Sunday, 4 October 2015

دعوت الی اللہ ؛تمام مسائل کا حل

ایس اے ساگر
ان دنوں امت پر یکے بعد دیگرے مصائب کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں...سونے پر سہاگہ نت نئی بے بنیاد تدابیر اختیار کی جارہی ہیں جس سے حالات بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں... غنیمت ہے کہ اہل علم نے امت کی رہنمائی کی ہے کہ محض مردم شماری میں مسلم لکھوادینے کا نام اسلام نہیں ہے...یا جزوی طور پر اللہ کے احکام پورے کرنے کا نام اسلام نہیں ہے بلکہ اللّٰہ کی اطاعتِ کاملہ بجا لانے کا نام اسلام ہے۔ اللّٰہ کی یہ بندگی یعنی عبادت وعبدیت  دیگر مذاہب کی طرح محض پوجا پاٹ کا تصور نہیں بلکہ زندگی کے ہر مرحلہ؛ شخصی وانفرادی یا اجتماعی وملّی ہر میدان میں اللّٰہ کے احکام و ہدایات پر چلنے کا نام ہے۔ انبیا کرام علیہ الصلوہ والسلام کا مقصدِ بعثت یہی رہا ہے کہ لوگوں کو اللّٰہ کی طرف بلائیں اور جو اللّٰہ تعالےٰ نے نازل کیا ہے، اس کی لوگوں کو تلقین وتعلیم کریں جبکہ قرآنِ کریم میں وارد ہے :
يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ إِنّا أَر‌سَلنـٰكَ شـٰهِدًا وَمُبَشِّرً‌ا وَنَذيرً‌ا
٤٥ وَداعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذنِهِ وَسِر‌اجًا مُنيرً‌ا ... سورة الاحزاب میں صاف کہا گیا ہے کہ اے نبی ! یقیناً ہم نے آپ کو (رسول بنا کر) گواہیاں دینے، خوشخبریاں سنانے اورآگاه کرنے والا بھیجا ہے۔ اور اللّٰہ کے حکم سے اسکی طرف بلانے والا اور روشن چراغ۔
یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ان کے فریضہ رسالت کی یوں تلقین کی کہ
ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ... سورةالنحل میں ارشاد ہے کہ اپنے ربّ کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے ...
يـٰأَيُّهَا الرَّ‌سولُ بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَ‌بِّكَ ۖ وَإِن لَم تَفعَل فَما بَلَّغتَ رِ‌سالَتَهُ.... سورةالمائدة میں وارد ہے کہ اے رسول! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے ربّ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر ایسا نہ کیا تو آپ نے اللّٰہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔
نبی کریمﷺ نے یہ فرض بہ تمام وکمال پورا فرمایا اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اس کی تصدیق حاضرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ان الفاظ میں چاہی کہ
أَلَا إِنَّ كُلَّ رِبًا مِنْ رِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ لَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ» .... قَالَ: «اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ: اللَّهُمَّ اشْهَدْ  ثَلَاثَ مَرَّاتٍ1
یعنی خبردار ہوجاؤ! جاہلیت کے سود معاف کردئے گئے ہیں، اب تمہارے لیے صرف تمہارے اصل مال لینے کی ہی اجازت ہے۔پھر آپ نے فرمایا: یا الٰہی! کیا میں نے پہنچا دیا ہے تو صحابہ نے جواب دیا : ہاں، تین مرتبہ... پھر آپ نے بھی تین مرتبہ کہا: یا الٰہی ! اس پر گواہ ہوجا۔
رسولوں کے پہنچا دینے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا یہ حق جتایا ہے، فرمانِ نبوی صلی اللہ عیلہ وسلم ہے کہ...
هَلْ تَدْري ما حَقُّ اللهِ عَلى عِبادِهِ؟ قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ اللهِ عَلى عِبادِهِ أَنْ يَعْبُدوهُ وَلا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئاً ... 2
یعنی اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللّٰہ کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے؟
میں نے کہا: اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔
تو آپ نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرائیں۔
اللّٰہ کی اس بندگی کا مطلب زندگی کے ہر ہر مرحلہ پر ربّ کریم کی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا اور اسے ہر لمحہ اپنے اوپر لاگو کرنے کی جہدِ مسلسل کرنا ہے۔جب ہم اللّٰہ کی اس بندگی کو صرف اپنے عقائد اور عبادات ومناکحات (نکاح وطلاق) تک محدود کرلیتے ہیں اور یہ باور کرتےہیں کہ سیاست وعدالت، معیشت ومعاشرت اور تعلیم وابلاغ میں ہمیں اللّٰہ یا اپنے دین کی ہدایات کی ضرورت نہیں تو یہ بھی اللّٰہ کی بندگی اور عبادت سے انحراف ہےاور یہی سیکولرزم ہے کہ مسجد وعبادت یعنی پرائیویٹ زندگی کے علاوہ، ہردو افراد کے باہمی؍ ہمہ نوعیتی معاملات میں اللّٰہ کی تعلیمات وہدایات کو نظرانداز کردیا جائے۔ اسی لیے اللّٰہ تعالےٰ نے رسولوں کو مبعوث کیا کہ وہ لوگوں پر اللّٰہ کی اطاعت کے تقاضے واضح کردیں اور رسولوں کی یہ تعلیمات زندگی کے ہرہر میدان میں ہیں۔ تجارت اور معاملات سے لیکر، سیاست ومعاشرت کے جمیع میدانوں میں:
رُ‌سُلًا مُبَشِّر‌ينَ وَمُنذِر‌ينَ لِئَلّا يَكونَ لِلنّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعدَ الرُّ‌سُلِ.... سورةالنساء میں ارشاد ہے کہ ہم نے اُنہیں رسول بنایا، خوشخبریاں سنانے اور آگاه کرنے والے تاکہ رسولوں کے بھیجنے کے بعد اللّٰہ تعالیٰ پر لوگوں کی کوئی حجت اور الزام ره نہ جائے۔
اللّٰہ تعالیٰ کے رسول علیہم السلام  کسی بھی معاشرے میں انقلاب بپا کر دیتے ہیں، ایک بدحال معاشرے کو اوجِ کمال تک پہنچا دیتے ہیں، رسولوں کی تعلیمات پر چلنے والوں کی آخرت کے ساتھ دنیا بھی سنور جاتی ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عرب کا بدترین معاشرہ محمدی تعلیمات کی روشنی سے منور ہوکر، چند ہی دہائیوں میں دنیا کی صالح ترین قوم بن گیا، اسلام پر عمل کرنے سے اُنہیں دین کی برکت کے ساتھ دنیا میں بھی عظمتیں نصیب ہوئیں۔ دنیا کی سپر طاقتیں اس دعوتِ نبوی کے بعد اُن کے سامنے ٹھہر نہ سکیں، نبی کریمﷺ نے پیش گوئی کی تھی کہ میں قیصر وکسرٰی کے خزانے تمہارے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں، جو حرف بحرف پوری ثابت ہوئی...:
يا عدى بن حاتم! أسلِم تسلم، فلعلّك إنما يمنعك من الإسلام أنك ترٰى بمن حولى خصاصة وأنك ترى الناس علينا إلبا. هل رأيت الحيرة، فليوشكن أن الظعينة ترحل من الحيرة بغير جوار حتى تطوف بالبيت، وليفتحنّ علينا كنوز كسرٰى بن هرمز، ويوشك أن لا يجد الرجل من يعطى ماله صدقة3 
یعنی اے عدی بن حاتم! اسلام قبول کرلے، تو فلاح پاجائے گا۔ شاید کہ تیرے اسلام سے گریز کی وجہ یہ ہے کہ تو میرے ارد گرد حاجت مندوں کو دیکھتا اور لوگوں کو ہمارے خلاف مجتمع پاتا ہے۔تو نے 'حیرہ' مقام کو دیکھا ہے؟ وہ وقت آنے والا ہے جب ايك عورت حیرہ سے کسی ہمراہ کے بغیربے خوف وخطر اکیلی بیت اللّٰہ کے طواف کو نکلے گی۔ اور عنقریب کسریٰ بن ہرمز کے خزانے ہم پر کھول دیے جائیں گے۔ اور وہ وقت بڑا قریب ہے جب آدمی کو صدقہ وصول کرنے والا نہ ملے گا۔''
اس فرمانِ مبارکہ میں اسلام لانے والوں کو امن وامان، قومی طور پر دنیا کی سپر طاقت اور شخصی طور پر مال ودولت کی فراوانی کی خوشخبری دی گئی ہے، اور چند ہی سالوں میں یہ سب کچھ زمین کے سینے پر واقع ہوگیا۔مقامِ غور ہے کہ نبی کریمﷺ نے معاشرے میں کس ذریعے سے انقلاب بپا کیا، ان کا کارنامہ کیا سائنس وٹیکنالوجی کا انقلاب تھا، یا آپ نے اپنی قوم کو ناقابل تسخیر اقتصادی طاقت بنانے کی جدوجہد کی تھی۔ یا اپنی قوم کا شہری انفراسٹرکچر، سڑکیں، پل،پلازے، سیورج، اسٹریٹ لائٹس اور تمدن میں انقلاب بپا کرنےکو ہدف بنایا تھا، یا اپنی قوم کے ہر شہری کو روٹی کپڑا اور مکان کی ضمانت فراہم کی تھی ، یا اُن کو ملازمتیں اور روزگار مہیا کردی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں کا جواب نفی میں ہے۔
انبیا کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کریں تو رسولوں نے ظاہری چیزوں کی اصلاح کی بجائے انسان کو اپنا مخاطب بنایا اور انسانوں کے دلوں کی دنیا تبدیل کرنے پر ساری توجہ صرف کی۔اپنے پیروکاروں کے ہدف اور منزل کو اس ظاہری دنیا سے نکال کر، اللّٰہ عزوجل کی رِضا کی عظیم الشان منزل کی طرف لے جانے کی سعی مسلسل کی ۔ نبی کریمﷺ کا فرمانِ مبارک ہے :
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ 4
یعنی کہ ....خبردار ہوجاؤ، جسم میں ایک ٹکڑا ایسا ہے، جب وہ درست ہوجائے تو پورا جسم درست ہوجاتا ہے، اور جب وہ خراب ہوجائے تو پورا جسم خراب...وہ دل ہے۔''
انبیا کرام علیہم السلام کی دعوت لوگوں کو اللّٰہ سے جوڑنے کے لیے ہوتی ہے، دنیا سے بے رغبتی اور اللّٰہ کی رضا کے ہر دم حصول کی جدوجہد ... دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہونے اور دنیا بنانے کی بجائے اپنے خالق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنا۔ جب دل کی دنیا بدلتی ہے، ہدف ومنزل بدلتا ہے تو دنیا کے مفادات انسان کو ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ انسان میں اس کا دل ہی سب سے مرکزی حیثیت رکھتا جو ایمان کا منبع ومرکز ہے۔ اس دل کے تابع ہی انسان کا دماغ اور پورا جسم وجان ہے۔ جب دل پر اللّٰہ حکومت قائم ہوجاتی ہے تو نظریات ومعتقدات تبدیل ہونا شروع ہوتے ہیں۔ دل بدلتا ہے توانسان بدلتاہے، اس کے طور اطوار بدلتے ہیں۔انسان کا جسم اللّٰہ کا مطیع ہوتا ہے تو انسان کی اطاعت کے ساتھ، اس کی آل اولاد، اس کا کنبہ قبیلہ، اس کا کاروبار وتجارت سب اللّٰہ کے لیے ہوجاتا ہے۔ اس انسان کو خالقِ ارض وسما نے جو جو نعمتیں عطا کی ہیں، ایک مطیع دل کا مالک مسلمان، ان تمام نعمتوں میں اللّٰہ کے احکام کو جاری وساری کرنا شروع کر دیتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ اس کائناتِ ارضی میں سب سے اہم چیز انسان ہے اور انسان میں سب سے قوی چیز اس کا دل ہے جو فکر وخیال اور قوت وطاقت کا منبع ہے۔ اعتقادات ونظریات درست ہوجائیں تو پھر یہ پوری کائنات اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کے لیے ہی بنائی اور اس کے لیے مسخر کی ہے :
هُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا... سورةالبقرة میں کہا گیا ہے کہ وه اللّٰہ جس نے تمہارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کیا۔
اللَّهُ الَّذى سَخَّرَ‌ لَكُمُ البَحرَ‌ لِتَجرِ‌ىَ الفُلكُ فيهِ بِأَمرِ‌هِ وَلِتَبتَغوا مِن فَضلِهِ وَلَعَلَّكُم تَشكُر‌ونَ ... وَسَخَّرَ‌ لَكُم ما فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا مِنهُ ۚ إِنَّ فى ذ‌ٰلِكَ لَءايـٰتٍ لِقَومٍ يَتَفَكَّر‌ونَ ... سورةالجاثية میں فرمان باری تعالی ہے کہ اللّٰہ ہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندرکو تابع بنادیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر بجا لاؤ۔ اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے۔ جو غور کریں یقیناً وه اس میں بہت سی نشانیاں پالیں گے۔
انسان ہی اشرف المخلوقات اور مقصودِ کائنات ہے5۔رسل وانبیا ظاہری اور مادی چیزوں کی اصلاح کی بجائے انسان کی اصلاح پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ دنیا کی تمام چیزیں انسان سے متعلقہ یا اس کی ماتحت ہیں۔ جب ان میں مرکزی 'فرد' کی اصلاح ہوجاتی ہے، تو یہ ساری چیزیں بھی ایک مقصد ومرکزپر جمع ہوجاتی ہیں۔ گویا مال دودولت، زمین ، اولاد وکنبہ،حکومت وریاست، تجارت ومعیشت،معاشرت وتمدن، میل جول ، رویے رجحانات کی اصلاح وفلاح کا آغاز فرد کی اصلاح سے ہوتا ہے۔اگر ان تمام چیزوں کی بنیادی اکائی درست اور صالح نہیں، تومجموعہ واجتماع کیوں کر صالحیت وعبدیت پر قائم ہوگا؟
اننیا کرام علیہم السلام نے معاشرے میں انقلاب انسانوں کے قلب وذہن میں تبدیلی کے ذریعہ پیدا کیا۔ انبیا کرام علیہم السلام نہ صرف مستند تعلیمات پیش کرتے بلکہ ان تعلیمات کے مطابق اپنی عملی زندگی بھی پیش کرتے ۔ قرآن کی زبان میں تلاوتِ آیات، تزکیہ نفس،کتاب وحکمت 6کی تعلیم اور اس کے مطابق اپنی عملی زندہ جیتی جاگتی مثال یعنی اسوہ حسنہ7 کو پیش کرنا...یعنی انبیا کرام علیہم السلام صرف تعلیم ہی نہیں دیتے بلکہ انسانوں کی تربیت بھی کرتے ، عملی زندگی میں اپنی ذات پر اس کو قائم کرکے دکھاتے  کہ وہ کس طرح ہرمیدان میں اللّٰہ کی بندگی کرنے والے، اس کے پیغام کو پھیلانے والے، کارزارِ حیات میں اس کیلئے ہمہ تن جدوجہد کرنے اور تکلیفیں برداشت کرنے والے اور اللہ کے دین کے فروغ وتحفظ کیلئے شریعت کے دائرہ میں ہر قسم کی تدابیر اختیار کرنے والے ہیں۔ ظاہر ہے کہ معاشرے میں سب سے مؤثر، سب سے حقیقی اور بامقصدتبدیلی انبیا کرام علیہم السلام لاتے ہیں، ان تمام کاوشوں کا محور ومرکز انسان کی ذات ہی ہوتی ہے۔اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی اطاعت کیلئے پیدا فرمایا، اور اس پر اپنی بندگی کا حق قائم وعائد کیا، اور زندگی کےہر شعبہ میں انبیا کرام علیہم السلام اس بندگی کو قائم ودائم کردیتے ہیں۔
نعمتوں کا حصول:
یوں تو انسان کو میسر تمام صلاحیتوں، انعامات اور وسائل، مال ودولت، رزق، زمین وجائیداد سب پر بظاہر انسان کا حکم چلتا ہے جبکہ غیبی نظام کسی کو نظر نہیں آتا ۔ ایمانی نور کے سبب ایک مطیع ومسلمان شخص اپنے ہر معاملہ میں اللّٰہ کے احکام کا پابند ہوتا ہے، اس طرح ان تمام چیزوں پر جو اسی اللّٰہ رازق ومالک ربّ ذوالجلال کی عطا ہیں، اللّٰہ کا حکم جاری وساری ہوجاتا ہے۔ جب انسان کا دل صالح ہوجاتا ہے تو معاشرہ صالح ہوجاتا ہے۔ اور جب معاشرہ صالح ہوجائے، اللّٰہ کے احکامات پر کاربند ہوجائے تو پھر اللّٰہ کی نعمتیں زمین وآسمان سے بے تحاشا برسنا شروع ہوجاتی ہیں:
وَلَو أَنَّهُم أَقامُوا التَّور‌ىٰةَ وَالإِنجيلَ وَما أُنزِلَ إِلَيهِم مِن رَ‌بِّهِم لَأَكَلوا مِن فَوقِهِم وَمِن تَحتِ أَر‌جُلِهِم.... سورةالمائدة میں ارشاد ہے کہ اور اگر یہ لوگ تورات وانجیل اور ان کی جانب جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے نازل فرمایا گیا ہے، ان کے پورے پابند رہتے تو یہ لوگ اپنے اوپر سے اور نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے۔
اللّٰہ کی اطاعت وبندگی اور اس کیلئے یکسو ہوجانے کی انسان کی زندگی میں کس قدر اہمیت ہے، اس کا پتہ نبی کریمﷺ کی اس دعوت سے بھی چلتا ہے جو آپ نے قریش مکہ کو دی۔ جب جناب ابو طالب مریض ہوگئے اور نبی کریمﷺ ان کی عیادت کیلئے ان کے پاس تشریف لائے تو اس موقع پر رؤسائے قریش نے موقع غنیمت جانا کہ آپ پر ابو طالب کا دباؤ ڈالا جائے۔ ابو جہل نے کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے، اس کی سرزنش کیجئے تو ابوطالب کے جواب میں آپ نے فرمایا :
إِنِّى أُرِيدُ مِنْهُمْ كَلِمَةً وَاحِدَةً، تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّى إِلَيْهِمُ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ». قَالَ: كَلِمَةً وَاحِدَةً. قَالَ: «كَلِمَةً وَاحِدَةً». قَالَ: «يَا عَمِّ! قُولُوا لاَ إِلَهَ إِلَّا الله». فَقَالُوا: إِلَهًا وَاحِدًا ﴿ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِي الْمِلَّةِ الْاٰخِرَةِ١ۖۚ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا اخْتِلَاقٌۖ 8
یعنی میں تو اِنہیں ایک کلمہ کی تلقین کرتا ہوں کہ اگر مان لیں گے، تو عرب ان کے مطیع اور عجم باج گزار بن جائیں گے، دنیا کی فرمانروائی ان کو ملے گی۔ ابو طالب بولے: صرف ایک کلمہ، آپ نےجواب دیا : بالکل صرف ایک کلمہ... یہ اللّٰہ کی توحید کا اقرار کرلیں۔
سردارانِ قریش بولے: ایک الٰہ، نہیں ایسا نہیں ہوسکتا... ہم نے تو یہ بات پچھلے کسی دین میں بھی نہیں سنی، کچھ نہیں یہ تو صرف گھڑنت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کلمہ توحید میں ایسی کونسی قوت ہے جو صادق وامینﷺ اس کو خلوصِ دل سے تسلیم کرلینے پر دنیا جہاں کی حکمرانی کی نوید سنا رہے ہیں۔ یہ کلمہ توحید، تمام انبیا کرام علیہم السلام کی دعوت کا اصل الاصول اور مرکزی نکتہ 9 رہا ہے، یہی اسلامی عساکر کی بنیادی دعوت 10رہی ہے۔ اور اس کی روح کے مطابق عمل کرلیا جائے اور اپنی پوری زندگی کو عبادت وعبدیت کے تقاضوں میں ڈھال لیا جائےتو کوئی بھی فرد اور ملّت دنیا کی سپرپاور بن جاتی ہے۔ زبانِ رسالت اور تاریخ سے یہی ثابت ہوتا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاے کرام علیہم السلام کا پیغام سوچ وفکر کے مرکز ومحور کو متعین کرلینے کا ہوتا ہے۔ انسان کی اصلاح کا ہوتا ہے۔ جب انسان کی اصلاح ہوجاتی ہے تو اس انسان کے تمام متعلقات کی بھی اصلاح ہوجاتی ہے۔
ادنیا کیسے بن جاتی ہے حسنہ؟
اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مال ودولت، ترقی، دنیا میں حکومت وغلبہ، خوشی واطمینان، اور اللّٰہ کی بے پایاں نعمتوں کا اسلام کسی طور مخالف نہیں ہے۔ لیکن ان نعمتوں کے حصول کا طریقہ براہِ راست نہیں۔ اسلام نے کہیں یہ نہیں کہا کہ مال جمع کرنے اور حکومتیں حاصل کرنے میں ساری صلاحتیں کھپا دو، نعمتوں کی بھرپور جدوجہد کرو بلکہ یوں کہا ہے کہ اللّٰہ کی رضا واتباع اور زندگی کے ہر میدان میں اس کی بندگی کے تقاضے پورے کرو تاکہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں یہ انعامات بھی عطا کرے۔ یہ سب نعمتیں اللّٰہ کی عطا اور تحفہ ہیں۔پہلے دیکھیے کہ اسلام نے نعمتوں کے حصول کا طریقہ کیا بیان کیا ہے پھر ان نعمتوں کے براہِ راست حصول کی نفی کا تذکرہ آگے...
1. کسی فرد اور ملّت کیلئے عظیم الشان نعمت دنیا میں اقتدار و اختیار اور امن وامان ہے، اس کے حصول کا طریقہ ربّ العالمین نے یوں بیان کیا کہ میری بندگی کریں، میرے ساتھ کسی کوشریک نہ ٹھہرائیں، ایمان لائیں اورعمل صالح کریں تواللّٰہ اُن کو زمین کا وارث بنادے گا
وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ ءامَنوا مِنكُم وَعَمِلُوا الصّـٰلِحـٰتِ لَيَستَخلِفَنَّهُم فِى الأَر‌ضِ كَمَا استَخلَفَ الَّذينَ مِن قَبلِهِم وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُم دينَهُمُ الَّذِى ار‌تَضىٰ لَهُم وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِن بَعدِ خَوفِهِم أَمنًا ۚ يَعبُدونَنى لا يُشرِ‌كونَ بى شَيـًٔا ۚ وَمَن كَفَرَ‌ بَعدَ ذ‌ٰلِكَ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الفـٰسِقونَ ... سورة النور میں اللہ تعالی کا ارشاد وارد ہے کہ تم میں سے وہ لوگوں جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کئے تو اللّٰہ تعالیٰ وعده فرما چکا ہے کہ اُنہیں ضرور زمین میں حاکم بنا دے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو اُن سے پہلے تھے اور یقیناً اُن کیلئے ان کے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کیلئے وه پسند فرما چکا ہے اور اُن کے اس خوف وخطر کو وه امن وامان سے بدل دے گا، بس وه میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔ اتنے (واضح وعدے)کے بعدبھی جو لوگ انکار کریں وه یقیناً فاسق ہیں۔
غور کیجئے کہ رؤساے قریش کو کلمہ توحید پڑھنے پر دنیا میں غلبہ وحکومت کا وعدہ، عدی بن حاتم کو اسلام لانےپرتین خوشخبریوں کا وعدہ کہ امن وامان، کسری بن ہرمز کے خزانوں کا مل جانا، صدقہ قبول کرنے والے کا نہ ملنا وغیرہ بھی یہی بتاتے ہیں کہ ان نعمتوں کو براہِ راست حاصل کرنے کی بجائے اسلام نے انہیں اللّٰہ کی بندگی کی تلقین کی اور اس کا ثمرہ ونتیجہ قرار دیا ہے۔ دنیا کی براہ راست جدوجہد کی بجائے اللّٰہ کی بندگی اور خلوص سے یہ نعمتیں دائمی نصیب ہوتی ہیں۔ اگر اس کے بغیر حاصل ہوبھی جائیں تو یہ غلبہ وقتی اور یہ برکات عارضی ہوتی ہیں۔ اس آیتِ کریمہ کی رو سے بھی دائمی ، متوازن اور کامل نعمتیں اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی، شرک کا خاتمہ، ایمان اور اعمال صالحہ کے ذریعے حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
