Sunday, 10 June 2018

مروجہ اجتماعی اعتکاف؟

مروجہ اجتماعی اعتکاف؟

اعتکاف کا مقصد چونکہ گناہوں سے اجتناب، خلوت نشینی، تزکیہ اور تطہیر نفس ہے، اس لئے اس مقصد کے حصول کے لئے کسی متبع سنت، واقف شریعت، عالم دین اور شیخ صالح  کی معیت، صحبت اور نگرانی میں اگر چند لوگ ایک مسجد میں اکٹھے ہوکے اعتکاف کریں تو قرآن وسنت سے اس طور اعتکاف کرنا جائز اور ثابت ہے
سورہ البقرہ آیت نمبر 187 میں
"وأنتم عاكفون في المساجد"
سے مفہوم ہوتا ہے کہ ایک مسجد میں متعدد لوگوں کا اجتماعا اعتکاف کرنا جائز ہے۔
خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اعتکاف کی ترغیب دی اور آپ کے ہمراہ بیشمار صحابہ اور خود ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا، صحیحین کی روایت میں صراحت ہے کہ "فاعتكف الناس معه ":
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ فِي قُبَّةٍ تُرْكِيَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا حَصِيرٌ قَالَ فَأَخَذَ الْحَصِيرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ فَدَنَوْا مِنْهُ فَقَالَ إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ ثُمَّ أُتِيتُ فَقِيلَ لِي إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ قَالَ وَإِنِّي أُرْبِئْتُهَا لَيْلَةَ وِتْرٍ وَإِنِّي أَسْجُدُ صَبِيحَتَهَا فِي طِينٍ وَمَاءٍ فَأَصْبَحَ مِنْ لَيْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَقَدْ قَامَ إِلَى الصُّبْحِ فَمَطَرَتْ السَّمَاءُ فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فَأَبْصَرْتُ الطِّينَ وَالْمَاءَ فَخَرَجَ حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ وَجَبِينُهُ وَرَوْثَةُ أَنْفِهِ فِيهِمَا الطِّينُ وَالْمَاءُ وَإِذَا هِيَ لَيْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ مِنْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ
صحيح مسلم. رقم 1167

حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ وَكَانَ لِي صَدِيقًا فَقَالَ اعْتَكَفْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ فَخَرَجَ صَبِيحَةَ عِشْرِينَ فَخَطَبَنَا وَقَالَ إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا أَوْ نُسِّيتُهَا فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوَتْرِ وَإِنِّي رَأَيْتُ أَنِّي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَرْجِعْ فَرَجَعْنَا وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَجَاءَتْ سَحَابَةٌ فَمَطَرَتْ حَتَّى سَالَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ وَكَانَ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ
صحيح البخاري 1912
كتاب فضل ليلة القدر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہمراہ عشرہ آخر کے اعتکاف کی ترغیب بھی صحابہ کو دی ہے:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ وَالدَّرَاوَرْدِيُّ عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ عَنْمُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي رَمَضَانَ الْعَشْرَ الَّتِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ فَإِذَا كَانَ حِينَ يُمْسِي مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً تَمْضِي وَيَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ رَجَعَ إِلَى مَسْكَنِهِ وَرَجَعَ مَنْ كَانَ يُجَاوِرُ مَعَهُ وَأَنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَمَرَهُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ قَالَ كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ ثُمَّ قَدْ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ *فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ* وَقَدْ أُرِيتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ ثُمَّ أُنْسِيتُهَا فَابْتَغُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ وَابْتَغُوهَا فِي كُلِّ وِتْرٍ وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ فَاسْتَهَلَّتْ السَّمَاءُ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ فَأَمْطَرَتْ فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فِي مُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ فَبَصُرَتْ عَيْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَظَرْتُ إِلَيْهِ انْصَرَفَ مِنْ الصُّبْحِ وَوَجْهُهُ مُمْتَلِئٌ طِينًا وَمَاءً 
صحيح البخاري. رقم: 1914

