فرقۂ واریت کے معنی و مفہوم کی تحدید ھوئے بغیر اس کی تعریف یا مذمت کرنا کسی فکری واردات کا باعث بن جاتا ھے.فرقہ واریت ایک ایسی اصطلاح ھے جس کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے پر کسی کو اس کا اصل مفہوم و معنی تک پتا نھیں..
علماۓ سلف کے ھاں تفرقہ سے اصول دین کے اندر مسلمانوں کی جماعت سے الگ راستہ اختیار کرنا ہے.کوئی اللہ تعالی کی دات و صفات علم و قدرت و حاکمیت میں کسی نبی ولی بادشاہ وزیر پارلیمنٹ جمہوریت وغیرہ کو شراک دار بناتا ھے..کوئی حضور ص کی نبوت کا انکار اور آپ کی شریعت کو معطل کر کے کفر کا قانون چلاتا ھے کوئی صحابہ و اھل بیت رض کی گستاخی کرتا اور ان کی راہ اور کے اجماع کا انکار کرتا ھے...کوئی سنت کو مٹا کہ بدعت کو رائج کرتا ھے سود زنا شراب کی حرمت اور جہاد کی فرضیت اور خلافت کی ضرورت کا انکار کرتا ھے کفار و مرتدین و طواغیت سے دوستی رکھتا ھے..تو ایسا شخص اور گروہ ھی تفرقہ اور فتنہ ھے جو اس نے مسلمانوں کے متفقہ فرائض و واجبات کو ترک کر کے نئی راہ بدعت نکالتا ہے...ایسے لوگوں کے باطل پر خاموشی اختیار کرنا اور ان سے اتحاد کی دعوت دینا اس سے بڑھ کہ تفرقۂ اور جہالت ھے.
ایک چیز کے معنی ومفہوم کی تحدید ہوئے بغیر اس کی تعریف یا مذمت کی گردان ہونے لگ جائے تو عموماً یہ کسی فکری واردات کا سبب بن جاتی ہے۔ ’فرقہ واریت‘ ایسی ہی ایک اصطلاح ہے جس کی مذمت کا ڈھنڈورا بہت پیٹا جاتا ہے مگر اس کا مطلب بہت کم لوگ بتا سکتے ہیں۔ یا یوں کہیے جس کی مذمت کرنے پر سب کو لگا دیا گیا ہے مگر اس کے مفہوم کا تعین چند لوگوں کا کام ہے!
’فرقہ واریت‘ کو آج تک کوئی شخص اچھا کہتے نہیں سنا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کا معنی کون متعین کرے؟
تفرقہ کی مذمت قرآن میں کی گئی ہے۔ احادیث میں اس کی شناعت بیان ہوئی ہے۔ مگر قرآن اور احادیث کے اندر کیا یہ اسی معنی میں مذموم ہے جس معنی میں اس کی مذمت ہمارا میڈیا کرتا ہے اور جس معنی میں اس کی مذمت ہمارے عوام اور خواص کے یہاں ہوتی ہے یا پھر تفرقہ سے قرآن اور احادیث کی مراد اس سے مختلف ہے جو تفرقہ کے لفظ سے یہاں ہمارا معاشرہ مراد لیتا ہے؟
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ”تفرقہ“ سے متعلق ہم کچھ ایسے علمی مصادر سے رجوع کر لیں جو اُمت کے ہاں تاریخی طور پر معتبر جانے جاتے ہیں تاکہ معلوم ہوکہ مفسرین امت ’تفرقہ‘ کی کیا تفسیر کرتے ہیں اور آپ کا میڈیا اس کی تفسیر کیا کرتا ہے“۔
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں، امر بالمعروف کریں اور نہی عن المنکر۔ یہی لوگ فلاح پائیں گے۔
”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب کا مزہ چکھو۔”رہے وہ لوگ جن کے چہرے روشن ہوںگے تو وہ اﷲ کے سایہء رحمت میں ہوں گے اور (پھر) ہمیشہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے“۔[(آل عمران: ١٠٤۔١٠٧)]
آئیے دیکھتے ہیں ان آیات کی تفسیر میں امت کے مشہور ترین مفسر امام ابن کثیر کیا کہتے ہیں:
”اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں ضرور ایک ایسا گروہ ہونا چاہیے جو دعوت الی الخیر اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معاملے کو لے کر کھڑا ہونے پر متعین ہو جائے ]واولئک ھم المفلحون ”یہی لوگ فلاح پائیں گے[ ضحاک کہتے ہیں: ”یہ صحابہ اور رواہ حدیث میں سے خواص ہیں جو جہاد اور علم کا حق ادا کرتے رہے“۔ ابوجعفر باقر کہتے ہیں: رسول اﷲ نے آیت ]ولتکن منکم امت یدعون الی الخیر ”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو خیر کی طرف بلائیں“[ پڑھی پھر فرمایا: (یہاں) خیر (سے مراد) ہے قرآن اور میری سنت کی اتباع۔ اس کو ابن مردویہ نے روایت کیا۔
”اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اس اُمت کا ایک گروہ اس (دعوت الی الخیر وامر بالمعروف ونہی عن المنکر کی) ذمہ داری کو اٹھائے رہے اگرچہ یہ بات اُمت کے ہر فرد پر ہی حسب استطاعت فرض ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا: تم میں سے جو کوئی برائی کو دیکھے اسے چاہیے کہ اُسے ہاتھ سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روکے۔ اس کی استطاعت نہ ہو تو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے جبکہ ایک روایت کے الفاظ ہیں: اس کے بعد رائی برابر بھی ایمان نہیں۔
”امام احمد حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت کرتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کرو گے یا پھر ضرور اﷲ تعالیٰ تم پر اپنے ہاں سے ایک سزا بھیجے گا پھر تم اس کو پکارو گے مگر تمہاری سنی نہ جائے گی“ بروایت مسند احمد، ترمذی وابن ماجہ۔
]ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءھم البینات ”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوئے“[ یہاں اﷲ تعالیٰ اس امت کو ممانعت فرما رہا ہے کہ یہ بھی پچھلی امتوں کی طرح ہو جائے جو کہ افتراق اور اختلاف کا شکار ہوئیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھیں۔ جبکہ ان پر حجت قائم ہو چکی تھی۔ امام احمد عبداﷲ بن یحیی سے روایت کرتے ہیں، کہا: ہم نے معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ حج کیا۔ جب مکہ آئے تو (معاویہ) نماز ظہر ادا کرنے کے بعد کھڑے ہوئے اور کہا: رسول اﷲ نے فرمایا: دونوں اہل کتاب اپنے دین کے اندر بہتر بہتر فرقوں میں بٹے۔ یہ اُمت تہتر راستوں ___ یعنی اھوائ___ میں بٹ جائے گی۔ سب کے سب دوزخ میں جائیں گے۔ سوائے ایک کے جو کہ (اصل) جماعت ہوگی۔ اور میری اُمت میں بہت سے ایسے گروہ ہوں گے جن میں (مبنی بر بدعت) اھواءوخواہشات یوں سرایت کر جائیں گی جیسے باؤلے کتے کے کاٹے میں اس کا زہر سرایت کر جاتا ہے۔ اس کی کوئی رگ کوئی جوڑ اس کے اثر سے سلامت نہیں رہتا۔ اے عرب کے لوگو! اﷲ کی قسم اگر تم اس وقت اپنے نبی کے لائے ہوئے (دین) کو لے کر کھڑے نہ ہوئے تو دوسرے لوگ بالاُولیٰ یہ کام کرنے والے نہ ہوں گے“ ]یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ فاما الذین اسودت وجوھہم اکفرتم بعد ایمانکم فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون ”جس دن کچھ چہرے روشن وشاداب ہوں گے اور کچھ کا منہ کالا ہوگا۔ جن کا منہ کالا ہوگا (ان سے کہا جائے گا) کیا نعمت ایمان پانے کے بعد بھی تم نے کافرانہ روش اختیار کی؟ اب اس کفر کے صلہ میں عذاب چکھو“[ یعنی روز قیامت اہل سنت وجماعت کے چہرے روشن ہوں گے اور اہل بدعت وتفرقہ کے چہرے سیاہ ہونگے۔ یہ تفسیر حضرت عبداﷲ بن عباس نے کی ہے“۔
تفسیر ابن کثیر کی عبارت ختم ہوئی۔ [دیکھیے مختصر تفسیر ابن کثیر۔ اختصار الشیخ محمد کریم راجح۔ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت۔ لبنان، جزو اول ص ١٥٠، ١٥١]
آیت ؛ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ما جاءھم البینات واولئک لہم عذاب عظیم ”کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلے کھلے دلائل آجانے کے بعد پھر اختلاف میں مبتلا ہوئے۔ یہی لوگ ہیں جن کیلئے ایک بڑا عذاب ہے“[ کے تحت تفسیر قرطبی میں آیا ہے:
”یعنی یہود ونصاری کی طرح مت ہو۔ یہ جمہور مفسرین کا قول ہے۔ ان میں سے بعض مفسرین کا قول ہے کہ اس سے مراد اس اُمت میں سے اہل بدعت ہیں“۔ [دیکھیے تفسیر قرطبی جلد چہارم صفحہ ١٧٤ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ]
سورہ بقرہ کی آیت ٢١٣ کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
”اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے گزشتہ آیت میں فرمایا ہے ]وانزل معہم الکتاب لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جاءھم العلم بغیا بینہم ”اﷲ نے ان (انبیاء) کے ساتھ کتاب نازل کی کہ لوگوں کے درمیان ان کے اختلافات کا فیصلہ فرما دے۔ اس میں اختلاف دراصل انہی لوگوں نے، باہم سرکشی کرتے ہوئے، کیا جن کو یہ کتاب ملی تھی جبکہ علم ان کے پاس آچکا تھا“[ .... یعنی ان پر حجتیں قائم ہو چکنے کے بعد، جس کا سبب ان کی باہم زیادتی وسرکشی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ]فھدی اﷲ الذین آمنوا لما اختلف فیہ من الحق باذنہ ”چنانچہ اﷲ عزوجل نے اپنے حکم سے ایمان والوں کو اختلافات میں سے ہدایت نصیب فرما دی“[ یعنی بوقت اختلاف وہ لوگ اسی مذہب پر قائم رہے جو اختلاف پیدا ہونے سے پہلے (انکے) انبیاءلے کر آئے تھے، ایک اﷲ کیلئے دین کو خالص کئے رہے، بلاشرکت غیرے اس کی عبادت پر کاربند رہے، نمازوں کو قائم اور زکوٰت ادا کرتے رہے اور اس طریقے سے اس پہلے والے منہج پر ہی قائم رہے جو اختلاف وتفرقہ ہونے سے قبل موجود تھا اور اختلاف سے دور اور کنارہ کش رہے اور قیامت کے روز لوگوں پر گواہ ٹھہرے“۔
تفسیر ابن کثیر کی عبارت ختم ہوئی۔ {دیکھیے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ٢١٣ سورہ البقرہ}
سورہ الانعام کی آیت {ان الذین فرقوا دینہم وکانوا شیعاً لست منھم فی شیءانما امرھم الی اﷲ ثم ینبئھم بما کانوا یفعلون ”جن لوگوں نے اپنے دین کو فرقوں میں بانٹ دیا اور ٹولوں میں منقسم ہو گئے تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا معاملہ اﷲ ہی کے سپرد ہے پھر وہی ان کو بتائے گا کہ یہ کیا کرتے رہے ہیں“} کی تفسیر میں امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
”{وکانوا شیعاً ”اور ٹولے فرقے بن گئے“} یہ لوگ خوارج ہیں۔ بعض مفسرین کا قول ہے یہ اہل بدعت ہیں۔ جبکہ ظاہر یہ ہے کہ یہ آیت ان سبھی لوگوں کو شامل ہے جو دین کو چھوڑتے اور اس میں اختلاف کرتے ہیں“۔[دیکھیے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ١٥٩ سورہ الانعام]
چنانچہ تفرقہ سے مراد، متقدمین اہل علم کے نزدیک، اس راستے کو ترک کرنا ہے جس پر رسول اﷲ اور صحابہ کرام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل تفرقہ سے مراد مفسرین ومحدثین کے نزدیک اہل بدعت ہیں اور اہل اھوائ۔ کیونکہ دین میں ایک نیا راستہ ایجاد کرکے آدمی رسول اﷲ اور صحابہ کے راستہ سے خودبخود علیحدگی اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ تفرقہ بنیادی طور پر حق سے علیحدگی ہے۔
مگر واضح رہے کہ اہل بدعت سے مراد یہاں ہر وہ شخص نہیں جو کسی عملی بدعت کا شکار ہے۔ گو عملی بدعات بھی بُری ہیں مگر اہل تفرقہ سے مراد وہ اہل بدعت ہیں جو ایک ایسی اعتقادی بدعت کو اختیار کرتے ہیں جس کا صحابہ وسلف کے راستے سے متصادم ہونا اہل حق کے نزدیک واضح اور معلوم ہو۔ جیسے خوارج، روافض، مرجئہ، جہمیہ، معتزلہ، شرکیہ تصوف [تصوف کی وہ صورتیں یہاں مقصود نہیں جن کے حامل شرک سے اجتناب کرتے ہیں اور شریعت کا التزام۔] وغیرہ۔ یہ تو ہوئے پرانے دور کے گمراہ بدعتی فرقے۔ موجودہ دور کے فتنوں میں اُمت کے بہت سے معتبر علماءمثلاً مصر کے مشہور محدث علامہ احمد شاکر، مفتی حجاز شیخ محمد بن ابراہیم، علامہ حمود العقلا، شیخ سفرالحوالی، شیخ علی الخضیری اور محمد قطب وغیرہ ان لوگوں کو جو اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں مگر سماجی علوم اور نظامہائے مملکت کے معاملے میں سیکولر نظریات کے پیروکار ہیں، بدعتی ٹولوں میں شمار کرتے ہیں۔ ’مسلم سوشلسٹوں‘ کو بھی اسی زمرے میں شمار کیا جاتا رہا ہے۔ مزید برآں موجودہ دور کے بدعتی ٹولوںمیں نیچریت، عقل پرستی، قوم پرستی، ادب پرستی اور انسان پرستی ایسے نظریات قبول کرنے والوں کو بھی شمار کیا گیا ہے اور اُمت کے اہل علم میں سے ایک معتدبہ تعداد اس اعتبار کو درست سمجھتی ہے۔
