جمعہ کے بعد کتنی سنت ہیں ....؟
مالکیہ کے علاوہ تینوں فقہی مسالک کا اس پر اتفاق ہے کہ جمعہ کے بعد سنتیں متعین ہیں ۔۔ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف آئی ہیں۔
سب سے صریح اور مرفوع روایت چار رکعت کی ہے۔
1....عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من كان منكم مصليا بعد الجمعة فاليصلها أربعا.ترمذي رقم 523.....وراه مسلم برقم 881....وأخرج الطبراني عن علي كان رسول الله يصلي قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعا. أخرجه الطبراني في الوسط .نصب الرايه للزيلعي1/ 288.إعلاء السنن .رقم 1762.جلد 7 صفحه 13.
اسی حدیث کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ،امام شافعی اور امام محمد (ایک روایت کے مطابق ) بعد جمعہ چار رکعت سنت موکدہ ہونے کے قائل ہیں۔ یہی قول تمام ہی متون حنفیہ میں منقول ہے۔دیکھئے شامی 2/12۔۔ھدایہ 1/230۔۔بدائع1/ 285۔فتح القدیر 2/39۔البحر 2/ 49۔۔۔عالمگیری 1/112۔باب نمبر 9۔۔طحطاوی علی المراقی 389۔
جبکہ امام ابو یوسف چھ رکعت سنت کے قائل ہیں۔۔۔ ان کے پیش نظر مسلم کی مذکورہ بالا چار رکعت والی روایت کے علاوہ حضرت علی اور ابن عمر کی درج ذیل روایت ہے۔
1۔۔۔۔عن ابی عبد الرحمن السلمی عن علی انہ قال من کان مصلیا بعد الجمعہ فلیصل ستا۔اخرجہ الطحاوی 1/199۔۔۔فی آثار السنن اسنادہ صحیح ۔اعلاء السنن رقم 1765۔۔
2۔۔۔۔ عن ابن عمر ان النبی کان یصلی بعد الجمعہ رکعتین۔۔ترمذی 521۔۔۔مسلم رقم 882۔۔بخاری رقم 937۔۔۔
3۔۔۔۔عن ابی عبد الرحمن السلمی قال کان عبد اللہ بن مسعود یعلمنا ان نصلی اربع رکعات بعد الجمعہ حتی سمعنا قول علی : صلوا ستا۔فقال ابو عبد الرحمن فنحن نصلی ستا، رکعتین ثم اربعا۔رواہ الطبرانی فی
الکبیر۔اعلاء السنن رقم 1764۔۔۔ھکذا فی المصنف لابن ابی شیبہ رقم الحدیث 5410۔5411۔۔
4۔۔۔عن ابن عمر انہ کان یصلی بعد الجمعہ رکعتین ثم اربعا۔رواہ الطحاوی 1/199۔واسنادہ صحیح۔
ان تمام روایتوں کو جمع کرکے بطور سنت چھ رکعت پڑھنے کا حکم امام ابو یوسف دیتے ہیں۔۔۔امام ترمذی نے متعدد صحابہ کا یہی عمل نقل کیا ہے۔۔حنفیہ میں صرف شیخ ابراھیم حلبی(منیةالمصلی
نامی فقہی کتاب کی شرح شیخ ابراہیم حلبی نے غنية المستملي کے نام سے لکھی
ہے۔جو شرح کبیری یا صرف کبیری کے نام سے مشہور ہے۔نماز کے جملہ مسائل جس
جامعیت اور استیعاب سے اس کتاب میں بیان کیے گئے ہیں وہ دوسری کتابوں میں
نایاب ہے۔) نےکبیری میں چھ رکعت کا قول نقل فرمایا ہے۔۔ دیکھئے حلبی۔ صفحہ
388۔فصل فی النوافل۔۔۔۔ متاخ رین
حنفیہ نےاسی قول پہ فتوی دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ کم سے کم چار اور محتاط
قول پر چھ رکعتیں بعد جمعہ پڑھنی چا ہیے ۔اس میں احتیاط بھی ہے اور تمام
حدیثوں پہ عمل بھی ہوجاتا ہے۔۔۔
تطبیق کی شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چار رکعت کو سنت موکدہ مانیں اور حضرت علی وغیرہ والی دو رکعت کی زیادتی کی روایت کو ترغیب پہ محمول کریں نہ کہ مواظبت اور مداومت پہ۔۔اسطرح چار رکعتیں تو موکدہ ہوجائیں گی اور دو رکعت غیر موکدہ۔۔مفتئ اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نے یہی تطبیق دی ہے۔۔دیکھئے تعلیم الاسلام 4/137۔۔۔
یا پہر یہ کہاجائے کہ چار رکعت زیادہ موکدہ ہے اور دو رکعت کم موکدہ۔کیوں کہ چار کی روایت مرفوع وصریح ہے اور دو والی میں یہ قوت نہیں ہے۔۔دیکھئے حاشیہ اعلاء السنن 7/17۔۔
پہر قاضی ابو یوسف اور امام طحاوی کے نزدیک پہلے چار پہر دو رکعتیں پڑھی جائیں ،مشائخ حنفیہ کے یہاں یہی قول مختار وپسندیدہ بھی ہے۔۔