2. لوگوں میں مقبولیت اور شہرت وعزت اللّٰہ کا عظیم الشان انعام ہے ، اس کا طریقہ یہ بیان کیا کہ اللّٰہ سے محبت کرو، اس کے لیے نفرت کرو، اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں تمہاری محبت ڈال دیں گے :
إِذَا أَحَبَّ اللهُ عَبْدًا قَالَ: يَا جِبْرِيلُ! إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ، فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي السَّمَاوَاتِ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يُحِبُّ فُلَانًا فَأَحِبُّوهُ. فَيُلْقَى حُبُّهُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ فَيُحَبُّ. وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا قَالَ: يَا جِبْرِيلُ! إِنِّي أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ. فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي السَّمَاوَاتِ: إِنَّ الله عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ، فَيُوضَعُ لَهُ الْبُغْضُ لِأَهْلِ الْأَرْضِ، فَيُبْغَضُ.11
یعنی کہ جب اللّٰہ تعالٰے کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو جبریل کو کہتے ہیں کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں، تم بھی اس سے محبت کرو۔ جبریل آسمان میں منادی کروا دیتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتے ہیں ، تم بھی اسے محبوب رکھو۔ پھر اس کی محبت اہل زمین کے دل میں ڈال دی جاتی ہے۔ اور وہ محبوب ومقبول انسان بن جاتا ہے۔ اور جب اللّٰہ تعالیٰ کسی بندے سے نفرت کریں تو جبریل کو کہتے ہیں کہ مجھے فلاں سے نفرت ہے، تم بھی اس سے نفرت کرو، جبریل اس امر کا آسمانوں میں اعلان کردیتے ہیں کہ اللّٰہ کو فلاں سے نفرت ہے ، اس سے سب نفرت کریں۔ چنانچہ دنیا میں ایسے شخص کے لیے نفرت وبغض رکھ دیا جاتا ہے۔
نیز یہ بات تو معلوم ومعروف ہے کہ دل اللّٰہ کے ہاتھ میں ہیں ، وہ جیسے چاہتا ہے ان کی کیفیت کو تبدیل 12کردیتا ہے۔ دلوں کی کیفیت اور ان میں میلان یا نفرت کا پیدا ہونا، اس پر اللّٰہ کے سوا کسی کا حکم نہیں چلتا۔کوئی انسان دوسرے پر لاکھ خرچ کرے، بے انتہا احسانات کرے، لیکن وہ اس کا شکرگزار ہونے کی بجائے،اسی کو نقصان پہنچانے اور اس کا مال ہتھیانے کے درپے ہوجائے، اور ایسا ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔حتیٰ کہ اپنی ذات کیلئے دنیا جہاں کی نعمتیں جمع کرلینے کے باوجود اپنے دل کا مطمئن وپرسکون اور خوش گوار ومسرور ہونا اللّٰہ کے حکم وانعام کے بغیر ممکن نہیں۔ بہت سے اَموال ونِعم والے ایسے ہیں کہ ان کی نعمتیں ان کے لیے باعثِ فتنہ والم اورباعثِ تفکر وآزمائش13 بن جاتی ہیں۔اللّٰہ تعالیٰ نے بھی اپنے نبی مکرم کو کہا ہے کہ اگر آپ دنیا جہاں ان پر خرچ کردیں ، آپ ان کے دل نہیں جیت سکتے اور ان میں اُلفت پیدا14نہیں کرسکتے۔ اللّٰہ عزوجل کسی انسان سے کس بنا پر محبت کرتے ہیں، اس کا وصف احادیث میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایسا شخص جو اللّٰہ کے لیے دوسروں سے محبت کرتا اور اللّٰہ کے لیے ہی نفرت کرتاہے تو اللّٰہ تعالیٰ اس خوبی کی بنا پر اسے اپنا محبوب بنالیتے15 ہیں۔آگے صفحہ نمبر 15 پر حدیثِ مبارکہ میں دنیا سے پہلوتہی کو بھی اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کا سبب بتایا گیا ہے۔
دنیا میں عزت و مقبولیت پانے کیلئے اللّٰہ کی طاعت وبندگی کی تلقین کی گئی ہے:
مَن كانَ يُر‌يدُ العِزَّةَ فَلِلَّهِ العِزَّةُ جَميعًا ۚ إِلَيهِ يَصعَدُ الكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالعَمَلُ الصّـٰلِحُ يَر‌فَعُهُ.... سورةالفاطر میں ارشاد باری تعالی ہے کہ ...جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللّٰہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ہے، تمام تر پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے۔
3. اَموال واولاد اللّٰہ کا عظیم الشان انعام ہے، اس کے حصول کا طریقہ یوں ذکر فرمایا :
فَقُلتُ استَغفِر‌وا رَ‌بَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارً‌ا ...يُر‌سِلِ السَّماءَ عَلَيكُم مِدر‌ارً‌ا... وَيُمدِدكُم بِأَمو‌ٰلٍ وَبَنينَ وَيَجعَل لَكُم جَنّـٰتٍ وَيَجعَل لَكُم أَنهـٰرً‌ا ... ما لَكُم لا تَر‌جونَ لِلَّهِ وَقارً‌ا .. سورةنوح میں ارشاد ہے کہ...اور میں نے کہا کہ اپنے ربّ سے اپنے گناه بخشواؤ (اور معافی مانگو) وه یقیناً بڑا بخشنے والا ہے۔ وه تم پر آسمان کو خوب برستا ہوا چھوڑ دے گا۔ اور تمہیں خوب پے درپے مال اور اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے نہریں نکال دے گا۔تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللّٰہ کی برتری کا عقیده نہیں رکھتے۔
اللّٰہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے مال میں کمی نہیں آتی۔ بلکہ اس کے مال وعزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ، أَوْ يُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ، فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ 16
یعنی کہ جو شخص یہ چاہتاہے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہواور اس کا نام زندہ رہے تو وہ صلہ رحمی کو وطیرہ بنالے۔
4. خوشی اوراطمینانِ زندگی سب سے بڑی نعمت ہے، مال واولاد موجود ہو لیکن دل مسرور ومطمئن نہ ہو ، تو وہ انسان کیوں کر کامیاب کہلا سکتا ہے ، اس کا طریقہ یہ ہے :
الَّذينَ ءامَنوا وَتَطمَئِنُّ قُلوبُهُم بِذِكرِ‌ اللَّهِ ۗ أَلا بِذِكرِ‌ اللَّهِ تَطمَئِنُّ القُلوبُ... سورةالرعد میں فرمایا کہ جو لوگ ایمان لائے،ان کے دل اللّٰہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللّٰہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔
مَن عَمِلَ صـٰلِحًا مِن ذَكَرٍ‌ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيو‌ٰةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجزِيَنَّهُم أَجرَ‌هُم بِأَحسَنِ ما كانوا يَعمَلونَ ... سورةالنحل میں واضح کیا کہ...جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن ایمان والا ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے۔ اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی اُنہیں ضرور ضرور دیں گے۔
اس آیتِ پاک میں ایمان اور نیک اعمال کی بنا پر دنیامیں پاکیزہ اور خوش گوار زندگی کا اللّٰہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور آخرت میں بہترین اعمال کے حقیقی اور کامل بدلہ کا۔اس کے بعد بھی مقام افسوس ہے کہ اللّٰہ کے نام لیوا، اُس کے وعدوں پر یقین نہیں کرتے۔
5. اوقات میں برکت ، کاموں کو نمٹانے، اور تونگری حاصل کرنے کا طریقہ یوں بتایا کہ
إِنَّ الله تَعَالَى يَقُولُ يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِى أَمْلأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ وَإِلاَّ تَفْعَلْ مَلأْتُ يَدَيْكَ شُغْلاً وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ 17
یعنی اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے وقت نکال، میں تیرے دل کو استغنا سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کا خاتمہ کردوں گا۔ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تیرے ہاتھ کو مشغول کردوں گا اور تیرا فقروفاقہ بھی ختم نہ ہوگا۔
وَمَن أَعرَ‌ضَ عَن ذِكر‌ى فَإِنَّ لَهُ مَعيشَةً ضَنكًا وَنَحشُرُ‌هُ يَومَ القِيـٰمَةِ أَعمىٰ ... سورة طه میں واضح کیا گیا ہے کہ ...اور جو میری یاد سے روگردانی کرے گا، اس کی زندگی تنگی میں رہے گی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اُٹھائیں گے۔
6.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین وآسمان کی برکات اور انعامات حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے :
وَلَو أَنَّ أَهلَ القُر‌ىٰ ءامَنوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنا عَلَيهِم بَرَ‌كـٰتٍ مِنَ السَّماءِ وَالأَر‌ضِ .... سورةالاعراف میں کہا گیا ہے کہ ...اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور پرہیزگاری اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔
کسی سر زمین میں اللّٰہ کی برکات حاصل کرنے کا طریقہ اللّٰہ کے دین کا نفاذ اور قیام بتلایا :
إِقَامَةُ حَدٍّ بِأَرْضٍ خَيْرٌ لِأَهْلِهَا مِنْ مَطَرِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً 18
یعنی کہ...کسی سرزمین میں اللّٰہ کی کسی حد کو قائم کردینا، وہاں چالیس راتوں کی بارش سے زیادہ برکت کا موجب ہے۔
7. گویا ہمارا دین دنیاوآخرت کی خیرات وبرکات کا جامع ہے، حتی کہ مال ومتاع کو جمع کرنے کو برا جاننے کی بجائے اس کے حق ادا کرنے اور دوسروں کو شریک کرنے کی تلقین کی گئی :
فى بُيوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُر‌فَعَ وَيُذكَرَ‌ فيهَا اسمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالغُدُوِّ وَالءاصالِ ﴿٣٦﴾رِ‌جالٌ لا تُلهيهِم تِجـٰرَ‌ةٌ وَلا بَيعٌ عَن ذِكرِ‌ اللَّهِ وَإِقامِ الصَّلو‌ٰةِ وَإيتاءِ الزَّكو‌ٰةِ ۙ يَخافونَ يَومًا تَتَقَلَّبُ فيهِ القُلوبُ وَالأَبصـٰرُ‌ ... سورةالنور میں واضح ہے کہ...ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللّٰہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں وه صبح وشام اللّٰہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔ ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللّٰہ کے ذکر،نماز کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں اُلٹ پلٹ ہوجائیں گی۔
