Friday, 2 October 2015

منی حادثہ ; اپنو ں کی تلاش !

کپورونج احمد آباد کے عبدالمجید رسول بھائی اور زرینہ بین کی تلاش ناکام
(ساگر ٹائمز)منی حادثے کو تقدیر کا فےصلہ مان کر جہا ں لوگ اپنے رشتہ دارو ں کی موت کی خبر پاکر صبر کرنے لگے ہیںجبکہ بہت سے ایسے ہیں جن کو اپنے ماں باپ یا خاص رشتہ داروں کا اب تک پتہ نہیں چل چکا ہے ۔ احمد آبادسے2اکتوبرکو موصولہ خصوصی رپورٹ کے مطابق جدہ میں واقع ہندوستانی قونصل کے رویہ کی بھی لوگ شکایت کررہے ہیں،جمعیة علماءگجرات جنرل سکریٹری پروفیسر نثار احمد انصاری نے ممبئی میں واقع سعودی قونصل کو خط لکھا تو یہ جواب ملا یا ہندستانی قونصل سے رابطہ کریں ،تو جدہ میں واقع ہندستانی قونصل لوگوں کو صرف انتظارکرنے کی بات کہہ کر ٹا ل رہا ہے ،یعنی اس مصیبت کے وقت میں کم ازکم صبر کے بجائے لوگ اپنی ذمہ داری ، دوسرے پر ڈالنے کی راہ اختیار کررہے ہیں، جس سے غائب ہونے والوں کے اہل خانہ سخت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔کھیڑا ضلع میں واقع کپورونج کے عبدالمجید رسول بھائی او زرینہ بین کے بچوں نے ان کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی ہے ، انھوں نے سبھی مسلم تنظیموں اور قونصل کا در کھٹکھٹایا ہے ، مگر وہ اب تک ناکام رہے ہیں، ان کے بڑے لڑکے وارث عبدالمجید شیخ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ان کے ماں پاب کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا ،کپور ونج کے رہنے والے اور جمعیة علماءکے ممبر فاروق بھائی کہتے ہیں یہ دونوں افراد مدینہ ٹور س سروس سے گئے تھے، مگر ان کا اب تک کوئی پتہ نہیں چلا ہے ، حالاں کہ اسی محلے کے دےگر شہداءکی اطلاع ہوگئی ہے اور ہم ہر ممکن کوشش کرررہے ہیں اور خاص طور حج کمیٹی آف ا نڈیا سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی غائب حجاج کی فہرست تیار کرکے ان کی تلاشی کی را ہ ہموار کریں ۔فاروق بھائی کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو تلاش کرنے اور ان کی شناخت کیلئے فوری ویزا سے منع کردیا گیا جب کہ ایسے وقت میں ان کو جانے کی خاص اجازت ملنی چاہےے ۔گجرات جہاں کے سب سے زیادہ حجاج شہید ہوئے ہیں اور غائب ہونے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ، یہاں کے دو اضلاع احمد آباد اور کھیڑا سے تعلق رکھنے والے حجاج کا زیادہ نقصان ہوا ہے ۔ احمد آباد میںصرف شاہ پور محلہ سے چار حجاج شہید ہوئے ہیں۔ایشیا کے سب سے بڑے مسلم محلہ جوہا پورا آج تک غم میں ڈوباہے ، گزشتہ جمعہ عین عید الاضحی کے موقع پر نوربران سوسائٹی جوہاپورا میں سخت سناٹا چھایا ہوا تھا ،اس خاندان کے آٹھ افراد منی حادثہ کے بعد سے ہی لاپتہ ہیں۔اسی طرح سے ناگوری خاندان کے دد افراد کے شہید ہونے کے علاوہ بقیہ پانچ افراد کا اب تک کوئی پتہ نہیں چلا ہے ۔12ستمبر کو توکل ٹور آپریٹر سے گئے دو درجن سے زائد افراد کا بھی پتہ نہیں چل سکا ہے ۔احمد آباد کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان کھیڑا ضلع کے متاثرین کا ہوا ہے ۔
دوسر ی طرف گجرات حج کمیٹی سے جب جمعیة علماءگجرات کے رکن عاملہ مولانا عظیم ا للہ قاسمی نے بات کی تو جواب یہ ملا کہ جو حجا ج آزاد ٹور آپریٹر سے گئے تھے ، ا ن کے پاس کوئی لسٹ نہیں ہے اور نہ وہ ان کیلئے اس وقت کچھ کرسکتے ہیں ، ایسی صورت میں زیادہ تر متعلق و رشتہ دار کافی مشکل ایام کا سامنا کررہے ہیں۔احمد آباد میں واقع مدرسہ کاشف العلوم کے مدرس قاری راغب جمال کو سخت تشویش لاحق ہے ، کہتے ہیں سب سے مشکل بات یہ ہے کہ کہیں سے کوئی اطمینان بخش جواب نہیں مل رہا ہے ۔ہرجگہ سے یہی کہا جاتا ہے کہ انتظارکریں، سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک انتظار کریں؟ انھوں نے کہا کہ سرکار ڈی این اے ٹسٹ اور فنگر پرنٹ سے معلومات حاصل کرے گی مگر وہ لوگ جن کے رشتہ دار یہاں ہیں ان کا ٹسٹ کیسے ہو گا؟ بہر صورت حج کمیٹی آف انڈیا اور اس کی ریاستی کمیٹےوں کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں رشتہ داروں کی مختلف شہروں میں میٹنگ بلا کر لوگوں کو اطمینان دلائیں ۔
عظیم اللہ صدیقی صدیقی،جرنلسٹ

