فقہی سمینار: آج کا سوال نمبر 208: شش عید: ۶ شوال کے روزے
سوال: شش عید (۶ شوال کے روزے) کے متعلق کیا حکم ہے؟
اس کی کیا حیثیت ہے؟ کیا حدیث پاک سے اس کا ثبوت ہے؟
کیا اس میں کوئی کراہت کا قول منقول ہے؟
نیز کیا یہ روزے ایک ساتھ لگاتار رکھنا ہے یا متفرق طور پر؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں
الجواب وباللہ التوفيق:
حامدا ومصلیا ومسلما
عید کے بعد ماہ شوال میں روزہ رکھنے کے متعلق ایک مفصل مضمون پڑوس کے معتبر مفتی مفتی عبدالباقی صاحب نے تحریر فرمایا ہے جس سے اس متعلق احادیث اور ائمہ اربعہ کے مسالک واضح ہوجاتے ہیں اولا اسی کو نقل کیا جاتا ہے۔
حامدا ومصلیا ومسلما
عید کے بعد ماہ شوال میں روزہ رکھنے کے متعلق ایک مفصل مضمون پڑوس کے معتبر مفتی مفتی عبدالباقی صاحب نے تحریر فرمایا ہے جس سے اس متعلق احادیث اور ائمہ اربعہ کے مسالک واضح ہوجاتے ہیں اولا اسی کو نقل کیا جاتا ہے۔
▪ شوال کے چھ روزے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو مختلف مواقع پر مختلف اعمال کرنے کی ترغیب دی اور ان اعمال کی فضیلت بھی بیان فرمائی.
ان ہی اعمال میں سے شوال کے چھ روزے بھی ہیں جن کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے بعد یہ چھ روزے رکھ لے گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھ لئے.
ان ہی اعمال میں سے شوال کے چھ روزے بھی ہیں جن کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے بعد یہ چھ روزے رکھ لے گویا اس نے پورے سال کے روزے رکھ لئے.
■ صحیح مسلم شریف کی روایت:
روایت نمبر 1: مَنْ صامَ رمضانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ ستًّا مِنْ شوَّالٍ كانَ كصيامِ الدَّهْرِ.
- الراوي: أبو أيوب الأنصاري.
- المحدث: مسلم .
- المصدر: صحيح مسلم.
- الصفحة أو الرقم: 1164
- خلاصة حکم المحدث: صحيح
- الراوي: أبو أيوب الأنصاري.
- المحدث: مسلم .
- المصدر: صحيح مسلم.
- الصفحة أو الرقم: 1164
- خلاصة حکم المحدث: صحيح
● ہر روزہ دس دن کے روزوں کے برابر ہے
روایت نمبر 2: من صامَ رمضانَ وأتبعَهُ ستًّا من شوَّالٍ فذلكَ صيامُ الدَّهرِ قالَ قلتُ لكلِّ يومٍ عشرٌ قالَ نعم.
- الراوي: أبو أيوب الأنصاري.
- المحدث: الهيثمي.
- المصدر: مجمع الزوائد.
- الصفحة أو الرقم: 3/187
- خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح.
- الراوي: أبو أيوب الأنصاري.
- المحدث: الهيثمي.
- المصدر: مجمع الزوائد.
- الصفحة أو الرقم: 3/187
- خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح.
● گویا رمضان کے تیس روزے تین سو دنوں کے برابر اور شوال کے چھ روزے ساٹھ دنوں کے برابر ہوگئے.
☆ یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مختلف صحابہ کرام سے منقول ہے لیکن سب سے قوی سند ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت کی ہے.
وحديث أبي أيوب رضي الله عنه الذي رواه الإمام مسلم في صحيحه هو أقوى هذه الأحاديث؛ وذلك لأن مسلماً رواه من ثلاثة طرق نظيفة؛ جميعها تدور على سعد ابن سعيد.
○ والرواية الأولى لم تسلم طرقها من الكلام على بعض رجال إسنادها، لكن بعضها يحمل بعضاً، إذ ليس في رجال إسنادها من هو كذاب أو متهم بكذب، وعلى طريقة الإمام الترمذي في تحسين الأحاديث فإنها حسنة لغيرها
○ أما الرواية الثانية فإسنادها صحيح، وبخاصة من طريق النسائي والدارمي، وطريق ابن خزيمة يلتقي معهما في يحيى بن حسان.