8. قارون کو دنیا جہاں کے خزانے عطا کرنے والے ربِّ کریم نے، اس بات کو باعثِ ملامت ٹھہرایا جب اس نے اس سارے مال کو اپنی محنت اور علم کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اللّٰہ نے اسے اِترانے کی بجائے اس امر کی تلقین کی کہ
وَابتَغِ فيما ءاتىٰكَ اللَّهُ الدّارَ‌ الءاخِرَ‌ةَ ۖ وَلا تَنسَ نَصيبَكَ مِنَ الدُّنيا ۖ وَأَحسِن كَما أَحسَنَ اللَّهُ إِلَيكَ.... سورةالقصص میں ارشاد باری ہے کہ...اور جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ نے تجھے دے رکھا ہے، اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول اور جیسے اللّٰہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی اچھا سلوک کر۔
اللّٰہ نے بندگی  قرآن کریم میں دعوت کی محنت کو ایسی تجارت قرار دیا ہے، جو دنیا میں 'حیوۃ طیبہ' و 'حسنہ' کے حصول اور آخرت میں عذابِ الیم سے چھٹکارے اور جناتِ نعیم کا وارث بنا دے گی ...جو انسان ان نعمتوں کو اللّٰہ سے غافل ہوکر لینا چاہتا ہے، وہ دراصل عاجل فائدہ لیتے لیتے اپنا دائمی نقصان کرلیتا ہے، اللّٰہ کے خزانے ا س کے لیے بند ہوجاتے ہیں اور جو اس کو میسر آتے ہیں، ان سے فائدہ بھی اس کے لیے حتمی اور کارآمدنہیں رہتا اور آخرت میں وہ حقیقی خسارہ اُٹھانے والوں میں سے ہے۔
دنیا میں اپنے آپ کو کھپا لینا:
اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو دنیا کی نعمتوں کے حصول کی طرف متوجہ ہونے سے منع کیا ہے۔ اور ایسی نعمتیں جو اللّٰہ تعالٰے کا حق بندگی نظر انداز کرکے استعمال کی جاتی ہیں، وہ تو وبال بن جاتی ہیں۔جیسا کہ قرآن کریم میں اپنے نبی مکرّم ﷺکو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ تلقین کی ہے:
وَلا تَمُدَّنَّ عَينَيكَ إِلىٰ ما مَتَّعنا بِهِ أَزو‌ٰجًا مِنهُم زَهرَ‌ةَ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا لِنَفتِنَهُم فيهِ ۚ وَرِ‌زقُ رَ‌بِّكَ خَيرٌ‌ وَأَبقىٰ ...وَأمُر‌ أَهلَكَ بِالصَّلو‌ٰةِ وَاصطَبِر‌ عَلَيها ۖ لا نَسـَٔلُكَ رِ‌زقًا ۖ نَحنُ نَر‌زُقُكَ ۗ وَالعـٰقِبَةُ لِلتَّقوىٰ .. سورة طه میں آگاہ کیا گیا ہے کہ...اور اپنی نگاہیں ہرگز ان چیزوں کی طرف نہ دوڑا جو ہم نے ان میں سے مختلف لوگوں کو دنیا کی آرائش دے رکھی ہیں تاکہ اُنہیں ان کی آزمائش میں مبتلا کردیں۔ تیرے رب کا دیا ہوا ہی بہتر اور باقی رہنے والاہے۔ اپنے گھرانے کے لوگوں پرنماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما ره۔ ہم تجھ سے روزی نہیں مانگتے، بلکہ ہم خود تجھے روزی دیتے ہیں، آخر میں بول بالا پرہیزگاری ہی کا ہے۔
ان آیاتِ کریمہ پر غور کریں تو ان کا رجحان واضح طور پر بتا رہا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا کی نعمتوں کی طرف للچانے سے روکا اور اُنہیں اس بات کی تلقین کی ہے کہ تمہارا کا م اللّٰہ کی بندگی کرنا اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا ہے ، ہمیں تم سے کوئی روپے پیسے کا مطالبہ نہیں ہے۔ اب جو اللّٰہ کا بندے سے مطالبہ ہے ، جس کے لیے اس نے انسان کو تخلیق فرمایا ہے ، انسان کو وہی کام کرنا چاہیے جو اللّٰہ کا حق ہے یعنی ہر جگہ اللّٰہ کی بندگی، پھر اللّٰہ تعالیٰ کا انعام اور وعدہ یہ ہے کہ دنیا میں اس کو سکون واطمینان اور آخرت میں جناتِ نعیم کا وارث بنا دے گا۔
ایک اور مقام پر یوں فرمایا :
وَاصبِر‌ نَفسَكَ مَعَ الَّذينَ يَدعونَ رَ‌بَّهُم بِالغَدو‌ٰةِ وَالعَشِىِّ يُر‌يدونَ وَجهَهُ ۖ وَلا تَعدُ عَيناكَ عَنهُم تُر‌يدُ زينَةَ الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا ۖ وَلا تُطِع مَن أَغفَلنا قَلبَهُ عَن ذِكرِ‌نا وَاتَّبَعَ هَوىٰهُ .... سورةالكهف میں ارشاد ہے کہ ...اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اس کی رضامندی چاہتے ہیں۔ خبردار! تیری نگاہیں اُن سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔
اس آیت کریمہ میں بھی نبی کریمﷺ کو اللّٰہ کی طاعت وبندگی کی تلقین،دنیوی زینتوں سے بے پروا ہونے اور خواہشاتِ نفس سے دوری کا حکم دیا گیا ہے۔اللّٰہ تعالیٰ نے یہی وعدہ کیا ہے کہ رزق دینا اور ضروریاتِ زندگی پوری کرنا تو اللّٰہ کا کام ہے،تمہیں رزق کی جستجو میں فکر مند ہونے کی بجائے بندگی میں اپنی کوششیں صرف کرنا چاہییں۔ ایک اور آیتِ کریمہ ملاحظہ کریں:
وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ...ما أُر‌يدُ مِنهُم مِن رِ‌زقٍ وَما أُر‌يدُ أَن يُطعِمونِ ... إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّ‌زّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ ... سورة الذاريات میں ارشاد ہے کہ...
میں نے جنات اورانسانوں کو محض اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وه صرف میری عبادت کریں۔ نہ میں ان سے روزی چاہتا ہوں نہ میری یہ چاہت ہے کہ یہ مجھے کھلائیں۔اللّٰہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں، توانائی والااورزورآورہے۔
اس آیتِ کریمہ کا مفہوم اور رجحان بھی وہی پتہ دے رہا ہو جو اوپر والی آیات میں بیان ہوا ہے کہ انسان کا کام ہرمیدان میں اللّٰہ کی بندگی کرنا ہے۔اللّٰہ کو انسان سے رزق کا مطالبہ نہیں ہے۔حتی کہ دنیا کی جستجو او رمحبت کو باعثِ فتنہ قرار دیا گیا اور اللّٰہ کے انعامات کو پانے کے لیے اس سے پہلو تہی اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے، فرمانِ نبویﷺ ہے:
ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ الله، وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّكَ النَّاسُ 19
یعنی اللّٰہ کی محبت چاہتے ہو تو دنیا سے بے رغبتی کرو اور جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے ، اس سے بے پروا ہو جاؤ، لوگ تم سے محبت کریں گے۔
معلوم ہوا کہ دنیا کے حصول کی جدوجہد سے دنیا نہیں ملتی، یا جتنی انسان چاہتا ہے، اس قدر ملنے کی بجائے اللّٰہ کی مرضی سے ہی عطا ہوتی ہے، جبکہ انسان اللّٰہ کی بندگی کرے، ہر معاملے میں اس کی اطاعت بجالائے تو اللّٰہ کا وعدہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اسے بے شمار نعمتیں عطا کرے گا۔ اور اپنی فکر وتوجہ کو اللّٰہ کی رضا کے حصول میں صرف کردے۔
دین میں رہبانیت اور ترکِ دنیا نہیں ہے۔ دنیاکی تمام نعمتیں اس دین کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں، حتی کہ مادی نعمتیں اور دنیا کی حکومتیں بھی جیسا کہ صحابہ کرام کے دور میں افراد کو تونگری اور اُمتِ مسلمہ کو دنیا میں غلبہ نصیب ہوا تھا۔ زکوٰۃ وصول کرنے والا اور مسلمانوں کے لشکروں کے سامنے ٹھہرنے والا نہ ملتا۔ مسلمان بھی زمینوں پر حکومت کی بجائے دلوں پر حکومت کرتے، وہ اِن انسانوں کو اپنا بندہ بنانے اور ان پر اپنی اطاعت کے طوق کسنے کی بجائے اللّٰہ کی بندگی اور عبادت کی تلقین کیا کرتے۔ خود بھی اللّٰہ کے مطیع ہوتےاور ان کے محکوم بھی اسی ایک اللّٰہ کے مطیع بنتے۔ یہی کلمہ توحید ہے، جس کی پاسداری کرنے والی قوم کو دنیا جہاں کی عظمتیں اور نعمتیں نصیب ہوتی ہیں۔
کامیاب معاشرہ کون سا...؟
آج ہم مسلمان مغرب کے افکار سے اس قدر مرعوب ہیں کہ ہمارے عروج وزوال اور کامیابی وناکامی کے معیار بھی انہی سے اُدھار لیے ہوئے ہیں۔کوئی بڑا نامی گرامی مسلمان اُٹھے گا اور کہے گا کہ اسلام نے سب سے پہلے فلاحی رياست کا تصور دیا اور یہ فلاحی ریاست سب سے پہلے خلافتِ راشدہ میں قائم ہوئی، کوئی مسلمانوں کی سائنسی علوم میں ترقی کی تعریف کرے گا، کوئی مسلمانوں کے تمدن اور اُن کی علم دوستی کے گن گائے گا۔ یہ نظریات رکھنے والے لوگ، سیدنا عمر بن خطاب کے دور کو نبی کریمﷺ کے سنہرے دور کے مقابلے میں زیادہ مثالی اور قابل تقلید سمجھتے ہیں کیونکہ یہاں پہلی بار انتظامی ادارے، وظائف، افواج، اعداد وشمار، عسکری فتوحات مؤثر شکل میں نظر آتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر مائیکل ہارٹ نے سیدنا عمر بن خطاب کو تاریخ کا سب سے عظیم حکمران قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اُنہوں نے پہلی بار درج ذیل چیزیں متعارف کرائیں:
٭ فوج اور بحریہ بطور ریاستی ادارہ
٭ پولیس اور انٹیلی جنس، جاسوسی کا نظام
٭ ڈاک اور اطلاعات کے لیے تیز گھوڑوں کا نظام
٭ حادثات اور آفات سے بچاؤ کا نظام
٭ ادارہ احتساب
٭ حکومتوں کی ضلع اور صوبے میں تقسیم اور لوکل گورنمنٹ
٭ اَموال جمع کرنے کا ادارہ اور خودکفالتی منصوبے
٭ بنیادی ضروریات: روٹی، کپڑا اور مکان کی ریاستی ذمہ داری
ان سب کے خلاصہ کے طور پر ایک 'سماجی فلاحی ریاست' کو پیش کیا جاتا ہے جبکہ مغرب کی مادہ پرور اصطلاح ہے جس میں حکومت اپنے باشندوں کی سماجی اور مالی بہبود کی ضامن ہوتی ہے کہ ان کے لیے صحت، اور روزگار کمانے کے معقول انتظام ہوں۔ان کے مطابق سب سے پہلے فلاحی ریاست کا تصور1894 کے دوران پیش کیا گیا ہے اور یوروپ کی بعض ریاستیں ہی اس کے تقاضے پورے کرتی ہیں۔اس تصور ریاست کے مطابق فلاحی ریاست کا حاکم عوام کا خادم ہوتا ہے،وہ ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچتا ہے اور وہ ایک عام آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے بھولے مسلمان بھی اسی تصور ریاست کو آئیڈیل بنا کر، حکمرانوں کو ان کے فرائض یاد کروانا اور اس کےقیام کا خواب آنکھوں میں سجانا شروع کردیتے ہیں۔ اس تصورِ ریاست میں دیکھیے کہ اللّٰہ کی بندگی اور اس کی رضا کی جستجو کا کہیں کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے اور سیدنا عمر کے کارناموں میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس فلاحی ریاست کے تصور کے مطابق مدینہ منورہ کی نبوی ریاست بھی فلاحی نہیں کہلا سکتی۔نعوذ باللّٰہ من ذالک...