یہ سب ٹولے اہل تفرقہ ہیں کیونکہ حق سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ ان سب کو جس حال میں وہ ہیں اکٹھا ہو جانے کیلئے کہنا اور اپنے ’اختلافات‘ پر مٹی ڈالنے کی تلقین کرنا وحدت اُمت نہیں۔ ہاں البتہ ان کو حق پر لے آنے کی کوشش کرنا، ان کو احسن انداز میں دین کی حقیقت سکھانا اور پھر حق کی بنیاد پر ان کو مجتمع کرنا اور اس معنی میں اُمت کی شیرازہ بندی کرنا ضرور دین میں مطلوب ہے۔ خاص طور پر اس لئے کہ حق سے جہالت اس وقت معاشرے میں عام ہے اورکوئی شخص اگر کسی گمراہی پر ہے تو اس کو سب سے پہلے علم کے حقائق سے روشناس کرانا ضروری ہے نہ کہ اس پر بدعتی ہونے کا فتوی لگانا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے راستے کو بہرحال گمراہی سمجھا جائے گا گو اس شخص سے، اس کی لاعلمی یا ان شبہات کے پیش نظر جن کا وہ شکار ہے، نرمی برتی جائے گی۔
رسول اﷲ کی اُمت کا بے شمار بدعتی فرقوں میں بٹ جانا اور ہلاکت کا شکار ہونا احادیث کی ایک کثیر تعداد میں وارد ہوا ہے۔ ان احادیث کو یونہی نظر انداز کر دینا یا ان روایات کے ذکر کو تفرقہ بازی کا سبب جاننا نہ تو علم کا تقاضا ہے اور نہ ہی دانش کا۔ (تہتر) فرقوں والی حدیث کی بابت امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح مشہور ہے اور سنن و مسانید کی کتابوں ابوداؤد، نسائی اور ترمذی میں روایت ہوئی ہے (فتاوی ابن تیمیہ ج ٣ ص ٣٤٥) مزید برآں ان احادیث کے صحیح ہونے کی تصریح امام حاکم، امام ذھبی، امام ابن حجر، امام شاطبی، مناوی، ابن ابی عاصم، سیوطی اور البانی رحمہم اللہ ایسے ائمہ حدیث نے کی ہے۔
ان سب احادیث میں رسول اﷲ نے بذات خود یہ صراحت فرمائی ہے کہ یہ سب فرقے دوزخ کی راہ پر ہوں گے۔ یعنی ان کی راہ پر چلنا مستوجب عذاب ہوگا قطع نظر اس امکان سے کہ یہ عذاب وقتی ہو نہ کہ ہمیشگی کا، اور قطع نظر اس احتمال سے کہ کوئی شخص اپنی لاعلمی یا اپنے شبہات وتاویلات کے باعث اس راستے پر ہونے کے باوجود معذور بھی ہو سکتا ہے .... البتہ ان کی راہ وہ راہ ہوگی جو آدمی کو جہنم میں پہنچا دے۔
پھر ان احادیث میں رسول اﷲ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ نجات کا مستحق گروہ صرف ایک ہوگا۔ سوال کیا جانے پر آپ نے اس کا کوئی نام بتانے کی بجائے ایک وصف بیان فرما دیا: من انا علیہ واصحابی یعنی ”وہ جو میرے راستہ پر ہوں اورمیرے صحابہ کے راستے پر“۔
تفرقہ یہ ہوگا کہ آدمی اس فرقہء ناجیہ کے راستے سے مختلف راستہ اختیار کرلے۔
’تفرقہ‘ اور ’تنازع‘ کی بابت آپ متقدمین علماءومحدثین اور فقہاءومفسرین اُمت کی نصوص کا تتبع فرمائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ تفرقہ، جو کہ اسلام میں بہت بڑا گناہ ہے، دو صورتوں میں پایا جا سکتا ہے: ایک یہ کہ جہاں شریعت ہرگز اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھے وہاں لوگوں کو اختلاف کرنے دیا جائے اور دوسری صورت یہ کہ جہاں شریعت اختلاف کی گنجائش رکھے وہاں اختلاف کی اجازت نہ دی جائے اور وہاں ہر آدمی دوسرے کو اپنی یا اپنے امام کی راہ پر لے آنے پر ہی ضد کرے۔ تفرقہ کی یہ دونوں صورتیں مہلک ہیں۔ بلکہ یہ دو انتہائیں ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد تفرقہ کی پہلی صورت میں ملوث ہے اور ایک خاصی بڑی تعداد اس کے بالمقابل تفرقہ کی دوسری صورت کا شکار ہے۔ یہاں ہم ان دونوں صورتوں کی کچھ وضاحت کریں گے۔
تفرقہ کی پہلی صورت:
یعنی جہاں اختلاف شرعاً حرام ہو وہاں اختلاف کی گنجائش رکھنا۔ وہاں اختلاف ہو جانے کو برداشت کرنا یا قدرت رکھتے ہوئے اس پر سکوت اختیار کرلینا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقوں میں سے دین پسند لوگ ’رواداری‘ کے اس باطل مفہوم کا شکار ہیں۔ ان حضرات کا عمومی مسلک یہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو ’غلط‘ نہ کہا جائے۔ اپنے کام سے کام رکھا جائے اور کسی گروہ کے عقیدے پر بھی ’تنقید‘ نہ کی جائے اور یہ کہ کوئی جیسا بھی اعتقاد رکھتا ہو اپنی اپنی جگہ سب ’صحیح‘ ہیں۔ کوئی شرک کرے، کوئی صحابہ سے بغض رکھے، کوئی معاذ اﷲ خدا کی صفات کا تیاپانچہ کرے .... یہ اپنے اپنے اعتقاد کی بات ہے کسی کو اس کے اعتقاد کے معاملے میں نہ چھیڑا جائے!
یہ مسلک اگر ان معاملات میں اختیار کیا جائے جن میں شریعت کی جانب سے اختلاف کی گنجائش ہے تو بلاشبہ درست ہے۔ مگر دین کے کچھ امور ایسے ہیں جو طے شدہ ہیں اور ان میں لوگوں کو اختلاف کی اجازت دینا تفرقہ کی بدترین صورت ہے اور اسلام کے حق میں صریح ترین جرم۔
