چاند رات: لیلة الجائزہ (انعام کی رات)
احادیث ِمبارکہ میں اس رات کو ”لیلة الجائزہ“ (انعام کی رات) کا نام دیا گیا ہے،
چوں کہ اس رات میں حق تعالی شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کو انعام دیا جاتا ہے، اس لئے اس رات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے، پورا مہینہ اللہ کے بندے اللہ کو راضی کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں، ایک عجیب تبدیلی کااحساس ہر بندہ محسوس کرتا ہے، عبادات میں ترقی ہوجاتی ہے۔ نماز، تلاوت کلام ِپاک، ذکر واذکار، رب عزوجل سے مناجات، الغرض ہر ہر بندہ اپنے رب کی بندگی میں آگے سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں لگا ہوتا ہے، یہ تو عام لوگوں کا حال ہوتا ہے، خواص کا تو پوچھنا ہی کیا! ان کے ہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ ایک الگ ہی منظرپیش کررہا ہوتا ہے، دنیاوی معاملات و مصروفیات کو تو گویا بالکلیہ ہی خیر باد کہہ دیا جاتا ہے اور دن، رات رب عزوجل کے تعلق وخوش نودی کے حصول کے لئے کوششوں میں ایک کر دئے جاتے ہیں۔
ایسے میں جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو پھر پہلی رات سے ہی پورے ماہ کی محنت کے بدلے ملنے والے انعامات کا اعلان شروع ہوجاتا ہے،
مذکورہ تفصیل کے بعد جب اپنے اوپر اور اردگرد کے ماحول میں نظر ڈالتے ہیں تو پھر عام لوگ تو درکنار کچھ خواص قسم کے افراد بھی رمَضان کے تھکے ہارے اس رات بے فکر میٹھی نیند سوتے نظر پڑتے ہیں، حالانکہ یہ رات بھی بہت زیادہ خصوصیت کی حامل ہے۔
عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی کئی روایات سند کے اعتبار سے اگرچہ کچھ کمزور ہیں،
لیکن ایک تو فضائل کے معاملہ میں ضعیف روایات قابلِ قبول ہوتی ہیں (بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو)
دوسرے ان روایات کے مختلف سندوں کے ساتھ مروی ہونے کی وجہ سے ضعف کسی درجہ میں دور بھی ہوجاتا ہے،
لہٰذا اس موقع پر روایات کی سندوں کے ضعف کو بنیاد بناکر عیدین کی راتوں کی فضیلت کا یکسر انکار کردینا جمہور کے موٴقف کے خلاف ہے،
جیسا کہ صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں
اور بعض دیگر محدثین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
”اتفقوا علی استحباب إحیاء لیلتي العیدین وغیر ذلک“․
(شرح النووي علی صحیح مسلم،کتاب الاعتکاف، باب الاجتھاد في العشر الأواخر من شھر رمَضان: 1/372، قدیمي)
اور اسی طرح اپنی کتاب ”الأذکار“ میں لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ ینبغي لمن بلغہ شيء في فضائل الأعمال أن یعمل بہ، ولو مرة واحدة، لیکون من أھلہ، ولا ینبغي لہ أن یترکہ مطلقاً، بل یأتي بما تیسر منہ، لقول النبي صلی الله علیہ وسلم فيالحدیث المتفق علی صحتہ ((إذا أمرتکم بشيء فأتوا منہ ما استطعتم))․ (الأذکار للنووي، المشروعة في العیدین، ص:8، دارالبیان، دِمَشق)․
نیز ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ یستحب إحیاء لیلتي العیدین بذکر اللہ تعالیٰ والصلاة و غیرھما من الطاعات، للحدیث الوارد في ذلک: ((من أحیا لیلتي العید لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب))․․․․․․وہو حدیث ضعیف رویناہ من روایة أبي أمامة مرفوعاً وموقوفاً، وکلاھما ضعیف، لکن أحادیث الفضائل یتسامح فیھا کما قدمناہ في أول الکتاب، واختلف العلماء فيالقدر الذي یحصل بہ الإحیاء، فالأظھر أنہ لایحصل إلا بمعظم اللیل وقیل یحصل بساعة“․ (الأذکار للنووي،المشروعة في العیدین،ص:224، دارالبیان، دِمَشق)․
چناں چہ بہت سی کتب ِاحادیث مثلاً:
ابن ماجہ، الترغیب والترہیب، شعب الإیمان للبیہقی، الجامع الصغیر، کنزالعمال، مصنف عبد الرزاق، سنن الکبری للبیہقی وغیرہ میں مذکور ہے:
”من قام لیلتي العیدین محتسباً لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب“․
(السنن الکبری للبیہقي،باب عبادة لیلة العیدین،رقم :6518، 3/319، مجلس دائرة المعارف)․
ترجمہ: جس شخص نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے زندہ رکھا (عبادت میں مشغول اور گناہ سے بچارہا) تو اس کا دل اس (قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک) دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل (خوف وہراس اور دہشت و گھبراہٹ کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔
اتنی بڑی فضیلت اوراس سے ہماری غفلت!