جبکہ اسلام نے جو مقصد کسی فرد کے لیے دیا ہے، وہی مقصدایک معاشرے کیلئے بھی ہے۔ جس طرح کوئی مالدار اور صاحب وسائل شخص صرف اس بنا پر قابل ستائش نہیں بلکہ اس کی نیکی، تقویٰ، اسلامی احکام کی پاسداری کے معیار پر ہی اس کی تعریف کی جائے گی، مرنے کے بعد بھی لوگ انسان کے انہی اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں اور یہی صدقہ جاریہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کوئی ریاست بھی اس بنا پر قابل ستائش نہیں کہ وہ بڑی مالدار ہے، یا اس کی عمارتیں بڑی شاندار ہیں، یا وہ معاشرہ موثر وسائل کا حامل ہے، بلکہ اسلام کی رو سے اس کا جائزہ اس بنا پر لیا جائے گا کہ وہاں ہر معاملے میں اللّٰہ کی بندگی کا انتظام کیا جاتا ہے یا نہیں؟کوئی شخص اگر بے نماز یا مشرک ہو تو وہ اسلام میں قابل تعریف نہیں، اسی طرح کوئی ریاست اگر الحاد ودہریت پر کاربند ہو، فحاشی وبے حیائی اور شراب وسود اس معاشرے کا عام چلن ہوں تو وہ معاشرہ بھی قابل تعریف نہیں کہلا سکتا۔ کسی معاشرے کے قابل تعریف ہونے کی کسوٹی اور معیار اللّٰہ کی طاعت وبندگی ہے۔ جس میں اللّٰہ کی مخلوقات کے حقوق بھی شامل ہوجاتے ہیں۔چنانچہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
إِنَّ خَيْرَكُمْ قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ 20
یعنی کہ میرا دور بہترین دور ہے، پھر اس کے بعد صحابہ کا دور، پھر تابعین کا...
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے مثالی دور تو نبی کریمﷺ کا ہے۔ نبی کریم کی ذات ہی زندگی کے ہر طبقے کے لیے اُسوہ حسنہ ہے، آپ کا یہ اُسوہ حسنہ صرف داعی ومبلغ، امام ومعلّم تک محدود نہیں بلکہ آپﷺ انسانِ کامل اور ہر طبقہ حیات کے لیے مثالی ترین اُسوہ کا مقام رکھتے ہیں۔ آپ شوہر، بیٹا، بھائی، والد، ہمسایہ کے لحاظ سے اُسوۂ حسنہ ہونے کے ساتھ ساتھ بطور سیاستدان، حکمران، سپہ سالار، قاضی، میڈیا پرسن، معیشت دان اور ماہرسماجیات کے بھی مثالی نمونہ کے حامل ہیں۔ ایسا نہیں کہ ان کاموں کے لیے ہمیں مغرب کے انسان پرست نظام اور اس کی نگاہیں خیرہ کرنے والی ظاہری چمک دمک کی طرف متوجہ ہونا پڑے گا، اور وہاں سے حکمران یا ماہر سماجیات کا رول ماڈل ڈھونڈنا پڑے گا۔
نبی کریمﷺ نے انسانوں کے دلوں کی اصلاح کی طرف توجہ دی، اور اس مضبوط عمارت کی بنیاد رکھی جس کے ثمرات، خلافتِ راشدہ اور سیدنا عمر کے دور میں نظر آئے۔ لوگ تو آج سیدنا عمر بن خطاب کی تعریف کرتے ہیں، لیکن سیدنا عمر ؓ کی تربیت جس نے کی تھی، وہ تو نبی کریم کی ذات تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیلئے بھی آپ کی ذات ہی بطورِ حکمران نمونہ تھی، اور انہیں بھی نبی کریمﷺ نے اس سانچے میں ڈھالا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنپ کے دور کی تعریف کرنے والے، ان کے دور کی تعریف اس انداز میں کرتے ہیں جو اُن کا نظریہ ہے، جب کہ اس دور کی اصل تعریف یہ ہے کہ وہاں اللّٰہ کے احکام کی پاسداری بھرپور طور پر کی جاتی تھی۔ سیدنا عمر اپنے حکام کے سلسلے میں نماز کی پابندی کو سب سے زیادہ اہمیت21 دیتے، اور اللّٰہ کی سرزمین میں اس اعتماد سے حکومت کرتے تھے کہ کتبِ تاریخ میں آتا ہے کہ آپ نے مصر کے دریائے نیل کے بند ہوجانے پر اس کو حکم دیا تھا کہ اگر تجھ پر اللّٰہ کا حکم چلتا ہے تو اُس مخلوق پر اپنی روانی جاری رکھ جو اللّٰہ کے احکام کی پاسداری کرتی ہے،اس كے بعد دریاے نیل کبھی رکا نہیں۔ جب اٹھارویں صدی ہجری (عام الرمادہ) میں حجاز میں قحط پڑگیا ، تو انتظامی تدبیروں سے پہلے سیدنا عمرؓ نے اہل حجا ز کے اللّٰہ سے تعلق کا محاسبہ کیااور فرماتے:
اتقوا الله فيما أنفسكم وفيما غاب عن الناس من أمركم، فقد ابتُليتُ بكم وابتُليتم بي، فما أدري السُّخطة عليَّ دونكم أو عليكم دوني أو قد عمَّتْني وعمَّتْكم فهلمُّوا فلندعُ الله يصلح قلوبنا وأن يرحمنا... وهو يقول: اللهم لا تجعلْ هلاك أمة محمد علىٰ يديّ 22
یعنی کہ اپنے بارے میں اللّٰہ سے ڈرو اور ان اعمال کے بارے میں جو لوگوں سے مخفی ہیں۔ یقیناً تمہاری وجہ سے میری اور میری وجہ سے تمہاری آزمائش ہورہی ہے۔میں نہیں جانتا کہ اللّٰہ کی ناراضی مجھ سے ہے ، یا میری بجائے تم سے ہے یا یہ ناراضی مجھ اور تم دونوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ آؤ، اللّٰہ سے دعا کریں کہ ہمارے دلوں کی اصلاح فرما دے اور ہم پر رحم کردے۔آپ یوں اللّٰہ سے فریاد کیا کرتے: یا الٰہی ! اُمتِ محمدیہ کو ان کے ہاتھوں ہلاکت سے دوچار ر نہ کردے۔
قرآن شاہد ہے کہ...کامیاب انسان وہ ہے جو آگ سے بچ گیا اور جنت کا مستحق بن گیا 23 ، اسلام کی روسے مسلمانوں کی سب سے اہم فلاح ، ان کو دین کے احکامات پر عمل کروانا ہے ، تاکہ وہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب انسان بن سکیں، جبکہ اہل مغرب کے ہاں دین، انتشار پھیلاتا اور قوم کو فرقہ واریت میں منقسم کرتا ہے، اس کو قومی واجتماعی معاملات میں سرے سے دخیل ہی نہیں ہونا چاہئے۔دونوں میں بنیادی نظریہ میں ہی فرق ہے۔
ایمان اور عمل صالح:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت وتبلیغ اور عملی مثال کے ذریعے بنیادی کام مکمل کیا۔ لوگوں کو اللّٰہ کا بندہ بنایا، ان کو اللّٰہ کی بندگی سے وابستہ کیا۔ اور یہی فریضہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اعلی کلمہ اللہ کا بیان 24کیاہے۔عبادات کے ذریعے فرد اور معاشرے کی درست سمت پر تشکیل ہوتی ہے۔اگر فرد کی تشکیل درست زاویوں پر نہ ہو، انسان کے رجحانات اور ترجیحات کا واضح تعین نہ ہو تو یہ انسان دنیا جہاں کی تمام صلاحیت رکھنے کے باوجود، مٹی کا ڈھیر بن جاتاہے۔الله سے تعلق اور اس پر ایمان بہت لازوال قوت ہے، یہ قوت انسانوں کو زندگی میں متوازن رکھتی ہے۔اس قوت کے بغیر بہت بڑی جماعت بھی بے وزن ہوجاتی ہے۔ ذیل میں اس کی بعض مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
1. آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ
يُوشِكُ الأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا». فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ قَالَ: «بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزِعَنَّ الله مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ الله فِى قُلُوبِكُمُ الْوَهَنَ». فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ الله! وَمَا الْوَهَنُ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ 25
یعنی عنقریب قومیں تم پر ٹوٹ پڑیں گے، جس طرح کھانے والے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کہنے والے نے کہا کہ کیا ہم اس دن کم ہوں گے؟آپﷺ نے جواب دیا: نہیں بلکہ تم اس وقت کثیر تعدا دمیں ہوگے، لیکن تم خس وخاشاک کی طرح ہوگے، جس طرح سیلاب پر خس وخاشاک بہتا ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب ختم کردیں گے اور تمہارے دلوں میں 'وہن' کی بیماری ہوگی۔ کہنے والے نے پوچھا: یارسول اللّٰہ! وہن کیا ہے؟فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔
حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ انسانوں کی کثرت اور ان کو حاصل دنیا جہاں کی نعمتیں کس طرح بے وقعت اور ریت کا ڈھیر بن جاتی ہیں جب ان میں دنیا کی بے پایاں محبت پیدا ہوجائے اور اللّٰہ کا ڈر جاتا رہے۔ جب انسان دنیوی مفادات کو اہمیت دینا شروع کردیں تو پھر آپس کے سرپھٹول اور باہمی اختلافات سے ہی نجات نہیں ملتی اور یہ کسی اجتماعیت کیلئے سب سے نقصان دہ امر ہے۔ کسی اجتماعیت کے آپس میں سیسہ پلائی دیوار ہونے کے لیے کوئی ایسا نظریہ ہونا چاہئے جو باہمی مفادات کی کشمکش سے بلند کرکے، تمام انسانوں کو اس پرچم تلے متحد کردے اور یہ جھنڈا ظاہر ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے کلمہ کی سربلندی کا مبارک ترین فرض ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی انسان دوسرے انسان کی حکومت دیر تک برداشت نہیں کرسکتا، لیکن اللّٰہ مالک الملک کی حکومت وحاکمیت اور بندگی وطاعت میں انسان اس وقت تک اطمینان سے زندگی بسر کرسکتے ہیں جب تک اللّٰہ کی حکومت قائم رہے اور جب اللّٰہ کی حکومت ختم ہوکر، اللّٰہ کی حاکمیت کے نام پر انسان اپنے جیسے انسانوں کا غلام بن جائے تو پھر آپس میں اتحاد واتفاق کا نظریہ ختم اور باہمی جنگ شروع، مفادات کی اس جنگ میں کبھی کوئی غالب اورکبھی کوئی۔اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے'حبل اللّٰہ'اللّٰہ کی رسّی کو ہی مرکز قرار دیا، اور اس پر سب کو جم جانے اور اختلافات ختم کرنے کا حکم دیا ، اس کو اپنا بہت بڑا انعام بتایا کہ اللّٰہ نے اتفاق کا ایک کلمہ اور عقیدہ عطا کیا ہے۔ قرآنِ کریم میں فرمایا:
وَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِهِم ۚ لَو أَنفَقتَ ما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا ما أَلَّفتَ بَينَ قُلوبِهِم وَلـٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَينَهُم ۚ إِنَّهُ عَزيزٌ حَكيمٌ ... سورةالانفال میں ارشاد ہے کہ...سن کے دلوں میں باہمی اُلفت بھی اُسی نے ڈالی ہے۔ زمین میں جو کچھ ہے ،تو اگر سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتا ہے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتا۔ یہ تو اللّٰہ ہی نے ان میں اُلفت ڈال دی ہے۔ وه غالب حکمتوں والاہے۔