ازواج مطہرات نے بھی آپ کے ساتھ مسجد نبوی میں اعتکاف فرمایا ہے: 
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَتْنِي عَمْرَةُ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ أَنْ يَعْتَكِفَ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ فَاسْتَأْذَنَتْهُ عَائِشَةُ فَأَذِنَ لَهَا وَسَأَلَتْ حَفْصَةُ عَائِشَةَ أَنْ تَسْتَأْذِنَ لَهَا فَفَعَلَتْ فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ أَمَرَتْ بِبِنَاءٍ فَبُنِيَ لَهَا قَالَتْ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى انْصَرَفَ إِلَى بِنَائِهِ فَبَصُرَ بِالْأَبْنِيَةِ فَقَالَ مَا هَذَا قَالُوا بِنَاءُ عَائِشَةَ وَحَفْصَةَ وَزَيْنَبَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبِرَّ أَرَدْنَ بِهَذَا مَا أَنَا بِمُعْتَكِفٍ فَرَجَعَ فَلَمَّا أَفْطَرَ اعْتَكَفَ عَشْرًا مِنْ شَوَّالٍ
صحيح البخاري: 1940
بَاب مَنْ أَرَادَ أَنْ يَعْتَكِفَ ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَخْرُجَ

چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اعتکاف میں بٹھاکر ان کی تربیت ونگرانی فرماتے تھے
اس لئے آپ کی سنت مبارکہ نے یہ راہ کھلی رکھی ہے کہ کوئی متبع سنت اور واقف شریعت شیخ اپنے معتقدین ومنتسبین کو اپنے ہمراہ اپنے محلہ کی مسجد یا کسی ایسی مسجد میں جہاں لوگ زیادہ مستفید ہوسکیں اعتکاف کروائیں تو یہ جائز اور ثابت بالسنہ ہے

سب سے افضل اعتکاف مسجد حرام میں ہے ،پہر مسجد نبوی، پھر مسجد اقصی ،پہر جامع مسجد پھر ایسی مسجد میں جہاں لوگ زیادہ آتے ہوں
اپنے محلہ کی مسجد ہی میں معتکف ہوجانا ضروری نہیں ہے
’’رد المحتار" میں ہے:
وأما أفضل الاعتکاف ففي المسجد الحرام، ثم في مسجدہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثم في المسجد الأقصی، ثم في الجامع، قیل: إذا کان یصلی فیہ بجماعۃ فإن لم یکن ففي مسجدہ أفضل لئلا یحتاج إلی الخروج ، ثم ما کان أہلہ أکثر۔ (۳/۳۸۱، کتاب الصوم، باب الاعتکاف، النہر الفائق: ۲/۴۴، خلاصۃ الفتاوی :۱/۲۶۷)
یہی وجہ ہے کہ شروع سے سواد اعظم کا دستور رہا ہے کہ حرمین شریفین میں ان گنت تعداد میں لوگ معتکف ہوتے آئے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی کے بارے میں شاہ عبد العزیز صاحب لکھتے ہیں کہ اجتماعی اعتکاف فرماتے اور اپنے بعض مریدین کو اپنے ہمراہ اعتکاف کے لئے مکتوب بھی روانہ فرماتے۔
ہمارے اکابر میں فقیہ النفس حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہندحضرت مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، محدث العصر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا عبد الرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا عبد القادر رائے پوریؒ وغیرہم کا عمل بھی  رمضان کے آخری عشرے میں اپنے متعلقین کے ساتھ اعتکاف کرنے کا تھا۔
ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں اتنے بڑے بڑے جبال علم وعشاق رسول خلاف سنت کام تو نہیں کرسکتے ہیں نا!
ہاں اتنا ضرور ہے کہ اعتکاف ایک مسنون عمل ہے، اسے مکمل خلوص وللہیت کے ساتھ اور حتی الامکان اخفاء کے ساتھ انجام دیاجانا چاہئے۔
اس کی بلاوجہ تشہیر اور تکثیر سواد کے لئے آن لائن فارم کی خانہ پری یا اشتہارات کی اشاعت وطباعت  جیسے رسوم سے اجتناب کرنا چاہئے
اس طرح کی "ایجاد بندہ" سے اعتکاف مسنون کی شبیہ بری طرح متاثر ہوتی ہے اور خدشہ ہوتا ہے کہ پھر اعتکاف بھی کوئی رسم محض بن کے نہ رہ جائے۔
اسی کے ساتھ یہ بات بھی خوب اچھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ محلہ کی مسجد میں کم از کم ایک آدمی کا بھی معتکف ہونا سنت موکدہ علی الکفایہ ہے
اس کے ترک سے پورے محلہ والے سنت موکدہ کے چھوڑنے کے گنہگار ہونگے
کچھ لوگ دوسرے شہروں میں اجتماعی اعتکاف کے لئے چل نکلتے ہیں اور خود ان کے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنے والا کوئی نہیں ملتا ! یہ عمل وسلوک بالکل ہی غلط ہے،
ایک مستحب عمل میں شرکت کے لئے سنت موکدہ کو چھوڑ بیٹھنا کوئی دانش مندی نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
25 رمضان 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment