احادیث مشہورہ کی تحقیق؛ گٹھڑی والی بڑھیا کا قصہ
ﻗﺼﺔ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﺍﻟﻌﺠﻮﺯ ﻣﻊ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ﷺ
ﺑﻴﻨﻤﺎ ﻛﺎﻧﺖ ﺍﻣﺮﺃﺓ ﻋﺠﻮﺯ ﺗﻘﻒ ﻗﺮﺏ ﺃﻏﺮﺍﺿﻬﺎ ﻋﻠﻰ ﻗﺎﺭﻋﺔ ﺍﻟﻄﺮﻳﻖ ﻓﻲ ﻳﻮﻡ ﺷﺪﻳﺪ ﺍﻟﺤﺮﺍﺭﺓ ﻭﻓﻲ ﻭﻗﺖ ﺍﻟﻈﻬﻴﺮﺓ ﻭﻛﺎﻧﺖ ﺗﻨﺘﻈﺮ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﻣﻦ ﻳﺴﺎﻋﺪﻫﺎ ﻋﻠﻰ ﺣﻤﻞ ﻫﺬﻩ ﺍﻷﻏﺮﺍﺽ ﺍﻟﺘﻲ ﺃﺗﻌﺒﺘﻬﺎ ﻭﻻﺣﻈﺖ ﺃﻥ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻻ ﻳﻠﺘﻔﺘﻮﻥ ﻟﻬﺎ ﻧﻈﺮﺍً ﻷﻧﻬﻢ ﻣﺘﻌﺒﻴﻦ ﻭﻻ ﻳﺮﻳﺪﻭﻥ ﺃﻥ ﻳﺰﻳﺪﻭﺍ ﺗﻌﺒﻬﻢ، ﺇﺫ ﺍﻗﺘﺮﺏ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﺭﺟﻞ ﻭﻃﻠﺐ ﻣﻨﻬﺎ ﺃﻥ ﺗﺮﺷﺪﻩ ﻟﺒﻴﺘﻬﺎ. ﻭﺣﻤﻞ ﻟﻬﺎ ﺍﻷﻏﺮﺍﺽ ﻭﺳﺎﺭ ﻣﻌﻬﺎ، ﻭﻗﺪ ﺳﻌﺪﺕ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﺍﻟﻌﺠﻮﺯ ﻛﺜﻴﺮﺍً ﻣﻦ ﻧﺒﻞ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻭﺧﻠﻘﻪ ،ﻭﺗﺄﻫﺒﻪ ﻟﻠﻤﺴﺎﻋﺪﺓ ﻭﻟﻢ ﺗﻌﺮﻑ ﻛﻴﻒ ﺗﺸﻜﺮﻩ ﻋﻠﻰ ﺻﻨﻴﻌﻪ ﻓﺨﻄﺮ ﻓﻲ ﺑﺎﻟﻬﺎ ﺃﻣﺮ، ﻭﻗﺎﻟﺖ ﻟﻪ: ﺃﻧﺎ ﻟﻴﺲ ﻟﺪﻱ ﻣﺎ ﺃﻋﻄﻴﻚ ﺇﻳﺎﻩ ﺟﺮﺍﺀ ﺻﻨﻴﻌﻚ ﻭﻳﺒﺪﻭ ﻟﻲ ﺃﻧﻚ ﻏﺮﻳب ﻟﻢ ﺃﺭﻩ ، ﻭﻟﻜﻦ ﻳﻤﻜﻨﻨﻲ ﺃﻥ ﺃﻗﺪﻡ ﻟﻚ ﻧﺼﻴﺤﺔ ﺗﻔﻴﺪﻙ ...