اللّٰہ تعالیٰ نے اسلام کو بہت بڑی نعمت قرار دیا ہے، جس کے سبب تمام مسلمان بھائی بھائی بن کر متحد ومتفق ہوگئے۔ اور کسی قوم کے لیے اتحاد واتفاق سب سے بڑی نعمت ہے۔ قوم کی اجتماعیت سب سے بڑی قوت ہے، اس کے بغیر قوم منتشر افراد کا ریوڑ ہے۔ اسلام نےہمیں اجتماعیت کا محور عطا کیا :
وَاعتَصِموا بِحَبلِ اللَّهِ جَميعًا وَلا تَفَرَّ‌قوا ۚ وَاذكُر‌وا نِعمَتَ اللَّهِ عَلَيكُم إِذ كُنتُم أَعداءً فَأَلَّفَ بَينَ قُلوبِكُم فَأَصبَحتُم بِنِعمَتِهِ إِخو‌ٰنًا وَكُنتُم عَلىٰ شَفا حُفرَ‌ةٍ مِنَ النّارِ‌ فَأَنقَذَكُم مِنها.... سورة آل عمران میں ارشاد ہے کہ ...اللّٰہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور اللّٰہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت ڈال دی، تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔
تاریخ شاہد ہے کہ کسی قوم وملت کے لیے سب سے بڑا انعام باہمی اتفاق واتحاد ہے اور یہ اتفاق واتحاد کسی نظریہ پر ہی ہوسکتا ہے، ایسا نظریہ جو باہمی مفادات سے بالاترہو۔ اس لحاظ سے اُلفت کا پیدا کرنا بھی اللّٰہ کا بہت بڑا انعام ہے اور اُلفت کا مرکز عطا کرنا، یعنی اللّٰہ کی بندگی اور اس کی اطاعت، اس کے کلمہ کی سربلندی اور اس کے قیام کے لیے جدوجہد، یہ بھی اللّٰہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ اسلام نے ہمیں اتحاد واتفاق کے مراکز عطا کیے یعنی اللّٰہ کا قرآن اور نبی کا فرمان... قرآن اور ذاتِ نبوت، جس میں آپﷺ کا قول وفعل بھی شامل ہےاور یہی مسلمانوں کے مرکزِ وحدت ہیں۔
2. جب انسانوں کی نظر باہمی مفادات پر ہی ہو، ان کی ہدایت کا کوئی مرکز ومنبع نہ ہو تو پھر سائنس وٹیکنالوجی، طاقت ودولت انسانوں کے لیے رحمت ہونے کے بجائے باعثِ زحمت بن جاتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق موجودہ مغربی اقوام سے ہوتی ہے۔ بیسویں صدی میں مغربی قوموں نے بے تحاشا عسکری طاقت جمع کرلی، دنیا بھر کے مال ودولت پر قابض ہوگئے، عالمِ اسلام سمیت پوری دنیا ان کے زیر نگین ہوگئی۔ لیکن یہ قومیں سائنس وٹیکنالوجی کے عروج کے بعد، آپس میں ہی برسر پیکار ہوگئیں۔ جنگ عظیم اوّل اور دوم مغربی اقوام کے مابین ہی لڑی گئیں اور مسلم اقوام ان جنگوں میں اُن کے حاشیہ نشین سے زیادہ کوئی حیثیت نہ رکھتے تھے۔ انہی جنگوں میں استعماری طاقتوں کی کمزوری نے دنیا بھر میں ان کی حکومتوں کو منتشر کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں مسلم ممالک زمین کے سینے پر عالم وجود میں آگئے۔ان جنگوں میں انسانیت کو اتنا بڑا نقصان پہنچا جتنا اس سے قبل کی اُنیس صدیوں کی تمام جنگوں کی مجموعی ہلاکتوں میں نہیں پہنچا تھا۔ سائنس کا تو کوئی ذہن اور شعور و دماغ نہیں ہوتا۔ اس سائنس نے انسان کی ہلاکت کے ایسے ہتھیار بنائے کہ انسانیت کی سب سے بڑی مجرم یہی سائنس بنی جو انسان کی بڑی محسن کہلاتی ہے۔ اس سائنس کے ذریعے انسانیت کو ایسے الم ناک سانحوں سے گزرنا پڑا جس نے انسان کی نسلوں کو مسخ کر دیا۔ ظاہر ہے کہ سائنس تو محض ایک آلہ ہے، دولت واختیار بھی مقاصد کو پانے کا ایک وسیلہ ہے ، لیکن مقاصد کا تعین اس سے بلند تر چیز ہے۔ اسی لیے اللّٰہ تعالیٰ نے دین کو بھیجا ہے جو زندگی، دولت ، طاقت اور سائنس کو ایک واضح مقصدیت عطا کرتا ہے۔
3. ظاہر ہے کہ جب انسان کا ایمان مضبوط نہ ہو، مقصدِ زندگی واضح نہ ہو، ربّ کی بجائے وہ درہم ودینار اور دنیوی مفادات، اختیار واقتدار کا اسیر ہو تو بیشمار المیے وجود میں آتے ہیں۔امت چودہ برسوں سے وحشت ناک قتل وغارت کا شکار ہے، پوری قوم ایک دوسرے کے ساتھ آمادہ پیکار ہے، نظریاتی بحران اور فکری کشدگی زوروں پر ہے۔  مخالفت اور حمایت نے اعصاب شل کردئے، معیشت، معاشرت اور سیاست وعدل پر نہ مٹنے والے نقوش ثبت کئے ہیں۔ ارباب اقتدار کا ایمان محفوظ ہوتا، دنیا کے مفادات اور اغراض ایمان سے زیادہ قیمتی سمجھے جاتے تو آج  بازوئے شمشیر زن آپس میں سر بکف نہ ہوتے۔ ایمان انسان کو بکنے نہیں دیتا اور دنیا کے وقتی مفادات کیلئے جھکنے نہیں دیتا۔
دین یعنی اللّٰہ کی بندگی انسان کو یہ شعور عطا کرتا ہے اور اس میں یہ حوصلہ پیدا کرتا ہے کہ وہ معمولی اغراض کیلئے اپنے ایمان کو نہ بیچے، آخرت کی دائمی نعمتوں کو دنیا کے اَرزاں دام پر فروخت نہ کرے۔نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تربیت یوں کی تھی کہ اللّٰہ کے احکام کو وہ ہرشے پر مقدم رکھتے۔ چنانچہ خیبر والوں سے خراج لینے کیلئے نبی کریم ﷺ عبد اللّٰہ بن رواحہ کو ہر سال بھیجا کرتے، ان کا رویہ مشاہدہ کریں:
فَيَخْرُصُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ يَهُودِ خَيْبَرَ قَالَ فَجَمَعُوا لَهُ حَلْيًا مِنْ حَلْيِ نِسَائِهِمْ فَقَالُوا لَهُ هَذَا لَكَ وَخَفِّفْ عَنَّا وَتَجَاوَزْ فِي الْقَسْمِ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودِ وَاللَّهِ إِنَّكُمْ لَمِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيَّ وَمَا ذَاكَ بِحَامِلِي عَلَى أَنْ أَحِيفَ عَلَيْكُمْ فَأَمَّا مَا عَرَضْتُمْ مِنْ الرَّشْوَةِ فَإِنَّهَا سُحْتٌ وَإِنَّا لَا نَأْكُلُهَا فَقَالُوا: بِهَذَا قَامَتْ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ26
یعنی کہ ...وہ خیبر والوں کے مال کا اندازہ لگایا کرتے۔ یہود نے اپنی خواتین کے کپڑے زیورات ان کے لیے جمع کیے اور کہا کہ عبدا للہ یہ آپ کیلئے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ نرمی کریں اور اس حصہ میں کمی کریں۔ عبد اللّٰہ بن رواحہ بولے: اے یہود! اللّٰہ کی قسم! میرے نزدیک تم اللّٰہ کی بدترین مخلوق ہو، میں یہ لینے والا نہیں کہ تمہارے ساتھ مل جاؤں۔ جو تم نے مجھے رشوت پیش کی ہے، وہ حرام مال ہے جسے ہم ہاتھ نہیں لگاتے۔ یہودی کہہ اُٹھے کہ اسی لئے آسمان وزمین قائم ہیں۔
بعض احادیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں وَلَقَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَىَّ کہ ...میں تمہارے پاس انسانوں میں سے محبوب ترین شخصیت کے پاس سے آیا ہوں۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب کسی انسان کا دل اللّٰہ کی رضا کا طالب ہوجائے، اس کے نفس کی اصلاح ہوجائے تو اس کے رویوں کی اصلاح ہوتی ہے، اس کے رویوں سے اس کے معاشرے کی اصلاح ہوتی ہے۔ وہ اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتا، اس کا ایمان اس کو بتاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔ اگر وہ یہاں دھوکا کرے گا تو اللّٰہ مالک الملک اس کے مال سے برکت اُٹھا لے گا، اور اس کو کہیں اور سے بدترین خسارہ پڑ جائے گا، اس طرح وہ اپنی قوم کا بھی امین بن جاتاہے۔ ایمان اور بندگی صرف اللّٰہ سے تعلق کی ہی اصلاح نہیں کرتے، قومی کردار کی بھی تشکیل کرتے اور معاشرے میں خیروبرکات کا سبب بنتے ہیں۔ اسلام ہمیں اس بات کی ہی تلقین کرتا ہے۔
جہاں تک باطل کی ظاہری کامیابی کی بات ہے تو اوّل تو یہ صرف اسی دنیا کی کامیابی ہے، آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں، اس لیے وه مسلمانوں کے لیے مثال نہیں بن سکتے۔پھر ان کے اموال ونعمتیں ان پر اللّٰہ کی رضا مندی کی دلیل نہیں، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ لوگوں کو ڈھیل دیتے ہیں۔ اللّٰہ گناہوں پر فوری گرفت نہیں کرتےاور اس پر بہت سی آیاتِ کریمہ شاہد ہیں۔یوں بھی دنیا دار الجزا نہیں، دار العمل ہے، اصل فیصلے اور بدلے محشر میں ہونے ہیں۔
پھر باطل کا اللّٰہ کی نعمتوں سے مزے اُڑانے کا نظریہ بھی درست نہیں، بلکہ یہ دیگر اقوام سے لوٹ کھسوٹ اور قتل وغارت گری کا نتیجہ ہیں۔ مغربی اقوام جتنا ظلم دیگر اقوام پر ڈھاتی ہیں، اس کا معمولی نقشہ امریکی جارحیت کی صورت میں افغانستان، عراق اور شام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ آج بھی دنیا جہاں کے خزانے عالم اسلام میں ہیں، اور مغربی اقوام ان کو ہتھیانے کیلئے ہر پینترا آزما رہی ہیں۔ جب کوئی قوم اللّٰہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی  اطاعت اختیار کرتی ہے تو اللّٰہ تعالیٰ آسمان وزمین کی نعمتیں اس پر کھول دیتے ہیں، اس کی زمین خزانے اگلتی ہے، اور مسلم دنیا میں اس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ تیل، سونے، کوئلے، دھاتیں، تجارتی راستے سب مسلم اُمّہ کے پاس ہیں، اس سے بڑھ کر نوجوانان ملت کی بہت بڑی تعداد...اگر کمی ہے تو طاقتِ ایمانی کی ہے، یہ ایمانی کمزوری کا ہی شاخسانہ ہے کہ مسلمان آپس میں متحد نہیں ہوتے اور دین کے احکام پر عمل نہیں کرتے۔
پھر اہل مغرب کی موجودہ کامیابی یا مال ودولت اُن کی زندگیوں کا محض ایک چمکدار رُخ ہے، وگرنہ یہ ظاہری مادی آسائشیں، گھروں کا سکون،خوشی واطمینان اور رشتوں کا خون کرکے اُنہوں نے حاصل کی ہیں۔ مال ودولت ہی سب سے بڑی نعمت نہیں بلکہ کامیاب اور خوش گوار ومطمئن زندگی سب سے بڑی دولت ہے، جس کیلیے مغرب کے باشندے اپنا وقت نائٹ کلبوں میں گزارتے اور شراب ومنشیات کی سرمستیوں میں مگن رہ کر مشینوں سے دل بہلاتے ہیں۔
اللّٰہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اصلاح اور کامیابی کا راستہ بتا دیا ہے۔ انبیا کرام علیہم السلام جس مشن کو لے کر آتے ہیں، اسی مشن کے احیا کی ضرورت ہے۔ اور وہ ہے ہر میدان میں اللّٰہ کی اطاعت، ہر نظامِ حیات کو اس کی رہنمائی میں چلانا، لوگوں کو اپنے جیسے لوگوں کی بندگی سے نکال کر اللّٰہ وحدہ لا شریک کی بندگی میں دینا، اِسی کے لیے اپنے اوقات کو صرف کرنا۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ کا یاد گار فرمان ہے:
لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها"27
یعنی کہ...اس اُمت كے آخر كی اصلاح بھی اسی طرح ہوگی جیسے پہلے حصّہ کی اصلاح ہوئی۔
سورة الزمرمیں ' کامیابی کا راستہ' قوم فرعون کے ایک بندہ مؤمن کی زبانی بیان ہوا ہے:
وَقالَ الَّذى ءامَنَ يـٰقَومِ اتَّبِعونِ أَهدِكُم سَبيلَ الرَّ‌شادِ ...يـٰقَومِ إِنَّما هـٰذِهِ الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا مَتـٰعٌ وَإِنَّ الءاخِرَ‌ةَ هِىَ دارُ‌ القَر‌ارِ‌ ... مَن عَمِلَ سَيِّئَةً فَلا يُجزىٰ إِلّا مِثلَها ۖ وَمَن عَمِلَ صـٰلِحًا مِن ذَكَرٍ‌ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَأُولـٰئِكَ يَدخُلونَ الجَنَّةَ يُر‌زَقونَ فيها بِغَيرِ‌ حِسابٍ...وَيـٰقَومِ ما لى أَدعوكُم إِلَى النَّجو‌ٰةِ وَتَدعونَنى إِلَى النّارِ‌ ... تَدعونَنى لِأَكفُرَ‌ بِاللَّهِ وَأُشرِ‌كَ بِهِ ما لَيسَ لى بِهِ عِلمٌ وَأَنا۠ أَدعوكُم إِلَى العَزيزِ الغَفّـٰرِ‌... لا جَرَ‌مَ أَنَّما تَدعونَنى إِلَيهِ لَيسَ لَهُ دَعوَةٌ فِى الدُّنيا وَلا فِى الءاخِرَ‌ةِ وَأَنَّ مَرَ‌دَّنا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ المُسرِ‌فينَ هُم أَصحـٰبُ النّارِ‌ ...فَسَتَذكُر‌ونَ ما أَقولُ لَكُم ۚ وَأُفَوِّضُ أَمر‌ى إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصيرٌ‌ بِالعِبادِ ... سورةغافر میں کہا گیا ہے کہ...اور اس مؤمن شخص نے کہا کہ اے میری قوم... تم میری پیروی کرو، میں تمہیں ہدایت کا راستہ بتلاتا ہوں۔ اے میری قوم... یہ حیاتِ دنیا متاعِ فانی ہے، اور ہمیشگی کا گھر تو آخرت ہی ہے۔ جس نے گناه کیا ہے اسے تو برابر برابر کا بدلہ ملے گااور جس نے نیکی کی،خواه وه مرد ہو یا عورت اور وه ایمان والا ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بغیر حساب رزق پائیں گے۔ اے میری قوم! یہ کیا بات ہے کہ میں تمہیں نجات کی طرف بلا رہا ہوں اور تم مجھے دوزخ کی طرف بلا تےہو۔ تم مجھے یہ دعوت دے رہے ہوکہ میں اللّٰہ کے ساتھ کفر کروں اور اس کے ساتھ شرک کروں جس کا کوئی علم مجھے نہیں اور میں تمہیں غالب بخشنے والے (معبود) کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔ یہ یقینی امر ہے کہ تم مجھے جس کی طرف بلا رہے ہو وه تو نہ دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے نہ آخرت میں، اور یہ (بھی یقینی بات ہے) کہ ہم سب کا لوٹنا اللّٰہ کی طرف ہے اور حد سے گزر جانے والے ہی (یقیناً) اہل دوزخ ہیں۔ پس آگے چل کر تم میری باتوں کو یاد کرو گے۔ میں اپنا معاملہ اللّٰہ کے سپرد کرتا ہوں، یقیناً اللّٰہ تعالیٰ بندوں کا نگراں ہے۔
ان آیاتِ کریمہ میں اس بندہ مؤمن نے اسلام کی دعوت کو ان چیزوں میں پیش کرکے اسے ہدایت کا راستہ بتایا ہے:
* دنیا مختصر وقت کا سامان، فانی اور آخرت دائمی گھر ہے۔
٭ ہر انسا ن کو اپنے اعمال کا سامنا کرنا اور کیے کا نتیجہ بھگتنا ہے،نیک اعمال کرنے والوں کو جنّت کا بدلہ ملے گا، جس میں اُنہیں بلاحساب رزق وانعام دیا جائے گا۔
٭ میں تمہیں اللّٰہ کی بندگی کی طرف بلاتا اور شرک ونافرمانی سے روکتا ہوں۔
٭ میر ی دعوت نجات کی دعوت اور تمہاری دعوت آگ کی دعوت ہے۔
٭ تمہاری دعوت کا دنیا میں کوئی مقام نہیں اور آخرت میں بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
٭ ایک دن تمہیں میری باتیں یاد آئیں گی، میرے معاملات کا نگران اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے۔
انبیاے کرام علیہم السلام کی دعوت ومشن یہی رہا ہے۔حضرت عیسیٰ بھی اسی مشن پر کاربند ہوکر عنقریب دنیا میں اسلام کا بول بالا کریں گے۔جب اُن کو چند سو مسلمان اللّٰہ جل جلالہٗ کی عبادت وعبدیت کے خوگر مل جائیں گے، جو اللّٰہ کے حکم کو لاگو کرنے کے لیے اپنے رشتوں وناطوں، دنیوی مفادات اورتجارت ومعیشت کو خاطر میں نہ لائیں گے، اُن کی اطاعت کاملہ اختیار کریں گےتو دیکھتے ہی دیکھتے اللّٰہ تعالیٰ 'دورِ نبوی کے ان 313 پیروکاروں کو' معاشرے میں سربلندی اور اپنے انعامات عطا کریں گے۔نبی کریمﷺ نے اسلام کے ذریعے عرب کے بدترین معاشرے کے حالات چند ہی سالوں میں بدل کر، اُنہیں کامیاب فرد ومعاشرہ بنا دیا تھا، اسی طرح عنقریب ظلم وزیادتی کی شکار اس دنیا میں چشم فلک اسلام کے عروج کے یہ مناظر دوبارہ دیکھے گی اور ہر کچے پکے گھر میں، عزت دے کر یا ذلّت سے دوچار کرکے، اسلام پوری شان وشوکت سے داخل ہوجائے گا۔
ہر انسان سے اللّٰہ تعالیٰ کا مطالبہ اس قدر ہے کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں دین کو قائم کرے۔ اپنی ذات پر نماز، روزہ ، حج اور زکوٰۃ اور اسلامی اخلاق وآداب کو لاگو کرے، اور اپنے کنبے قبیلے پریہ دین بقدرِ امکان قائم کردے۔ اپنے کاروبار،تعلیم وملازمت،میل جول، رشتے ناطے، خرید وفروخت، رویے و رجحان اور فیصلوں میں اسی دین کو اختیار کرے۔ پھر اس چیز کی دعوت اپنے بھائیوں کو دے کہ اس پر اُن کا بھی حق ہے، اچھائی کی دعوت دے، برائی کے خاتمے کی کوشش کرے، اور دین کی جو نعمت اُسے حاصل ہوئی، ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کرے۔
جب تک ہم اپنے فکرونظر کے زاویے درست نہیں کرتے، اُنہیں ہدایتِ نبوی سے معمور نہیں کرتے اور قول وکردار کو اس کے مطابق استوار نہیں کرتے، لاکھ سرپٹکتے جائیں، کامیابی ہمارے قدم نہیں چومے گی۔ اگر کامیابی ہوگی تو وہ بھی یک رخی، غیرمتوازن، عارضی اور صرف ایک دنیا کی حد تک ...اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت دے اور ہمارے اہل فکر ودانش اور اربابِِ اقتدار واختیار کو بھی توفیق مرحمت فرمائے۔
بحوالہ:
1.سنن ابو داود: 3334
2.صحیح بخاری: 5867
3 .مسند احمد: 4؍377 ، رقم 19397 ؛ مستدرک حاكم :4؍564 ، رقم 8582وقال : صحيح علىٰ شرط الشیخین
4 .صحیح مسلم: 107... باب اخذ الحلال وترک الشبہات
5.بزبان اقبالؐ:خداے لم يزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے يقيں پيدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
6.پرے ہے چرخ نيلی فام سے منزل مسلماں کی ستارے جس کی گرد راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
7. لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَ‌سولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلوا عَلَيهِم ءايـٰتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتـٰبَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفى ضَلـٰلٍ مُبينٍ... سورۃ آل عمران
8. لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌.... سورةالاحزاب
9.جامع ترمذى: 3232
10. وَما أَر‌سَلنا مِن قَبلِكَ مِن رَ‌سولٍ إِلّا نوحى إِلَيهِ أَنَّهُ لا إِلـٰهَ إِلّا أَنا۠ فَاعبُدونِ ... سورة الانبياء
11. أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللهِ
صحيح بخارى: 1399
12. مسند احمد بن حنبل: 10615
13. إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ، كَقَلْبٍ وَاحِدٍ، يُصَرِّفُهُ حَيْثُ يَشَاءُ» ثُمَّ قَالَ رَسُولُ ﷺ: «اللهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ
مسلم: 17
14. قرآنِ مجید میں وارد ہے: فَلا تُعجِبكَ أَمو‌ٰلُهُم وَلا أَولـٰدُهُم ۚ إِنَّما يُر‌يدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِها فِى الحَيو‌ٰةِ الدُّنيا... سورة التوبة﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّ مِن أَزو‌ٰجِكُم وَأَولـٰدِكُم عَدُوًّا لَكُم فَاحذَر‌وهُم....إِنَّما أَمو‌ٰلُكُم وَأَولـٰدُكُم فِتنَةٌ.... سورة التغابن
15. سورۃ الانفال: 63
16. حدیثِ قدسی ہے: وجبت محبتي للمتحابين في والمتجالسين في ...» موطا مالك: كتاب الجامع
17. صحیح بخاری: 2067
18. جامع ترمذی:2466
19. سنن نسائی:4905
20. سنن ابن ماجہ:4102
21. صحيح مسلم:214
22. حکام کو فرمانِ عمر : إِنَّ أَهَمُّ أُمُورِكُمْ عِنْدِي الصَّلَاةَ، مَنْ حَفِظَهَا وَحَافَظَ عَلَيْهَا حَفِظَ دِينَهُ، وَمَنْ ضَيَّعَهَا فَهُوَ لِسِوَاهَا أَضْيَعُ ''میرے نزدیک تمہارا سب سے اہم کام نماز ہے۔ جو اس کا محافظ اور اس کی نگہداشت کرتا ہے، وہ اپنے دین کا بھی محافظ ہے۔ اور جس نے اسے ضائع کردیا ، وہ اس کے ماسوا ذمہ داریوں کو زیادہ ضائع کرنے والا ہے۔
مصنف عبد الرزاق: 2038
23. طبقات ابن سعد:3؍312،322
24. كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ وَإِنَّما تُوَفَّونَ أُجورَ‌كُم يَومَ القِيـٰمَةِ ۖ فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ‌ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ ۗ وَمَا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُر‌ورِ‌ ... سورة آل عمران یعنی کہ ہر نفس کو موت کا مزه چکھنا ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیئے جاؤ گے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وه کامیاب ہوگیا، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا عارضی سامان ہے۔
25. الَّذينَ إِن مَكَّنّـٰهُم فِى الأَر‌ضِ أَقامُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتَوُا الزَّكو‌ٰةَ وَأَمَر‌وا بِالمَعر‌وفِ وَنَهَوا عَنِ المُنكَرِ‌ ۗ وَلِلَّهِ عـٰقِبَةُ الأُمورِ‌ .. سورة الحج  یعنی کہ یہ وه لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں انہیں حکومت دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں اداکریں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ اور تمام کاموں کا انجام اللّٰہ کے اختیار میں ہے۔
26. سنن ابی داؤد:4297
27. موطا امام مالك:باب ماجاء فی المساقاة