■ روایت نمبر ٣:
¤ حديث جَابِر بْنَ عَبْدِاللَّهِ الأَنْصَارِي: أنه سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَسِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ السَّنَةَ كُلَّهَا».
■ روایت نمبر ٤:
¤ حديث أبي هريرة رضي الله عنه؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من صام رمضان وأتبعه بست من شوال فكأنما صام الدهر كله".
وفي رواية أخرى: "من صام ستة أيام بعد الفطر متتابعة فكأنما صام السنة كلها".
وفي رواية أخرى: "من صام ستة أيام بعد الفطر متتابعة فكأنما صام السنة كلها".
○ أما الرواية الأولى فذكرها الهيثمي في مجمع الزوائد، وقال: رواه البزار، وله طرق رجال بعضها رجال الثقات
■ روایت نمبر ٥:
¤ حديث ابن عباس وجابر رضي الله عنهم أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال صام السنة كلها".
■ روایت نمبر ٦:
¤ حديث ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه".
¤ حديث ابن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال خرج من ذنوبه كيوم ولدته أمه".
□ قلت: هذا الحديث منكر؛ لأن مسلمة بن علي: متروك ، كما أن متنه مخالف لجميع الروايات الأخرى.
● یہ روایات چھ صحابہ کرام سے مروی ہیں
ان روایات کا متن اتنا مشھور ہے کہ بعض محدثین نے ان کو متواتر روایات میں شمار کیا ہے.
○ كما أن متن الحديث مروي من طرق كثيرة من غير طريق سعد بن سعيد، وقد بلغت هذه الطرق من الكثرة حداً جعل بعض المصنفين يُدرجون هذا الحديث في الأحاديث المتواترة، فأورده الكتاني في كتابه: "نظم المتناثر من الحديث المتواتر"، وذَكَرَ أن السيوطي أورده في كتابه: "الأزهار المتناثرة في الأحاديث المتواترة من طريق ثمانية أنفس من الصحابة هم: أبو أيوب الأنصاري، وجابر بن عبد الله، وثوبان مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابن عباس وابن عمر، والبراء بن عازب، وغنام، وعائشة رضي الله عنهم جميعاً، كلهم بألفاظ متقاربة .
■ اس روایت کو "صحیح" کا درجہ دینے والے محدثین کرام:
كما أن ثلَّة من العلماء قد صححوا هذا الحديث قديماً وحديثا منهم: الترمذي، وابن حبان، والدار قطني، والنووي، والهيثمي، والقرطبي، وابن القيم، والمباركفوری، والخطيب التبريزي، ومحمد بن مفلح المقدسي
ومن المُحدَثين: الشيخ شعيب الأرناؤوط[131].
ومن المُحدَثين: الشيخ شعيب الأرناؤوط[131].
☆ اگرچہ روایت کی سند پر کلام موجود ہے لیکن تعدد طرق اور محدثین کرام کا اس روایت کو قبول کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ یہ روایت قابل قبول اور قابل عمل ہے.
☆ صحابہ کرام، تابعین اور متقدمین اور متاخرین فقھائے کرام کا اس عمل کو جائز اور مستحسن قرار دینا بھی اس کی قبولیت عند الأمة کی علامت ہے.
☆ خلاصة القول: إن حديث أبي أيوب رضي الله عنه حديث صحيح ويصلح للاحتجاج به، وكذلك حديث ثوبان رضي الله عنه، وباقي الأحاديث شواهد تتقوى بهما، باستثناء حديث ابن عمر فإنه ضعيف جداً ومنكر؛ لشدة ضعف رواته ولمخالفة متنه لباقي الروايات جميعاً.
■ جمھور امت کا قول:
استحب صيام ستة من شوال أكثر العلماء، منهم: ابن عباس رضي الله عنهما وطاؤوس والشعبي وميمون بن مهران، وهو قول ابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق.
□ وقال السيد البكري: "ويسن متأكدا صوم ستة أيام من شهر شوال".
