Monday, 5 October 2015

محمد اخلاق کی شہادت پر سیاست کی بجائے کی جائے انصاف کی جدوجہد


مفتی ظفرالدین
صدر جمعیة علما صوبہ دہلی کا مطالبہ،وزےراعلیٰ کا متاثرین کو اپنے پاس بلانا انصاف کی طرف پیش قدمی :مولاناغیور احمد قاسمی
(ساگرٹائمز)گریٹرنوئیڈا کے دادری میں ممنوعہ ذبےحہ کا الزام لگاکر گاﺅں کے ہی اےک معمر شخص محمد اخلاق کی پیٹ پیٹ کر جان سے مارنے والوں کی زبردست مذمت کئی گی اور کہا گیا ہے کہ ایسے لوگ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں لےکن یہ کسی بھی قیمت پر نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس ملک میں گنگاجمنی تہذیب قائم رہے گی۔ ان خیالات کا اظہارنئی دہلی سے جاری پریس ریلیزمیںجامعہ اذکی للبنات کے دفتر میں منعقدہ ایصال ثواب پروگرام میں امیر شریعت مفتی ظفر الدین نے کیا۔ میٹنگ میں قرآن خوانی و خصوصی دعاکی گئی اور محمد اخلاق کیلئے دعائے مغفرت کئی گئی،نیز اس حادثہ میں بری طرح و زندگی و موت کے بیچ جھولنے والے ان کے بھائی دانش کی صحت کیلئے دعابھی کی گئی۔مفتی ظفر الدین نے مرکزی حکومت اور یوپی حکومت سے مطالبہ کیا کہ قاتلوں کو عبرتناک سزا دی جائے تاکہ ملک میں اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ دوہرائے جائیں۔
مولانا غیور احمد قاسمی
ملک کے امن پسند شہریوں سے اپیل کرتے ہوئے صدرجمعیة علما نے کہا کہ اس طرح کی حالات کو روکنے کیلئے ہر مذہب کے لوگوں کو تیار رہنا ہوگا۔ نوجوانوں کی تربےت کرنی ہوگی ،تبھی ملک تعمیر و ترقی میں آگے ہوگا۔ مولانا اسلام الدین قاسمی نے کہا کہ محضوص ذہنیت کے لوگ ملک میں بدامنی پھیلانے کیلئے کوشش کررہے ہیں اور مسلمانوں میں خوف و ہراس پیداکرنےکی کوشش کررہے ہیںاس کا سےکولر طاقتوں کو متحد ہوکر منہ توڑ جواب دینا چاہئے۔
میٹنگ میں مولانا غیور احمد قاسمی نے کہا کہ اس ملک میںمسلمانوں کی قربانیاں ہیں ۔برادران وطن ان قربانیوں سے بخوبی واقف ہیں، اس کی تعمےر و ترقی میں برابر کے شرےک ہیں ۔ دادری جیسے واقعات اس ملک کی پیشانی پر بدنماداغ ہیں۔ ہر محب وطن کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ملک کی شان پر کوئی حرف نہ آنے دے۔ ہم یوپی حکومت سے امید کرتے ہیں کہ محمد اخلاق کے وارثوں کو بہت جلد انصاف دلائے گی اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
اخیر میں مفتی ظفرالدین کی رقت انگیز دعاپر میٹنگ اختتام پذیر ہوئی ۔اہم شرکامیں مولانا محمد داود ظفر اسعدی ناظم جامعہ اذکی للبنات ،مولانا عبداللہ قاسمی، ماسٹر محمد قاسم مدرسہ افضل العلوم اوردلشاد احمد اصلاحی وغےرہ موجود تھے۔

No comments:

Post a Comment