Wednesday 13 June 2018

یومِ عید دلِ شکستہ یا خوشیوں کی بہار؟

یومِ عید دلِ شکستہ یا خوشیوں کی بہار؟
روزہ ان جگہوں پر بھی رکھا گیا جہاں سورج نہیں نکلا روزہ ان جگہوں پر بھی رکھا گیا جہاں سورج 22 گھنٹے تک آسمان پر تھا
چینی مسلمانوں نے رکھا جبکہ ان پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی ہے
شام کے مسلمانوں نے رکھا جبکہ ان پر بمباری کی جارہی ہے
فلسطینی ریاست کے مسلمانوں نے رکھا جبکہ ان پر گولیاں برس رہی ہیں
سوڈان کے مسلمانوں نے رکھا جبکہ ان کے بدن آگ پر جل رہی ہے
آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے مگر اسلام زندہ ہے ہماری وجہ سے نہیں جو اسلام کے نام پر جی رہے ہیں ان کی وجہ سے جو اسلام کے لئے جی رہے ہیں ان کی وجہ سے جو اصحابِ رسول اور آل رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کے لئے جان دیتے ہیں کاش ہم جاگ رہے ہوتے یا مرگئے ہوتے یا پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے.....
سنن ابو داﺅد میں درج ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تھے تو اہلِ مدینہ اُس وقت سال میں دو میلے منایا کرتے تھے۔ حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ یا یہ کیا منا رہے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زمانہ جاہلیت میں ہم ان ایّام میں خوشی مناتے تھے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خدا رب العزت نے ان کے عوض ان سے بہتر دو دن خوشی منانے کیلئے تمہیں عطا فرمائے ہیں۔ ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ۔
رمضان المبارک کا آخری روزہ ایک جانب تو اہلِ ایمان کے لیے نہایت دکھ کا پیغام دیتا ہے کیونکہ وہ اس کی جدائی پر غمزدہ ہو جاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ خوشی بھی انہی کے لئے لاتا ہے کہ وہ اپنے رب کے حضور پیش ہوں گے اور اپنی ایک ماہ کی عبادت و ریاضت کا انعام وصول کریں گے، کیوں کہ پروردگار عالم اس ماہ مبارک میں اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والے تمام بندوں کو اپنی رضا کے خصوصی انعام سے نوازتا ہے اور انہیں بخشش کی نوید سنا کر خوشی خوشی گھروں کو لوٹ جانے کا حکم دیتا ہے۔اسی طرح جب لوگ عید کے دن لوگ عیدگاہ کی طرف نماز پڑھنے کیلئے نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت کرتا ہے کہ کیا بدلہ ہے اس مزدور کو جو اپنا کام پورا کر چکا ہے؟فرشتے عرض کرتے ہیں کہ ہمارے معبود ! اور مالک اس کا بدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے۔ پھر اللہ رب العزت اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے، میرے بندے مجھے سے مانگ، میری عزت و جلال کی قسم ، آج کے دن اس اجتماع میں مجھ سے اپنی ت کے بارے میں جو بھی سوال کرے گا عطا کروں گا اور دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے اس میں تمہاری مصلحت پر نظر رکھوں گا۔ 
حضرت ابو امامہ ؓ سے عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس نے عیدین کی دونوں راتوں میں خاص اجر و ثواب کی امید پر عبادت کی، اس کا دل قیامت کی اس ہولناک دن میں مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل خوف و دہشت سے مردہ ہوں گے، یعنی قیامت کے دن سب پریشان وہ شخص پریشان نہ ہوگا۔ 
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سب نے جتنی بابرکت اور محترم راتوں میں عبادت کیں اتنی کسی اور ماہ میں شاید ہی آتی ہوں ، پھر ان سب راتوں کا مجموعہ شب عید الفطر ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ اس ماہ کی تمام راتوں سے زیادہ سخاوت و فیاضی کا مظاہرہ کرتا ہے اور دل کھول کر اپنے بندوں کی مغفرت فرماتا ہے، اسی لئے تو عید الفطر کی رات کو لیلة الجائزہ کہا جاتا ہے۔
عیدین کی نماز کے متفرق مسائل
١. اگر ایسے امام کے پیچھے عیدین کی نماز پڑھی جس کے نزدیک زائد تکبیروں میں رفع یدین نہیں ہے تو مقتدی رفع یدین کرلے
