طبّ ِنبوی اور شہد
دینِ اسلام کا طرّہ امتیاز ہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو افراط وتفریط سے بالاتر رکھ کر شاہراہِ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے، کسی بھی شعبہ سے متعلق اس کے ارشادات وفرمودات کا جائزہ لیا جائے تو وصفِ اعتدال اس کے ہر ہر جزو میں واضح نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ جب انسان مصائب و تکالیف، امراض واسقام کا شکار ہوتا ہے تو شریعت اس کو اپنے پرودگار کی طرف رجوع، اور اس سے توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ جائز اسباب اختیار کرنے کی تعلیم بھی دیتی ہے؛ بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج خود شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کے فائدہ کی خاطر تجویز بھی فرمادیا ہے، جس کا علم احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دنیائے حکمت میں طبِ نبوی کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے۔
دینِ اسلام کا طرّہ امتیاز ہے کہ یہ اپنے پیروکاروں کو افراط وتفریط سے بالاتر رکھ کر شاہراہِ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے، کسی بھی شعبہ سے متعلق اس کے ارشادات وفرمودات کا جائزہ لیا جائے تو وصفِ اعتدال اس کے ہر ہر جزو میں واضح نظر آئے گا، یہی وجہ ہے کہ جب انسان مصائب و تکالیف، امراض واسقام کا شکار ہوتا ہے تو شریعت اس کو اپنے پرودگار کی طرف رجوع، اور اس سے توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ جائز اسباب اختیار کرنے کی تعلیم بھی دیتی ہے؛ بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج خود شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کے فائدہ کی خاطر تجویز بھی فرمادیا ہے، جس کا علم احادیث مبارکہ کے مطالعہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دنیائے حکمت میں طبِ نبوی کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اسلام سے قبل تاریخ کے جائزہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس دور میں طبی علم تقریباً بھلایا جاچکا تھا، یہی نہیں بلکہ طبی علاج ومعالجہ کو غیر دینی عمل تصور کیا جاتا تھا، مشرکانہ جھاڑ پھونک کا عروج تھا، نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعلیماتِ مبارکہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو ان فرسودہ خیالات واعتقادات سے نجات ملی اور علاج ومعالجہ کا صحیح اور دینی تصور قائم ہوا، چنانچہ مشہور موٴرخ ڈگلس گتھری بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میں طبی سائنس کی گہری دلچسپی اور فروغ کی اصل وجہ وہ ارشادات اور احکام تھے جو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دیئے تھے۔
اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی جب یوروپ اس حوالے سے انحطاط کا شکار تھا دنیائے ا سلام کے زعمائے طب نے طبِ اسلامی کو خوب فروغ دیا جس کی گواہی دیتے ہوئے ڈونالڈ کیمبل اپنی کتاب Arabian Medicine میں اس طرح رقم طراز ہے:
﴿اسلامی سائنس (کے فروغ) کے دور میں یوروپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا﴾،
آگے لکھتا ہے:
﴿جن دنوں عیسائی دنیا تاریک دور سے گذر رہی تھی، اس وقت اسلام کے عالموں نے ”علم الطب“ میں حیرت انگیز سرگرمی کا مظاہرہ شروع کردیا﴾۔
طبِ اسلامی کی اہمیت اور اہلِ اسلام کی اس میں ترقی اور برتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کے بہترین اسپتالوں کی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ اوراشبیلیہ وغیرہ میں پڑی اور مسلم اطباء کی ”القانون“ اور ”الحاوی“ جیسی تصنیفات کو یوروپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک پڑھایا جاتا رہا ہے۔
لیکن صد افسوس کہ طبِ نبوی جو دنیائے اسلام کا ایک مقدس موضوعِ فکرومطالعہ تھا، جس کی روشنی میں تجاویز کردہ امور دوا اور غذا کا بہترین مرکب اور قدرتی فوائد سے بھرپور ہوتے تھے، وہ اب محض کتابوں کی نذر ہوکر رہ گیا ہے، اور بقول ِحکیم سعید رحمہ اللہ:
