Sunday, 4 October 2015

786 لکھنے کا حکم

خط یا کسی بھی تحریر کے شروع میں 786 لکھنے کا کیا حکم ہے۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال و علیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خط یا کسی بھی تحریر سے پہلے بطور بسم اللہ کے 786 لکھنا ایک گمراہ کن بات ہے۔کیونکہ کوئی بھی نیک کام شروع کرنے سے پہلے زبان سے "بسم الله الرحمن الرحیم" ادا کرنا یا لکھنا بہت ہی اچھا اور ثواب کا کام ہے۔اللہ تعالی نےقرآن حکیم کو بھی "بسم الله الرحمن الرحیم" سے ہی شروع فرمایا گیا ہے۔

786 لکھ کر تحریر شروع کرنے کا یہ طریقہ ہم کو قرآن و سنت میں کہیں بھی نہیں ملتا ہے بلکہ اس کی کڑیاں کہیں اور مثلا ہندو مت مجوسیت اور یہودیت سے جاکر ملتی ہیں۔

جب ہم علم الاعداد پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں انتہائی خطرناک صورتِ حال نظر آتی ہے کہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے 786 نہیں بلکہ 787 اعداد ہوتے ہیں اور ہرے کرشنا کے 786 اعداد بنتے ہیں تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔

ب س م ا ل ل ہ (بسم اللہ)

2+60+40+1+30+30+5 (168)

ا ل ر ح م ا ن (الرحمٰن)

1+30+200+8+40+1+50 (330)

ا ل ر ح ی م (الرحیم)

1+30+200+8+10+40 (289)

787=168+330+289

مجموعی نمبر787 ہوتا ہے جبکہ ''ہرے کرشنا'' اور روی شنکرکا مجموعی نمبر786 ہوتا ہے تفصیلات حسب ذیل ہیں:

ہ ر ی ک ر ش ن ا (ہرے کرشنا)

5+200+10+20+200+300+50+1=786

ر و ی ش ن ک ر (روی شنکر)

200+6+10+300+50+20+200=786

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے اعداد 786 ہی ہیں جیسا کہ بہت سارے لوگوں کا اس پر اصرار ہے تو اب 786 نمبر لکھ کر ہندو ''ہرے کرشنا''پڑھ لیں گے اور مسلمان بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ لیں گے، اس طرح اور بھی کئی الفاظ بنتے ہوں گے جبکہ بسم اللہ کا اور کوئی بھی معنی نہیں بنتا تو اس سے معلوم ہوا کہ 786 لکھنے سے بہت سی قباحتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
سوم ۔چہارم ۔اور چہلم وغیرہ کرنا اور اس کا کھانا کیسا ہے؟


السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

سوم ۔چہارم ۔اور چہلم وغیرہ کرنا اور اس کا کھانا کیسا ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سوم ۔چہارم۔چہلم وغیرہ سب بدعات ہیں۔کیونکہ ان میں سے کسی کا نشان و پتہ قرون ثلاثہ میں نہ تھا تو بدعات ہوئے اس سے مسلمانوں کو حذر کرنا بہت ضروری ہے۔اور اس میں کسی قسم کی شرکت بھی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔اوربرے کاموں میں مدد نہ کرو۔

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ

اور اس کا کھانا ۔کھانا بھی نہیں چاہیے۔کیونکہ یہ بھی ایک قسم کی اعانت ہے۔اگرچہ کھانا فی نفسہ حرام نہیں ہے۔اور امور مذکورہ یعنی سوم چہارم اور چہلم عرس وغیرہ ک بدعت اور نا مشروع ہونے پر یہ حدیث جو صحیح بخاری  وغیرہ میں مذکور ہے۔دلیل صریح قوی ہے۔

من عمل عملا ليس عليه امرنا فهورد كما رواه البخاري وغيره من المحدثين

یعنی جو کوئی عمل کرے کہ جس پ ہمارا کوئی رد عمل نہ ہو وہ مردو ہے۔پس موجب اس حدیث کے سارے امومذکورہ بالا بدعت  و محدث میں داخل ہیں۔اور نیز حضرت  نے فرمایا ہے۔ شر الامور محدثاتها كما في صحيح البخاري وغیرہ  اللہ کریم تمام مسلمانوں کو بدعت سے بچا دے۔(سید محمد نزیر حسین۔محمد یوسف۔محمد عبد الغفار۔محمدعبد العزیز۔محمد عبد الحمید ۔محمد ابراہیم ۔محمد عبد السلام۔حافظ محمد۔المعتصم بحبل اللہ الاحد

No comments:

Post a Comment