وہ کونسے مسائل ہیں جن میں شریعت اختلاف کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں دیتی؟ یہ اصولِ دین ہیں۔ شریعت کے مسلمات ہیں۔ اسلام کے بنیادی حقائق ہیں۔ صحابہ کا اجماع ہے۔ وہ امور ہیں جو قرون اولی (ثلاثہ) میں متفق علیہ جانے گئے۔ مثلاً شرک کی حرمت و شناعت، توحید کا وجوب، رسالت خصوصا ختم نبوت پر یقین، بقیہ ارکان ایمان، ارکان اسلام (شہادتین، نماز، زکوٰت، روزہ، حج) اور دین کے معلوم فرائض مثل امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد وغیرہ) انبیاءکی تعظیم، صحابہ واہل بیت کی حرمت، دین کے معلوم محرمات مثلاً سود، شراب، بدکاری، بے حیائی، فحاشی وغیرہ کو حرام اور لازمِ اجتناب جاننا وغیرہ وغیرہ۔
کوئی شخص اگر ان معاملات میں ’اختلاف‘ کرتا ہے یا ان معاملات میں سے کسی معاملے کو ’اختلافی مسئلہ‘ سمجھتا ہے تو وہ ظلم عظیم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اصول دین میں اختلاف کی گنجائش کہاں؟ یہی تو تفرقہ ہے۔
اُمت میں اگرکہیں شرک کے بعض افعال ہونے لگتے ہیں مثلاً اولیاءوصالحین کو حاجت روائی کیلئے پکارا جانے لگتا ہے، قبروں میں پڑے مردوں سے دُعائیں ہوتی ہیں، ’وحدت الوجود‘ کی صورت میں خالق کو مخلوق سے ملا دیا جاتا ہے اور مخلوق کو خالق کے ساتھ یکجا کردیا جاتا ہے، اﷲ کی شریعت کے بجائے غیر اﷲ کا قانون چلایا اور تسلیم کیا جاتا ہے .... تو شرک کے ان مظاہر سے صرف نظر کر لینا اور ان معاملات میں لوگوں کو اپنے اپنے اعتقاد پر چھوڑ دینے کو ضروری سمجھنا دراصل تفرقہ کی اجازت دینا ہے۔ ایسے مسائل میں کسی کو اختلاف کا حق دینا عین تفرقہ پروری ہے بلکہ یہ فرقہ واریت کی بدترین صورت ہے۔
کوئی اﷲ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرتا ہے، کوئی جنس عمل کو ایمان سے مطلقاً خارج قرار دیتا ہے، کوئی رسول اﷲ کی سنت کو حجت ماننے سے انکاری ہے، کوئی دین کے معلوم حقائق کو اپنی عقل کی کسوٹی پر چڑھاتا ہے، کوئی نیچریت کے فلسفیوں سے متاثر ہو کر دین کے مسلمہ عقائد کو نظر ثانی کے قابل سمجھتا ہے، کوئی فرائڈ یا ڈارکائم یا کارل مارکس ایسوں کی ضلالت کیلئے اسلام میں جگہ ڈھونڈتا ہے، کوئی سیکولرزم کو داخل اسلام کرنے کے درپے ہے، روافض یا خوارج کے مذہب پر چل کر کوئی صحابہ یا اہل بیت کی حرمت پر حرف آنا گوارا کرتا ہے یا ایسی کتب کو اپنے لئے مستند مرجع مانتا ہے جو صحابہ کی توہین سے بھری ہوئی ہیں .... تو اس کو ایسا کرنے دینا دین کو مسخ کرنے کی اجازت دینا ہے۔ یہ رسول اﷲ اور صحابہ کے راستے سے علیحدگی کو جواز دینا ہے۔ ان گمراہ راستوں پر چلنے والوں کا ’اتحاد‘ اسلام کو ہرگز مطلوب نہیں۔ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ’وحدت اُمت‘ نہیں۔ باطل پر چلنا بجائے خود تفرقہ ہے جیسا کہ (تہتر) فرقوں والی احادیث سے ثابت ہے۔ اس پر اگر آپ لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں تو یہ لوگوں کو تفرقہ پر اکٹھا کرنا ہے۔
چانچہ آج بہت سے لوگ جس بات کو ’رواداری‘ اور ’اتحاد بین المسلمین‘ سمجھتے ہیں اور کسی کے صریح باطل راستے کو باطل کہہ دینا اجتماع کے منافی جانتے ہیں ان کا یہ طرز فکر عین تفرقہ پروری ہے بے شک وہ اس کو اتحاد اور یک جہتی کا نام دیں۔
تفرقہ کی دوسری صورت:
یعنی جہاں اختلاف کی شرعاً گنجائش ہو وہاں لوگوں کو اختلاف کا حق نہ دینا۔ وہاں بھی لوگوں کو ایک خاص رائے پر چلنے کا پابند کرنا اور اگر وہ اس پر نہ چلیں تو ان سے اس طرح پیش آنا جس طرح کہ گمراہ فرقوں کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسری انتہاءہے اور بہت سے متشدد لوگ تفرقہ کی اس صورت کا شکار ہیں۔
علماءو فقہائے اُمت کی غالب ترین اکثریت بشمول حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری اور اہل الحدیث وغیرہ وغیرہ ایسے فقہی مسالک کو فرقہء ناجیہ میں شمار کرتی آئی ہے۔ یہ کئی فرقے نہیں دراصل ایک ہی فرقہ ہے اور ان سب کا ایک سے علمی اور شرعی مصادر پر اتفاق ہے۔ علما وفقہائے اُمت کے ہاں صدیوں تک یہ اعتبار قائم رہا ہے۔ عقیدہ کی کوئی بڑی خرابی نہ ہو تو یہ فقہی مذاہب اُمت کے معتبر مذاہب ہیں اور فقہی اختلاف کے باوجود یہ ایک جماعت ہیں اور سب کے سب اہل سنت وجماعت کی ذیل میں آتے ہیں۔ ان کا اختلاف وہ اختلاف ہے جس کی عمومی معنی میں علمائے اُمت کے ہاں گنجائش جانی گئی ہے۔ بنیادی طور پر یہ نصوص کے فہم اور ترجیح اور استقصاءمیں ہونے والا اختلاف ہے۔ اجتہادی مسائل میں ہونے والا اختلاف ہے۔ یہ ’اختلافِ مذموم‘ نہیں بلکہ اصطلاحی طور پر یہ ’اختلافِ سائغ‘ ہے۔
نصوص کے فہم وجمع کے اندر صحابہ تک میں اختلاف ہوا۔ علماءصحابہ کے فتاوی ایک دوسرے سے مختلف ہوئے۔ کسی نے دوسرے سے اپنی رائے منوانے پر اصرار نہیں کیا۔ یہی طرز عمل تابعین اور اتباع تابعین میں چلتا رہا۔ کسی نے ایک دوسرے کو اپنے سے مختلف رائے رکھنے پر، بُرا بھلا نہ کہا۔ کسی نے اس بنیاد پر گروہ بندی نہ کی۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں یہی صحابہ و تابعین واتباع تابعین ہیں جو گمراہ فرقوں کے خلاف یک آواز ہو جاتے رہے۔ ان کے خلاف شدید ترین رویہ اختیار کرتے رہے۔ اہل بدعت کو اپنی مجلس تک سے اٹھا دیتے رہے۔ حجت قائم کر دینے کے بعد ان کا منہ دیکھنا تک گوارا نہ کرتے تھے۔ روافض، خوارج، قدریہ، جہمیہ اور معتزلہ کے خلاف ان کے باقاعدہ فتاوی موجود ہیں۔ گمراہ فرقوں کے خلاف امام ابوحنیفہ کے مناظرے، امام مالک، امام شافعی، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، اوزاعی اور حسن بصری کے سخت ترین مواقف اور امام احمد بن حنبل کا جہاد آخر کس سے پوشیدہ ہے۔ جبکہ خود ان ائمہ کا آپس میں بھی کثیر مسائل پر اختلاف ہوا مگر کیا انہوں نے فقہی اختلافات ہو جانے پر آپس میں ایک دوسرے پر بھی کبھی فتوے لگائے اور جس طرح بدعتی ٹولوں کو جہنم کی وعیدیں تک سنا دیا کرتے تھے کیا آپس میں بھی یہ رویہ رکھا؟ بات یہ ہے کہ وہ عقائدی اختلاف اور فقہی اختلاف میں فرق کو سمجھتے تھے۔ آج یہ فرق ہی ہم میں سے اکثریت کی نظر سے روپوش ہو گیا ہے۔
