۶؍تا ۱۲؍سال کے بچوں کو مسجد میں لاکر بڑوں کی صفوں میں کھڑا کرنا؟
سوال (۷۷۰):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ماہِ رمضان میں گاؤں کی مسجد میں ۶؍تا ۱۲؍سال کے بچوں کی کثیر تعداد نماز کے لئے آتی ہے، جو طہارت اور ترکیب نماز سے ناواقف ہوتے ہیں، ایسے چھوٹے بچوں کا مسجد میں آنا کیسا ہے؟
یہی ۶؍تا ۱۲؍سال والے بچے چوتھی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور بعد میں آکر لوگ پانچویں صف بناتے ہیں،اور کبھی کبھی جوانوں کی صف بننے کے بعد کچھ بچے دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے ہیں، اور پھر بعد میں جوان یا بوڑھے لوگ بچوں کے بغل میں کھڑے ہوتے ہیں، تو پانچویں صف میں کھڑے ہونے والے یا بعد میں آکر کھڑے ہونے والے لوگوں کی نمازیں کیسی ہوگی؟
یہی ۶؍تا ۱۲؍سال والے بچے بعض اوقات نماز کے درمیان ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہیں، ہنستے اور مارپیٹ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے نمازیوں میں انتشار واختلاف رہتا ہے، جس کی بنا پر بعض لوگ بچوں کو ڈانٹتے اور کبھی کبھی مار بھگاتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو شعور نہیں ہے کہ کپڑے پاک ہیں یا ناپاک ، پھر ان کو مسجد میںکیوں آنے دیا جاتا ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان بچوں کی وجہ سے ہم لوگوں کی نماز صحیح نہیں ہوتی؛ کیوں کہ یہ شور مچاتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ اپنا دھیان صحیح رکھو، دوسروں کے معاملہ میں کیوں دھیان لگاتے ہو؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سات سال کے بچے کو اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز کے لئے حکم کرنے کو کہا ہے، شرعی اعتبار سے کس کی بات کس حد تک صحیح ہے؟
مولانا محمد ایوب صاحب ندوی بھٹکلی نے ہمارے یہاں تقریر کے دوران بتایا کہ بچوں کو مسجد میں آنے سے روکا نہ جائے، اور اگر وہ درمیانِ نماز شرارت کرتے ہوں تو ان کی صف بڑوں کے بیچ میں بنوائی جائے، اگر کوئی بچہ پہلے سے آکر صف میں کھڑا ہے تو اس کو اس کی جگہ سے ہٹانا جائز نہیں ، اس کے بعد افسوس ظاہر کرتے ہوئے ایک واقعہ نقل کیا کہ میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جن کو میں نے نماز کی دعوت دی تو ان صاحب نے بتایا کہ مولانا صاحب میں بچپن میں مسجد سے بھگا دیا گیا تھا، اس وجہ سے مسجد جانا چھوڑ دیا ہے، اور اب تک نہیں گیا ہوں، تو یہ باتیں کہ سات سال کے بچے کو مسجد سے روکنا، ہنسنے کی وجہ سے بڑوں کی صف کے بیچ میں صف بنوانا، اور بچے کو اس کی جگہ سے نہ ہٹانا، قرآن وحدیث کی روشنی میں یا دینی مصلحت کے اعتبار سے کہاں تک صحیح ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
چھ سے بارہ سال کی عمر کے بچے اگر تمیز دار ہوں تو ان کو مسجد میں لانا درست ہے، اور جماعت شروع ہونے کے بعد جو نئے آنے والے نمازی بچوں کی صف کے پیچھے یا کچھ بچے بڑوں کی صف میں دائیں بائیں کھڑے ہوجائیں، تو اس سے دیگر نمازیوں کی نماز میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم ۳؍۳۴۲)
ویحرم إدخال صبیان ومجانین حیث غلب تنجیسہم وإلا فیکرہ۔ (درمختار ۲؍۴۲۹ زکریا)
وفي تقریرات الرافعي: قول الشارح وإلا فیکرہ أي حیث لم یبالوا بمراعات حق المسجد من مسح نخامۃ، أو تفل في المسجد، وإلا فإذا کانوا ممیزین ویعظمون المساجد بتعلم المساجد بتعلم من ولیہم، فلاکراہۃ في دخولہم۔ (تقریرات رافعي علی الدر ۲؍۸۶)
اور موجودہ معاشرہ کو دیکھتے ہوئے باشعور بچوں کو مسجد میں لانا مصلحت کے مطابق ہے؛ لیکن یہ ضروری ہے کہ ان بچوں کی پوری نگرانی کی جائے اور انہیں شرارت اور کھیل کود سے روکنے کی تدبیریں اپنائی جائیں، مثلاً بچوں کو ایک جگہ کھڑا کرنے کے بجائے متعدد حصوں میں متعدد صفوں کے کنارے پر کھڑا کردیا جائے وغیرہ، مذکورہ مولانا صاحب نے جو بات ارشاد فرمائی وہ فی نفسہٖ درست ہے۔ (مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل ۲؍۲۲۲، احسن الفتاوی ۳؍۲۸۰)
قال الرحمتي رحمہ اللّٰہ: ربما یتعین في زماننا إدخال الصبیان في صفوف الرجال؛ لأن المعہود منہم إذا اجتمع صبیان، فأکثر تبطل صلاۃ بعضہم ببعض، وربما تعدی ضررہم إلی إفساد صلاۃ الرجال۔ (تقریرات الرافعي علی الدر المختار ۲؍۷۳ زکریا) فقط واﷲ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۱؍۱؍۱۴۲۸ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اﷲ عنہ
.....
بسم اللہ الرحمن الرحیم
”اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کے ہوجائیں، نماز کا حکم دو۔ اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں، تو نماز (چھوڑنے) پر ان کی سرزنش و تادیب کرو اور خواب گاہوں میں ان کو جدا کرو۔“
رہا یہ امر کہ کتنی عمر کے بچوں کو نماز کے لیے اپنے ساتھ مسجد لے جاسکتے ہیں، تو اس کے متعلق کتاب وسنت میں کوئی خاص تحدید وارد نہیں ہوئی ہے ۔۔۔ جاری
از: مفتی عمرفاروق لوہاروی، شیخ الحدیث دارالعلوم لندن (یو․کے)
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1428729654%2004-Bachchon%20Ko%20Badon%20Ki%20Saf_MDU_09_September_2007.htm
No comments:
Post a Comment