لاپتہ حاجی کہاں گئے؟

حج پر جانے والے لاہور کے گرین ٹاؤن کے حاجی محمد عارف کی رحلت کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے لیکن ان کے گھر میں ان کی مغفرت اور ایصالِ ثواب کے لیے دعا ہو رہی ہے جبکہ کراچی کورنگی ٹاؤن کے میر زمان کے بیٹے وزٹ ویزے پر سعودی عرب جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں تاکہ وہاں جا کر اپنے خاندان کے افراد کی تلاش کر سکیں اور پتہ لگا سکیں کہ کیا وہ زخمی ہیں یا منیٰ حادثے میں ہلاک ہو چکے ہیں؟
حکومتِ پاکستان کی جانب سے منیٰ حادثے کے متاثرین سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ہیلپ لائن کے مطابق منیٰ حادثے میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی کل تعداد 57 ہو گئی ہے۔
وزارتِ حج کی ویب سائٹ پر موجود اعدادوشمار کے مطابق سعودی حکام نے اب تک فقط 26 پاکستانیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے جبکہ 31 پاکستانیوں کی ہلاکت کے بارے میں ان کے اہلِ خانہ یا عینی شاہدین نے بتایا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ 110 پاکستانی لاپتہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ 292 لاپتہ حاجیوں کا پتہ لگا لیا گیا ہے۔
دورانِ حج منیٰ کا واقعہ پیش آنے کی وجوہات کیا تھیں اس بارے میں سعودی حکومت کی تحقیقات سامنے آنا ابھی باقی ہیں۔
مگر آٹھ دن گذرنے کے بعد اب سوال حادثے کی نوعیت کی بجائے لاشوں کی شناخت میں ورثا کو پیش آنے والی مشکلات کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور سعودی تعاون پر اٹھائے جا رہے ہیں۔
اب تک حتمی طور پر یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ سعودی عرب کے سرد خانوں میں کتنے افراد موجود ہیں اور ہسپتالوں میں کتنے زیرِ علاج ہیں۔
لاپتہ محمد عارف کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ باوجود کوشش کے انھیں اپنے شوہر کی لاش کی شناخت کے لیے سرد خانے نہیں لے جایا گیا اور پھر سعودی حکومت کا خصوصی اجازت نامہ لے کر وہ بِنا محرم کے وطن لوٹنے پر مجبور ہوئیں۔
’وہ حاجی صاحب کو سٹریچر پر ڈال کر لے گئے، کسی لسٹ میں ان کا نام نہیں ہے، بے ہوشی کے بعد جب میں اٹھی تو وہاں بہت سی لاشیں تھیں، حاجی صاحب کے نمبر پر تین دن تک فون کرتی رہی لیکن کسی نے فون نہیں اٹھایا۔‘
حکومتِ پاکستان کی وزارتِ حج اپنے کمرشلائزڈ حج پیکج کی وجہ سے تنقید کی زد میں تو ہے لیکن متاثرین اس معاملے میں حکومتِ پاکستان کی بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
جمعرات کو پاکستان پہنچنے والے ایک حج آپریٹر نے جن کے گروپ میں سے ایک خاتون کی لاش کی شناخت ہو گئی تاہم دوسری لاپتہ خاتون کی تلاش کے لیے ان کے داماد کی کوئی کاوش کامیاب نہیں ہوسکی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سعودی حکومت نے اتنا تعاون نہیں کیا جتنا ضروری تھا مگر بظاہر یہ دکھایا جا رہا ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔
’مجھے سرد خانوں میں جانے کا اتفاق بھی ہوا، مرکزی سرد خانے کا نام میسن سواری ہے، سر خانے میں فریزرز اور سبیل کے لیے خصوصی کنٹینرز میں لاشیں رکھی گئی ہیں، سعودی حکومت نے پہلے 500 تصاویر لگائی تھیں اور اس کے بعد مزید 500 تصاویر لگائی گئیں۔‘
مکی حج و عمرہ کے نام سے موجود پرائیویٹ حج ٹور آپریٹیر محمد رفیق کو بھی اسی قسم کی شکایات ہیں۔
جب اس حادثے میں محفوظ رہ جانے والے ححاج سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ 11 ستمبر کو کرین کے حادثے اور اس کے بعد منیٰ حادثے کی خبریں آنے پر سعودی میڈیا پر بلیک آؤٹ رہا اور انھیں یا تو وہاں چلنے والے پاکستانی ٹی وی چینلز سے یہ خبر موصول ہوئی یا فون پر رشتہ داروں سے۔
محمد رفیع اور ان کی اہلیہ نے شکایت کی کہ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ٹرینوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد کو ٹھونسا جاتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہو یا فوت ہو جائے تو اس کے ساتھ موجود کسی شخص کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں۔‘
کراچی سے مکہ جانے والے پانچ افراد کے قافلے میں شامل دو افراد تلمیز احمد اور افتخار احمد کو مکہ کے المعصم نامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا تاہم ان کے اہلِ خانہ دیگر تین افراد کی تلاش میں ہسپتالوں اور مردہ خانوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کیونکہ اب تک جاری ہونے والی 1100 افراد کی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں۔

No comments:

Post a Comment