Tuesday 26 June 2018

شیخ محمود آفندی رحمہ اللہ؛ ایک مختصر تعارف

شیخ محمود آفندی رحمہ اللہ؛ ایک مختصر تعارف
کیا آپ شیخ محمود آفندی کے بارے میں بھی جانتے ہیں؟ 1857 عیسوی کی جنگ آزادی کے بعد دیو بند شہر کی چھتہ مسجد میں اس درسگاہ کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے استاد ملاء محمود  اور پہلے شاگرد محمود حسن رحمہم اللہ تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انار کے درخت تلے ایک استاد اپنے شاگرد کو علوم نبویہ ﷺ کے ایسے جام پلاتا چلا گیا
ترکی میں جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا تو کچھ علمائے نے چھپ چھپ کر اور درختوں کے نیچے دیہاتوں اور گاؤوں میں وہاں کے بچوں کو دینی تعلیم دی
جب وہاں کے لوگ فوج  کو آتے دیکھتے تو فوراً بچے کھیتی باڑی میں مشغول ہوجاتے
یوں محسوس ہوتا تھا یہ بچے کوئی تعلیم حاصل نہیں کر رہے ہیں. ان طالبعلموں میں یہ شیخ محمود آفندی نقشبندی بھی شامل تھے اسی طرح دینی تعلیم حاصل کیا
پھر اپنے گاؤں میں دینی سلسلہ جاری رکھنے کے جرم دو خلفاء کو شہید کیا گیا
پھر وہاں سے شہر کا رخ کیا وہاں ایک قدیم  مسجد تھی حضرت مولانا محمود آفندی نقشبندی وہاں رہنے لگے اور چالیس سال تک درس دیتا رہے
تقریباً اٹھارہ سال تک انکے پیچھے کوئی نماز پڑھنے کیلئے تیار نہیں تھا اٹھارہ سال کے بعد آہستہ آہستہ لوگ آنے لگے اور حضرت جی سے فیضیاب ہوتے گئے
اب اسی مسجد میں جب آذان ہوتی ہے تو ذوق ذوق لوگ اسی مسجد میں نماز کیلئے آتے ہیں یہ ان بزرگوں کی محنت ہے
حضرت جی کے زندگی کا جب میں نے مطالعہ کیا تو ایک عجیب واقعہ میرے آنکھوں کے سامنے گذرا
ترکی سے جب خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کیا گیا وہ وہاں کے بانی کمال اتا ترک نے عربی کتاب اور دینی علوم پر مکمل پابندی لگادی تو حضرت مولانا شیخ محمود آفندی نقشبندی نے اپنے طلباء کو انگلیوں کے اشاروں پر صرف اور نحو کے گردان پڑھائے حج اور نماز کے مسئلے بھی ہاتھوں کے اشاروں پر سمجھائے اللہ تعالی نے ان کے ہاتھوں پر مکمل دینی نصاب رکھا تھا
اب تو وہاں بہترین نمونے سے دینی تعلیم پڑھائے جاتی ہے
حوالہ کتاب (ترک نادان سے ترک دانا تک) مصنف مولانا ابولبابہ
شیخ محمود آفندی کا جو عقیدہ ہے وہی الحافظ رجب طیب اردوغان کا بھی ہے
شیخ محمود آفندی کا عقیدہ وہی ہے جو حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا ہے
شیخ آفندی جنہوں نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو چودہویں صدی کا مجدد کہا۔ جنہوں نے اٹھارہ جلدوں میں ترکش تفسیر "روح الفرقان" لکھی اور اس کی چوتھی جلد کے صفحہ 724 پر مولانا  اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو شیخ المشائخ اور مولانا ذکریا کاندھلوی رحمہ اللہ کو امام, محدّث اور علامہ لکھا۔
2013 میں  شیخ الاسلام  شیخ محمود آفندی کو "امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ  اوارڈ" سے بھی نوازا۔
......

مزید معلومات کے لئے  
"ترک داناں سے ترخ ناداں تک"
کا مطالعہ کیجئے جسے
مندرجہ ذیل لنک سے  ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے:
https://archive.org/download/TURKENADANSETURKEDANANTAK/TURK_E_NADAN_SE_TURK_E_DANAN_TAK.pdf
شیخ ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم ، شیخ محمود آفندی زید مجدہ کے ھمراہ (استنبول ، ترکی)

.......
اردگان کی جیت عدنان میندرس کی جیت ہے !
یہ عظیم انسان جسکا نام ”عدنان مندریس“ ہے، 1950 تا 1960 تک ترکی کا وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ مسلسل تین انتخابات (1950، 1954 ، اور 1957) جیتنے والے وزیراعظم کو ترک آرمی نے صرف اس بات پر تختہ دار پر لٹکایا کہ انہوں نے ”نیا لبرل ترکی“ کے بانی لبرل مصطفےٰ کمال اتاترک کے مساجد میں آذان دینے پر لگائی ہوئی پابندی کو ختم کیا، اور ترکی کے مساجد میں عربی زبان میں ایک مرتبہ پھر آذان دینے کی اجازت دی۔
عدنان مندریس صاحب نے ساتھ ساتھ یہ بیان بھی دیا کہ ترکی پارلیمنٹ یہ چاہتی ہے کہ شریعت محمدی مملکت ترکی کا سپریم لا ہونی چاہئے۔
”مرد“ اپنی نظریات کی خاطر اپنی جان دیا کرتے ہیں۔ عدنان مندریس اگرچہ اس فانی دنیا سے اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوکر رحلت کرچکے، لیکن آپ کا نام زندہ ہے۔ آپ دلوں کے اندر زندہ ہیں۔
ترکی کے ہزاروں سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں، ہسپتال، اور بے شمار سرکاری املاک آپ کے نام سے منسوب ہیں۔
منقول 

No comments:

Post a Comment