اسلام کے قرون اولی یعنی صحابہ، تابعین اور اتباع تابعین .... ان قرون ثلاثہ کو سلف کہا جاتا ہے۔ ایک طرف گمراہ ٹولوں کے ساتھ سلف نے کیا طرز عمل اختیار کیا اور دوسری طرف اپنے فقہی اختلافات کے معاملے میں کیا عمومی روش اختیار کی، یہ ہمارے لئے ایک بہترین نمونہ ہو سکتا ہے اور ایک متوازن منہج اپنانے کی بہترین بنیاد بھی۔
یہ ایک واقعہ ہے کہ فروعات میں اختلاف ہو جانے کے باوجود سلف کے مابین باہمی محبت وہمدردی اور آپس کے تعلقات کی گرمجوشی میں کبھی کوئی کمی نہ آئی۔ اجتہاد مختلف ہو جانے کے باوجود وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اُمت کی شیرازہ بندی کرتے رہے۔ اہلسنت کے دائرے کے اندر جتنے فقہی مذہب ہیں وہ اپنی اپنی رائے پر رہتے ہوئے بھی باہم یکجا ہو سکتے ہیں۔ ان کا اتحاد دین میں مطلوب ہے۔
فروعات کے فہم واستنباط اور مسائل احکام سے متعلق نصوص کے جمع وتحقیق میں ائمہء دین کا جو اختلاف ہوا، اور اس سے پہلے کسی حد تک یہ صحابہ میں ہوا، وہ ایک معروف تاریخی واقعہ ہے۔ ان مسائل میں محاذ آرائی کی راہ اپنانا اور اپنے مذہب کیلئے تعصب رکھنا زیادتی ہے اور تفرقہ کی ایک صورت۔ حنفی شافعی وغیرہ مذاہب کا اختلاف اُمت کے بڑے بڑے محدثین اور مفسرین اور فقہاءکی نظر سے گزرا ہے۔ کسی نے نہ تو ان امور میں تعصب کی اجازت دی اور نہ یہ مطالبہ کیا کہ ان فقہی مذاہب کو یکسر ختم ہونا چاہیے اور نہ اس بات کو فرض کیا کہ فقہی مسائل میں پوری اُمت کو ایک ہی رائے اور ایک ہی فہم اور ایک ہی مذہب پر جمع ہونا چاہیے۔ ائمہ دین نے ان مسائل میں اختلاف ہو جانے کی گنجائش رکھی البتہ تعصب سے ممانعت کی۔
البتہ آج معاملہ اس سے خاصا برعکس ہے۔ دین کے فرعی مسائل میں بہت سے لوگ آج لوگوں سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ سب کے سب انہی کے مذہب یا انہی کی رائے یا انہی کے فہم پر آئیں بصورت دیگر وہ ان کو انما ھم فی شقاق کے مصداق صاف گمراہی پر جانیں گے۔ اس طرز فکر کے باعث ایک فقہی مذہب کا شخص دوسرے مذہب والے کے پیچھے نماز ادا کرنے تک کا روادار نہیں۔ سیاسی مجبوری ہو تو الگ مسئلہ ہے دل سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے کیلئے تیار نہیں گویا کہ وہ خود حق پر ہے اور دوسرا باطل پر! یہ یقیناً تفرقہ ہے اور تنازع بھی۔
ولا تنازعوا فتفشلوا وتذھب ریحکم (الانفال: ٤٦)
”آپس میں تنازع مت کرو۔ ورنہ تمہارا زور جاتا رہے گا اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی“۔
صحابہ سے بہتر کوئی دور اس اُمت پر نہیں آسکتا۔نصوص کے فہم میں اختلاف صحابہ میں بھی ہوا حتی کہ خود رسول اﷲ کے دور میں ہوا اور آپ نے بعد والی نسلوں کو سمجھانے کیلئے کہ دین میں اس کی گنجائش ہے، اس پر سکوت فرمایا۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ رسول اﷲ کا کسی بات سے سکوت فرمانا باقاعدہ شریعت ہے۔
عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ قال: نادی فینا رسول اﷲ یوم انصرہ عن الاحزاب ان لا یصلین احد الظہر الا فی بنی قریظہ، فتخوف ناس فوت الوقت فصلوا دون بنی قریظہ، وقال اخرون لا نصلی الا حیث امرنا رسول اﷲ وان فاتنا الوقت فما عنف واحداً من الفریقین (صحیح مسلم۔ الجہاد والسیر) [عبداﷲ بن عمر سے یہی روایت صحیح بخاری میں بھی دو جگہ آئی ہے۔ البتہ بخاری کی روایت میں ظہر کی بجائے عصر کا ذکر آتا ہے۔ امام نووی کہتے ہیں ممکن ہے بعض لوگوں کو ظہر پڑھنی ہو اور بعض کو عصر۔]
”عبداﷲ بن عمر سے روایت ہے، کہا: رسول اﷲ نے غزوہ احزاب کے اختتام پر منادی فرمائی کہ کوئی شخص ظہر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے ہاں (پہنچ کر)۔ تب (راستے میں) کچھ لوگوں کو اندیشہ ہوا کہ نماز کا وقت گزر جانے والا ہے۔ انہوں نے بنی قریظہ کے (ہاں پہنچنے سے) پہلے ہی نماز پڑھ لی۔ جبکہ دوسرے لوگ بولے ہم تو نماز وہیں پڑھیں گے جہاں ہم کو رسول اﷲ نے حکم دیا بے شک نماز کا وقت فوت کیوں نہ ہو جائے۔ تب آپ نے فریقین میں سے کسی ایک کو بھی سرزنش نہ کی“۔
حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قال السھیلی: فی ھذا الحدیث من الفقہ انہ لا یعاب علی من اخذ بظاہر حدیث او آیت، ولا علی من استنبط من النص معنیً یخصصہ ....
وقد استدل بہ الجمھور علی عدم تاثیم من اجتھد لانہ لم یعنف احدا من الطائفتین، فلو کان اثم لعنف من اثم
”سُھیلی کہتے ہیں کہ: اس حدیث سے یہ فقہی نکتہ واضح ہوا کہ نہ تو اس شخص کی مذمت ہوگی جو کسی حدیث یا آیت کے ظاہری معنی سے استدلال کرے اور نہ ہی اس آدمی کی عیب جوئی ہوگی جو نص کے کسی ایسے معنی سے استنباط کرے جو اس کی کوئی خاص مراد متعین کردے....
”جمہور علماءنے مذکورہ حدیث سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ جو آدمی اجتہاد کرے اس کو گناہ گار نہ ٹھہرایا جائے گا۔ کیونکہ رسول اﷲ نے فریقین میں سے کسی ایک کو بھی بُرا یا غلط نہ کہا۔ چنانچہ اگر یہ گناہ ہوتا تو آپ اس فریق کو ضرور تنبیہ کرتے جس نے گناہ کا ارتکاب کیا ہوتا“۔
