Friday, 29 June 2018

امام کو مقتدیوں کی کس قدر رعایت کرنی چاہئے

امام کو مقتدیوں کی کس قدر رعایت کرنی چاہئے
سوال ]۲۰۹۷[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
کہ (۱) امام کو مقتدی کی رعایت کرنی چاہئے یا نہیں؟
(۲) امام صاحب کواگر رعایت کرنی چاہئے تو کس قدر اور کن کن رکن میں کرنی چاہئے ہر رکن میں یا بعض رکن میں؟
(۳) امام رکوع سے اٹھ کر سجدہ میں کتنی دیر کے بعد جائے، اٹھتے ہی فوراً چلا جائے یا تھوڑا رک کر اگر رک کر جائے تو اس کی مقدار بیان فرمائیے ؟
(۴) امام کو ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے کیلئے کتنی دیر تک ٹھہرنا چاہئے، نیز یہ بھی تحریر فرمائیے کہ نماز سکون کے ساتھ امام کو کب کب پڑھنی چاہئے؟ اور کب کب نہ پڑھنی چاہئے؟
المستفتي: احقر محمد نزیر ، متعلم مدرسہ شاہی، مرادآباد

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
(۱) امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے۔
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول الله ﷺ قال إذا صلی أحدکم للناس فلیخفّف فإن فیہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطوّل ماشاء۔ (بخاری شریف ، کتاب الأذان، باب تخفیف الإمام فی القیام واتمام الرکوع والسجود ۱/۹۷، رقم:۶۹۴، ف: ۷۰۳)
أن الإمام ینبغی لہ أن یراعی حال قومہ۔ (مبسوط سرخسی ۱/۱۶۲)

(۲) امام کو صرف قرأت میں مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے، اس طور پر کہ مقدار مسنونہ یعنی فجر اور ظہر میں طوال مفصل عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل سے زیادہ قرأت کرنے کو مقتدیوں کی رعایت کی بنیاد پر ترک کردے، ہاں البتہ ارکان وواجبات وسنن مکمل طور پر اداکرے، اس رعایت کی بنیاد پر کوتاہی نہ کرے۔
ویسن فی الحضر لإمام ومنفرد طوال المفصل فی الفجر والظہر، وأوساطہ فی العصر والعشاء ، وقصارہ فی المغرب۔ (درمختار مع الشامی زکریا۲/۲۶۱، کراچی ۱/۴۹۲)
ویکرہ تحریماً تطویل الصلوٰۃ علی القوم زائداً علی قدر السنۃ ، فی قراء ۃ وأذکار رضی القوم أولا لإطلاق الأمر بالتخفیف۔ (شامی زکریا۲/۳۰۴، کراچی۱/۵۶۴)
ولا یزید علی القراء ۃ المستحبۃ ولا یثقل علی القوم ، ولکن یخفف بعد أن یکون علی التمام والإستحباب ۔(عالمگیری، زکریا قدیم ۱/۷۸، جدید۱/۱۳۵)

(۳) امام کو رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اطمینان کیساتھ قومہ کرنا چاہئے کہ تمام اعضاء اپنی حالت پر صحیح سالم آجائیں، جس کی مقدار ایک تسبیح کے بقدر ہے، اور قومہ میں جو دعاء پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، وہ دعا پڑھنا بھی افضل اور مستحب ہے۔
عن أبی سعید الخدری قال:کان رسول الله ﷺ إذا رفع رأسہ من الرکوع قال ربنا لک الحمد ملئُ السموات والأرض، وملئُ ما شئت من شییء بعد، أہل الثناء و االمجد أحق ما قال العبد وکلنا لک عبد، اللّٰہمّ: لا مانع لما أعطیت، ولا معطی لما منعت، ولا ینفع ذاالجد منک الجد۔ (مسلم شریف، الصلاۃ، باب ما یقول إذا رفع رأسہمن الرکوع النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۹۰، بیت الأفکار رقم:۴۷۷)
وتعدیل الأرکان أي تسکین الجوارح قدر تسبیحۃ فی الرکوع والسجود وکذا فی الرفع منہما علیٰ ما اختارہ الکمال۔ (درمختارمع الشامی، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ ،کراچی۱/۴۶۴، زکریا۲/۱۵۷)

