پیرانی صاحبہ کا انتقال
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ (1895۔1982) کے صاحبزادہ و جانشین اور مجاز بیعت عصر حاضر کے معروف صاحب ارشاد بزرگ پیر طریقت حضرت مولانا طلحہ صاحب کاندھلوی مد ظلہ (1940) کی اہلیہ محترمہ اور مفسر قرآن حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی مد ظلہ (1922) کی صاحبزادی و محقق عصر مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی مدظلہ (1950) کی ہمشیرہ کا بعمر اسی برس کے قریب 3 شوال مطابق 18 جون انتقال ہوگیا. موصوفہ دارزی عمر کے علاوہ گوناگوں امراض کا سامنا کررہی تھیں ۔۔۔۔ مرحومہ بڑی نیک صالحہ، یتیموں و مساکین کی اعانت و نصرت کرنے والی اور امورخانہ داری میں ماہر تھیں ۔۔بڑی اونچی نسبتوں کی حامل اور با وضع خاتون تھیں ۔۔ادھر چند مہینوں سے طبیعت کافی بگڑی ہوئی تھی علاج و معالجہ بھی جاری تھا. ایک ماہ قبل اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا تھا لیکن چونکہ پیمانہ عمر لبریز ہوگیا تھا اس لئے تمام کوششیں بے سود گئیں اور رب عزیز کا پیام آگیا ۔۔۔۔ان کے انتقال سے سلسلہ صالحات کی ایک اہم کڑی ٹوٹ گئی ۔۔نماز جنازہ بعد نماز مغرب کاندھلہ میں ادا کی گئی ۔۔۔۔۔ پیرانی صاحبہ کا خاتمہ بہت اچھا ہوا. چند دن سے بات چیت بالکل نہیں کرتی تھیں۔ لیکن آخر میں اس زور سے اللہ کا نام لے کر ذکر اللہ کرنا شروع کردیا تھا کہ کمرے میں موجود لوگوں نے سنا اور آخر میں مشین جو لگی ہوئی تھی اسمیں پیں کی آواز آئی، وہ سمجھے کہ مشین میں کوئی خرابی ہوگئی۔ پر دیکھا تو روح کلمہ اللّٰہ کے ساتھ پرواز کرچکی تھی نہ ہچکی نہ کچھ تکلیف۔
غفر اللّٰہ لہا۔
انسان تھیں بشر تھیں ممکن ہے اوک چوک ہوئی ہو لیکن تھیں بڑی نیک پردہ والی خاتون۔ 40 سال سے گھر میں سودا سلف لانے والے ایک خادم کا بیان ہے کہ ہم نے پیرانی صاحبہ کا ناخن تک نہیں دیکھا۔ موت زوال کے قریب پیر کا دن 3 شوال 1439 ۔18 جون 18. اس دن صبح 4 بجے کے قریب ان کے والد محترم حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب دامت برکاتہم جو 95 برس کے قریب ضعیف کمزور لیکن بہت بڑے اللّٰہ والے جن کو مولانا زکریا صاحب رحمہ اللّٰہ تک مانتے تھے اور دعاؤں کے لئے کہتے تھے۔ انہوں نے ضد کی کہ مجھے جدی قبرستان لے چلو چنانچہ وھیل چئیر پر لے جایا گیا انہوں نے ایک جگہ کی نشاندھی کی کہ اسے یعنی بیٹی کو یہاں دفن کر دینا۔ ساتھ جانے والوں نے کہا بھی کہا کہ اب طبیعت میں سدھار محسوس ہورہا ہے۔ لیکن وہاں ایک خاموشی۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ گھڑی آگئی۔
إنا لله و انا اليه راجعون.
كيا ماجرا ہے کشف یا کچھ اور اللّٰہ ہی جانے.
غفر اللّٰہ لہا۔
انسان تھیں بشر تھیں ممکن ہے اوک چوک ہوئی ہو لیکن تھیں بڑی نیک پردہ والی خاتون۔ 40 سال سے گھر میں سودا سلف لانے والے ایک خادم کا بیان ہے کہ ہم نے پیرانی صاحبہ کا ناخن تک نہیں دیکھا۔ موت زوال کے قریب پیر کا دن 3 شوال 1439 ۔18 جون 18. اس دن صبح 4 بجے کے قریب ان کے والد محترم حضرت مولانا افتخار الحسن صاحب دامت برکاتہم جو 95 برس کے قریب ضعیف کمزور لیکن بہت بڑے اللّٰہ والے جن کو مولانا زکریا صاحب رحمہ اللّٰہ تک مانتے تھے اور دعاؤں کے لئے کہتے تھے۔ انہوں نے ضد کی کہ مجھے جدی قبرستان لے چلو چنانچہ وھیل چئیر پر لے جایا گیا انہوں نے ایک جگہ کی نشاندھی کی کہ اسے یعنی بیٹی کو یہاں دفن کر دینا۔ ساتھ جانے والوں نے کہا بھی کہا کہ اب طبیعت میں سدھار محسوس ہورہا ہے۔ لیکن وہاں ایک خاموشی۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ گھڑی آگئی۔
إنا لله و انا اليه راجعون.
كيا ماجرا ہے کشف یا کچھ اور اللّٰہ ہی جانے.
No comments:
Post a Comment