● الرأي الأول: الاستحباب. وبه أخذ جمهور الفقهاء من فقهاء المذهب الشافعي [132]، والمذهب الحنبلي [133]، وبعض فقهاء المذهب الحنفي [134]، والمالكي [135
● قال النووي: قال أصحابنا: يستحب صوم ستة أيام من شوال لهذا الحديث.. وهذا لا خلاف فيه عندنا، وبه قال أحمد وداود.
- وقال مالك وأبوحنيفة: يكره صومها.
- وقال مالك وأبوحنيفة: يكره صومها.
■ امام مالک اور امام ابوحنیفه رحمھما اللہ:
فقھائے کرام میں سے ان دو حضرات کی طرف اس قول کی نسبت کی جاتی ہے کہ وہ ان چھ روزوں کو مکروہ یعنی ناپسندیدہ سمجھتے تھے.
● الراي الثاني: الكراهة. وهو قول في المذهب الحنفي [136]، والمالكي [137].
● الرأي الثالث: كراهة صيامها متتابعة فإذا فرقت الأيام فلا بأس في ذلك[138]. وبه قال بعض المالكية [139] وأبويوسف وغيره من الحنفية [140].
■ احناف کی رائے:
امام ابویوسف رحمه اللہ ان روزوں کو مسلسل رکھنے کی کراہت کے قول کو نقل فرماتے ہیں، لیکن اگر یہ روزے متفرق طور پر رکھے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.
امام ابویوسف رحمه اللہ ان روزوں کو مسلسل رکھنے کی کراہت کے قول کو نقل فرماتے ہیں، لیکن اگر یہ روزے متفرق طور پر رکھے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں.
□ وقال ابن نُجيم في البحر الرائق: ومن المكروه... صوم ستة من شوال عند أبي حنيفة متفرقا كان أو متتابعا، وعن أبي يوسف كراهته متتابعا لا متفرقا [161].
○ وعامة مشايخ الأحناف لم يروا بذلك بأسا. (كما في فتح القدير 2/349).
☆ "البحرالرائق" میں مطلقا کراہت کو نقل کیا گیا ہے لیکن "فتح القدیر" میں جمھور احناف کا قول ان روزوں کے استحباب کا نقل کیا ہے اور یہی قول ہمارے زمانے کے تمام فتاوی میں بھی موجود ہے.
■ امام مالک رحمه اللہ کی رائے:
امام مالک کی طرف ان روزوں کی کراہیت کا جو قول منسوب کیا جاتا ہے اس کے متعلق خود مالکیہ نے مختلف تاویلات کی ہیں:
١. ابن عبدالبر رحمه اللہ کا قول:
ابن عبدالبر رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک نے ان روزوں کی ممانعت ایک خاص وجہ سے کی ہے اور وہ یہ کہ ان روزوں کو رمضان کے روزوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے لہذا احتیاطا امام مالک نے ان روزوں کی کراہت کا قول فرمایا.
٢. ابو عبداللہ العبدری رحمه اللہ:
ابو عبداللہ العبدری رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک اس بات سے ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ ان روزوں کو واجب نہ سمجھ لیں اس لئے منع فرماتے تھے ورنہ امام مالک رحمه اللہ خود ان روزوں کو رکھتے تھے.
یہی بات امام قرطبی نے بھی مطرف کی روایت سے نقل کی ہے.
□ وذهب أبو عبدالله العبدري إلى تأويل آخر لقول مالك وهو: أن مالكا إنما كره صومها لسرعة أخذ الناس بقوله فيظن الجاهل وجوبها، وزعم العبدري -وهو من فقهاء المالكية- أنّ مالكا كان يصومها وحضَّ مالكٌ الرشيدَ على صيامها [168].
یہی بات امام قرطبی نے بھی مطرف کی روایت سے نقل کی ہے.
□ وذهب أبو عبدالله العبدري إلى تأويل آخر لقول مالك وهو: أن مالكا إنما كره صومها لسرعة أخذ الناس بقوله فيظن الجاهل وجوبها، وزعم العبدري -وهو من فقهاء المالكية- أنّ مالكا كان يصومها وحضَّ مالكٌ الرشيدَ على صيامها [168].