ﻭﺗﺎﺑﻌﺖ ﻛﻼﻣﻬﺎ ﺑﻘﻮﻟﻬﺎ: ﻧﺼﻴﺤﺘﻲ ﻟﻚ ﺃﻥ ﺗﺤﺬﺭ ﻣﻦ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﺍﻟﻤﺴﻤﻰ "ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ" ﻓﻬﻮ ﻳﻔﺘﻦ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻭﻳﺴﺤﺮﻫﻢ ﻓﺨﺬ ﺣﺬﺭﻙ ﻣﻨﻪ ﻭﺍﺗﻘﻲ ﺷﺮﻩ ، ﻭﻭﺻﻠﺖ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﺇﻟﻰ ﺣﻴﺚ ﺗﻘﻴﻢ ، ﻭﺃﻧﺰﻝ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﺃﺷﻴﺎﺀﻫﺎ ﻋﻦ ﻋﺎﺗﻘﻪ ﻭﺷﻜﺮﺗﻪ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﻋﻠﻰ ﺻﻨﻴﻌﻪ ﻭﺳﺄﻟﺘﻪ : ﻣﺎ ﺍﺳﻤﻚ؟ ﻗﺎﻝ ﻟﻬﺎ ﻣﺒﺘﺴﻤﺎً : ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ . ﻓﺄﺻﺎﺑﺖ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﺍﻟﺪﻫﺸﺔ .. ﻭﻗﺎﻟﺖ: ﺃﺃﻧﺖ ﻫﻮ؟ ﻗﺎﻝ ﻟﻬﺎ: ﻧﻌﻢ ﺃﻧﺎ ﻫﻮ. ﻓﻘﺎﻟﺖ ﺍﻟﻤﺮﺃﺓ ﺍﻟﻌﺠﻮﺯ: ﺃﺷﻬﺪ ﺃﻥ ﻻ ﺇﻟﻪ ﺇﻻ ﺍﻟﻠﻪ ﻭﺃﻧﻚ ﻳﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ .
ﻫﻜﺬﺍ ﻗﺪﻡ ﺩﻳﻨﻨﺎ ﻟﻠﻨﺎﺱ ﺩﻳﻦ ﺍﻟﺮﺣﻤﺔ ﻭﺍﻟﺮﺃﻓﺔ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺼﻐﺎﺭ ﻭﺍﻟﻜﺒﺎﺭ ﺩﻳﻦ ﺍﻟﺘﺴﺎﻣﺢ ﻣﻊ ﺍﻟﺠﺎﻫﻞ ﻭﻭﻋﻆ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﺑﺎﻟﺘﻲ ﻫﻲ ﺃﺣﺴﻦ، ﻓﺎﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺍﻟﺬﻱ ﺑﻌﺚ ﻓﻴﻨﺎ ﺭﺳﻮﻟﻪ ﻳﻌﻠﻤﻨﺎ ﺍﻟﺨﻠﻖ ﺍﻟﻔﻀﻴﻞ ﻭﺍﻟﺴﻠﻮﻙ ﺍﻟﻨﺒﻴﻞ...
مختصر ترجمہ اردو میں:
مکہ کی ایک بڑھیا تھی، جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اسلام سے تنگ آکر مکہ سے نکل جانے کا فیصلہ کیا ، چنانچہ وہ گٹھڑی سر پہ رکھے ،لاٹھی ٹیکتی راستے پر کسی مددگار کے انتظار میں کھڑی ہوگئی، تھوڑی دیر میں ایک خوبصورت جوان ملتا ہے، پوچھتا ہے اماں جی کہاں جارہی ہیں؟ لائیے میں آپ کی مدد کروں، گٹھڑی مجھے دے دیجئے، آپ جہاں جا رہی ہیں میں آپ کو وہاں تک پہنچا آتا ہوں۔ بڑھیا کہتی ہے: بیٹا! سنا ہے شہر میں ایک جادوگر آیا ہوا ہے جس کا نام محمد (ﷺ) ہے، جو اس سے ملتا ہے یا اس سے بات کرتا ہے وہ اسی کا ہوکر رہ جاتا ہے، میں اسی کے ڈر سے یہ شہر چھوڑکر جارہی ہوں۔ کہیں وہ مجھ پر جادو نہ کردے اور میں اپنے آبائی مذہب اور معبودوں کو چھوڑ نہ بیٹھوں، اس خوب صورت نوجوان نے اس بڑھیا کی گٹھڑی اپنے سر پر اٹھا کر اس کو منزل مقصود تک پہونچا دیا اور سامان سر سے اتار کر واپسی کی اجازت چاہی، تب بڑھیا نے بہت دعائیں دیں اور کہا کہ: چہرے سے تو کسی اعلیٰ خاندان کے لگتے ہو، اور بہت نیک بیٹے ہو، تم نے میری مدد کی ہے، میری نصیحت مانو تم بھی اس جادوگر سے بچ کر رہنا، ارے ہاں میں تمہارا نام تو پوچھنا بھول ہی گئی۔ بیٹا تمہارا کیا نام ہے؟ وہ جوان مسکرا کے کہتا ہے: اماں جی میرا نام ہی محمد (ﷺ) ہے۔۔ آپ کی زبان مبارک یہ یہ کلمہ سن کر وہ بڑھیا مسلمان ہوگئی.