جہاں تک روایات کے قبول کرنے میں اختلاف ہو جانے کا معاملہ ہے تو اس کی نوبت صحابہ کی زندگی میں ظاہر ہے کم ہی آسکتی تھی۔ سب کے سب صحابہ عدول تھے۔ راویوں کی جرح وتعدیل سے اﷲ تعالیٰ نے ان کو بے نیاز کر رکھا تھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا تھا کہ کوئی روایت کسی صحابی تک نہ پہنچے اور اس بات کے متعدد واقعات مذکور ہوئے ہیں جہاں کسی صحابی نے نص معلوم نہ ہونے کے باعث اجتہاد کیا۔ روایات کی چھان پھٹک بعد کی نسلوں کی ایک ضرورت تھی صحابہ کی زندگی میں اس کی نوبت ہی نہ آئی تھی۔ اس کے باوجودچند ایک واقعات پھر بھی ایسے ملتے ہیں جن میں بعض صحابہ بعض روایات کی بابت توقف یا حتی کہ بعض اوقات اختلاف کرتے ہوئے بھی پائے گئے۔ موضوع کی طوالت کے پیش نظر اس پر گفتگو کا یہ محل نہیں۔
البتہ صحابہ کے بعد کے ادوار میں قبول روایات کے اندر اختلاف کا بڑھ جانا ایک طبعی واقعہ تھا۔ خصوصاً جب عالم اسلام میں ایک بڑی توسیع ہوئی اور جہاد و تعلیم و امارت کی ضرورت کے پیش نظر ذخیرہ احادیث اور رواہ احادیث مختلف ملکوں میں پھیل گئے۔ اس معاملے میں بھی سلف کے مابین شدت نہ اپنائی گئی۔ روایات کی تصحیح وتضعیف اور ترجیح کا معاملہ اہل علم میں ہمیشہ سے چلتا ہی آیا ہے۔ بعض روایات ایسی ہیں کہ ایک ایک حدیث پر بحث کیلئے ضخیم کتب تک لکھی گئیں۔ ان معاملات میں کوئی کتنی تحقیق کر سکتا ہے یہ ہر شخص کی ہمت پر ہے۔ اس بنیاد پر محاذ آرائی کی بہرحال گنجائش نہیں۔
پھر اہل علم میں تعارضِ ادلہ ایک بڑے اختلاف کا سبب بن جاتا رہا ہے اور مختلف لوگ اس تعارض کے ازالہ کے معاملے میں مختلف طریقے اپناتے رہے ہیں۔
ان سب معاملات میں علمی اختلاف کی پوری گنجائش ہے۔ بحث ونظر اور تحقیق ومطالعہ کی ضرورت مسلم ہے۔ تبادل آراءاور مناقشہ وتصحیح ان معاملات میں ایک برحق موقف ہے۔مگر تفرقہ ونزاع اور گروہ بندی کی اجازت نہیں۔ فقہی اختلافات کا ہو جانا ہرگز نقصان دہ نہیں البتہ اس کی بنیاد پر دھڑے بندی ہونے لگنا نقصان دہ ہے۔ ایسا کرنا فتنہ بھی ہوگا اور بدعت بھی۔
آئیے اس معاملے میں بعض اہل علم کی کچھ نصوص دیکھتے ہیں:
امام شاطبی کی الاعتصام سنت کے ساتھ تمسک اور بدعت وانحراف کے رد کے موضوع پر ایک منفرد ترین تالیف ہے۔ اس میں امام شاطبی فرماتے ہیں:
فان الخلاف من زمان الصحابہ الی الان واقع فی المسائل الاجتھادیہ و اول ما وقع الخلاف فی زمان الخلفاءالراشدین المھدیین ثم فی سائر الصحابہ ثم فی التابعین ولم یعب احد ذلک منھم وبالصحابہ اقتدی من بعدھم فی توسیع الخلاف۔ (الاعتصام: ٨٠٩)
”اجتہادی مسائل میں اختلاف صحابہ کے دور سے لے کر آج تک واقع ہوتا آیا ہے۔ سب سے پہلے جو اختلاف ہوا وہ خلفائے راشدین مہدیین کے زمانے میں ہوا پھر صحابہ کے سب ادوار میں رہا۔ پھر تابعین میں ہوا۔ ان میں سے کسی نے بھی اس پر کسی کو معیوب نہ جانا۔ صحابہ کے بعد والوں میں بھی اسی طرز پر اختلاف ہوا اور اس میں توسیع بھی ہوئی“۔
امام مناوی یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ کہاں اختلاف ناقابل برداشت ہے اور کہاں اس کی اجازت ہے، فرماتے ہیں:
فاصل الدیانات کلھا: التوحید وصفات الباری جل وعز والایمان بالغیب کالجنت والبعث والجزاءوالصراط والحوض والشفاعہ وعذاب القبر۔ وکذلک فروع الدیانات التی یعلم وجوبھا بدلیل مقطوع بہ مثل: الصلاہ والزکات والحج والصوم، وکذلک المناھی الثابتہ بدلیل مقطوع بہ فلا یجوز الاختلاف فی شیءمن ذلک۔ ولا مسوِّغ للاختلاف فیہ اُصلاً۔ ومن خالف فی شیءمن ذلک فھو اما کافر اوضال اعاذنا اﷲ من ذلک ....
واما الذی یسوغ فیہ الاختلاف فھی فروع الدیانات اذا استخرجت احکامھا بامارات الاجتھاد ومعانی الاستنباط .... فھذہ یسوغ فیھا اختلاف العلماءولکل واحد منھم ان یعمل بما یؤدی الیہ اجتھادہ (فوائد الفوائد فی اختلاف القولین لمجتھد واحد۔ الامام المناوی ص ٧١۔ ط۔ دارالصحابہ) [بحوالہ کتاب: الفقہ الغائب مولفہ یاسر محمد العدل۔ مطابع الوفاء۔ المنصورہ۔ مصر]
”آسمانی شریعتوں کا اصل محور توحید ہے اور صفات باری تعالیٰ اور ایمان بالغیب مثل جنت، حیات بعد الموت، جزا وسزا، پل صراط، حوض، شفاعت اور عذاب قبر۔ اسی طرح شرعی احکام کی وہ فروعات بھی جن کا وجوب دلیل قطعی سے ثابت ہے مثلاً نماز، زکات، حج اور روزہ۔ اسی طرح وہ محرمات بھی جن کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہے .... ان میں سے کسی چیز میں بھی اختلاف جائز نہیں۔ ان میں اختلاف کا کوئی جواز سرے سے ہے نہیں۔ جو ان معاملات میں اختلاف کرے وہ یا تو کافر ہے اور یا پھر گمراہ۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے ....
”ہاں جس چیز میں اختلاف کی گنجائش ہے وہ ہیں شریعت کی وہ فروعات جن کا استخراج اجتہاد اور استنباط ایسے طریقوں سے کیا جاتا ہے .... چنانچہ اس میں علماءکے اختلاف کرنے کی گنجائش ہے اور ہر ایک کو اس کا اجتہاد جس نتیجہ تک پہنچائے وہ اسی پر عمل کرنے کا مجاز ہے“۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
واما الاختلاف فی الاحکام فاکثر من ان ینضبط ولو کان کلما اختلف مسلمان فی شیءتھاجرا لم یبق بین المسلمین عصمہ ولا اخوہ۔ (فتاوی ابن تیمیہ ٢٤:١٧٣)