28. فتح المجید شرح کتاب التوحید از شیخ عبد الرحمن بن حسن : 1
487

ادع إلى سبيل.. ربك 

من الآيات المفتاحية في القرآن الكريم ما ذكره سبحانه؛ تبياناً لمنهج الدعوة في سبيله، قوله تعالى: {ادع إلى سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم بالتي هي أحسن} (النحل: 125)، فقد بينت الآية لرسول الله صلى الله عليه وسلم.
ولمن بعده من الدعاة أن منهج الدعوة إلى الإسلام قائم على هذه الأسس الثلاثة: الحكمة، والموعظة الحسنة، والمجادلة بالتي هي أحسن. وفيما يلي مزيد بسط لمضمون هذا الآية ومقصودها.

مفردات الآية:
(سبيل ربك):  هو الصراط المستقيم، كما قال تعالى: {وإنك لتهدي إلى صراط مستقيم} (الشورى: 25)، قال البغوي: يعني الإسلام.

و(الحكمة):  اسم جامع لكل كلام أو علم يراعى فيه إصلاح حال الناس واعتقادهم إصلاحاً مستمراً لا يتغير. 

و(الموعظة):  هي المقالة الحسنة التي يستحسنها السامع، وتكون في نفسها حسنة باعتبار انتفاع السامع بها. وقيل: القول الذي يُلِّين نفس المقول له لعمل الخير. وهي أخص من الحكمة؛ لأنها حكمة في أسلوب خاص لإلقائها.

و(المجادلة):  من الجدل: وهو المفاوضة على سبيل المنازعة والمغالبة، وأصل هذا اللفظ من: جدلت الحبل، أي: أحكمت فتله، وجدلت البناء: أحكمته.

المنهج القرآني في الدعوة:
تبين هذه الآية الكريمة منهج الدعوة إلى الله، وترشد كل من يقوم مقاماً من مقامات الرسول صلى الله عليه وسلم في الدعوة إلى الإسلام، أن عليه أن يكون سالكاً للطرائق الثلاث: الحكمة، والموعظة الحسنة.
والمجادلة بالتي هي أحسن، وإلا كان منصرفاً عن منهج القرآن في الدعوة إلى الإسلام، وغير خليق بأن يكون في صفوف الداعين إلى الله؛ لأن عدم التزامه بهذا المنهج سيؤدي إلى خلاف ما هو مقصود ومأمول.

ولا يلزم الداعي إلى الله أن يلزم الطرائق الثلاث مع كل مدعو، بل اللازم أن يسلك الطريقة الأنسب والأجدى مع كل مدعو؛ إذ ليس كل الناس سواء، فمن الناس من يَحْسُن مخاطبته بطريق الحجة والبرهان (الحكمة).
ومن الناس من يكون الأليق بمخاطبته طريق الموعظة والاعتبار، وثمة فريق ثالث لا يجدي معه إلا منهج المجادلة؛ ومن هنا كان على الداعي أن يتخير لكل مدعو ما يغلب على ظنه أنه الأفضل في حقه، والأقرب إلى قبول دعوته.

على أنه قد يكون من الأنسب أن يُجمع في دعوة بعض المدعوين بين هذه الطرائق الثلاث، وذلك بدعوته عن طريق الحجة والبرهان، ومن ثم الانتقال معه بالدعوة بالموعظة الحسنة. ويراعى في كل ذلك ما هو أقرب إلى الأذهان، وما هو أسرع إلى القبول.

ومن مقتضى طريق (الحكمة) في الدعوة البدء بدعوة الأهم فالأهم، فدعوة العالم أولى من دعوة الجاهل، ودعوة القريب مقدمة على دعوة البعيد، ودعوة من يُرجى إسلامه أجدر ممن لا يُرجى إسلامه.

فعلى هذه الأسس الثلاثة يرسي القرآن الكريم قواعد الدعوة ومبادئها، ويعين وسائلها وطرائقها، ويرسم المنهج للرسول الكريم، وللدعاة من بعده.

من لطائف الآية:
اشتملت هذه الآية على جملة من اللطائف والفوائد، جدير بنا أن نسلط الضوء على شيء منها:

أولاً: لما كان الناس من حيث الجملة ينقسمون إلى أقسام ثلاثة: حكماء محققون، وعوام مسلِّمون، وخصماء مجادلون، جاءت هذه الآية لتبين المناهج الثلاث التي توافق ما عليه أقسام الناس. فالحكماء يخاطَبون بالحكمة.
والعوام يخاطَبون بالموعظة، والخصماء يجادلون بالتي هي أحسن. وبهذا تكون الآية قد جمعت بين أصول الاستدلال العقلي الحق: البرهان، والخطابة، والجدل. وهي الأصول المعتبرة في الاستدلال عند أهل المنطق.

ثانياً: قُيدت (الموعظة) بالحسنة، ولم تقيد (الحكمة) بمثل ذلك؛ لأن الموعظة لما كان المقصود منها غالباً الردع عن أعمال سيئة واقعة أو متوقعة، كانت مِظنة لصدور غلظة من الواعظ، ولحصول انكسار في نفس الموعوظ، فتوخَّت الآية كون الموعظة حسنة.
وذلك بالقول اللين، والترغيب في الخير، كما قال تعالى: {فقولا له قولا لينا لعله يتذكر أو يخشى} (طه: 44). أما الحكمة فهي تعليم لمتطلبي الكمال من معلم يهتم بتعليم طلابه، فلا تكون إلا في حالة حسنة، فلا حاجة إلى التنبيه على أن تكون حسنة.

ثالثاً: اشتمل القران الكريم على الحكمة والموعظة والمجادلة؛ ففيه بيان آيات الله في الكون من خلق السموات والأرض والشمس والقمر والنجوم المسخرات بأمره، وإنزال الماء، وإنبات النبات، وفلق الحب والنوى.
فهذا كله من الحكمة. وفيه قصص الأقوام السابقة، وما نزل بالعصاة من خسف وزلزال وريح صرصر عاتية، وهذا من الموعظة الحسنة. وفيه مجادلة المخاصمين، كمجادلة الذي {مر على قرية وهي خاوية على عروشها} (البقرة: 259).

رابعاً: يستبين مما أرشدت إليه الآية الكريمة من مناهج الدعوة واقعية هذا القرآن ومراعاته لكافة المستويات الإنسانية، فالنفس البشرية لها كبرياؤها وعنادها، وهي لا تنزل عن الرأي الذي تدافع عنه إلا بالرفق.
حتى لا تشعر بالهزيمة، وسرعان ما تختلط على النفس قيمة الرأي وقيمتها هي عند الناس، فتعتبر التنازل عن الرأي تنازلاً عن هيبتها واحترامها وكيانها. والجدل بالحسنى هو الذي يخفف من هذه الكبرياء الحساسة، ويشعر المجادل أن ذاته مصونة، وقيمته كريمة، وأن الداعي لا يقصد إلا كشف الحقيقة في ذاتها، والاهتداء إليها. في سبيل الله، لا في سبيل ذاته ونصرة رأيه وهزيمة الرأي الآخر.

ونختم القول حول هذه الآية بما جاء في "الموطأ" من أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال في خطبة خطبها في آخر عمره: "أيها الناس قد سُنَّت لكم السنن، وفُرضت لكم الفرائض، وتُركتم على الواضحة، إلا أن تضلوا بالناس يميناً وشمالاً".
وضرب بإحدى يديه على الأخرى. وهذا الضرب علامة على أنه ليس وراء ما ذُكر مطلب للناس في حكم لم يسبق له بيان في الشريعة.
المصدر: موقع إسلام ويب
 

No comments:

Post a Comment