حضرت علی اور ابن عمر کے معمول سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے دو پہر چار رکعتیں پڑھی جائیں۔آثار صحابہ کی تائید کی وجہ سے علامہ انور شاہ کشمیری کا میلان اسی طرف ہے ۔۔۔اور بلا شبہ اسطرح پڑھنا بھی جائز ہے۔ہر چند کہ افضل پہلی صورت ہی ہے۔ ۔دیکھئے شرح معانی الآثار 1/166۔۔حلبی 389۔۔۔معارف السنن 4/411۔باب فی الصلوہ قبل الجمعہ وبعدھا۔۔۔
مالکیہ کے علاوہ تینوں فقہی مسالک کا اس پر اتفاق ہے کہ جمعہ کے بعد سنتیں متعین ہیں ۔۔ اس سلسلہ میں روایتیں مختلف آئی ہیں۔
سب سے صریح اور مرفوع روایت چار رکعت کی ہے۔
1....عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم من كان منكم مصليا بعد الجمعة فاليصلها أربعا.ترمذي رقم 523.....وراه مسلم برقم 881....وأخرج الطبراني عن علي كان رسول الله يصلي قبل الجمعة اربعا وبعدها اربعا. أخرجه الطبراني في الوسط .نصب الرايه للزيلعي1/
اسی حدیث کی بنیاد پر امام ابو حنیفہ،امام شافعی اور امام محمد (ایک روایت کے مطابق ) بعد جمعہ چار رکعت سنت موکدہ ہونے کے قائل ہیں۔ یہی قول تمام ہی متون حنفیہ میں منقول ہے۔دیکھئے شامی 2/12۔۔ھدایہ 1/230۔۔بدائع1/
جبکہ امام ابو یوسف چھ رکعت سنت کے قائل ہیں۔۔۔ ان کے پیش نظر مسلم کی مذکورہ بالا چار رکعت والی روایت کے علاوہ حضرت علی اور ابن عمر کی درج ذیل روایت ہے۔
1۔۔۔۔عن ابی عبد الرحمن السلمی عن علی انہ قال من کان مصلیا بعد الجمعہ فلیصل ستا۔اخرجہ الطحاوی 1/199۔۔۔فی آثار السنن اسنادہ صحیح ۔اعلاء السنن رقم 1765۔۔
2۔۔۔۔ عن ابن عمر ان النبی کان یصلی بعد الجمعہ رکعتین۔۔ترمذی 521۔۔۔مسلم رقم 882۔۔بخاری رقم 937۔۔۔
3۔۔۔۔عن ابی عبد الرحمن السلمی قال کان عبد اللہ بن مسعود یعلمنا ان نصلی اربع رکعات بعد الجمعہ حتی سمعنا قول علی : صلوا ستا۔فقال ابو عبد الرحمن فنحن نصلی ستا، رکعتین ثم اربعا۔رواہ الطبرانی فی
الکبیر۔اعلاء السنن رقم 1764۔۔۔ھکذا فی المصنف لابن ابی شیبہ رقم الحدیث 5410۔5411۔۔
4۔۔۔عن ابن عمر انہ کان یصلی بعد الجمعہ رکعتین ثم اربعا۔رواہ الطحاوی 1/199۔واسنادہ صحیح۔
ان تمام روایتوں کو جمع کرکے بطور سنت چھ رکعت پڑھنے کا حکم امام ابو یوسف دیتے ہیں۔۔۔امام ترمذی نے متعدد صحابہ کا یہی عمل نقل کیا ہے۔۔حنفیہ میں صرف شیخ ابراھیم حلبی(منیةالمصلی
تطبیق کی شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چار رکعت کو سنت موکدہ مانیں اور حضرت علی وغیرہ والی دو رکعت کی زیادتی کی روایت کو ترغیب پہ محمول کریں نہ کہ مواظبت اور مداومت پہ۔۔اسطرح چار رکعتیں تو موکدہ ہوجائیں گی اور دو رکعت غیر موکدہ۔۔مفتئ اعظم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب نے یہی تطبیق دی ہے۔۔دیکھئے تعلیم الاسلام 4/137۔۔۔
یا پہر یہ کہاجائے کہ چار رکعت زیادہ موکدہ ہے اور دو رکعت کم موکدہ۔کیوں کہ چار کی روایت مرفوع وصریح ہے اور دو والی میں یہ قوت نہیں ہے۔۔دیکھئے حاشیہ اعلاء السنن 7/17۔۔
پہر قاضی ابو یوسف اور امام طحاوی کے نزدیک پہلے چار پہر دو رکعتیں پڑھی جائیں ،مشائخ حنفیہ کے یہاں یہی قول مختار وپسندیدہ بھی ہے۔۔
حضرت علی اور ابن عمر کے معمول سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے دو پہر چار رکعتیں پڑھی جائیں۔آثار صحابہ کی تائید کی وجہ سے علامہ انور شاہ کشمیری کا میلان اسی طرف ہے ۔۔۔اور بلا شبہ اسطرح پڑھنا بھی جائز ہے۔ہر چند کہ افضل پہلی صورت ہی ہے۔ ۔دیکھئے شرح معانی الآثار 1/166۔۔حلبی 389۔۔۔معارف السنن 4/411۔باب فی الصلوہ قبل الجمعہ وبعدھا۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب۔
شکیل منصور القاسمی
شکیل منصور القاسمی
No comments:
Post a Comment