”مسائل احکام میں تو اس قدر اختلاف ہوا ہے کہ اس کا ضبط میں آنا ممکن نہیں۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ جب بھی کبھی دو مسلمانوں میں کسی مسئلے کی بابت اختلاف ہو تو ایک دوسرے سے قطع تعلقی اختیار کر لی جاتی تو مسلمانوں میں کسی عصمت یا اخوت کا نام تک باقی نہ رہتا“۔
حافظ ابن عبدالبر، جو کہ موطا مالک کی مشہور ترین شرح: التمہید لما فی المؤطامن المعانی والاسانید کے مولف ہیں اور منہج سلف کے ایک بہترین ترجمان مانے جاتے ہیں اپنی کتاب: جامع بیان العلم وفضلہ میں بعض روایات ذکر کرتے ہیں جو کہ ہمارے اس موضوع سے متعلق ہیں۔ اپنی کتاب کے باب (٥٤) بیان مایلزم الناظر فی اختلاف العلماءمیں فرماتے ہیں:
وعن القاسم، قال: ”لقد اعجبنی قول عمر بن عبدالعزیز۔ رضی اﷲ عنہ۔: ”ما احب ان اصحاب رسول اﷲ لم یختلفوا، لانہ لو کان قولا واحداً کان الناس فی ضیق، وانھم ائمہ یقتدیٰ بھم، ولو اخذ رجل بقول احدھم کان فی سعہ“ قال ابوعمر: ھذا فیما کان طریقہ الاجتھاد (کتاب کا صفحہ ٢٦٦) [صحیح جامع بیان العلم وفضلہ۔ تالیف ابی عمر یوسف بن عبدالبر۔ اختصار وتہذیب ابوالاشبال]
”قاسم بن محمد سے روایت ہے، کہا: مجھے عمر بن عبدالعزیز کا یہ قول بہت پسند آیا: مجھے ہرگز یہ پسند نہیں کہ صحابہ نے (بعض مسائل میں) آپس کے اندر اختلاف نہ کیا ہوتا۔ کیونکہ ان سے اگر ایک ہی قول مروی ہوا ہوتا تو لوگ تنگی میں رہ جاتے، جبکہ صحابہ امام ہیں جن کی اقتدا ہونی چاہیے۔ چنانچہ کوئی شخص کسی ایک صحابی کا قول اختیار کرلے تو اس کیلئے اس کی گنجائش ہے“۔
ابن عبدالبر کہتے ہیں: یہ ان مسائل میں ہوگا جو اجتہاد سے متعلق ہوں۔
وعن اسامہ بن زید قال: ”سالت القاسم بن محمد عن القراءت خلف الامام فیما لم یجھر فیہ فقال: ان قرات فلک فی رجال من اصحاب رسول اﷲ اسوہ حسنہ، وان لم تقرافلک فی رجال من اصحاب رسول اﷲ اسوہ حسنہ
وعن یحیی بن سعید قال: ”ما برح اولو الفتوی یفتون، فیحل ھذا، ویحرم ھذا، فلا یری المحرِّم ان المحلل ھلک لتحلیلہ، ولا یری المحلل ان المحرم ھلک لتحریمہ“ (ص ٣٦٧)
”اسامہ بن زید لیثی سے روایت ہے، کہا: میں نے امام قاسم بن محمد سے سری نماز کے اندر قرات خلف الامام کی بابت دریافت کیا۔ فرمایا: اگر قرات کر لو تو بھی صحابہ رسول میں سے کچھ لوگوں کی مثال موجود ہے اور اگر نہ کرو تب بھی صحابہ میں سے کچھ لوگوں کی مثال موجود ہے۔
”یحی بن سعید سے روایت ہے، کہا: آج تک ایسا ہوا ہے کہ فتوی دینے والے اہل علم فتوی دیتے ہیں۔ ایک شخص (کسی معاملے میں) حرام ہونے کا فتوی دیتا ہے دوسرا حلال ہونے کا فتوی دیتا ہے۔ نہ تو حرام کہنے والا عالم حلال کہنے والے کو ہلاکت پر جانتا ہے اور نہ ہی حلال کہنے والا حرام قرار دینے والے کوہلاکت میں پڑا ہوا جانتا ہے“۔
وقد اختلف اصحاب رسول اﷲ فخطابعضھم بعضا، ونظر بعضھم فی اقاویل بعض وتعقبھا، ولو کان قولھم کلہ صوابا عندھم لما فعلوا ذلک (ص ٣٧٢) [صحیح جامع بیان العلم وفضلہ۔ تالیف ابی عمر یوسف بن عبدالبر۔ اختصار وتہذیب ابوالاشبال]
”اصحاب رسول نے بلاشبہ آپس میں (بعض مسائل پر) اختلاف کیا۔ وہ ایک دوسرے کی غلطیوں کی نشاندہی بھی کرتے رہے۔ ایک دوسرے کے اقوال وآراءپر نقد و تبصرہ بھی کرتے رہے۔ ان میں سے سب کے اقوال اگر (بیک وقت) درست ہوتے تو وہ ایسا نہ کرتے“۔
’تفرقہ‘ کے فتنہ سے کیسے نمٹا جائے؟
کسی مسئلے کے حل کا یہی طریقہ ہو سکتا ہے کہ اس کی بابت ایک شرعی موقف اپنایا جائے، اسی کی تبلیغ کی جائے اور اسی پر محنت سے کامیابی کی اُمید لگائی جائے۔ اس دنیا میں کسی بھی مسئلے کا حل کسی ’جادوئی چھڑی‘ سے کر دینا ممکن نہیں۔
اس مسئلہ میں فقہِ سلف اور منہج اہلسنت پر کام نہ ہونے کے باعث یہاں صورت حال کچھ یوں ہو چکی ہے کہ لوگ تفرقہ کی ایک صورت سے نکلتے ہیں تو دوسری میں جا پڑتے ہیں اور دوسری سے نکلتے ہیں تو پہلی میں واپس آجاتے ہیں۔ فہم دین کے معاملے میں توازن اور جامعیت کا حاصل ہوجانا، کسی قوم کے حق میں خدا کی سب سے بڑی نعمت ہو سکتی ہے۔
سورہ المائدہ کی آیت ١٤ ] ومن الذین قالوا انا نصاریٰ اخذنا میثاقہم فنسوا حظا مما ذکروا بہ فاغرینا بینہم العداوہ والبغضاءالی یوم القیامہ۔ ”وہ لوگ جنہوں نے کہا تھا کہ ہم نصاری ہیں، ہم نے تو ان سے بھی پختہ عہد لیا تھا، مگر ان کو بھی جو سبق یاد کرایا گیا اس کا ایک بڑا حصہ انہوں نے فراموش کر دیا، تب ہم نے ان کے آپس میں قیامت تک کیلئے بغض اور عداوت ڈال دی....[ کے ذیل میں امام ابن تیمیہ کہتے ہیں:
”پس جب بھی لوگ اس مشن کے ایک حصے کو چھوڑ دیں جس کا ان کو خدا نے مامو رکیا ہوتا ہے تو ان میں آپس کا بغض اور عداوت آجایا کرتی ہے۔ پھر جب ان میں تفرقہ پڑتا ہے تو وہ فساد اور ہلاکت کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جب وہ مجتمع ہوں تو صلاح وفلاح اور جہانبانی سے سرفراز ہوتے ہیں کیونکہ ’جماعت‘ رحمت ہے اور ’تفرقہ‘ عذاب“۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ٣ ص ٤٢١)
دین کے اصول اور فروع کا فہم نہ ہونے کے باعث معاملہ یہ ہو جاتا ہے کہ جس چیز کو وحدتِ اُمت کا نسخہ جان لیا جاتا ہے احادیث کی رو سے وہ عین تفرقہ ہوتا ہے۔ رسول اﷲ جس طرز عمل سے خبردار کریں اور جن فرقوں سے اُمت کو متنبہ کریں بلکہ جن فرقوںکو عذاب کی وعید سنائیں ان کے اختلافات پر مٹی ڈال دینا ’تفرقہ‘ کا حل جان لیا جائے نہ کہ ان کی گمراہی کو رد کیا جانا! یا پھر دوسری طرف فرقہء ناجیہ کو ایک فقہی مذہب پر مجتمع کرتے ہوئے، جو کہ ہرگز شریعت کا مقصد نہیں، لڑائی بھڑائی، محاذ آرائی اور گروہ بندی کی راہ اختیار کر لی جائے!
