ہیں اور اس میں جمع رقم مدرسہ میں جمع ہوتی ہے ، اس لیے طلبہ و طالبات اپنی رقم زیادہ رہنا چاہئے، اس کے لیے اپنے اہل خانہ کی طرف سے ملنے والی جیب خرچی کو بھی اس صندوق میں ڈال دیتے ہیں، تو کیا یہ صورت حال ٹھیک ہے ؟ اس کا بھی جواب دیجئے۔
نمبر ۳: اس مدرسہ کی داخلہ فیس ۰۰۱ روپے ہے اور ہفتہ واری فیس ۰۱ روپے ہے، اس کے باوجود اس طرح سے رقم وصول کرنا کیسا ہے ؟ جزاکم اللہ خیرا
جواب # 155096
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 37-23/N=1/1439
(۱): جب سوال میں مذکور مکتب /مدرسہ غیر اقامتی ہے،طلبہ وطالبات کچھ وقت کے لیے مدرسہ میں پڑھنے آتے ہیں اور اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں، مکتب/ مدرسہ میں ان کے لیے قیام وطعام وغیرہ کا نظم نہیں ہے، یعنی: مکتب/ مدرسہ میں زکوة، فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ کا کوئی مصرف نہیں ہے تو ایسے مکتب/مدرسہ والوں کا لوگوں سے زکو ة، فطرہ وغیرہ وصول نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی لوگوں کو ایسے مکتب/ مدرسہ میں زکوة، فطرہ وغیرہ دینا چاہئے۔
(۲): صندوق کی شکل میں طلبہ وطالبات کے اہل خانہ ماہانہ صندوق کی شکل میں مکتب/ مدرسہ میں جو چندہ دیتے ہیں، وہ عطیہ وامداد کا چندہ ہے، پس اگر ذمہ داران مکتب/ مدرسہ طلبہ وطالبات کے سرپرستان کو اس صندوق پر مجبور نہیں کرتے، وہ محض اپنی مرضی وخوشی سے صندوق کی شکل میں چندہ دیتے ہیں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، اور اگر ذمہ داران مکتب/ مدرسہ مجبور کرتے ہیں تو یہ جبری چندہ شرعاً درست نہ ہوگا۔
(۳): داخلہ صرف ایک بار ہوتا ہے اور ماہانہ ۴۰/ روپے بہت زیادہ نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ذمہ داران مکتب/ مدرسہ اساتذہ کی تنخواہوں اور مکتب/ مدرسہ کے دیگر ضروری اخراجات کے لئے لوگوں کو کسی جبر کے بغیر چندہ کی ترغیب دیتے ہیں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
سوال # 155096
کیا فرماتے ہیں مفتیان شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں:
نمبر ۱ : ایک مدرسہ ہے جو مسجد سے منسلک ہے اور اس مدرسہ میں طلبہ و طالبات روزانہ کچھ وقت دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، اور اس مدرسہ کے ترسٹیان نے ہر ایک طالب علم کو ایک صندوق دی ہیں جس پر لکھا ہے صدقہ بلا کو ٹالتا ہے، اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو۔ اب یہاں بات یہ ہے کہ طلبہ و طالبات صرف دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور واپس اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور باقی ضروریات ان کے اہل خانہ کرتے ہیں تو اس مدرسہ کو صدقہ یا یا زکاة کی رقم لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو اس کی صورت حال بتائیں کہ کس طرح جائز ہے؟ اور اگر ناجائز ہے تو بھی اس کی صورت حال بتائیں کہ کس طرح ناجائز ہے؟
نمبر۲: مدرسہ نے جو صندوق چندہ کے لئے طلبہ و طالبات کو دیئے ہیں، وہ مہینے میں ایک بار جمع ہوتے ہیں اور اس میں جمع رقم مدرسہ میں جمع ہوتی ہے ، اس لیے طلبہ و طالبات اپنی رقم زیادہ رہنا چاہئے، اس کے لیے اپنے اہل خانہ کی طرف سے ملنے والی جیب خرچی کو بھی اس صندوق میں ڈال دیتے ہیں، تو کیا یہ صورت حال ٹھیک ہے ؟ اس کا بھی جواب دیجئے۔
نمبر ۳: اس مدرسہ کی داخلہ فیس ۰۰۱ روپے ہے اور ہفتہ واری فیس ۰۱ روپے ہے، اس کے باوجود اس طرح سے رقم وصول کرنا کیسا ہے ؟ جزاکم اللہ خیرا
جواب # 155096
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 37-23/N=1/1439
(۱): جب سوال میں مذکور مکتب /مدرسہ غیر اقامتی ہے،طلبہ وطالبات کچھ وقت کے لیے مدرسہ میں پڑھنے آتے ہیں اور اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں، مکتب/ مدرسہ میں ان کے لیے قیام وطعام وغیرہ کا نظم نہیں ہے، یعنی: مکتب/ مدرسہ میں زکوة، فطرہ اور دیگر صدقات واجبہ کا کوئی مصرف نہیں ہے تو ایسے مکتب/مدرسہ والوں کا لوگوں سے زکو ة، فطرہ وغیرہ وصول نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی لوگوں کو ایسے مکتب/ مدرسہ میں زکوة، فطرہ وغیرہ دینا چاہئے۔
(۲): صندوق کی شکل میں طلبہ وطالبات کے اہل خانہ ماہانہ صندوق کی شکل میں مکتب/ مدرسہ میں جو چندہ دیتے ہیں، وہ عطیہ وامداد کا چندہ ہے، پس اگر ذمہ داران مکتب/ مدرسہ طلبہ وطالبات کے سرپرستان کو اس صندوق پر مجبور نہیں کرتے، وہ محض اپنی مرضی وخوشی سے صندوق کی شکل میں چندہ دیتے ہیں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں، اور اگر ذمہ داران مکتب/ مدرسہ مجبور کرتے ہیں تو یہ جبری چندہ شرعاً درست نہ ہوگا۔
(۳): داخلہ صرف ایک بار ہوتا ہے اور ماہانہ ۴۰/ روپے بہت زیادہ نہیں ہیں؛ اس لیے اگر ذمہ داران مکتب/ مدرسہ اساتذہ کی تنخواہوں اور مکتب/ مدرسہ کے دیگر ضروری اخراجات کے لئے لوگوں کو کسی جبر کے بغیر چندہ کی ترغیب دیتے ہیں تو اس میں شرعاً کچھ حرج نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.....
مکاتب میں بچے کی فیس کی ادائیگی کے لیے بچوں کے غریب والدین کو مالک بناکر زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے،اور اگر بچہ بالغ یا سمجھ دار ہے اور وہ مستحق زکوۃ بھی ہے تو اس کو بھی مالک بنا کر اس پیسوں سے فیس کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment