سمندر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰنِ ہ[3]
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتا ہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔[4] آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔ جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتا ہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔[4] آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔ جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔
.......
سمند ر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
سمند ر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
(مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ . بَیْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا یَبْغِیٰنِ)
''اس نے دو دریا یا سمندررواں کیے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی )ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے'' (1)
دوسرے مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
(وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْب فُرَات وَّھٰذَا مِلْح اُجاَج ج وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا)
'' اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھاہے جن میںسے ایک کا پانی لذیذ وشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے.'' (2)
مرج کا لغوی معنی دوچیزوں کو اس طرح ملانایا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی (مفردات امام راغب)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے۔(3)
(مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ . بَیْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا یَبْغِیٰنِ)
''اس نے دو دریا یا سمندررواں کیے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی )ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے'' (1)
دوسرے مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
(وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْب فُرَات وَّھٰذَا مِلْح اُجاَج ج وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا)
'' اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھاہے جن میںسے ایک کا پانی لذیذ وشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے.'' (2)
مرج کا لغوی معنی دوچیزوں کو اس طرح ملانایا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی (مفردات امام راغب)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے۔(3)
جدید سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ دو مختلف سمندر جہاں آپس میں ملتے ہیں وہا ں ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل ہوتاہے جو ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھتا ہے اور ہر سمندر کا اپنا درجہ حرارت ،کھاری پن اور کثافت ہوتی ہے (4)
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: '' یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہا ں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی ) اپنی کتاب مرأة الممالک میں جو سولہویں صد ی عیسوی کی تصنیف ہے ،خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہا ں آ ب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ،جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حا صل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمند رکی تہہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (5)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دنیا میں کئی جگہ پر رونما ہو ا ہے مثلاً ''جبل طارق'' کے مقام پر جہاں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپ پوائنٹ،کیپ پیننسولا اور ساؤتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مصرمیں بھی اس مقام پر جہا ں دریائے نیل ،بحیرہ روم میں جاکر گرتا ہے ،یہی عمل ظہور میں آتا ہے۔(6)
بحیرہ روم کا پانی بحر اوقیانوس کے پانی کے مقابلہ میں گرم،کھارااورکم کثیف ہوتاہے۔ جب بحیرہ روم جبل طارق پر سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتاہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانے پر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی ، کھارا پن اورکم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سوکلومیٹر دور تک بہتا ہے اور بحیرہ روم کا پانی اپنی گہرائی پر مستحکم رہتاہے۔
تاہم یہ قدرتی رکاوٹ بڑی بڑی لہروں ،طاقتورموجوں اورمدوجزر کو آپس میں ملنے یا حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن مجیدمیں اسی بات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیاگیاہے کہ دو سمندروں کے پانی جہاں آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قدرتی اور انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی ایک رکاوٹ حائل ہوتی ہے جو ان دونوں پانیوںکو آپس میں ملنے او رگڈمڈ ہونے سے روکتی ہے۔یعنی بظاہر ملے ہوئے ہونے کے باوجود دونوں سمندروں کے پانیوں کے خواصاپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہاں ایک اوربات قابل غورہے کہ اللہ تعالیٰ سورة الرحمٰن میں جب دو سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر کرتاہے توان کے درمیان رکاوٹ کو صرف ایک لفظ ''برزخ'' سے ظاہر کرتاہے مگر سورة الفرقان میں جب میٹھے اورکھاری پانی کا ذکر فرماتاہے تو ان کے درمیان رکاوٹ کے لیے الفاظ ''برزخاً وحجرًامحجورًا '' استعمال فرماتاہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ محل وقوع کے لحاظ سے رکاوٹوں کی قسموں اورنوعیت میں فرق ہے۔
اسی چیز کو جدید سائنس نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ سمندر کے مدوجزر والے دہانوں میں جہاں میٹھے اورنمکین پانی آپس میں ملتے ہیں صورت حال اس جگہ سے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندر ملتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلاہے کہ دریاؤں کے دہانوں میں تازہ پانی اورکھارے پانی کے درمیان ایک گاڑھے پانی کا حجاب ہوتاہے جو تازہ پانی اورکھارے پانی کی پرتوں کوملنے نہیں دیتا۔ یہ حجاب(پردہ)تازہ پانی اورکھارے پانی کے انفرادی خواص سے مختلف کھارے پن کا حامل ہوتاہے۔ یہ معلومات حال ہی میں حرارت ،کثافت ،کھارے پن اورآکسیجن کی حل پذیری معلوم کرنے والے جدید ترین آلات کی مدد سے دریافت ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ جس طرح دوسمندروں کے ملاپ کے فرق کو نہیں دیکھ سکتی ، اسی طرح مدوجزر کے دہانے میں تین اقسام کے پانی کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی صا ف و شفاف ،نمکین پانی اوران کی علیحدگی یعنی (Zone of Separation)۔(7)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی قرآن اورجدید سائنس میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ قدرت کے اس کرشمے کو قرآن کے نزول کے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: '' یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہا ں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی ) اپنی کتاب مرأة الممالک میں جو سولہویں صد ی عیسوی کی تصنیف ہے ،خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہا ں آ ب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ،جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حا صل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمند رکی تہہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (5)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دنیا میں کئی جگہ پر رونما ہو ا ہے مثلاً ''جبل طارق'' کے مقام پر جہاں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپ پوائنٹ،کیپ پیننسولا اور ساؤتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مصرمیں بھی اس مقام پر جہا ں دریائے نیل ،بحیرہ روم میں جاکر گرتا ہے ،یہی عمل ظہور میں آتا ہے۔(6)
بحیرہ روم کا پانی بحر اوقیانوس کے پانی کے مقابلہ میں گرم،کھارااورکم کثیف ہوتاہے۔ جب بحیرہ روم جبل طارق پر سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتاہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانے پر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی ، کھارا پن اورکم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سوکلومیٹر دور تک بہتا ہے اور بحیرہ روم کا پانی اپنی گہرائی پر مستحکم رہتاہے۔
تاہم یہ قدرتی رکاوٹ بڑی بڑی لہروں ،طاقتورموجوں اورمدوجزر کو آپس میں ملنے یا حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن مجیدمیں اسی بات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیاگیاہے کہ دو سمندروں کے پانی جہاں آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قدرتی اور انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی ایک رکاوٹ حائل ہوتی ہے جو ان دونوں پانیوںکو آپس میں ملنے او رگڈمڈ ہونے سے روکتی ہے۔یعنی بظاہر ملے ہوئے ہونے کے باوجود دونوں سمندروں کے پانیوں کے خواصاپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہاں ایک اوربات قابل غورہے کہ اللہ تعالیٰ سورة الرحمٰن میں جب دو سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر کرتاہے توان کے درمیان رکاوٹ کو صرف ایک لفظ ''برزخ'' سے ظاہر کرتاہے مگر سورة الفرقان میں جب میٹھے اورکھاری پانی کا ذکر فرماتاہے تو ان کے درمیان رکاوٹ کے لیے الفاظ ''برزخاً وحجرًامحجورًا '' استعمال فرماتاہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ محل وقوع کے لحاظ سے رکاوٹوں کی قسموں اورنوعیت میں فرق ہے۔
اسی چیز کو جدید سائنس نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ سمندر کے مدوجزر والے دہانوں میں جہاں میٹھے اورنمکین پانی آپس میں ملتے ہیں صورت حال اس جگہ سے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندر ملتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلاہے کہ دریاؤں کے دہانوں میں تازہ پانی اورکھارے پانی کے درمیان ایک گاڑھے پانی کا حجاب ہوتاہے جو تازہ پانی اورکھارے پانی کی پرتوں کوملنے نہیں دیتا۔ یہ حجاب(پردہ)تازہ پانی اورکھارے پانی کے انفرادی خواص سے مختلف کھارے پن کا حامل ہوتاہے۔ یہ معلومات حال ہی میں حرارت ،کثافت ،کھارے پن اورآکسیجن کی حل پذیری معلوم کرنے والے جدید ترین آلات کی مدد سے دریافت ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ جس طرح دوسمندروں کے ملاپ کے فرق کو نہیں دیکھ سکتی ، اسی طرح مدوجزر کے دہانے میں تین اقسام کے پانی کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی صا ف و شفاف ،نمکین پانی اوران کی علیحدگی یعنی (Zone of Separation)۔(7)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی قرآن اورجدید سائنس میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ قدرت کے اس کرشمے کو قرآن کے نزول کے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔ جدہ ۔ سعودی عرب
حواشی
(1)۔ الرحمن ، 55- 19,20
(2)۔ الفرقان۔ 25:53
(3)۔بحوالہ تیسیرالقرآن ،از مولانا عبدالرحما ن کیلانی ،جلد سوم ،حاشیہ 65
(4)۔ بحوالہ Principles of Oceangraphy,Davis,Page 92:93
(5)۔ تفہیم القرآن ،جلد سوم ۔سورة الفرقان ،حاشیہ 68
(6)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک صفحہ 28,29
www.islam-guide.com
(7)۔ (سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ149-152)
www.islam-guide.com
(1)۔ الرحمن ، 55- 19,20
(2)۔ الفرقان۔ 25:53
(3)۔بحوالہ تیسیرالقرآن ،از مولانا عبدالرحما ن کیلانی ،جلد سوم ،حاشیہ 65
(4)۔ بحوالہ Principles of Oceangraphy,Davis,Page 92:93
(5)۔ تفہیم القرآن ،جلد سوم ۔سورة الفرقان ،حاشیہ 68
(6)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک صفحہ 28,29
www.islam-guide.com
(7)۔ (سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ149-152)
www.islam-guide.com
....................
http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=253:the-description-of-the-barrier-between-two-seas&catid=35:universe&Itemid=91 ........
سمند ر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=253:the-description-of-the-barrier-between-two-seas&catid=35:universe&Itemid=91 ........
سمند ر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
(مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ . بَیْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا یَبْغِیٰنِ)
'' اس نے دو دریا یا سمندررواں کیے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی )ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے'' (1)
دوسرے مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
(وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْب فُرَات وَّھٰذَا مِلْح اُجاَج ج وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا)
'' اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھاہے جن میںسے ایک کا پانی لذیذ وشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے'' (2)
مرج کا لغوی معنی دوچیزوں کو اس طرح ملانایا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی (مفردات امام راغب)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے۔(3)
(مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ . بَیْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا یَبْغِیٰنِ)
'' اس نے دو دریا یا سمندررواں کیے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی )ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے'' (1)
دوسرے مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
(وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْب فُرَات وَّھٰذَا مِلْح اُجاَج ج وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا)
'' اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھاہے جن میںسے ایک کا پانی لذیذ وشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے'' (2)
مرج کا لغوی معنی دوچیزوں کو اس طرح ملانایا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی (مفردات امام راغب)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے۔(3)
جدید سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ دو مختلف سمندر جہاں آپس میں ملتے ہیں وہا ں ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل ہوتاہے جو ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھتا ہے اور ہر سمندر کا اپنا درجہ حرارت ،کھاری پن اور کثافت ہوتی ہے (4)
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: '' یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہا ں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی ) اپنی کتاب مرأة الممالک میں جو سولہویں صد ی عیسوی کی تصنیف ہے ،خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہا ں آ ب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ،جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حا صل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمند رکی تہہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (5)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دنیا میں کئی جگہ پر رونما ہو ا ہے مثلاً ''جبل طارق'' کے مقام پر جہاں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپ پوائنٹ،کیپ پیننسولا اور ساؤتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مصرمیں بھی اس مقام پر جہا ں دریائے نیل ،بحیرہ روم میں جاکر گرتا ہے ،یہی عمل ظہور میں آتا ہے۔(6)
بحیرہ روم کا پانی بحر اوقیانوس کے پانی کے مقابلہ میں گرم،کھارااورکم کثیف ہوتاہے۔ جب بحیرہ روم جبل طارق پر سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتاہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانے پر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی ، کھارا پن اورکم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سوکلومیٹر دور تک بہتا ہے اور بحیرہ روم کا پانی اپنی گہرائی پر مستحکم رہتاہے۔
تاہم یہ قدرتی رکاوٹ بڑی بڑی لہروں ،طاقتورموجوں اورمدوجزر کو آپس میں ملنے یا حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن مجیدمیں اسی بات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیاگیاہے کہ دو سمندروں کے پانی جہاں آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قدرتی اور انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی ایک رکاوٹ حائل ہوتی ہے جو ان دونوں پانیوںکو آپس میں ملنے او رگڈمڈ ہونے سے روکتی ہے۔یعنی بظاہر ملے ہوئے ہونے کے باوجود دونوں سمندروں کے پانیوں کے خواصاپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہاں ایک اوربات قابل غورہے کہ اللہ تعالیٰ سورة الرحمٰن میں جب دو سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر کرتاہے توان کے درمیان رکاوٹ کو صرف ایک لفظ ''برزخ'' سے ظاہر کرتاہے مگر سورة الفرقان میں جب میٹھے اورکھاری پانی کا ذکر فرماتاہے تو ان کے درمیان رکاوٹ کے لیے الفاظ ''برزخاً وحجرًامحجورًا '' استعمال فرماتاہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ محل وقوع کے لحاظ سے رکاوٹوں کی قسموں اورنوعیت میں فرق ہے۔
اسی چیز کو جدید سائنس نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ سمندر کے مدوجزر والے دہانوں میں جہاں میٹھے اورنمکین پانی آپس میں ملتے ہیں صورت حال اس جگہ سے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندر ملتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلاہے کہ دریاؤں کے دہانوں میں تازہ پانی اورکھارے پانی کے درمیان ایک گاڑھے پانی کا حجاب ہوتاہے جو تازہ پانی اورکھارے پانی کی پرتوں کوملنے نہیں دیتا۔ یہ حجاب(پردہ)تازہ پانی اورکھارے پانی کے انفرادی خواص سے مختلف کھارے پن کا حامل ہوتاہے۔ یہ معلومات حال ہی میں حرارت ،کثافت ،کھارے پن اورآکسیجن کی حل پذیری معلوم کرنے والے جدید ترین آلات کی مدد سے دریافت ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ جس طرح دوسمندروں کے ملاپ کے فرق کو نہیں دیکھ سکتی ، اسی طرح مدوجزر کے دہانے میں تین اقسام کے پانی کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی صا ف و شفاف ،نمکین پانی اوران کی علیحدگی یعنی (Zone of Separation)۔(7)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی قرآن اورجدید سائنس میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ قدرت کے اس کرشمے کو قرآن کے نزول کے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: '' یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہا ں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی ) اپنی کتاب مرأة الممالک میں جو سولہویں صد ی عیسوی کی تصنیف ہے ،خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہا ں آ ب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ،جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حا صل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمند رکی تہہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (5)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دنیا میں کئی جگہ پر رونما ہو ا ہے مثلاً ''جبل طارق'' کے مقام پر جہاں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپ پوائنٹ،کیپ پیننسولا اور ساؤتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مصرمیں بھی اس مقام پر جہا ں دریائے نیل ،بحیرہ روم میں جاکر گرتا ہے ،یہی عمل ظہور میں آتا ہے۔(6)