﴿افسوس کہ تیرگیٴ خرد نے اور نیرنگیٴ عصرِحاضر نے آج کی دنیائے اسلام کے زعمائے طب کو مرکز گریز بنا دیا اور وہ خود بھی آواز ِمغرب سے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے ورثہ ہائے علمی کے ناقد بن گئے پھر یہ تنقید تنقیص میں بدل گئی﴾۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طب سے متعلق ذخیرئہ احادیث کو امت کے سامنے پیش کیا جائے، اور اس حوالے سے حکمائے اسلام کی تحقیقات اور تجاویز کو اہلِ اسلام کے سامنے اجاگر کیا جائے؛ چنانچہ اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں شہد سے متعلق فرمودات ِنبویہ اور اس کے چند فوائد کو ذکر کیا جاتا ہے۔
لفظِ شہد اردو زبان کا لفظ ہے، فارسی اور ہندی میں بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے، اور عربی میں اس کو عَسَل، انگریزی میں Honey، فرانسیسی میں Miel، جرمن میں Honig، یونانی میں Meli اور بنگالی میں مودھو کہا جاتا ہے۔
رب ِ ذوالجلال نے شہد کو باعثِ شفاء قرار دیا ہے؛ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:
﴿فِیہِ شِفآءٌ لِّلنَّاس﴾ (النحل:۶۹)
ترجمہ: اس (شہد) میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لئے شفاء ہے۔ اسی آیت کے تحت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن (۵:۳۵۲) میں لکھتے ہیں:
﴿اس میں اللہ تعالی کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کی قاطع دلیل موجود ہے، کہ ایک چھوٹے سے جانور کے پیٹ سے کیسا منفعت بخش اور لذیذ مشروب نکلتا ہے؛ حالانکہ وہ جانور خود زہریلا ہے، زہر میں سے یہ تریاق واقعی اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ کی عجیب مثال ہے، پھر قدرت کی یہ بھی عجیب صنعت گری ہے کہ دودھ دینے والے حیوانات کا دودھ موسم اور غذا کے اختلاف سے سرخ و زرد نہیں ہوتا اور مکھی کا شہد مختلف رنگوں کا ہوجاتا ہے﴾ اسی وجہ سے اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿یَخْرُجُ مِن بُطُوْنِھا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌأَلْوَانُہ‘﴾ (النحل: ۶۹)
ترجمہ: اس کے پیٹ میں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں۔ محسنِ انسانیت جنابِ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے فرمودات سے بھی شہد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے، جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
۱- عن ابی ھریرة قال:قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ﴿مَنْ لَعِقَ الْعَسَلَ ثَلاثَ غَدَوَاتٍ کُلَّ شَھْرٍ لَمْ یُصِبْہ عَظِیْمٌ مِنَ الْبَلاءِ﴾․ (سنن ابن ماجہ، ۴/۱۲۴، حدیث نمبر:۳۴۵۰، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ: حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله نے ارشاد فرمایا: جو شخص ہر مہینے تین دن تک صبح میں شہد چاٹے، تو اس کو کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی۔
۲- عن عبدالله ص قال: قال رسول الله ا: ﴿عَلَیْکُمْ بالشِّفائَیْنِ:العَسَلِ وَالْقُرْآنِ﴾۔ (سنن ابن ماجہ،۴/۱۲۴، حدیث نمبر:۳۴۵۲، دارالجیل، بیروت)
ترجمہ:حضرت عبد الله رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی کریم کا فرمان نقل فر ماتے ہیں:
دو باعثِ شفاء چیزوں کو لازم پکڑ لو
۱: شہد اور
۲: قرآن۔
۱: شہد اور
۲: قرآن۔
رسولِ اکرم کی یہ حدیث ِمبارک بڑی جامعیت کی حامل ہے، اس میں طبِ الٰہی وبشری، دواء ارضی و سماوی اورطبِ جسدی و نفسی کو جمع فرماکر دونوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا جسمانی امراض کے لاحق ہونے کی صورت میں جس طرح اطباء وحکماء کی طرف رجوع کرکے علاج کرانا سنت ہے، بالکل اسی طرح روحانی امراض (تکبر، عجب، حسد، ریاء وغیرہ) سے اپنے قلب کو پاک رکھنے کے لئے قرآن کریم کی تلاوت، علماء کی راہنمائی میں احادیث کا مطالعہ اور اہل الله کی صحبت اختیار کرکے اپنی اصلاح کروانا بھی لازم او ر راحت ِدنیا وی واخروی کے حصول کی شاہِ کلید ہے۔
۳- عن عائشة قالت: کَانَ النَّبِیُ ا یُعْجِبُہ الْحَلْوَاءُ وَالْعَسَلُ․ (صحیح البخاری، باب: الدواء بالعسل، ۵/۲۱۵۲حدیث نمبر: ۵۳۵۸، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت)
ترجمہ: ام ّالموٴمنین حضرتِ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیز اور شہد مرغوب تھا۔
۴- عن ابی سعید ص أَنَّ رَجُلاً أَ تَی النَّبِیَّ ا فقال: اَٴخِیْ یَشْتَکِی بَطْنہ، فَقَالَ: اِسْقِہِ عَسَلاً، ثُمَّ اَٴتَاہ الثَّانِیْةَ، فَقَالَ: اِسْقِہ، عَسَلاً، ثُمَّ اَٴتَاہ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: اِسْقِہِ عَسَلاً، ثُمَّ اَٴتَاہ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ فَقَالَ: ﴿صَدَقَ اللهُ وَکَذَبَ بَطْنُ اَٴخِیْکَ، اِسْقِہِ عَسَلاً﴾، فَسَقَاہ فَبَرِاَٴ (صحیح البخاری، کتاب: الطبّ، باب: الدواء بالعسل، ۵/۲۱۵۲ حدیث نمبر: ۵۳۶۰، باب: دواء المبطون، ۵/۲۱۶۱، حدیث نمبر: ۵۳۸۶، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت)
ترجمہ: حضرتِ ابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:
ایک آدمی سرکارِ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا:
میرا بھائی پیٹ کے مرض میں مبتلا ہوگیا ہے،
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
اس کو شہد پلاوٴ، وہ دوسری بار آیا تو پھر آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس کو شہد پلانے کی تاکید کی اسی طرح تیسری مرتبہ بھی، جب چوتھی بار بھی آکر اس نے شکایت کی تو رسول الله صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تمہارے بھائی کا پیٹ تو جھوٹا ہوسکتا ہے؛ لیکن الله کا کلام تو سچاہی ہے، اس کو پھر شہد پلاوٴ،
اس نے اس مرتبہ جاکر جب شہد پلایا تو اس کو شفا نصیب ہوگئی۔
اس حدیث سے امراضِ بطن میں افادیتِ شہد کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ طبّ کے ایک بنیادی اور اہم ترین اصول کی طرف راہنمائی بھی ملتی ہے کہ کسی بھی مرض کے علاج کے لئے دوا کی مقدار، اس کی کیفیت اور مریض کی قوت کی رعایت اور لحاظ رکھنا دوا کے مفید ہونے کے لئے انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں چوتھی بار شہد کے استعمال کرنے پر مرض سے افاقہ حاصل ہوا۔
شہد کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ خود رسول الله صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی اہتمام سے اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے، آپ کا معمول تھا کہ صبح کو شہد کے شربت کا پیالہ نوش فرماتے اور کبھی عصر کے بعد بھی پیتے تھے، ان اوقات میں جب پیٹ خالی ہو اور آنتوں کی قوتِ انجذاب دوسری چیزوں سے متاثر نہ ہو، شہد پینا جسم کے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے۔
حضرتِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں آ تا ہے کہ اُن کے بدن پر اگر پھوڑا بھی نکل آتا تو اس پر شہد کا لیپ کرکے علاج کرتے، بعض لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ الله تعالیٰ نے اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا:
فِیہِ شِفآءٌ لِّلنَّاس․ (النحل:۶۹)
ترجمہ: اس(شہد) میں لوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لئے شفا ہے۔ (معارف القرآن (۵:۳۵۳)
اب سائنسی تحقیقات سے بھی یہ ثابت ہوگیا ہے کہ قدرت کی طرف سے جتنی اشیاء غذا کے طور پر انسان کو مہیا کی گئی ہیں، ان میں شہد سب سے زیادہ مکمل اور جامع غذا ہی نہیں؛ بلکہ اپنی طبّی خصوصیات کی بنا پر غذا اور دوا کے طور پر لاثانی ہے؛ چنانچہ یوروپ اور دوسرے ممالک میں ایلو پیتھک کی متعدد دواوٴں میں اس کا بے پناہ استعمال کیا جا رہا ہے ،اسی طرح یوروپ کے اسپتالوں میں چہرے کی حفاظت کے لئے جو فیس پیک Face pack بنائے جاتے ہیں ان میں شہد ایک لازمی جزو ہوتا ہے، شہد میں بہترین Presevative ہونے کی بناء پر اُسے پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے؛ کیونکہ یہ خود بھی خراب نہیں ہوتا اور دوسری اشیاء کی بھی طویل عرصہ تک حفاظت کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہزارہا سال سے اطباء اس کو الکحل کی جگہ استعمال کرتے آئے ہیں۔
ماہرین ِطب نے اپنی تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں شہد کے کئی فوائد ذکر کئے ہیں جن میں سے چند فوائد ہدیہٴ ناظرین کئے جاتے ہیں:
۱- شہد پیاس کو بجھاتا ہے۔
۲- حافظہ کو قوت بخشتا ہے؛ چنانچہ امام ِزہری رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:
﴿عَلَیْکَ بِالْعَسَلِ فَاِنَّہ جَیِّدٌ لِلْحِفْظِ﴾
ترجمہ: شہد کا اہتمام کرو؛ کیونکہ یہ حافظہ کے لئے بہترین ہے ۔
۳- شہد ردی رطوبتیں نکالتا ہے۔
۴- اس کا کثرتِ استعمال استسقاء، یرقان، عسرالبول، ورمِ طحال، فالج، لقوہ، زہروں کے اثرات اور امراض سر وسینہ میں مفید ہے۔
۵- پتھری کو خارج کرتا ہے۔
۶-باہ، بصارت اور جگر کو قوت ملتی ہے۔
۷- بو علی سینا اسے مقوی معدہ بھی قرار دیتے ہیں۔
۸- دانتوں کے لئے شہد ایک بہترین ٹانک ہے، اسے سرکہ میں حل کرکے دانتوں پر ملنا ان کو مضبوط کرتا ہے، اور مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بناتا ہے، گرم پانی میں شہد اور سرکہ کے ساتھ نمک ملا کر غرارہ کرنے سے گلے اور مسوڑھوں کا ورم جاتا رہتا ہے۔
۹- نہار منہ شہد پینے سے پرانا قبض ٹھیک ہو جاتا ہے، کھٹی ڈکاریں آنی بند ہوجاتی ہیں اور اگر پیٹ میں ہوا بھرجاتی ہو تو وہ نکل جاتی ہے۔
۱۰- اطباء قدیم نے افیون، پوست اور بھنگ کے نشہ کو زائل کرنے کے لئے گرم پانی میں شہد مفید بتایا ہے۔
۱۱- انسان بڑھاپے میں عموماًتین مسائل کا شکار ہو تا ہے:
۱۔ جسمانی کمزوری،
۲۔ بلغم،
۳۔ جوڑوں کا درد،
قدرت کا کرشمہ ہے کہ شہد کے استعمال سے یہ تینوں مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں ۔
۱۲- شہد میں Antiseptic خصوصیات ہونے کی بنا پر زخموں پر لگانا یا جلی ہوئی جلد پر لگانا نہایت مفید پایا گیا ہے۔
۱۳- چہرے سے مہاسے اور پھنسیاں دور کرنے کے لئے بہت اچھا علاج سمجھا جاتا ہے۔
۱۴- طب ِنبوی کے مشہور مرتب علاء الدین کحال (م۷۲۰ھ -۱۳۲۰م) نے شھد کو اسہال کے علاوہ غذائی سمیت یعنی Food poisining میں مفید قراردیا ہے۔
۱۵- طالبِ علموں کے لیے انتہائی مفید بتایا جاتا ہے، زیادہ دیر تک پڑھ سکنے کا باعث اور ان کی یادداشت کے بہتر رہنے کا ذریعہ ہے۔
۱۶- دل کے مریضوں کو اسے پینے کے دوران دورے نہیں پڑتے۔
یہ شہد کی چند خصوصیات تھیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدرت کا یہ عظیم الشان تحفہ کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے ،جوایک معمولی سی لطیف گشتی مشین جو ہر قسم کے پھل پھول سے مقوّی عرق اور پاکیزہ جوہر کشید کرکے اپنے محفوظ گھروں میں ذخیرہ کرتی ہے، اس سے حاصل کیا جاتا ہے، ربّ ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نعمتوں کی کما حقّہ قدردانی اور اپنے حبیب جناب ِنبی کریم کے قیمتی ارشادات کو اپنے سینوں سے لگانے کی توفیق عطاء فرمائیں، اور اپنے آباوٴاجداد کے حقیقی وارث بن کر ان کے علمی سرمایہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لانے کے لئے قبول فرمائیں۔ آمین!
از: مولاناعبد اللہ بن مسعود
فاضلِ جامعہ دارالعلوم کراچی
از: مولاناعبد اللہ بن مسعود
فاضلِ جامعہ دارالعلوم کراچی
تلبینہ کااستعمال 100 بیماریوں سے نجات
ReplyDeleteتندرستی ہزار نعمت ہے
صحت مند رہیں۔
تلبینہ کھا ئیں۔
اپنے آپ کو بیماریوں سے دور رکھیں۔
تلبینہ کیا ہے، اسے کیسے بنایا جاتا ہے اور یہ کن کن بیماریوں میں مفید ہے؟
تلبینہ سے متعلق مکمل معلومات کے لیے یہاں کلک کریں