ڈر ہے کہ کہیں ہماری اس ناشکری کا وبال ہمیں اس منعم کے عتاب میں ہی نہ مبتلا کردے۔
عید الفطر:
عید الفطر مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ خوشی کا دن ہے، اس خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس دن مسلمان اللہ جل شانہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم سے اپنے ذمہ عائد ایک بہت بڑے فریضے کی تکمیل کر چکے ہوتے ہیں، پورا مہینہ دن کو روزہ اور شب میں تراویح کی ادائیگی اور اس میں کلامِ الہی کے پڑھنے اور اس کے سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
اس محنت کا بدلہ یا مزدوری
اس عید الفطر کے دن دیا جاتا ہے،
اسی لیے اس دن کو آسمانوں میں
”یوم الجائزة“
(انعام کا دن)
اور اس کی رات کو ”لیلة الجائزة“ (انعام کی رات) کہہ کر پکارا جاتا ہے،
جیسا کہ آگے حدیث شریف میں آرہا ہے،
الغرض عید کے دن
اور اس کی رات کی
اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے،
جس سے اس دن اور رات میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو
(آسمانوں میں) اس کا نام
”لیلة الجائزة“ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو
اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں) کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جس کو جن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ! اُس ربِ کریم کی (بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں:
کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں کہ:
اے ہمارے معبود اور مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کردی جائے،
تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إني قد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“
فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔
اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد فرماتے ہیں:
”یا عبادي!سلُوني، فوعزّتي وجلالي لا تسئَلونِي الیومَ شیئاً في جَمْعِکم لِاٰخِرَتِکم إلا أعطیتُکم، ولا لِدُنیاکم إلا نَظرتُ لکم، فوَعِزّتِيْ، لأستُرنَّ علیکم عَثَراتِکُم ما راقَبتُموني، وعزّتي وجلالي، لَا أُخْزیکم ولا أفضَحُکم بین أصحاب الحدود، وانْصَرِفُوا مَغْفُوْراً لکم، قد أرضَیتموني ورضیتُ عنکم، فتَفرَحُ الملائکةُ وتَستبشِرُ بما یُعطِي اللهُ عزَّوجلّ ھٰذہ الأمةَ، إذا أفطروا مِن شھرِ رمَضَان“․
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم!
آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا
اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے
اس میں تمہاری مصلحت پر غور کروں گا،
میری عزت کی قسم!
جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا
(اور ان کو چُھپاتا رہوں گا)۔
میری عزت کی قسم!
میرے جلال کی قسم!
میں تمہیں مجرموں(اور کافروں) کے سامنے رُسوا نہیں کروں گا،
بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاوٴ،
تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا،
پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر،
جو اس امت کوافطار کے دن ملتا ہے،
خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔
(اللھم اجعلنا منھم،آمین)․
لہٰذا! اللہ رب العزت کی (عطایا کی) طرف دیکھتے ہوئے
ہمیں بھی چاہیے کہ اس دن کو بھی اور اس بعد کے ایام کو بھی اس کی منشا کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں کہ یہی اس کی عطایا کی قدردانی ہے،
احادیث ِمبارکہ میں اس رات کو ”لیلة الجائزہ“ (انعام کی رات) کا نام دیا گیا ہے،