○ كما أن القرطبي قال: "وروي مطرف عن مالك أنه كان يصومها في خاصة نفسه". [169].
■ اہل خراسان کا عمل:
امام مالک جس بات کا خوف کرتے تھے وہ عمل اہل خراسان نے شروع کیا کہ ان روزوں کا بھی باقاعدہ اسی طرح کا اہتمام کیا جاتا جیسا کہ رمضان کے روزوں میں کیا جاتا تھا.
○ قد وقع ما خافه الإمام مالك في بعض بلاد خراسان إذ كانوا يقومون لسحورها على عادتهم في رمضان (153).
امام مالک جس بات کا خوف کرتے تھے وہ عمل اہل خراسان نے شروع کیا کہ ان روزوں کا بھی باقاعدہ اسی طرح کا اہتمام کیا جاتا جیسا کہ رمضان کے روزوں میں کیا جاتا تھا.
○ قد وقع ما خافه الإمام مالك في بعض بلاد خراسان إذ كانوا يقومون لسحورها على عادتهم في رمضان (153).
■ جمھور مالکیة کا عمل:
جمھور مالکیہ کا عمل ابتداء سے ہی ان روزوں کے رکھنے کا ہے اور ابتدائی دور میں جب جھل زیادہ تھا تو خوف تھا کہ لوگ اسکو فرض کا حصہ نہ سمجھ بیٹھیں لیکن جب علم عام ہوا تو اب کراہت بھی ختم ہوگئی.
○ وللمالكية المتأخرين قيود معروفة لثبوت الكراهة، إذا انتفى قيد منها انتفت الكراهة.
○ وللمالكية المتأخرين قيود معروفة لثبوت الكراهة، إذا انتفى قيد منها انتفت الكراهة.
○ وعمل جمهورهم منذ زمن على المبادرة لصومها اتباعا لظاهر النص، بعد انتشار العلم وذهاب ما خشيه الإمام. والله أعلم.
▪ خلاصہ کلام
شوال کے چھ روزوں کا ثبوت چونکہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے لہذا ان روزوں کے رکھنے پر اسی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے جو روایات میں وارد ہے.
اور جن فقھائے کرام کی طرف اسکی ممانعت کی نسبت تھی وہ عمومی ممانعت نہیں بلکہ ایک خاص نوعیت اور صورت میں تھی، اور چونکہ موجودہ دور میں ان روزوں کو لازم یا رمضان کا حصہ سمجھنے کا خدشہ لاحق ہو ہی نہیں سکتا لہذا اب ایسی ممانعت یا کراہت والی کوئی بات نہیں.
شوال کے چھ روزوں کا ثبوت چونکہ صحیح احادیث میں وارد ہوا ہے لہذا ان روزوں کے رکھنے پر اسی ثواب کی امید کی جاسکتی ہے جو روایات میں وارد ہے.
اور جن فقھائے کرام کی طرف اسکی ممانعت کی نسبت تھی وہ عمومی ممانعت نہیں بلکہ ایک خاص نوعیت اور صورت میں تھی، اور چونکہ موجودہ دور میں ان روزوں کو لازم یا رمضان کا حصہ سمجھنے کا خدشہ لاحق ہو ہی نہیں سکتا لہذا اب ایسی ممانعت یا کراہت والی کوئی بات نہیں.
《واللہ اعلم بالصواب》
《کتبه: عبدالباقی اخونزادہ》
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر کے مضمون سے واضح ہوگیا کہ شوال میں چھ روزے رکھنے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں اور اسی سے امام شافع
اوپر کے مضمون سے واضح ہوگیا کہ شوال میں چھ روزے رکھنے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں اور اسی سے امام شافع
ی و احمد رحمہما اللہ کے نزدیک یہ روزے مستحب ہیں
البتہ امام ابوحنیفہ و مالک رحمہما اللہ کے نزدیک کراھت کا قول منسوب کیا جاتا ہے، اور اسی کو لیتے ہوئے بعض حضرات مطلقا یہ روزوں سے منع کرتے ہیں یہ بات درست نہیں
وہ کراھت مطلقا نہیں بلکہ مقید ہے اور قید نہ ہونے کی صورت میں استحباب ہی کا حکم ہوگا،
مالکیہ کے یہاں بھی اس قول پر فتویٰ نہیں ہے۔۔۔۔ جیسا کہ اوپر آیا ۔
البتہ امام ابوحنیفہ و مالک رحمہما اللہ کے نزدیک کراھت کا قول منسوب کیا جاتا ہے، اور اسی کو لیتے ہوئے بعض حضرات مطلقا یہ روزوں سے منع کرتے ہیں یہ بات درست نہیں
وہ کراھت مطلقا نہیں بلکہ مقید ہے اور قید نہ ہونے کی صورت میں استحباب ہی کا حکم ہوگا،
مالکیہ کے یہاں بھی اس قول پر فتویٰ نہیں ہے۔۔۔۔ جیسا کہ اوپر آیا ۔
نیز اسی کراھت کی بات پر دیوبند کا مفصل فتویٰ ہے ملاحظہ ہو۔
سوال # 68042
مفتیان کرام کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہو
دنیا میں مختلف عقائد و نظریات کے علماء کرام موجود ہیں لیکن مفتی زرولی خان کراچی پاکستان مسلک دیوبند کے دنیا میں سب سے بڑے علماء میں سے ایک ہونے کا دعوا کرتے ہیں، پچھلے تقریباً دو سال سے انکی بذریعہ انٹرنیٹ بہت تشہیر کی جا رہی ہے ، انکی ویب سائٹ ahsanululoom.com اور کچھ بیانات سے تخریج کر چند باتیں اور مسائل اس تحریر میں یکجا کئے ہیں
مفتیان کرام کی خدمت میں یہ مسئلہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہو
دنیا میں مختلف عقائد و نظریات کے علماء کرام موجود ہیں لیکن مفتی زرولی خان کراچی پاکستان مسلک دیوبند کے دنیا میں سب سے بڑے علماء میں سے ایک ہونے کا دعوا کرتے ہیں، پچھلے تقریباً دو سال سے انکی بذریعہ انٹرنیٹ بہت تشہیر کی جا رہی ہے ، انکی ویب سائٹ ahsanululoom.com اور کچھ بیانات سے تخریج کر چند باتیں اور مسائل اس تحریر میں یکجا کئے ہیں
((من جملہ ان مسائل میں سے ایک حضرت کا یہ کہنا کہ)))) (4) شش عید کے روزے رکھنا بدعت ہے
((((اسکا جواب جو دارالعلوم کی جانب سے دیا گیا ہے وہ یہ ہے))))
جواب # 68042
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1304-1304/N=12/1437
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1304-1304/N=12/1437
(4): شش عید کے روزوں کو بدعت کہنا جہالت اورلاعلمی کی دلیل ہے، یہ روزے احناف کے نزدیک صحیح ومفتی بہ قول کے مطابق مستحب وسنت ہیں، البتہ اگر کوئی شخص یہ روزے عید الفطر کا دن ملاکر رکھتا ہے، یعنی: عید الفطر اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھتا ہے تو یہ مکروہ ہے ؛ کیوں کہ عید الفطر کے دن روزہ رکھنا حرام ہے، اس سلسلہ میں چند دلائل اور حوالجات حسب ذیل ہیں:
الف:صحیح مسلم میں حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پوری زندگی روزہ رکھنے کے برابر ہے ، عن أبي أیوب الأنصاري رضي الله عنه أنہ حدثہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من صام رمضان ثم أتبعہ ستاً من شوال کان کصیام الدھر، رواہ مسلم (مشکاة المصابیح، کتاب الصوم ، باب صیام التطوع، ص ۱۷۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، البتہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ ایک سال روزے کے برابر ہے (رسالہ: تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص ۳۹۱ - ۳۹۳، مطبوعہ:دار النوادر، سوریة، لبنان، الکویت)۔
