Saturday, 30 June 2018

صدقۂ نافلہ اور صدقۂ واجبہ

صدقۂ نافلہ اور صدقۂ واجبہ
مسئلہ (۹۹): ثواب کی نیت سے راہِ خدا میں کوئی چیز خرچ کرنے کو صدقہ اور خیرات کہا جاتا ہے، پھر صدقہ کی دو قسمیں ہیں:
(۱) صدقۂ نافلہ: اس میں دی جانے والی چیز میں سے خود صدقہ دینے والا ، اس کے گھر والے، مالدار اور غریب سب ہی کھاسکتے ہیں۔
(۲) صدقۂ واجبہ: جیسے نذر، منت، صدقۂ فطر، فوت شدہ نماز وروزوں کے فدیہ کی رقم وغیرہ، اس کا مصرف اور حق دار صرف فقیر اور مسکین ہی ہیں، اسے خود صدقہ کرنے والا، اس کے گھر والے اور مالدار لوگ استعمال نہیں کرسکتے۔
ما في ’’بدائع الصنائع‘‘ : وقول النبي ﷺ ’’لا تحل الصدقۃ لغني‘‘ ولأن الصدقۃ مال تمکن فیہ الخبث لکونہ غسالۃ الناس لحصول الطہارۃ لہم بہ من الذنوب، ولا یجوز الانتفاع بالخبث إلا عند الحاجۃ، والحاجۃ للفقیر لا لغني، وأما صدقۃ التطوع فتجوز صرفہا إلی الغني، لأنہا تجري مجری الہبۃ۔ (۲/۴۷۶، کتاب الزکاۃ، مصارف الزکاۃ)
ما في ’’البحر الرائق‘‘ : وقید بالزکاۃ لأن النفل یجوز للغني کما للہاشمي، وأما بقیۃ الصدقات المفروضۃ والواجبۃ کالعشر والکفارات والنذور وصدقۃ الفطر فلا یجوز ==صرفہا للغني لعموم قولہ علیہ السلام ’’لا تحل الصدقۃ لغني‘‘ خرج النفل منہا، لأن الصدقۃ علی الغني ہبۃ ۔ کذا في البدائع ۔ (۲/۴۲۷، کتاب الزکاۃ، باب المصرف)
ما في ’’الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ : الأصل أن الصدقۃ تعطی للفقراء والمحتاجین ، وہذا ہو الأفضل کما صرح بہ الفقراء ، وذلک لقولہ تعالی : {او مسکینًا ذا متربۃ} واتفقوا علی أنہا تحل للغني، لأن صدقۃ التطوع کالہبۃ فتصح للغني والفقیر، قال السرخسي : ثم التصدق علی الغني یکون قربۃ یستحق بہا الثواب ۔
(۲۶/۳۳۲ ، صدقۃ ، التصدق علی الفقراء والأغنیاء)
ما في ’’التنویر مع الدر والرد‘‘ : (ویجوز أکلہ من ہدي التطوع والمتعۃ والقران فقط) ولو أکل من غیرہا ضمن ما أکل ۔ تنویر مع الدر ۔ وفي الشامیۃ: قولہ: (ولو أکل من غیرہا) أي غیر ہذہ الثلاثۃ من بقیۃ الہدایا ، کدماء الکفارات کلہا والنذور وہدي الإحصار والتطوع الذي لم یبلغ الحرم ، وکذا لو أطعم غنیًا أفادہ في البحر ۔ (۴/۳۹ ، کتاب الحج ، باب الہدي ، بیروت) (فتاویٰ جامعہ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۱۶۸۱۵)
ما في ’’فتح القدیر‘‘ : وجملۃ الکلام فیہ أن الدماء نوعان: ما یجوز لصاحبہ الأکل منہ وہو دم المتعۃ والقران والأضحیۃ وہدي التطوع إذا بلغ محلہ ، وما لا یجوز وہو دم النذور والکفارات والإحصار ۔ (۳/۱۵۰، کتاب الحج ، باب الہدي)
 

..............
سوال # 15621
مرحوم کے ثواب کے لیے جو رقم دی جاتی ہے وہ صدقہ ہوگا یا عطیہ کہلائے گا، نیز اس رقم کو مسجد میں دینا کیسا ہے؟
Published on: Aug 25, 2009 
جواب # 15621
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1392=1392/1430/م
مرحوم کے روزہ، نماز کے فدیہ کے طور پر جو رقم دی جاتی ہے، اس کو صدقہ واجبہ کہتے ہیں، اس کومسجد میں دینا درست نہیں، اور جو رقم وارث اپنی ملکیت سے محض اپنے مرحوم کے ثواب کے لیے دیتا ہے اس کو صدقہ نافلہ یا عطیہ دونوں کہہ سکتے ہیں، اس کو مسجد میں دینا درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment