Wednesday 13 June 2018

نمازِ عید کا طریقہ کیا ہے؟

نمازِ عید کا طریقہ کیا ہے؟
عید کی نماز دو رکعت ہے، اس کا طریقہ عام نمازوں کی ہی طرح ہے، البتہ اس نماز میں چھ تکبیریں زائد ہوتی ہیں (تین پہلی رکعت میں قراء ت سے پہلے اور تین دوسری رکعت میں رکوع سے پہلے) یہ تکبیرات واجب ہیں،
اور ان کا ثبوت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور کئی تابعین کرام سے ہے۔
(مسند احمد، شرح معانی الآثار، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبد الرزاق، مبسوط سرخسی، کتاب الآثار، اوجز المسالک وغیرہ)
نماز کا طریقہ یہ ہے،
سب سے پہلے دل میں یا زبان سے نیت کر لے کہ
”دو رکعت عید کی واجب نماز ،چھ واجب تکبیروں کے ساتھ اس امام کے پیچھے پڑھتا ہوں“
اس کے بعد تکبیر تحریمہ یعنی ”اللّٰہ أکبر“ کہہ کر ہاتھ باندھ لے،
پھر ثناء، یعنی: ”سبحٰنک اللہم․․․الخ“ پڑھ کے تین بار ”اللّٰہ أکبر“ کہے، پہلی اور دوسری بار کانوں تک ہاتھ اُٹھا کر نیچے لٹکا دے، البتہ تیسری بار ہاتھ نہ لٹکائے، بلکہ باندھ لے،
اس کے بعد امام
”أعوذ باللّٰہ“ اور ”بسم الله“ پڑھ کے قرات کرے
اور حسبِ قاعدہ پہلی رکعت پوری کرے،
دوسری رکعت میں قرات کرنے کے بعد رکوع سے پہلے اسی طرح تین مرتبہ ”اللّٰہ أکبر“ کہے جیسے پہلی رکعت میں کیا تھا،
البتہ یہاں تینوں مرتبہ ہاتھ اُٹھا کر چھوڑ دے اور چوتھی بار رکوع کی تکبیر ”اللّٰہ أکبر“ کہہ کر رکوع میں چلا جائے
اور حسبِ قاعدہ نماز مکمل کرے۔
اگر کچھ رکعتیں چھوٹ جائیں تو نمازِعید میں ملنے کا طریقہ:
فرائض اسلام میں سب سے بڑا، اہم اور ذی شان فریضہ ”نماز“ ہے،
لیکن مقام ِافسوس ہے کہ مجموعہ امت ِمسلمہ کا شاید دس فیصد طبقہ ہی اس اہم فریضہ کی طرف متوجہ ہوگا
اور اس مختصر مجموعہ میں سے اس مقدس فریضہ کے جملہ مسائل سے واقفیت رکھنے والے بھی گنتی کے ہی افراد ہیں،
انہی مسائل نماز میں سے ایک اہم مسئلہ
”نمازوں کی چھوٹی ہوئی رکعات کی ادائیگی کا طریقہ“ ہے،
نمازی حضرات پانچوں نمازوں میں رہ جانے والی رکعات کو ادا کرنے کا طریقہ تو شاید جانتے ہی ہوں گے،
لیکن
”نمازعید“ (جو سال میں دو بار ہی آتی ہے)
کی کوئی رکعت، یا تکبیراتِ زوائد رہ جائیں تو
ان کی ادائیگی کیسے کی جائے گی؟
اس کی وضاحت تو ائمہ مساجد سے بھی بیان کرتے نہیں سنا گیا،
چہ جائیکہ نمازی حضرات ان مسائل سے کماحقہ واقف ہوں
اور اگر کوئی امام صاحب اس مسئلہ کو بیان کرتے سنے بھی گئے
تو عید کی نماز سے پہلے بیان کررہے ہوتے ہیں ،
حالانکہ یہ مسئلہ ان افراد سے متعلق ہے
جو کسی عذر کی بنا پر تأخیر سے نماز میں شریک ہو رہے ہوں،
نہ کہ ان افراد کے لئے جو پہلے سے مسجد یا عید گاہ میں موجود ہیں۔
لہٰذا سوچا گیا کہ
”نماز عید“میں مسبوق
(یعنی وہ افراد جن کی کوئی رکعت یا تکبیرات رہ گئی ہوں) کی جتنی بھی صورتیں بن سکتی ہوں
ان کو تفصیل سے بیان کردیا جائے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ
علمائے کرام وائمہ مساجد انہیں عید المبارک سے چند روز قبل تفصیل سے بیان کردیں،
تاکہ بہت سے صوم وصلوة کے پابند حضرات کی
نماز ِعید خراب ہونے سے بچ سکے۔
ذیل میں وہ تمام (متوقع) صورتیں جو پیش آسکتی ہیں، ان کا حکم ذکر کیا جاتا ہے:
1= اگرکوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام تکبیراتِ زوائد کہہ چکا تھا،
تو ایسے شخص کے لئے حکم یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھنے کے بعد فورا تین تکبیراتِ زوائد کہے اور اس کے بعد خامو شی سے امام کی قرات سنے۔ (ردالمحتار: 3/64، دارالمعرفہ، بیروت)
2= اگر کوئی شخص ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام رکوع میں چلاگیا تھا،
تو یہ شخص اندازہ کرے کہ اگر وہ قیام کی حالت میں ہی تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رکوع میں شامل ہوسکتا ہو، تو ایسا ہی کرے اور
اگر اس کا گمان یہ ہو کہ اگر میں نے قیام کی حالت میں تکبیرات کہیں تو امام رکوع سے اٹھ جائے گا،
تو اس آ نے والے کو چاہئے
کہ وہ رکوع میں چلا جائے اور رکوع میں تسبیحات کی بجائے تکبیرات کہے،
لیکن اس وقت تکبیرات کہتے ہوئے ہاتھ نہیں اٹھائے جائیں گے،
بلکہ ہاتھ گھٹنے پرہی رکھے رہیں،
ہاں! اگر رکوع میں تکبیرات کہنے کے بعد وقت ہو تو رکوع کی تسبیحات بھی کہہ لی جائیں
اور اگر آنے والا رکوع میں چلاگیا اور ابھی رکوع کی حالت میں ایک بار تکبیر کہہ پایا تھا، یا زیادہ، یا کچھ بھی نہیں کہہ پایا تھا کہ
امام رکوع سے اٹھ گیا تو یہ بھی رکوع سے اٹھ جائے، بقیہ تکبیریں اس سے ساقط ہیں۔
(عالمگیریہ: 1/ 151، رشیدیہ)
3= اگر کوئی ایسے وقت نماز میں شریک ہوا جب امام پہلی رکعت کے رکوع سے اٹھ گیا تھا، یا دوسری رکعت میں قرأت شروع کرچکا تھا، تو اب آنے والا امام کی متابعت کرے،
یعنی جس طرح امام کررہا ہے اسی طرح کرتا رہے،
پھر امام کے سلام پھیرنے کے بعد رہ جانے والی رکعت اس ترتیب سے ادا کرے گاکہ اول کھڑے ہوکر ثناء پڑھے،
پھر سورة الفاتحہ پڑھے، پھر سورت ملائے اور پھر رکوع میں جانے سے پہلے تین تکبیرات ِزوائد کہے، پھر رکوع میں جائے،
یعنی صورت کے اعتبار سے ”امام کے ساتھ پڑھی ہوئی دوسری رکعت اور یہ رکعت جو ادا کی جا رہی ہے.“ دونوں رکعتیں ایک جیسی ہوں گی، یہ اصح قول ہے۔ (البحر الرائق: 2/282، دارالکتب العلمیہ)
4= اگرکوئی شخص دوسری رکعت میں ایسے وقت پہنچا جب امام تکبیرات کہہ کر رکوع میں جاچکا تھا،
تو اب پھر پہلی رکعت کی طرح اندازہ کرے کہ تکبیرات کہہ کر امام کو رکوع میں پا سکتا ہے، یا نہیں؟
اگر پاسکتا ہے تو ایسا ہی کرے اور اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو رکوع میں جاکر تکبیرات کہے
اور اگرامام ر کوع سے اٹھ گیا یعنی مقتدی سے دونوں رکعتیں رہ گئیں،
تو یہ دونوں رکعتیں اسی طرح پوری کرے جیسے عام ترتیب میں امام کے پیچھے پڑھی جاتی ہیں۔
(تاتارخانیہ: 2/73، قدیمی)
5= اگر کوئی ایسے وقت میں پہنچا جب امام سلام پھیر چکا تھا،
تو اب اکیلا اس نماز عید کو نہیں پڑھ سکتا،
اس شخص کو چاہئے کہ کسی ایسی مسجد، یا عیدگاہ کو تلاش کرے جہا ں ابھی تک عید کی نماز نہ ہوئی ہو،
وہاں جاکر نماز ادا کرے
اور اگر اس کو کوئی ایسی جگہ نہ ملے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ
چاشت کے وقت چار رکعت نفل اداکرے۔
(ردالمحتار: 3/67، دارالمعرفہ)
الغرض!
مذکورہ بالا ممکنہ صورتیں ہی کسی کو پیش آسکتی ہیں،
اگر علمائے کرام اور ائمہ مساجد انہیں ”عید“ سے کچھ دن پہلے ہی سے ایک ایک کرکے بیان کردیا کریں، تو یقینا بہت سارے مسلمانوں کی ”عیدین“ کی نماز خراب ہونے سے بچ جائے گی۔ اللہ تعالی تمام مسلما نوں کو اپنی مرضیات کے مطابق چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(آمین)
(مولوی محمد راشد ڈسکوی)

......
عیدین کی نماز کے متفرق مسائل
١. اگر ایسے امام کے پیچھے عیدین کی نماز پڑھی جس کے نزدیک زائد تکبیروں میں رفع یدین نہیں ہے تو مقتدی رفع یدین کر لے
٢. اگر امام نے چھ سے زیادہ تکبیریں کہیں تو تیرہ تکبیروں تک مقتدی امام کی پیروی کرے جبکہ امام کے قریب ہو اور خود سنتا ہو، تیرہ سے زیادہ میں پیروی نہ کرے کیونکہ تیرہ تکبیروں سے زائد صحابہ کرام سے منقول نہیں اور کسی فقہ کا مذہب بھی نہیں ہے اگر امام سے دور ہو اور تکبیریں دوسرے تکبیر کہنے والوں سے سنے تو جتنی سنے سب کی پیروی کرے کیونکہ اس میں تکبیروں کی غلطی کا امکان ہے اس لئے امام کی تکبیروں کا متعین کرنا ممکن نہیں ہے
٣. اگر کوئی شخص پہلی رکعت میں ایسے وقت پہنچا کہ امام عید کی زائد تکبیریں کہہ چکا ہےاور ابھی قیام میں ہے اگرچہ قرآت شروع کر چکا ہو تو یہ شخص نیت باندھ کر اسی وقت عید کی تین تکبیریں کہہ لے
٤. اگر عید کی نماز میں کوئی شخص اس وقت پہنچا جب امام رکوع میں ہے تو یہ تکبیر تحریمہ کہے پھر اگر اس کو گمان غالب ہے کہ تین زائد تکبیریں کہنے کے بعد رکوع مل سکتا ہے تو کہہ لے پھر رکوع میں جائے اور اگر تکبیریں کہہ کر رکوع ملنے کا گمان غالب نہیں ہے تو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع میں چلا جائے اور رکوع کی تسبیح کے بجائے یہ تین زائد تکبیریں کہہ لے اور ان میں ہاتھ نہ اٹھائے اگر تین تکبیریں پوری نہ کہہ سکا کہ امام نے رکوع سے سر اٹھا دیا تو یہ بھی باقی تکبیریں چھوڑ کر امام کی مطابعت کرے اور رکوع سے اٹھ جائے باقی تکبیریں اس سے ساقط ہو جائیں گی اور اگر امام کو قومہ میں پایا تو اس وقت تکبیریں نہ کہے اور جب امام کے سلام کے بعد اپنی پہلی رکعت مسبوقانہ پڑھے اس میں ان تکبیروں کو ادا کرے لیکن اس مسبوقانہ رکعت میں ثنا کے بعد اور الحمد سے پہلے نہ کہے بلکہ الحمد اور سورة کی قرآت سے فارغ ہو کر رکوع میں جانے سے پہلے کہے
٥. اگر عید کی نماز میں اس وقت شریک ہوا جبکہ امام تشہد پڑھ چکا ہے اور ابھی سلام نہیں پھیرا یا سجدہ سہو کے لئے سلام پھیر چکا ہے لیکن ابھی سجدہ سہو نہیں کیا یا سجدہِ سہو کر چکا ہے لیکن اس کے بعد کے تشہد میں ہے اور ابھی ختم کا سلام نہیں پھیرا تو وہ امام کے فارغ ہونے کے بعد عید کی مسبوقانہ نماز پوری کرے اور تکبیرات دونوں رکعتوں میں اپنے مقام پر کہے اس کی عید کی نماز میں شمولیت صحیح ہو گی یہی صحیح ہے
٦. اگر مقتدی دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ رکعت پڑھے اس وقت قرآت کے بعد رکوع میں  جانے سے پہلے کہے جیسا کہ اوپر نمبر ٤ میں بیان ہوا اور اگر دوسری رکعت کی تکبیریں امام کے ساتھ نہ ملی یعنی وہ دوسری رکعت کے رکوع کے بعد شامل ہو اور دوسری رکعت امام کے ساتھ نہیں ملی تو دونوں رکعتیں مسبوقانہ پڑھے اور زائد تکبیریں ہر رکعت میں اپنے اپنے موقع پر پڑھے جیسا کہ نمبر ٥ میں بیان ہوا
٧. لاحق امام کے مذہب کے مطابق تکبیریں کہے یعنی جب اپنی لاحقانہ نماز میں تکبیریں کہے تو جتنی امام نے کہیں اتنی کہے اس لئے کہ وہ امام کے پیچھے ہے اور مسبوق اپنی مذہب کے مطابق تکبیریں کہے ۔
از زبدہ الفقہ
.......

