Saturday, 16 June 2018

دَین قوی، دَین متوسط اور دَین ضعیف میں کیا فرق ہے؟

دَین قوی، دَین متوسط اور دَین ضعیف میں کیا فرق ہے؟
قوی جو مال تجارت کا، یا قرض کا بدل ہو
متوسط جو مال تجارت کے علاوہ کسی اور مال کا بدل ہو
ضعیف جو کسی مال کا بدل نہ ہو یا بغیر بدل کے ہو
قرض کی تین قسمیں:
پہلی قسم والے قرض کی تین قسمیں ہیں:
(۱) دَین قوی
(۲) دَین متوسط
(۳) دَین ضعیف۔
ان تینوں قسم کے دُیون (قرضوں) کے وصول ہونے پر زکاة کی ادائیگی کا طریقہ اور حکم قدرے مختلف ہے، ذیل میں اجمالاً دَین کی تینوں قسموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
دَین قوی کا حکم:
اگر کسی شخص کونقد روپیہ یا سونا یا چاندی بہ طور ِ قرض دی،یا کسی شخص کے ہاتھ تجارت کا مال بیچا اور اس کی قیمت ابھی وصول نہیں ہوئی،پھر یہ مال ایک سال یا دو، تین سال کے بعد وصول ہوا تو ایسے قرض کو ”دَینِ قوی“ کہتے ہیں۔
ایسا قرض اگرچاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة حساب کر کے دینا فرض ہے، لیکن اگر قرض یک مُشت وصول نہ ہو ،بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو ، تو جب چاندی کے نصاب کا بیس فی صد (یعنی: ساڑھے دس تولے)وصول ہو جائے، تو صرف اس بیس فی صدکی زکاة ادا کرنا فرض ہو گا، پھر جب مزید بیس فی صدوصول ہو جائے گا تو اس کی زکاة ادا کرنافرض ہو گی، اسی طرح ہر بیس فی صد وصول ہونے پرزکاةفرض ہوتی رہے گی اور زکاة سابقہ تمام سالوں کی نکالی جائے گی۔
اور اگر قرض کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر نہیں؛ بلکہ اس سے کم ہے تو اس پر زکاة فرض نہیں ہو گی؛ البتہ اگر اس آدمی کی ملکیت میں کچھ اور مال یا رقم ہے اور دونوں کو ملانے سے چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو جاتے ہیں تو زکاة فرض ہو گی۔ (رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال:۲/۳۰۵،۳۰۶،۳۰۷، سعید)
دَین متوسط کا حکم:
اگر کسی کو قرض نقد روپے اور سونا چاندی کی صورت میں نہیں دیا اور تجارت کا مال بھی فروخت نہیں کیا، بلکہ کوئی چیز فروخت کی جو تجارت کی نہیں تھی، مثلاً:پہننے کے کپڑے یا گھر کا کوئی سامان یا کوئی زمین فروخت کی تھی،اس کی قیمت باقی ہے، تو ایسے قرض کو ”دَین ِمتوسط “کہتے ہیں۔
تو اگر یہ قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے اور چند سالوں کے بعد وصول ہوئی تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة اس پر فرض ہو گی اور اگر یک مُشت وصول نہ ہو تو جب تک یہ قرض چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد وصول نہ ہو جائے، تب تک زکاة ادا کرنا فرض نہ ہو گا، البتہ وصول ہونے کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکاة ادا کرنا فرض ہے۔
اگر مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہو تو ”دَین متوسط“ سے جو بھی تھوڑی تھوڑی رقم ملتی رہے، اس کو اپنے پاس موجود نصاب میں ملاتا رہے اور زکاة دے۔(العالمگیریہ، کتاب الزکاہ، باب اقسام الدیون:۱/۱۷۵، رشیدیہ)
دَین ِ ضعیف کاحکم:
کسی شخص کو نہ نقد روپیہ قرض دیا، نہ سونا چاندی فروخت کی اور نہ ہی کوئی اور چیز فروخت کی، بلکہ کسی اور سبب سے یہ قرض دوسرے کے ذمے ہو گیا، مثلاً: شوہر کے ذمے اپنی بیوی کا حق مہر ادا کرنا باقی ہو، یا بیوی کے ذمے شوہر کا بدلِ خلع ادا کرنا باقی ہو،یا کسی کے ذمے دیت ادا کرنا باقی ہو یا کسی مالک کے ذمے اپنے ملازم کی تنخواہ دینا باقی ہو ، تو ایسے قرضوں کو ”دَین ِ ضعیف“ کہتے ہیں۔
ایسے قرضوں پر زکاة کی ادائیگی کا حکم یہ ہے کہ ان اموال کی زکاة کا حساب وصول ہونے کے دن سے ہو گا، اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکاة فرض نہیں ہو گی۔وصول ہونے کے بعد اگر یہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو اس نصاب کے ساتھ اس مال کو ملا کے زکاة ادا کرے گا، ورنہ وصول ہو جانے کے بعد اس مال پر سال گذر جانے کے بعد زکاة ادا کرے گا۔(فتح القدیر، کتاب الزکاة: ۲/۱۲۳، رشیدیہ)
اور جو ادھار خود لیا ہوا ہے ،اس کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ فورا ً سارے کا سارا ادا کرنا لازم ہے، تو اس کو نصاب سے منہا کیا جائے گا، دوسری قسم یہ کہ یک مشت اس کل رقم کی ادائیگی لازم نہیں بلکہ قسطوں میں ادا کرنا ہے تو صرف اس مہینے کی قسط نصاب سے منہا کی جائے گی۔اس کے علاوہ قرض اگر تجارت کے لیے لیا ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی عمارت ، بلڈنگ یا مشینری وغیرہ کے لیے لیاہے تو اسے نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا اور اگر محض تجارت کے لیے لیا ہے تو اسے نصاب سے منہا کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاة: ۲/۲۶۳، سعید)
از: مولانامفتی محمد راشد ڈسکوی                       
استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف و تالیف جامعہ فاروقیہ، کراچی

No comments:

Post a Comment