ب: صاحب بدائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے فرمایا: اتباع مکروہ یہ ہے کہ آدمی عید الفطر کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھے، اور اگر کسی نے عید الفطر کے دن افطار کیا ، پھر اس کے بعد چھ دن روزے رکھا تو یہ مکروہ نہیں؛ بلکہ مستحب وسنت ہے۔
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم یوم الفطر ویصوم بعدہ خمسة أیام، فأما إذا أفطر یوم العید ثم صام بعدہ ستة أیام فلیس بمکروہ؛ بل ھو مستحب وسنة (بدائع الصنائع ، کتاب الصوم ۲: ۵۶۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔
ج: صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ نے فرمایا: مرغوب وپسندیدہ روزوں میں شوال کے مسلسل چھ روزے بھی ہیں (رسالہ: تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص ۳۸۶)۔
د: فتاوی عالمگیری میں البحر الرائق کے حوالے سے ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، اور محیط سرخسی کے حوالے سے ہے: صحیح تر قول یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، یعنی: یہ روزے مستحب ہیں؛ کیوں کہ حرج کی نفی قول کراہت کے مقابلہ میں ہے اور ایسی صورت میں حرج نہ ہونے کا مطلب استحباب ہوتا ہے۔
عامة المتأخرین لم یروا بہ - بصوم الستة من شوال- بأساً ھکذا فی البحر الرائق، والأصح أنہ لا بأس بہ کذا فی محیط السرخسي (الفتاوی الھندیة، کتاب الصوم ، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ،۱: ۲۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وکلمة ”لا بأس“ ھنا مستعملة فی المندوب؛ لأنہا لیست مطردة لما ترکہ أولی، بل تستعمل فی المندوب أیضاً إذا کان المحل مما یتوھم فیہ البأس أي: الشدة، خاصة إذا تأید ذلک الأمر بالحدیث النبوي - علی صاحبہ الصلاة والسلام - کذا حققہ الحصکفي وابن عابدین الشامي فی الدر المختار وحاشیتہ رد المحتار (کتاب الطھارة۱: ۲۴۱، کتاب الصلاة، باب العیدین ۳: ۶۵، باب الجنائز في شرح قول الدر: ”ولا بأس برش الماء علیہ“ ۳:۱۴۳ و۶: ۲۵۷ ط مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہا کلمة ”لا جناح“ بل قد استعملت ھذہ في سورة البقرة (رقم الآیہ: ۱۵۸) بمعنی الوجوب کما في رد المحتار لابن عابدین الشامي (۶: ۲۵۷)، وکلمة ”لا حرج“ أیضاً؛ لأنہا بمعناھا۔
ھ: علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے در مختار میں ابن کمال کے حوالے سے وہی مضمون نقل فرمایا ہے، جو اوپر بدائع کے حوالے سے ذکر کیا گیا، یعنی: عید الفطر کا دن چھوڑ کر ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب وسنت ہے، اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے اپنے حاشیہ میں اسے برقرار رکھا؛ بلکہ متعدد کتابوں کے حوالے سے اسے موٴکد فرمایا اور کراہت کے قول کی
الف:صحیح مسلم میں حضرت ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پوری زندگی روزہ رکھنے کے برابر ہے ، عن أبي أیوب الأنصاري رضي الله عنه أنہ حدثہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من صام رمضان ثم أتبعہ ستاً من شوال کان کصیام الدھر، رواہ مسلم (مشکاة المصابیح، کتاب الصوم ، باب صیام التطوع، ص ۱۷۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، البتہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ ایک سال روزے کے برابر ہے (رسالہ: تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص ۳۹۱ - ۳۹۳، مطبوعہ:دار النوادر، سوریة، لبنان، الکویت)۔
ب: صاحب بدائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے فرمایا: اتباع مکروہ یہ ہے کہ آدمی عید الفطر کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھے، اور اگر کسی نے عید الفطر کے دن افطار کیا ، پھر اس کے بعد چھ دن روزے رکھا تو یہ مکروہ نہیں؛ بلکہ مستحب وسنت ہے۔