چوں کہ اس رات میں حق تعالی شانہ کی طرف سے اپنے بندوں کو انعام دیا جاتا ہے، اس لئے اس رات کا خاص طور پر خیال رکھنا ضروری ہے، پورا مہینہ اللہ کے بندے اللہ کو راضی کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگادیتے ہیں، ایک عجیب تبدیلی کااحساس ہر بندہ محسوس کرتا ہے، عبادات میں ترقی ہوجاتی ہے۔ نماز، تلاوت کلام ِپاک، ذکر واذکار، رب عزوجل سے مناجات، الغرض ہر ہر بندہ اپنے رب کی بندگی میں آگے سے آگے بڑھنے کی تگ ودو میں لگا ہوتا ہے، یہ تو عام لوگوں کا حال ہوتا ہے، خواص کا تو پوچھنا ہی کیا! ان کے ہاں تو رمضان المبارک کا مہینہ ایک الگ ہی منظرپیش کررہا ہوتا ہے، دنیاوی معاملات و مصروفیات کو تو گویا بالکلیہ ہی خیر باد کہہ دیا جاتا ہے اور دن، رات رب عزوجل کے تعلق وخوش نودی کے حصول کے لئے کوششوں میں ایک کر دئے جاتے ہیں۔
ایسے میں جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے تو پھر پہلی رات سے ہی پورے ماہ کی محنت کے بدلے ملنے والے انعامات کا اعلان شروع ہوجاتا ہے،
مذکورہ تفصیل کے بعد جب اپنے اوپر اور اردگرد کے ماحول میں نظر ڈالتے ہیں تو پھر عام لوگ تو درکنار کچھ خواص قسم کے افراد بھی رمَضان کے تھکے ہارے اس رات بے فکر میٹھی نیند سوتے نظر پڑتے ہیں، حالانکہ یہ رات بھی بہت زیادہ خصوصیت کی حامل ہے۔
عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی کئی روایات سند کے اعتبار سے اگرچہ کچھ کمزور ہیں،
لیکن ایک تو فضائل کے معاملہ میں ضعیف روایات قابلِ قبول ہوتی ہیں (بشرطیکہ ضعف شدید نہ ہو)
دوسرے ان روایات کے مختلف سندوں کے ساتھ مروی ہونے کی وجہ سے ضعف کسی درجہ میں دور بھی ہوجاتا ہے،
لہٰذا اس موقع پر روایات کی سندوں کے ضعف کو بنیاد بناکر عیدین کی راتوں کی فضیلت کا یکسر انکار کردینا جمہور کے موٴقف کے خلاف ہے،
جیسا کہ صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں
اور بعض دیگر محدثین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔
”اتفقوا علی استحباب إحیاء لیلتي العیدین وغیر ذلک“․
(شرح النووي علی صحیح مسلم،کتاب الاعتکاف، باب الاجتھاد في العشر الأواخر من شھر رمَضان: 1/372، قدیمي)
اور اسی طرح اپنی کتاب ”الأذکار“ میں لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ ینبغي لمن بلغہ شيء في فضائل الأعمال أن یعمل بہ، ولو مرة واحدة، لیکون من أھلہ، ولا ینبغي لہ أن یترکہ مطلقاً، بل یأتي بما تیسر منہ، لقول النبي صلی الله علیہ وسلم فيالحدیث المتفق علی صحتہ ((إذا أمرتکم بشيء فأتوا منہ ما استطعتم))․ (الأذکار للنووي، المشروعة في العیدین، ص:8، دارالبیان، دِمَشق)․
نیز ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
”اعلم أنہ یستحب إحیاء لیلتي العیدین بذکر اللہ تعالیٰ والصلاة و غیرھما من الطاعات، للحدیث الوارد في ذلک: ((من أحیا لیلتي العید لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب))․․․․․․وہو حدیث ضعیف رویناہ من روایة أبي أمامة مرفوعاً وموقوفاً، وکلاھما ضعیف، لکن أحادیث الفضائل یتسامح فیھا کما قدمناہ في أول الکتاب، واختلف العلماء فيالقدر الذي یحصل بہ الإحیاء، فالأظھر أنہ لایحصل إلا بمعظم اللیل وقیل یحصل بساعة“․ (الأذکار للنووي،المشروعة في العیدین،ص:224، دارالبیان، دِمَشق)․
چناں چہ بہت سی کتب ِاحادیث مثلاً:
ابن ماجہ، الترغیب والترہیب، شعب الإیمان للبیہقی، الجامع الصغیر، کنزالعمال، مصنف عبد الرزاق، سنن الکبری للبیہقی وغیرہ میں مذکور ہے:
”من قام لیلتي العیدین محتسباً لم یمت قلبہ یوم تموت القلوب“․
(السنن الکبری للبیہقي،باب عبادة لیلة العیدین،رقم :6518، 3/319، مجلس دائرة المعارف)․
ترجمہ: جس شخص نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی) کی راتوں کو ثواب کی اُمید رکھتے ہوئے زندہ رکھا (عبادت میں مشغول اور گناہ سے بچارہا) تو اس کا دل اس (قیامت کے ہولناک اور دہشت ناک) دن نہ مرے گا، جس دن لوگوں کے دل (خوف وہراس اور دہشت و گھبراہٹ کی وجہ سے) مردہ ہو جائیں گے۔
اتنی بڑی فضیلت اوراس سے ہماری غفلت!