٢. اگر امام نے چھ سے زیادہ تکبیریں کہیں تو تیرہ تکبیروں تک مقتدی امام کی پیروی کرے جبکہ امام کے قریب ہو اور خود سنتا ہو، تیرہ سے زیادہ میں پیروی نہ کرے کیونکہ تیرہ تکبیروں سے زائد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں اور کسی فقہ کا مذہب بھی نہیں ہے اگر امام سے دور ہو اور تکبیریں دوسرے تکبیر کہنے والوں سے سنے تو جتنی سنے سب کی پیروی کرے کیونکہ اس میں تکبیروں کی غلطی کا امکان ہے اس لئے امام کی تکبیروں کا متعین کرنا ممکن نہیں ہے
٣. اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ایسے وقت پہنچا کہ امام عید کی زائد تکبیریں کہہ چکا ہےاور ابھی قیام میں ہے اگرچہ قرآت شروع کرچکا ہو تو یہ شخص نیت باندھ کر اسی وقت عید کی تین تکبیریں کہہ لے
٤. اگر عید کی نماز میں کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے تو یہ تکبیر تحریمہ کہے پھر اگر اس کو گمان غالب ہے کہ تین زائد تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل سکتا ہے تو کہہ لے پھر رکوع میں جائے اور اگر تکبیریں کہہ کر رکوع ملنے کا گمان غالب نہیں ہے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع کی تسبیح کے بجائے یہ تین زائد تکبیریں کہہ لے اور ان میں ہاتھ نہ اٹھائے اگر تین تکبیریں پوری نہ کہہ سکا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھا دیا تو یہ بھی باقی تکبیریں چھوڑ کر امام کی مطابعت کرے اور رکوع سے اٹھ جائے باقی تکبیریں اس سے ساقط ہو جائیں گی اور اگر امام کو قومہ میں پایا تو اس وقت تکبیریں نہ کہے اور جب امام کے سلام کے بعد اپنی پہلی رکعت مسبوقانہ پڑھے اس میں ان تکبیروں کو ادا کرے لیکن اس مسبوقانہ رکعت میں ثنا کے بعد اور الحمد سے پہلے نہ کہے بلکہ الحمد اور سورة کی قرآت سے فارغ ہوکر رکوع میں جانے سے پہلے کہے
٥. اگر عید کی نماز میں اس وقت شریک ہوا جبکہ امام تشہد پڑھ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا یا سجدہ سہو کے لئے سلام پھیر چکا ہے لیکن ابھی سجدہ سہو نہیں کیا یا سجدہِ سہو کرچکا ہے لیکن اس کے بعد کے تشہد میں ہے اور ابھی ختم کا سلام نہیں پھیرا تو وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد عید کی مسبوقانہ نماز پوری کرے اور تکبیرات دونوں رکعتوں میں اپنے مقام پر کہے اس کی عید کی نماز میں شمولیت صحیح ہو گی یہی صحیح ہے
٦. اگر مقتدی دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھے اس وقت قرآت کے بعد رکوع میں  جانے سے پہلے کہے جیسا کہ اوپر نمبر ٤ میں بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام کے ساتھ نہ ملی یعنی وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہو اور دوسری رکعت امام کے ساتھ نہیں ملی تو دونوں رکعتیں مسبوقانہ پڑھے اور زائد تکبیریں ہر رکعت میں اپنے اپنے موقع پر پڑھے جیسا کہ نمبر ٥ میں بیان ہوا
٧. لاحق امام کے مذہب کے مطابق تکبیریں کہے یعنی جب اپنی لاحقانہ نماز میں تکبیریں کہے تو جتنی امام نے کہیں اتنی کہے اس لئے کہ وہ امام کے پیچھے ہے اور مسبوق اپنی مذہب کے مطابق تکبیریں کہے ۔۔۔
از زبدہ الفقہ
سوال: ایک مسئلہ معلوم کرناہے عیدی دینا جائز ہے کیا؟ مع حوالہ جواب عنایت فرمائے
جواب: مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ہمیں بڑی شدت سے اپنے والد مفتی محمد شفیع رح سے عیدی کا انتظار رہتا تھا اور وہ ہمیں حسب وسعت دیا کرتے تھے آگے فرماتے ہیں کہ یہ ایک اچھی عادت ہے ایسا کرنا چاہئے
ویسے بھی عیدی کے ذریعے محبت شفقت اور خوشی ومسرت کا اظہار ہوتا ہے جو جائز ہی نہیں بلکہ شرعا مطلوب اور مستحسن بھی ہے تاہم اس میں اعتدال و عدل سے کام لینا چاہئے اور اپنے بچوں کو عیدی دینے کے بعد ان پر نظر بھی رکھنی چاہئے کہ کہیں وہ پیسہ غلط اور غیر شرعی جگہ اسے صرف نہ کریں
واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم

No comments:

Post a Comment