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم یوم الفطر ویصوم بعدہ خمسة أیام، فأما إذا أفطر یوم العید ثم صام بعدہ ستة أیام فلیس بمکروہ؛ بل ھو مستحب وسنة (بدائع الصنائع ، کتاب الصوم ۲: ۵۶۲، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔
ج: صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی رحمہ اللہ نے فرمایا: مرغوب وپسندیدہ روزوں میں شوال کے مسلسل چھ روزے بھی ہیں (رسالہ: تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص ۳۸۶)۔
د: فتاوی عالمگیری میں البحر الرائق کے حوالے سے ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، اور محیط سرخسی کے حوالے سے ہے: صحیح تر قول یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، یعنی: یہ روزے مستحب ہیں؛ کیوں کہ حرج کی نفی قول کراہت کے مقابلہ میں ہے اور ایسی صورت میں حرج نہ ہونے کا مطلب استحباب ہوتا ہے۔
عامة المتأخرین لم یروا بہ - بصوم الستة من شوال- بأساً ھکذا فی البحر الرائق، والأصح أنہ لا بأس بہ کذا فی محیط السرخسي (الفتاوی الھندیة، کتاب الصوم ، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ،۱: ۲۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وکلمة ”لا بأس“ ھنا مستعملة فی المندوب؛ لأنہا لیست مطردة لما ترکہ أولی، بل تستعمل فی المندوب أیضاً إذا کان المحل مما یتوھم فیہ البأس أي: الشدة، خاصة إذا تأید ذلک الأمر بالحدیث النبوي - علی صاحبہ الصلاة والسلام - کذا حققہ الحصکفي وابن عابدین الشامي فی الدر المختار وحاشیتہ رد المحتار (کتاب الطھارة۱: ۲۴۱، کتاب الصلاة، باب العیدین ۳: ۶۵، باب الجنائز في شرح قول الدر: ”ولا بأس برش الماء علیہ“ ۳:۱۴۳ و۶: ۲۵۷ ط مکتبة زکریا دیوبند)، ومثلہا کلمة ”لا جناح“ بل قد استعملت ھذہ في سورة البقرة (رقم الآیہ: ۱۵۸) بمعنی الوجوب کما في رد المحتار لابن عابدین الشامي (۶: ۲۵۷)، وکلمة ”لا حرج“ أیضاً؛ لأنہا بمعناھا۔
ھ: علامہ حصکفی رحمہ اللہ نے در مختار میں ابن کمال کے حوالے سے وہی مضمون نقل فرمایا ہے، جو اوپر بدائع کے حوالے سے ذکر کیا گیا، یعنی: عید الفطر کا دن چھوڑ کر ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب وسنت ہے، اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے اپنے حاشیہ میں اسے برقرار رکھا؛ بلکہ متعدد کتابوں کے حوالے سے اسے موٴکد فرمایا اور کراہت کے قول کی
تردید فرمائی اور آخر میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ (:تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال) کا حوالہ دیا جس میں علامہ قاسم بن قطلوبغا نے کراہت کے قول کی تردید فرماکر کتب مذہب سے استحباب وسنیت کا قول موٴکد فرمایا ہے، ذیل میں صرف در مختار کی عبارت پیش کی جاتی ہے:
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم الفطر و خمسة بعدہ، فلو أفطر لم یکرہ؛ بل یستحب ویسن، ابن کمال (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یکرہ فیھا، ۳: ۴۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
و: اسی طرح علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے بھی سنن ترمذی کی مشہور شرح: معارف السنن (کتاب الصوم، باب ما جاء في صیام ستة من شوال) میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ کی روشنی میں اسی قول کو موٴکد فرمایا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی ہے۔
ز: علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اعلاء السنن (۹: ۱۷۷، مطبوعہ: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراچی) میں حضرت ابی ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت پر استحباب کا باب قائم فرمایا ہے، یعنی: باب استحباب صیام ستة من شوال الخ معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔
ح: بہشتی زیورکامل (۳: ۱۴۲) میں ہے:
عید کے چھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھی اور نفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔
درج بالا چند دلائل اور حوالجات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ شوال کے چھ روزے احناف کے نزدیک بلا شبہ مستحب وسنت ہیں اور ان کی کراہت یا بدعت کا قول صحیح نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال کہ عید کے متصل رکھنا ہے یا الگ، اور ایک ساتھ یا متفرق
تو ہر طرح سے گنجائش ہے
عید کے دن روزہ منع ہے اسکے بعد فورا رکھے تب بھی حرج نہیں پورے مہینے میں متفرق رکھے تب بھی حرج نہیں،
الحجۃ علی ما قلنا:
والإتباع المکروہ ھو أن یصوم الفطر و خمسة بعدہ، فلو أفطر لم یکرہ؛ بل یستحب ویسن، ابن کمال (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یکرہ فیھا، ۳: ۴۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
و: اسی طرح علامہ محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ نے بھی سنن ترمذی کی مشہور شرح: معارف السنن (کتاب الصوم، باب ما جاء في صیام ستة من شوال) میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ کی روشنی میں اسی قول کو موٴکد فرمایا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی ہے۔
ز: علامہ ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے اعلاء السنن (۹: ۱۷۷، مطبوعہ: إدارة القرآن والعلوم الإسلامیة کراچی) میں حضرت ابی ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت پر استحباب کا باب قائم فرمایا ہے، یعنی: باب استحباب صیام ستة من شوال الخ معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔
ح: بہشتی زیورکامل (۳: ۱۴۲) میں ہے:
عید کے چھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھی اور نفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔
درج بالا چند دلائل اور حوالجات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ شوال کے چھ روزے احناف کے نزدیک بلا شبہ مستحب وسنت ہیں اور ان کی کراہت یا بدعت کا قول صحیح نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سوال کہ عید کے متصل رکھنا ہے یا الگ، اور ایک ساتھ یا متفرق
تو ہر طرح سے گنجائش ہے
عید کے دن روزہ منع ہے اسکے بعد فورا رکھے تب بھی حرج نہیں پورے مہینے میں متفرق رکھے تب بھی حرج نہیں،
الحجۃ علی ما قلنا:
ما في ’’الفقہ الإسلامي وأدلتہ‘‘: صوم ستۃ أیام من شوال ولو متفرقۃ ، ولکن تتابعہا أفضل عقب العبد مبادرۃ إلی العبادۃ، ویحصل لہ ثوابہا۔
(۳/۱۶۴۱، الباب الثالث، الصیام والإعتکاف)
ما في ’’التنویر وشرحہ مع الشامیۃ‘‘ : وندب تفریق صوم الست من شوال ولا یکرہ التتابع علی المختار خلافًا للثاني ۔ (۳/۴۲۲ ، کتاب الصوم ، مطلب في صوم الستۃ من شوال)
ما في ’’کتاب التجنیس والمزید‘‘ : صوم الستۃ بعد الفطر متتابعۃ ، منہم من کرہہ ، والمختار أنہ لا بأس بہ ، لأن الکراہیۃ إنما کانت لأنہ لا یأمن من أن یعد ذلک من رمضان فیکون تشبہا بالنصاری والآن زال ہذا المعنی ۔
(۲/۴۱۲، ۴۱۳، باب ما یستحب من الصوم وما یکرہ منہ)=
(۳/۱۶۴۱، الباب الثالث، الصیام والإعتکاف)
ما في ’’التنویر وشرحہ مع الشامیۃ‘‘ : وندب تفریق صوم الست من شوال ولا یکرہ التتابع علی المختار خلافًا للثاني ۔ (۳/۴۲۲ ، کتاب الصوم ، مطلب في صوم الستۃ من شوال)
ما في ’’کتاب التجنیس والمزید‘‘ : صوم الستۃ بعد الفطر متتابعۃ ، منہم من کرہہ ، والمختار أنہ لا بأس بہ ، لأن الکراہیۃ إنما کانت لأنہ لا یأمن من أن یعد ذلک من رمضان فیکون تشبہا بالنصاری والآن زال ہذا المعنی ۔
(۲/۴۱۲، ۴۱۳، باب ما یستحب من الصوم وما یکرہ منہ)=
فقط۔واللہ سبحانہ اعلم
جمعہ ابراہیم علیانی
جمعہ ابراہیم علیانی
...............................................
فقہ حنفی کا مدلل مجمومہ اس لنک کے ذریعہ شامل ہوجائیں۔ یہ گروپ انڈیا کے لیے مختص ہے۔
العبد محمد محی الدین اورنگ آباد
6 شوال ھ1438
مطابق 30 جون 2017ع بروز جمعہ
No comments:
Post a Comment