بحیرہ روم کا پانی بحر اوقیانوس کے پانی کے مقابلہ میں گرم،کھارااورکم کثیف ہوتاہے۔ جب بحیرہ روم جبل طارق پر سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتاہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانے پر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی ، کھارا پن اورکم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سوکلومیٹر دور تک بہتا ہے اور بحیرہ روم کا پانی اپنی گہرائی پر مستحکم رہتاہے۔
تاہم یہ قدرتی رکاوٹ بڑی بڑی لہروں ،طاقتورموجوں اورمدوجزر کو آپس میں ملنے یا حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن مجیدمیں اسی بات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیاگیاہے کہ دو سمندروں کے پانی جہاں آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قدرتی اور انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی ایک رکاوٹ حائل ہوتی ہے جو ان دونوں پانیوںکو آپس میں ملنے او رگڈمڈ ہونے سے روکتی ہے۔یعنی بظاہر ملے ہوئے ہونے کے باوجود دونوں سمندروں کے پانیوں کے خواصاپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہاں ایک اوربات قابل غورہے کہ اللہ تعالیٰ سورة الرحمٰن میں جب دو سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر کرتاہے توان کے درمیان رکاوٹ کو صرف ایک لفظ ''برزخ'' سے ظاہر کرتاہے مگر سورة الفرقان میں جب میٹھے اورکھاری پانی کا ذکر فرماتاہے تو ان کے درمیان رکاوٹ کے لیے الفاظ ''برزخاً وحجرًامحجورًا '' استعمال فرماتاہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ محل وقوع کے لحاظ سے رکاوٹوں کی قسموں اورنوعیت میں فرق ہے۔
اسی چیز کو جدید سائنس نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ سمندر کے مدوجزر والے دہانوں میں جہاں میٹھے اورنمکین پانی آپس میں ملتے ہیں صورت حال اس جگہ سے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندر ملتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلاہے کہ دریاؤں کے دہانوں میں تازہ پانی اورکھارے پانی کے درمیان ایک گاڑھے پانی کا حجاب ہوتاہے جو تازہ پانی اورکھارے پانی کی پرتوں کوملنے نہیں دیتا۔ یہ حجاب(پردہ)تازہ پانی اورکھارے پانی کے انفرادی خواص سے مختلف کھارے پن کا حامل ہوتاہے۔ یہ معلومات حال ہی میں حرارت ،کثافت ،کھارے پن اورآکسیجن کی حل پذیری معلوم کرنے والے جدید ترین آلات کی مدد سے دریافت ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ جس طرح دوسمندروں کے ملاپ کے فرق کو نہیں دیکھ سکتی ، اسی طرح مدوجزر کے دہانے میں تین اقسام کے پانی کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی صا ف و شفاف ،نمکین پانی اوران کی علیحدگی یعنی (Zone of Separation)۔(7)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی قرآن اورجدید سائنس میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ قدرت کے اس کرشمے کو قرآن کے نزول کے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔ جدہ ۔ سعودی عرب
حواشی
(1)۔ الرحمن ، 55- 19,20
(2)۔ الفرقان۔ 25:53
(3)۔بحوالہ تیسیرالقرآن ،از مولانا عبدالرحما ن کیلانی ،جلد سوم ،حاشیہ 65
(4)۔ بحوالہ Principles of Oceangraphy,Davis,Page 92:93
(5)۔ تفہیم القرآن ،جلد سوم ۔سورة الفرقان ،حاشیہ 68
(6)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک صفحہ 28,29
www.islam-guide.com
(7)۔ (سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ149-152)
www.islam-guide.com
http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=253:the-description-of-the-barrier-between-two-seas&catid=35:universe&Itemid=91
(1)۔ الرحمن ، 55- 19,20
(2)۔ الفرقان۔ 25:53
(3)۔بحوالہ تیسیرالقرآن ،از مولانا عبدالرحما ن کیلانی ،جلد سوم ،حاشیہ 65
(4)۔ بحوالہ Principles of Oceangraphy,Davis,Page 92:93
(5)۔ تفہیم القرآن ،جلد سوم ۔سورة الفرقان ،حاشیہ 68
(6)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک صفحہ 28,29
www.islam-guide.com
(7)۔ (سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ149-152)
www.islam-guide.com
http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=253:the-description-of-the-barrier-between-two-seas&catid=35:universe&Itemid=91
http://quraaninurdu.blogspot.com/2010/04/blog-post_2837.html?m=1
.......
http://abdulqadirsre.blogspot.com/2017/08/blog-post_4.html?m=1
.......
http://abdulqadirsre.blogspot.com/2017/08/blog-post_4.html?m=1
No comments:
Post a Comment