ڈر ہے کہ کہیں ہماری اس ناشکری کا وبال ہمیں اس منعم کے عتاب میں ہی نہ مبتلا کردے۔
عید الفطر:
عید الفطر مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ خوشی کا دن ہے، اس خوشی کی وجہ یہ ہے کہ اس دن مسلمان اللہ جل شانہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم سے اپنے ذمہ عائد ایک بہت بڑے فریضے کی تکمیل کر چکے ہوتے ہیں، پورا مہینہ دن کو روزہ اور شب میں تراویح کی ادائیگی اور اس میں کلامِ الہی کے پڑھنے اور اس کے سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
اس محنت کا بدلہ یا مزدوری
اس عید الفطر کے دن دیا جاتا ہے،
اسی لیے اس دن کو آسمانوں میں
”یوم الجائزة“
(انعام کا دن)
اور اس کی رات کو ”لیلة الجائزة“ (انعام کی رات) کہہ کر پکارا جاتا ہے،
جیسا کہ آگے حدیث شریف میں آرہا ہے،
الغرض عید کے دن
اور اس کی رات کی
اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑی فضیلت اور اہمیت ہے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ایک لمبی حدیث نقل کی ہے، جس کے کچھ حصے کا ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتاہے،
جس سے اس دن اور رات میں اللہ تعالی کی طرف سے اس کے بندوں کے ساتھ ہونے والے معاملے کا اندازہ ہو سکتا ہے:
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو
(آسمانوں میں) اس کا نام
”لیلة الجائزة“ (انعام کی رات) سے لیا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو
اللہ رب العزت فرشتوں کو تمام شہروں کی طرف بھیجتے ہیں، وہ زمین پر اتر کر تمام گلیوں (راستوں) کے سروں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جس کو جن و انس کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پُکارتے ہیں کہ اے امتِ محمدیہ! اُس ربِ کریم کی (بارگاہ کی) طرف چلو، جو بہت زیادہ عطا کرنے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالی شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں:
کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟
وہ عرض کرتے ہیں کہ:
اے ہمارے معبود اور مالک! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کو اس کی مزدوری پوری پوری ادا کردی جائے،
تو اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
”فإني أشھدکم یا ملائکتي! إني قد جعلتُ ثوابھم من صیامھم شھر رمَضان وقیامھم رضائي ومغفرتي“
فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطا کردی۔
اس کے بعد اللہ تعالی اپنے بندوں سے خطاب فرما کر ارشاد فرماتے ہیں:
”یا عبادي!سلُوني، فوعزّتي وجلالي لا تسئَلونِي الیومَ شیئاً في جَمْعِکم لِاٰخِرَتِکم إلا أعطیتُکم، ولا لِدُنیاکم إلا نَظرتُ لکم، فوَعِزّتِيْ، لأستُرنَّ علیکم عَثَراتِکُم ما راقَبتُموني، وعزّتي وجلالي، لَا أُخْزیکم ولا أفضَحُکم بین أصحاب الحدود، وانْصَرِفُوا مَغْفُوْراً لکم، قد أرضَیتموني ورضیتُ عنکم، فتَفرَحُ الملائکةُ وتَستبشِرُ بما یُعطِي اللهُ عزَّوجلّ ھٰذہ الأمةَ، إذا أفطروا مِن شھرِ رمَضَان“․
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت کی قسم! میرے جلال کی قسم!
آج کے دن اپنے اس اجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے عطا کروں گا
اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے
اس میں تمہاری مصلحت پر غور کروں گا،
میری عزت کی قسم!
جب تک تم میرا خیال رکھو گے میں تمہاری لغزشوں کی ستاری کرتا رہوں گا
(اور ان کو چُھپاتا رہوں گا)۔
میری عزت کی قسم!
میرے جلال کی قسم!
میں تمہیں مجرموں(اور کافروں) کے سامنے رُسوا نہیں کروں گا،
بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کی طرف لوٹ جاوٴ،
تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا،
پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر،
جو اس امت کوافطار کے دن ملتا ہے،
خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔
(اللھم اجعلنا منھم،آمین)․
لہٰذا! اللہ رب العزت کی (عطایا کی) طرف دیکھتے ہوئے
ہمیں بھی چاہیے کہ اس دن کو بھی اور اس بعد کے ایام کو بھی اس کی منشا کے مطابق گذارنے کی کوشش کریں کہ یہی اس کی عطایا کی قدردانی ہے،
No comments:
Post a Comment