Friday, 22 June 2018

ماہِ شوال کے چھ روزوں میں قضا رمضان کی نیت

ماہِ شوال کے چھ روزوں میں قضا رمضان کی نیت
مسئلہ (۱۰۰): رمضان کے روزے فرض ہیں، اور شوال کے چھ روزے نفل ہیں، احادیث میں ان روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے(۱)، اگر کوئی شخص شوال کے نفل روزوں میں رمضان کے قضا روزوں کی نیت کرتاہے، تو اس صورت میں رمضان کے قضا روزے ادا ہوں گے،نہ کہ نفل(۲)، بہتر یہ ہے کہ رمضان کے قضا روزے علیحدہ رکھے جائیں، تاکہ شوال کے چھ نفل روزوں کی فضیلت حاصل ہوسکے۔
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا:
(۱) ما في ’’الصحیح لمسلم‘‘: عن أبي أیوب الأنصاري رضي اللہ عنہ أنہ حدثہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ’’من صام رمضان ثم أتبعہ ستاًّ من شوال کان کصیام الدہر‘‘ ۔
(۱/۳۶۹، کتاب الصوم، باب استحباب صوم ستۃ أیام من شوال اتباعا لرمضان)
ما في ’’الفقہ الإسلامي وأدلتہ‘‘ : صوم ستۃ أیام من شوال ، ولو متفرقۃ، ولکن تتابعہا أفضل أو نذراً أو غیر ذلک ، فمن صامہا بعد أن صام رمضان ، فکأنہا صام الدہر فرضاً، لما روی أبو أیوب: ’’من صام رمضان ثم أتبعہ ستاً من شوال ، فذلک صیام الدہر‘‘ ۔ وروی ثوبان: صیام شہر بعشرۃ أشہر ، وصیام ستۃ أیام بشہرین فذلک سنۃ ، یعني أن الحسنۃ بعشر أمثالہا ، الشہر بعشرۃ أشہر، والستۃ بستین، فذلک سنۃ کاملۃ۔
(۳/۱۶۴۱، الباب الصیام والاعتکاف ، النوع الرابع، صوم التطوع أو الصوم المندوب)
(۲) ما في ’’الفتاوی الہندیۃ‘‘: وإذا نوی قضاء بعض رمضان والتطوع یقع عن رمضان في قول أبي یوسف رحمہ اللہ تعالی ، وہو روایۃ عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی ، کذا في الذخیرۃ ۔ (۱/۱۹۷ ، کتاب الصوم ، الباب الأول في تعریفہ وتقسیمہ وسببہ ووقتہ وشرطہ)
ما في ’’الفتاوی التاتارخانیۃ‘‘ : ولو کان علیہ قضاء یوم فصام یوماً ونوی بہ قضاء رمضان وصوم التطوع أجزاہ عن رمضان عند أبي یوسف ، وقال محمد : لا یجزي ویکون تطوعاً ۔
(۲/۹۹ ، کتاب الصوم ، الفصل الثالث في النیۃ)
ملفوظات حکیم الامت میں وارد ہے کہ شوال کے چھ روزے مقصود بالذات ہیں:
فرمایا کہ بعض کتب فقہ میں داخل عبادتین کے متعلق بعض متاخرین سے ایک جزئیہ میں غلطی ہو گئی ہے۔ یعنی یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں اگر تحیۃ المسجد کو جداگانہ نہ پڑھے بلکہ سنن یا فرائض کی نیت کرلے تو اس سے تحیۃ المسجد بھی ادا ہوجائے گی اور اس پر قیاس کیا ہے ستہ شوال کو اور کہا ہے کہ اگر قضاء رمضان ان دنوں میں رکھ لے تو ستہ شوال ادا ہو جائیں گے۔ حالانکہ ایسا نہیں۔ اور مابہ الافتراق یہ ہے کہ صورت اولی میں مقصود احترام مسجد ہے اور وہ ہر نماز سے حاصل ہے اور دوسری صورت میں ستہ شوال خود مقصود بالذات ہیں۔ وہ کسی فرض یا واجب کے ضمن میں ادا نہ ہوں گے۔
شش عید کے دنوں میں قضائے روزہ
(ملفوظ 540) ارشاد فرمایا کہ بعض فقہائے متاخرین نے جو شوال کے چھ روزوں کے بارے میں یہ جزئیہ لکھا ہے کہ اگر ان ایام میں قضائے رمضان یا کفارہ یا نزر کا روزہ رکھ لے تو اس کے مضمون میں شش عید کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی ـ سو یہ خلاف تحقیق ہے اور اس مسئلہ کی اصل صاحب مذہب سے کہیں منقول نہیں ـ محض متاخرین نے اس کا قیاس تحیہ الوضوء اور تحیۃ المسجد پر کیا ہے یعنی اگر وضو کر کے فرض پڑھ لے یا دخول مسجد کے بعد فرض پڑھ لے تو تحیۃ المسجد بھی ادا ہو گیا مگر یہ قیاس عند التامل الصادق (پوری طرح غور کرنے کے بعد) ٹھیک نہیں کیونکہ تحیتہ الوضوء اور تحیتہ المسجد کی مشروعیتہ میں حکمت و علت ہےـ بخلاف صیام ایام مذکورہ کے کیونکہ یہاں خود فضیلت ان ایام کے صوم کی الگ مقصود ہے اور فرضیت اور وجوب قضائے رمضان و نذر کفارہ جدا مقصود ہے پس یہ قیاس مع الفارق ہے چناچہ حدیث میں جو وارد ہے کہ رمضان کے بعد ان چھ روزوں کے رکھنے سے (ایسا ہوگیا) گویا تمام سال روزے رکھے تو حدیث ہی میں اس کی وجہ بھی ارشاد ہوئی ہے کہ حق تعالی نے فرمایا کہ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا لہذا رمضان تو برابر دس ماہ کے ہو گیا اور یہ چھ دن برابر ساٹھ دن دو ماہ کے ہو گئے ـ سو جب چھ روزہ رمضان مثلا قضا ہو گئے اور ان کو شوال میں ادا کیا تو رمضان کے روزے تو اب پورے ہوئے دس مہینے کا ثواب اب ملا تو یہ ہی چھ روزے دو ماہ بقیہ کے قائم مقام کیسے ہوجائیں گےـ

No comments:

Post a Comment