(۴) امام کو ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے میں تعدیل ارکان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور تعدیل ارکان میں جتنا وقت لگ جائے اتنی دیر ٹھہرے۔
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول الله ﷺ ، دخل المسجد فدخل رجل فصلی، فسلم علی النبی ﷺ فرد وقال: ارجع فصل فإنک لم تصل فرجع فصلی کما صلی ثم جاء فسلم علی النبی ﷺ فقال: ارجع فصلّ فإنک لم تصل ثلثاً فقال والذی بعثک بالحق ما أحسن غیرہ فعلمنی، فقال: إذا قمت إلی الصلاۃ فکبر، ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن، ثم ارکع حتی تطمئن راکعاً، ثم ارفع حتی تعتدل قائماً ، ثم اسجد حتی تطمئن ساجداً، ثم ارفع حتی تطمئن جالساً وافعل ذلک فی صلاتک کلہا۔(صحیح البخاری، کتاب الأذان ، باب وجوب القرأۃ للإمام والماموم فی الصلوات کلہا الخ النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۰۴، رقم:۷۴۸، ف:۷۵۷)
ومقتضی الدلیل وجوب الطمانینۃ في الأربعۃ أي فی الرکوع والسجود وفي القومۃ والجلسۃ۔ (شامی، کتاب الصلاۃ ، صفۃ الصلاۃ کراچی ۱/۴۶۴، زکریا۲/۱۵۷)

(۵) امام چونکہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے، اس لئے اسے ہر حال میں نماز خشوع وسکون کے ساتھ پڑھنی چاہئے، ہاں البتہ اگر کوئی خوف کی حالت ہو یا کوئی اور ضرورت وغیرہ ہو تو نماز میںزیادہ سے زیادہ اختصار کرنا بہتر ہے، مثلاً نماز شروع ہوگئی، اور اسی اثناء میں بارش ہونے لگے اور کچھ لوگ مسقف حصہ سے باہر بھیگ رہے ہوں یا سخت گرمی کا زمانہ ہے اور کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے ہوں ، یا اسٹیشن میں نماز پڑھی جارہی ہے، اور گاڑی نکل جانے کا خطرہ ہے تو اس قسم کے حالات میں زیادہ سے زیادہ اختصار کرکے ماتجوز بہ الصلوٰۃ کے ساتھ جلد نماز ختم کردینی چاہئے، اور عام حالات میں مفصلات سے مسنون قرأت کرنا مسنون اور افضل ہے۔
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول الله ﷺ قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفّف، فإن فیہم الضعیف، والسقیم ، والکبیر ، وإذا صلٰی أحدکم لنفسہ، فلیطوّل ماشاء۔ (بخاری شریف ، کتاب الأذان ، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ماشاء النسخۃ الہندیۃ ۱/۹۷، رقم:۶۹۴، ف:۷۰۳)
الإمام ضامن أي متکفل لصلوٰۃ المؤتمین بالإتمام - إلی قولہ - فالضامن ھنا لیس لمعنی الغرامۃ بل یرجع إلی الحفظ والرعایۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، شرح مشکوٰۃ المصابیح امدادیہ ملتان۲/۱۶۵)
فقد ظہر من کلامہ أنہ لا ینقص عن المسنون، إلا لضرورۃ کقراء تہ بالمعوذتین لبکاء الصبی۔ (شامی، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ کراچی ۱/۵۶۵، زکریا۲/۳۰۵)

فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
یکم؍ربیع الاول۱۴۲۶ھ
(الف فتویٰ نمبر:۳۷/۸۷۵۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱؍۳؍۱۴۲۶ھ
.....
مقتدیوں کی رعایت
(98) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ ، فَإِنَّ فِيهِمُ السَّقِيمَ وَالضَّعِيفَ ، وَالْكَبِيرَ ، وَإِذَا صَلَّى اَحَدُكُمْ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ. (رواه البخارى ومسلم) 
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے (یعنی زیادہ طول نہ دے) کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی اور بوڑھے بھی (جن کے لئے طویل نماز باعث زحمت ہو سکتی ہے) اور جب تم میں سے کسی کو بس اپنی نماز اکیلے پڑھنی ہو تو جتنی چاہے لمبی پڑھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح ..... بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اپنے قبیلہ یا حلقہ کی مسجدوں میں نما پڑھاتے تھے اپنے عبادتی ذوق وشوق میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جس کی وجہ سے بعض بیمار یا کمزور یا بوڑھے یا تھکے ہارے مقتدیوں کو کبھی کبھی بڑی تکلیف پہنچ جاتی تھی، اس غلطی کی اصلاح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر اس طرح کی ہدایت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اس سے یہ تھا کہ امام کو چاہئے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں کبھی کوئی بیمار یا کمزور یا بوڑھا بھی ہوتا ہے، اس لئے نماز زیادہ طویل نہ پڑھے ۔ یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت کی نماز میں بس چھوٹی چھوٹی سورتیں ہی پڑھی جائیں اور رکوع سجدہ میں تین دفعہ سے زیادہ تسبیح بھی نہ پڑھی جائے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی معتدل نماز پڑھاتے تھے وہی امت کے لئے اس بارے میں اصل معیار اور نمونہ ہے اور اس کی روشنی میں ان ہدایات کا مطلب سمجھا چاہئے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ حدیثیں آگے اپنے موقع پر آئیں گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تفصیلی کیفیت اور قرأت وغیرہ کی مقدار معلوم ہوگی۔
(99) عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ ، ثُمَّ قَالَ: « إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ » (رواه البخارى ومسلم) 
ترجمہ: قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بخدا میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز میں شریک نہیں ہوتا (مجبوراً اپنی نماز الگ پڑھتا ہوں) کیوں کہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں (جو میرے بس کی نہیں) حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس بارے میں خطبہ دیا) اور میں نے کبھی آپ کو وعظ اور خطبہ کی حالت میں اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا ۔ پھر اس خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اپنے غلط طرز عمل سے اللہ کے بندوں کو دور بھگانے والے ہیں جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لئے لازم ہے کہ مختصر نماز پڑجئے (زیادہ طویل نہ پڑھائے) کیوں کہ ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح ..... یہ صحابی جن کی طویل نماز پڑھانے کی شکایت اس حدیث میں مذکور ہوئی ہے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔
اس قسم کا ایک دوسرا واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا بھی مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عام طور سے نمازِ عشاء دیر کر کے پڑھتے تھے۔ ایک دن حسبِ معمول نماز دیر سے شروع کی اور اس میں سورہ بقرہ پڑھنی شروع کر دی۔ مقتدیوں میں سے ایک صاحب نے (جو بےچارے دن بھر کے تھکے ہارے تھے) نیت توڑ کے اپنی الگ نماز پڑھی اور چکے گئے۔ آخر معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو ڈانٹا اور فرمایا افتان أنت يا معاذ (اے معاذ! کیا تم لوگوں کے لئے باعث فتنہ بننا چاہتے ہو اور ان کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو) آگے اسی حدیچ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ:
وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا اور وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى اور وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى اور سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى یہ سورتیں پڑھا کرو ۔ (1)
(100) عَنْ أَبِىْ قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ ، فَأُرِيدُ إِطَالَتَهَا ، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ ، فَأَتَجَوَّزُ مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ» (رواه البخارى) 

ترجمہ: حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: (کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ کچھ طویل پڑھنے کا ہوتا ہے، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سُن لیتا ہوں تو نماز میں اختصار کر دیتا ہوں ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی آوز سے اس کی ماں کا دل کتنا زیادہ پریشان ہوگا۔ (صحیح بخاری)
تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھانے کی حالت میں جب کسی بچے کے رونے کی آواز میرے کان میں آ جاتی ہے تو میں اس خیال سے کہ شاید اس بچے کی ماں جماعت میں شریک ہو اور اس کے رونے سے اس کا دل پریشان ہو رہا ہو ، میں نماز مختصر پڑھ کے جلدی ختم کر دیتا ہوں۔
(101) عَنْ أَنَسِ « مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً ، وَلاَ أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ » (رواه البخارى ومسلم) 
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے کبھی کسی امام کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے ہلکی اور ساتھ ہی مکمل ہو (یعنی آپ کی نماز ہلکی بھی ہوتی تھی اور بالکل مکمل بھی) اور ایسا ہوتا تھا کہ نماز پڑھانے کی حالت میں کسی بچے کے رونے کی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے تو نماز کو مختصر اور ہلکا کر دیتے اس خطرے کی وجہ سے کہ اس کی ماں بےچین ہو (اور اس بےچاری کی نماز خراب ہو) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح ..... امام کے لئے صحیح معیار اور رہنما اصول یہی ہے کہ اس کی نماز ہلکی سُبک بھی ہو اور ساتھ ہی مکمل اور تام بھی ۔ یعنی ہر رکن اور ہر چیز ٹھیک ٹھیک اور سنت کے مطابق ادا ہو جس کی تفصیلات ان شاء اللہ آئندہ اپنے موقع پر آئیں گی ۔
معارف الحدیث


No comments:

Post a Comment