كيفية أداء صلاة عيد الفطر عند الحنفية:

 أن ينوي المصلّي أداء صلاة عيد الفطر بقلبه، ويقول بلسانه: أصلي صلاة عيد الفطر لله تعالى، أما إذا كان المصلّي مقتدياً فإنه ينوي أيضاً متابعة الإمام. أن يُكبّر المصلّي تكبيرة الإحرام. أن يضع المصلّي يده اليمنى على يده اليسرى، تحت سُرّته، ثم يقرأ الثناء. أن يُكبّر المصلّي تكبيرات الزوائد بأن يُكبّر الإمام ويتبعه المقتدون، وهي عبارة عن ثلاث تكبيرات يرفع المصلي يديه عند كل تكبيرة، يسكت المصلي بين كل تكبيرة والأخرى مدة مقدارها ثلاث تكبيرات، ولا يُسنُّ خلال هذه المدة ذكر، ولا بأس بأن يقول: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلاّ الله، والله أكبر. أن يتعوّذ المصلّي بالله سرّاً، ثم يُبسمل، ثم يقرأ سورة الفاتحة، ويقرأ بعدها سورة أخرى، ويُندَب أن تكون سورة الأعلى. أن يُكبّر المصلّي للركوع، ثم يُكمل بقية أعمال الركعة الأولى من ركوع وقيام وسجود. أن يقوم المُصلّي للركعة الثانية مكبّراً لها، ثم يقرأ البسملة وسورة الفاتحة، ثم يقرأ سورة أخرى، ويُندَب أن تكون سورة الغاشية. أن يُكبّر المصلّي تكبيرات الزوائد، وهي ثلاث تكبيرات كما في الركعة الأولى. أن يُكبّر المصلّي للركوع، ويكمل بقية أعمال الصلاة.

 يرى فقهاء الحنفية أنه من الجائز تقديم تكبيرات الزوائد على القراءة في الركعة الثانية، ولكنّ الأولى عدم القيام بذلك. إذا زاد الإمام في عدد تكبيرات الزوائد فوق ثلاث تكبيرات، يجب على المقتدي أن يتابعه في ذلك إلى ست عشرة تكبيرةً، فإن زاد الإمام على ذلك فلا يُلزَم المقتدي متابعته.


 كيفية أداء صلاة عيد الفطر عند الشافعية:

 أن يُكبّر المصلّي تكبيرة الإحرام. أن يقرأ المصلّي دعاء الافتتاح. أن يُكبّر تكبيرات الزوائد، وعددها سبع تكبيرات، رافعاً يديه حذو مكبيه في كل تكبيرة، وتفصل بين كل تكبيرة والتي تليها مدة بقدر آية معتدلة، ويقول في هذه المدة: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ويُسنُّ له أن يضع يده اليمنى على يده اليسرى، تحت صدره بين كل تكبيرتين. أن يتعوّذ بالله، ثم يُبسمل، ثم يقرأ سورة الفاتحة، ثم يقرأ بعدها سورة أخرى، ويُسنّ أن يقرأ سورة (ق)، أو سورة الأعلى، أو سورة الكافرون. أن يُكبّر للركوع، ويُكمل أعمال الركعة الأولى وما فيها من ركوع وسجود. أن يُكبّرالمصلّي قائماً للركعة الثانية. أن يُكبّر خمس تكبيرات، غير تكبيرة القيام. أن يقرأ سورة الفاتحة، ثم يقرأ سورة أخرى، ويُسن أن تكون سورة القمر أو سورة الإخلاص. أن يُكمل أعمال الصلاة وما فيها من ركوع وسجود. 


