Friday, 29 June 2018

جمعہ کی فرضیت کب اور کہاں ہوئی؟

جمعہ کی فرضیت کب اور کہاں ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمہ اللہ
نماز جمعہ کب اور کہاں اور کیسے ابتداءً ہوئی
یعنی نماز جمعہ کا تاریخی پس منظر بیان فرمائیں نوازش ہوگی
حضرت الاستاذ مفتی شکیل صاحب کی توجہ کا طالب
امجد اللہ صدیقی بوکاروی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
جمعہ کی نماز مستقل فرض عین ہے، ظہر کا بدل نہیں، ظہر سے بھی زیادہ موکد فرض ہے، قرآن، حدیث اور اجماع امت سے اس کی فرضیت ثابت ہے، جمعہ کا منکر کافر اور بلا عذر تارک گنہگارہے ۔:
﴿إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ﴾۔(الجمعۃ:9)
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً : عَبْدٌ مَمْلُوكٌ ، أَوِ امْرَأَةٌ ، أَوْ صَبِيٌّ ، أَوْ مَرِيضٌ " ( رواه ابوداؤد :
1067

ترجمہ: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم اور واجب ہے۔ اس وجوب سے چار قسم کے آدمی مستثنیٰ ہیں: ایک غلام جو بے چارہ کسی کا مملوک ہو، دوسرے عورت، تیسرے لڑکا جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو، چوتھے بیمار۔ (سنن ابی داؤد)
وعَنِ بْنَ عُمَرَ وَأَبِىْ هُرَيْرَةَ أَنَّهُمَا قَالَ: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ : «لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ» (رواه مسلم :428)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بر سر منبر فرما رہے تھے کہ: جمعہ چھوڑنے والے لوگ یا تو اپنی اس حرکت سے باز آئیں یا یہ ہوگا کہ ان کے گناہ کی سزا میں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر وہ غافلوں ہی میں سے ہوجائیں گے (اور اصلاح کی توفیق سے محروم کر دئیے جائیں گے) ۔ (صحیح مسلم)
فتح القدير میں تمام مسلمانوں کا اِس کی فرضیت پر اِجماع منقول ہے۔ (فتح القدیر:2/49)
جمعہ کی فرضیت مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی تھی، لیکن مخالفت کے زور اور نامساعد حالات کی وجہ سے وہاں اس کی ادائی ممکن نہ ہوسکی تھی، ہجرت مدینہ کے بعد اولیں جمعہ اسعد بن زرارہ کی امامت میں مدینہ پاک میں ادا کی گئی، چالیس کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس میں شریک تھے،
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد آپ کی اقتداء میں مدینہ منورہ کے محلہ بنو سالم بن عوف میں آپ کی پہلی جمعہ ادا ہوئی:
أخرج الدارقطني من طریق المغیرۃ بن عبد الرحمٰن عن مالک عن الزہري عن عبید اللّٰہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: أذن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الجمعۃ قبل أن یہاجر ولم یستطع أن یجمع بمکۃ، فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد! فانظر الیوم الذي تجہر فیہ الیہود بالزبور، فأجمعوا نساء کم وأبناء کم فإذا مال النہار عن شطرہ عن الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا إلی اللّٰہ برکعتین قال: فہو أول من جمع حتی قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ فجمع عند الزوال من الظہر وأظہر ذلک، ذکرہ الحافظ في ’’التلخیص الحبیر‘‘ ۱:۱۳۳، وسکت عنہ۔ (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
تتمۃ أولی: احتج بعض أکابرنا للمسألۃ بأن فرض الجمعۃ کان بمکۃ، ولکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یتمکن من إقامتہ ہناک؛ وأقامہا بالمدینۃ حین ہاجر إلیہا، ولم یقمہا بقباء مع إقامتہ بہا أربعۃ عشر یوماً، وہذا دلیل لما ذہبنا إلیہ من عدم صحۃ الجمعۃ بالقری۔ (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت، فتاوی دارالعلوم ۵؍۶۸-۷۱)
قال الإمام أبو جعفر محمد بن جریر الطبري حدثني یونس بن عبد الأعلی قال: أخبرنا ابنا وہب قال: حدثني سعید بن عبد الرحمن الجمعي أنہ بلغہ عن خطبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أول جمعۃ صلاہا بالمدینۃ في بني سالم بن عوف، الحمد للّٰہ، أحمدہ واستعینہ الخ۔ (تاریخ الطبري ۷۲)
فتح القدیر اور شامی میں ہے:
وأول جمعۃ أقیمت في الإسلام الجمعۃ التي اقامہا أسعد بن زرارۃ رضي اللّٰہ عنہ أحد النقباء الاثنی عشر فصلاہا بالمدینۃ بأمرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل قدومہ المدینۃ … وأما أول جمعۃ جمعہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہو أنہ لما قدم المدینۃ مہاجر أنزل قباء علی بني عمرو بن عوف، وأقام بہا یوم الاثنین والثلاثاء، والأربعاء، والخمیس، وأسس مسجدہم ثم خرج یوم الجمعۃ عامداً المدینۃ فأدرکتہ صلاۃ الجمعۃ في بني سالم بن عوف في بطن وادٍ لہم، فخطب، وصلی الجمعۃ بہم۔ (حاشیۃ رد المحتار ۳؍۳ زکریا، فتح القدیر ۲؍۵۱،)

واللہ  اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
14 شوال
1439

No comments:

Post a Comment