اور اسی واقعہ کو "نظم بنا کر اس طرح پیش کیا گیا ہے:
"سنا ہے ایک ضعیفہ تھی کہ جو مکہ میں رہتی تھی
وہ ان باتوں کو سنتی تھی مگر خاموش رہتی تھی۔۔۔"
أقول (القائل الشيخ عبد الرزاق بتھان): وهذا الحكاية كذب لا وجود لها ولا إسناد، وقد وجدت عددا من الباحثين في الشابكة ينصون على هذا ، وبعضهم يزيد فيها وينقص، وهي كذب مختلقة لا وجود لها ولا إسناد ، ولم يذكرها أحد أبداً، وهي بلا شك من وضع وكذب بعض الجهلة المعاصرين. وقد خاب وخسر من ظن أنه ينصر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالكذب عليه!
هذا وصل اللهم على محمد وعلى آله وصحبه وسلم
.................
کوڑا کرکٹ پھینکنے والی عورت کا قصہ
سوال ۔۔۔ اجیبوا توجروا
واعظین اور خطباء سے بیانات میں سنا گیا کہ " نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک عورت کوڑا کرکٹ پھینکتی تھی، ایک دن اس نے کوڑا نہ پھینکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر تشریف لے گئے اس کے گھر کو صاف کیا ، پانی بھرا وغیرہ وغیرہ .... تو وہ عورت آپ کے حسن اخلاق و کردار دیکھ کر مسلمان ہوگئی۔
اس واقعہ کی تحقیق مطلوب ہے۔۔۔ یہ واقعہ حدیث کی کسی کتاب میں ہے یا صرف سنی سنائی بات ہے؟؟؟
یہ بالکل بے اصل اور من گھڑت روایت ہے، ہمارے علم کے مطابق حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔ یہ قصہ گو حضرات کی گھڑی ہوئی کہانیاں ہیں ۔۔۔
ایسے قصوں کے بیان کرنے سے اور اس کی نسبت نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنے سے بچنا لازمی اور ضروری ہے ۔۔
.............
سوال # 155541
اللہ کے نبی کی سیرت کے تعلق سے اکثر یہ دو واقعات بڑھیا کے سننے ملتے ہیں، ایک وہ بڑھیا جو اللہ کے نبی پر روزانہ کوڑا کرکٹ پھینکا کرتی تھی اور دوسرا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک بڑھیا کا قصہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا سامان اٹھایا اور اس نے آپ علیہ السلام کے بارے میں برابھلا شروع کردیا پھر جب آپ علیہ السلام نے اپنا نام بتایا تو وہ بڑھیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی وجہ سے مسلمان ہوئی ، ان واقعات کی کیا حقیقت ہے؟
Published on: Nov 29, 2017
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:134-136/B=3/1439
یہ دونوں واقعات کسی حدیث میں ہماری نظر سے نہیں گذرے کسی اچھے مورخ کی طرف رجوع فرمائیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
No comments:
Post a Comment