Thursday, 1 October 2015

نگاہ مرد مومن


نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ھیں تقدیریں

شعرکا پس منظر...

کہتے ھیں کہ علاّمہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک دھریہ آیا اور خدا تعالیٰ کی ذات کے انکار میں تین دن تک بحث کرتا رھا (نعوز باللہ)
آخر ....علاّمہ نے فرمایا کہ چلو...آج میں تمہیں کسی مردِ قلندر کے پاس لے جاتا ھوں...شاید وہ تمہاری تقدیر بدل دے...
چنانچہ وہ اس دھریئے کو میاں شیر محمّد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں لے گئے....
جونہی وہ دھرّیہ حضرت میاں صاحب رح کے دربار میں پہنچا تو میاں صاحب نے اس کی کمر پر ھاتھ مارا اور کہا " کیوں بھئی بیلیا...رب ھے کہ نہیں! " یہ سنتے ھی اس دھریئے نے بغیر کسی کلام کے تسلیم کر لیا اور کہا کہ "جی واقعی ایک خدا موجود ھے"..
(الحمدُ للہ)

یہ شعر علاّمہ نے اسی موقع کی مناسبت سے کہا تھا

کوئی اندازہ کر سکتا ھے اس کے زورِ بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے...بدل جاتی ھیں تقدیریں

تقدیروں کے بدلنے کا طریقہ بھی یہی ھے کہ اپنی کشتیء حیات کو کسی ماھر کشتی بان کے سپرد کر دیا جائے...

اولیا را ہست قدرت از اللہ
تیر جستہ باز آرندش براہ
اولیاء کو اللہ نے یہ طاقت عطا کی ہے کہ وہ ایک چلے ہوئے تیر کو بھی راستے سے واپس لا سکتے ہیں (کسی غافل کو راہ حق پر ایک ہی نگاہ میں لا سکتے ہیں)۔
مولانا جلال الدّین رومیؓ - مثنوی معنوی
بابا بلھے شاہ نے لکھا،
گُورو جو چاہے سو کردا ہے
گُورو خالی کاسے بھردا ہے
گُورو بھریاں نوں خالی کردا ہے

No comments:

Post a Comment