كيفية أداء صلاة عيد الفطر عند الحنابلة:

 أن ينوي المصلّي أداء ركعتي صلاة العيد فرضاً كفائياً. أن يُكبّر تكبيرة الإحرام، ثم يقرأ دعاء الاستفتاح. أن يُكبّر تكبيرات الزوائد وعددها ست تكبيرات، رافعاً يديه عند كل تكبيرة، وقائلاً بين كل تكبيرة والتي تليها: الله أكبر كبيراً، والحمد لله كثيراً، وسبحان الله بكرة وأصيلاً، وصلى الله على النبي وآله وسلم تسليماً. أن يتعوّذ ثم يُبسمل، ثم يقرأ سورة الفاتحة، ثم يقرأ سورة الأعلى، ثم يركع، ويُتمّ أعمال الركعة. أن يُكبّر قائماً للركعة الثانية. أن يُكبّر تكبيرات الزوائد، وعددها خمس تكبيرات، ويقول بين كل تكبيرتين ما قال بين تكبيرات الركعة الأولى. أن يُبسمل، ثم يقرأ سورة الفاتحة، ثم يقرأ سورة الغاشية. أن يُكبّر للركوع، ثم يكمل أعمال الصلاة، وما فيها من ركوع وقيام وسجود وسلام. 


كيفية أداء صلاة عيد الفطر عند المالكية:

 أن يُكبّر المصلّي تكبيرة الإحرام. أن يُكبّر تكبيرات الزوائد، وعددها ست تكبيرات. أن يقرأ سورة الفاتحة، ثم يقرأ بعدها سورة أخرى، ويُسنّ أن تكون سورة الأعلى. أن يُكبّر للركوع، ثم يُتمّ أعمال الركعة الأولى. أن يُكبّر قائماً للركعة الثانية. أن يُكبّر تكبيرات الزوائد، وعددها خمس تكبيرات، عدا تكبيرة القيام. أن يقرأ سورة الفاتحة، ثم يقرأ سورة الشمس. ان يُكبّر للركوع، ويُتمّ أعمال الصلاة، وما فيها من ركوع وقيام وسجود وسلام. 


حكم صلاة العيد:

 اختلف الفقهاء في حكم صلاة العيد على عدة أقوال:[٦]

 القول الأول: صلاة العيد سنة عين مؤكدة، لكل من هو مخاطب بالصلاة ومأمور بها، وتُسن تأديتها في جماعة، ويُستنثى الحجاج، فتُسن لهم تأديتها فرادى، وإلى هذا القول ذهب فقهاء الشافعية.

 القول الثاني: صلاة العيد سنة عين مؤكدة، لكل من تلزمه صلاة الجمعة، بشرط أن تكون جماعة مع الإمام، وتكون مندوبة لمن فاتته مع الإمام، ولمن لم تلزمه كالصبيان، ولأهل منى من غير الحجاج، وإلى هذا القول ذهب فقهاء المالكية.

 القول الثالث: صلاة العيد واجبة، على من تجب عليه صلاة الجمعة بشروطها، وإلى هذا القول ذهب فقهاء الحنفية. القول الرابع: صلاة العيد فرض كفاية على كل مسلم تلزمه صلاة الجمعة، وقد تكون صلاة العيد سنة، لمن فاته أداؤها مع الإمام، وإلى هذا القول ذهب فقهاء الحنابلة. 

سنن يوم العيد يُستحب للمسلم في يوم العيد فعل سنن يوم العيد ومنها:[٧] أن يقوم المسلم بالتكبير من وقت غروب شمس آخر يوم من شهر رمضان إلى خروج الإمام لصلاة العيد، والتكبير يكون بقول: الله أكبر الله أكبر لا إله إلا الله، والله أكبر، الله أكبر ولله الحمد. يُسنّ للمسلم أن يغتسل قبل ذهابه إلى المصلى لأداء صلاة العيد. يُستحب للمسلم أن يتزين في اللباس يوم العيد.

 يُسنّ أن يأكل قبل خروجه إلى المصلى لأداء صلاة عيد الفطر. يُسنّ أن يذهب إلى صلاة العيد من طريق، وأن يعود منها من طريق آخر. 
يُستحب أن يذهب إلى المصلى لأداء صلاة العيد ماشياً لا راكباً، فإن ذهب راكباً فلا حرج في ذلك. يُستحب للمسلم أن يحضر خطبة العيد بعد الانتهاء من الصلاة.

محمد أبو يمين قاسمى
داكا، بنغلاديش


No comments:

Post a Comment