تفرقہ کی دونوں صورتیں واضح ہو جانے کے بعد ان سے نبرد آزما ہونے کا منہج خودبخود واضح ہو جاتا ہے۔ جہاں تک فرقہ واریت کو ختم کرنے کا تعلق ہے تو آپ اس بات کے مکلف نہیں کہ آپ اس کو ہرحال میں ختم ہی کرکے رہیں۔ اُمت کے بے شمار (بہتر) فرقوں میں بٹ جانے کی پیشین گوئی خود رسول اﷲ نے فرمائی ہے۔ جس طرح کہ اس کے علاوہ اور بھی فتنہ وشر کے کئی واقعات کی آپ نے پیشین گوئی فرمائی ہے۔ ان واقعات کو رونما ہونے سے تو ہم نہیں روک دینے کے البتہ فتنوں کی صورتحال میں اپنا کردار متعین کرنے کے ہم ضرور مکلف ہیں۔ ’تفرقہ‘ سے نبرد آزما ہونے سے بھی یہی مراد ہے کہ اس میں ہم اپنا وہ کردار ادا کریںجو ہم سے شرعاً مطلوب ہے بغیر اس بات پر انحصار کئے کہ ہم اس فتنہ کو وجود سے ختم کر پائیں گے یا نہیں۔
کسی بھی فتنہ کی بابت شرعی موقف اختیار کرنا اور اس کے عملی تقاضے ادا کرنے میں لگ جانا اس فتنہ کا پھیلاؤ کم کر دینے کا سبب ضرور ہو سکتا ہے۔ البتہ ایک فتنہ کی بابت ایک ایسا موقف اختیار کرنا جو شریعت سے متعارض ہو بذات خود ایک فتنہ ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسا کرنے سے بہرحال اجتناب ضروری ہے۔
چنانچہ اصل سوال یہ ہونا چاہیے کہ فرقہ واریت کے فتنہ کی بابت ایک مسلمان کا کیا فرض بنتا ہے؟ باقی ہر سوال کا جواب اس کے اندر خود بخود آجائے گا۔
جہاں تک تفرقہ کی پہلی صورت کا تعلق ہے اس کی بابت ہر باسمجھ آدمی پر فرض ہے کہ اُمت کے اندر واقع ہونے والے انحرافات اور گمراہی پر مبنی رحجانات کے آڑے آنے کی حتی الوسع اور باحسن انداز کوشش کرے۔ بدعتی فرقوں کو غلط جانے۔ دین کے مسلمات مانند توحید، خدا کی صفات، آخرت، تقدیر، رسالت، سنت، صحابہ واہل بیت کی حرمت.... کسی چیز پر آنچ آنا برداشت نہ کرے۔ ان مسائل میں اختلاف کو ہلاکت جانے اور ان معاملات میں فرقہء ناجیہ کی راہ سے تمسک رکھے۔ ان معاملات کو ہرگز ہرگز ’اختلافی مسائل‘ نہ جانے۔ کوئی شخص اگر جہالت یا غلط فہمی کے باعث دین کے مسلمات میں سے کسی امر کی بابت انحراف کی راہ پر چل پڑا ہے تو اس کے ساتھ دوستانہ اور ہمدردانہ انداز میں بحث و گفتگو کرنے میں کوئی بھی حرج نہیں۔ اس کو کوئی اچھی چیز پڑھانا یا سنانا یقیناً مطلوب ہے۔ اس کی سننا اور اس کے شبہات دور کرنا نیکی کا بہترین عمل ہے۔ مگر اس معاملے کو حل کئے بغیر چھوڑ دینا ہرگز درست نہیں۔ ایک انحراف کو ختم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے گمراہی کا حتی الامکان سدباب ہونا چاہیے۔ طریقہ بہترین سے بہترین اپنایا جائے مگر اس کام کو ہرگز غیر اہم نہ سمجھا جائے۔
معاشرے میں سمجھداروں کی ایک معقول تعداد اگر اس مشن کو انجام دینے پر تیار ہو جاتی ہے .... اصول دین کی بابت حق کی ہر حال میں اتباع کروانے پر مصر اور باطل کی سرکوبی اور گمراہ فرقوں اور گمراہ نظریوں کا راستہ معاشرے میں مسدود کر دینے پر کمربستہ ہو جاتی ہے تو اس رحجان کے نتیجے میں تفرقہ کی اس پہلی صورت کا سدباب ہونے لگے گا۔ مختصر یہ کہ اسلام کے مسلمات اور بنیادی عقائد کی بابت کسی کے ساتھ کوئی مفاہمت Compromisation نہیں۔ کوئی خوش ہو یا ناراض، کسی فرقے کی اکثریت ہے یا اقلیت .... ایک گمراہی کا صاف صاف رد ہونا چاہیے خواہ کوئی اس پر کتنا ہی سٹپٹائے اور گمراہی کا رد کرنے والے کو کیسے ہی بُرے القاب دے۔ اُمت کے اندر اگر ایسے لوگ نہ ہوتے جو اپنے دور کی گمراہیوں کو اسلام سے چھانٹ کر رکھ دیں تو آج اِس اُمت کا بھی معاذ اﷲ وہ حشر ہو چکا ہوتا جو پہلی اُمتوں کا ہوا۔ گمراہیوں کو اسلام کی سند کبھی اور کسی صورت میں نہیں دی جا سکتی۔ گمراہیوں کو اپنے حال پر ہرگز نہیں چھوڑا جا سکتا اس بات کو یقینی بنانا اس اُمت کی بہترین خدمت ہے۔ یہ اِس اُمت کا اعزاز بھی ہے اور امتیاز بھی کہ اس کا دین خالص اور ہر آلائش سے پاک ہے۔ دین کو ’خالص اور آلائشوں سے پاک‘ رکھنے کی بہرحال کوئی قیمت ہے اور اس کو ادا کر دینا ہر مصلح پر فرض۔
یقیناً آج کے دور میں اس پر بہت سی محنت ہونے کی ضرورت ہے۔ اساسیات دین میں کئے جانے والے انحرافات و اختلافات پر مٹی ڈال دینا آسان ہے مگر یہ مسئلے کا حل نہیں۔ یہ ایک بُرائی کو ایک اور بُرائی کے ساتھ رد کرنا ہے۔
جہاں تک تفرقہ کی دوسری صورت کا تعلق ہے تو اس کا سدباب اسی صورت ممکن ہے کہ لوگوں میں دین کے اصول اور فروع کی بابت آگہی پیدا کی جائے۔ اہلسنت کے ہاں جو فقہ الاختلاف رائج رہی ہے اس کی سمجھ عام کی جائے۔ صحابہ کے دور سے لے کر بعد کے ادوار تک فقہی اختلاف کو جس تحمل اور بردباری اور وسیع القلبی کے ساتھ برداشت کیا جاتا رہا اور ان امور میں تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرح آراءکے مابین تبادلہ ہوتا اور قربت پیدا کی جاتی رہی اس منہج کی تعلیم عام کی جائے اور اس رحجان کو دین کے طالب علموں اور تحریکی نوجوانوں اور دین پسند عوام میں زیادہ سے زیادہ پروان چڑھایا جائے۔
اس پر بھی اگر سمجھدار ذہنوں کی ایک معقول تعداد آجاتی ہے اور لوگوں کو علمی وفقہی مسائل میں اختلاف کے آداب سکھانے کا بیڑا اٹھا لیتی ہے تو دیندار طبقوں کو ایک بہترین جہت دی جا سکتی ہے۔
تفرقہ کی ان دونوں صورتوں سے نبردآزما ہونے کیلئے علم وفہم کا ایک خاص معیار اور سوچ میں ایک خاص درجے کا توازن درکار ہے۔ اس توازن کے نہ ہونے کے باعث صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ جب آپ فرقہ واریت کی مذمت کرتے ہیں اور فقہی مذاہب کے مابین رواداری کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تو اس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اُمت میں پھیلے ہوئے شرک اور کفریہ بدعات اور کچھ کھلی کھلی گمراہیوں کے معاملہ میں بھی شاید آپ ’غیر جانبدار‘ اور ’لاتعلق‘ ہیں! یعنی آپ روشن خیال ہیں! اور اگر آپ شرک اور کفریہ بدعات اور کھلی کھلی گمراہیوں کا رد کرتے پائے جائیں تو ’فرقہ واریت‘ کے مرتکب ٹھہریں! یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دین کے اصول اور فروع کی بابت متوازن منہج کا علم قریب قریب مفقود ہے۔ یہ توازن منہج سلف اور اہلسنت کے تحریکی ورثے کا عمیق فہم حاصل کرنے اور اس کو عام کرنے سے ہی آسکتا ہے۔ اس منہج سے آگاہی عام ہونے لگے تو اُمت کے نوجوانوں کو علمی اور تحریکی طور پر ایک متوازن جہت دی جا سکتی ہے۔ ہاں اس پر اگر محنت نہیں ہوتی تو ہر سو غلط فہمیوں کے انبار دکھائی دینا باعث حیرت نہ ہونا چاہیے۔ پھر بے شک آپ جتنی بھی معقول بات کریں اس صورتحال کی کم از کم قیمت آپ کو یہ دینا پڑے گی کہ آپ کہیں کچھ اور سمجھا بالکل کچھ اور جائے۔ بات کے مانے یا نہ مانے جانے کی نوبت تو بعد میں آیا کرتی ہے ابھی تو بات سمجھا لینا بھی شاید دشوار ہو۔ ’تاثرات‘ کی گرد کو صاف کرنا حد درجہ ناگزیر ہے۔
عوام میں اترنے سے پہلے توحید کے داعیوں کو خاصا ابتدائی کام Homework کرنا ہوگا جس میں منہج اہلسنت پر محنت سرفہرست ہے۔
(حامد کمال الدین)
http://www.eeqaz.com/main/articles/2547.htm#
No comments:
Post a Comment