Saturday, 2 June 2018

دعا میں توسل کا شرعی حکم

دعا میں توسل کا شرعی حکم
سوال: میں نے اپنے مفتی صاحب سے توسل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ توسل کی دعا صحاہ کرام سے ثابت نہیں، لیکن جب میں نے المهند علی المفند، دار العلوم دیوبند اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا حوالہ دیا تو مفتی صاحب خاموش ھو گئے۔میں نے مفتی صاحب سے کہا کہ آپ کا نظریہ پنچ پیر جماعت سے ملتا ہے، انھوں نے کہا کہ میں بھی نقشبندیہ میں بیعت ہوں اور توسل کے ذریعہ زیادہ تر تصوف سے وابستہ حضرات دعا مانگتے ہیں۔ اب آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ 
1) جناب عالی اگر کوئی پیغبرﷺکے توسل سے دعا مانگے اور اولیاء کے توسل نہ مانگے 
2) اگر کوئی دونوں کا انکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ ہمارے علاقے میں آج کل اھل حدیث اور پنج پیر جماعت کے لوگ کام کر رہیں ہیں اور وہ یہ مسئلہ پیش کرتے ہیں کہ توسلِ پیغمبر و اولیا جائز نہیں. آپ حضرات شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں.

جوابتوسل کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: 
1) توسل بالاعمال یعنی اپنے کسی نیک عمل کے وسیلے سے یوں دعا کرنا کہ اے اللہ! فلاں عمل کی برکت سے میری فلاں حاجت پوری فرما. یہ صورت بالاتفاق وبلااختلاف جائز ہے اور اس کی دلیل وہ مشہور اور صحیح حدیث ہے جس میں تین افراد ایک غار  میں پھنس گئے تھے اور تینوں نے اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کی تو اللہ تعالی نے اس مصیبت سے انہیں نجات عطا فرمائی. (بخاری 1 /  493 قدیمی) 
2) توسل بالذوات یعنی کسی نبی، صحابی یا کسی ولی سے اپنے تعلق کا واسطہ دے کر دعا کرنا. یہ صورت بھی جمہور اہل سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، چناچہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہے کہ بنوقریظہ اور بنونضیر کے یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح ونصرت کی دعا کیا کرتے تھے. (البقرۃ:89)خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فقرا ومہاجرین کے توسل سے دعا فرماتے تھے. (مشکوۃ : 2 / 447 قدیمی) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ قحط سالی کے سال حضرت عباس رضی اللہ عنہ (جو اس وقت حیات تھے) کے وسیلے سے دعا فرماتے تھے. ( نیل الاوطار : 4 / 8 طبع مصر) البتہ کسی نبی یا ولی سے حاجت مانگنا شرک ہے، اور ان کی قبر پر جاکر ان سے دعا کی درخواست کرنا بھی علما کے نزدیک مختلف فیہا مسئلہ ہے اور اس سے اجتناب کرنا لازم ہے. (تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ کی کتاب "اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم" اور فتاوی بینات کی جلد دوم) مذکورہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات کا حاصل یہ ہوا کہ توسل بالاعمال اور توسل بالذوات دونوں علمائے دیوبند سمیت جمہور اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک جائز ہے، قرآن کریم واحادیث مبارکہ اور کتبِ فقہ میں اس کی تصریحات موجود ہیں، علمائے دیوبند کی کتاب المہند علی المفند میں بھی واضح طور پر یہی عقیدہ مذکور ہے، لہذا توسل کا کلی طور پر انکار یا نبی اور ولی میں فرق کرنا درست نہیں، البتہ یہ واضح رہے کہ دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ واجب یا ضروری نہیں، توسل کا انکار کیے بغیر بلاوسیلہ دعا مانگنا بھی جائز ہے. 
واللہ اعلم
................
مسئلہ توسل
مسئلہ کی تفصیل سے قبل چند باتیں عرض کی جاتی ہیں:
توسل کا لغوی وشرعی معنیٰ:
لغوی معنیٰ:
1: الوَسِيلَة هي في الأصْل ما يُتَوَصَّلُ به إلى الشَّيْء ويُتَقَرَّبُ به
(النہايۃ فى غريب الاثرلابن الاثيرالجزرى: ج5ص402)
کہ ”وسیلہ “دراصل اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی (مطلوبہ) چیز کی طرف پہنچا جائے اور اس کا قرب حاصل کیا جائے
2: مصباح اللغات میں ہے:
الوسیلہ: تقرب حاصل کرنے کاذریعہ
(مصباح اللغات: ص946)
3: حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”توسل“ لغت میں تقرب اور نزدیکی کو کہتے ہیں قرآن شریف میں ہے: ﴿وابتغواالیہ الوسیلة﴾ یعنی اللہ کاقرب حاصل کرو
(ملفوظات حکیم الامت ج25ص123)
شرعی معنیٰ:
شرعاً توسل کا اطلاق ان اقسام پر ہوتا ہے:
توسل بالدعاء:
التوسل۔۔۔ بدعاء الرجل الصالح الحي الموجود فتقول يا شيخ ادع الله لي ونحو ذلك، كما استسقى الصحابة برسول الله صلى الله عليه وسلم.
(التوسل المشروع و الممنوع: ص17)
ترجمہ: توسل بالدعاء سے مراد یہ ہے کہ زندہ نیک آدمی کو دعا کی درخواست کرنا کہ حضرت! میرے لیے اللہ سے دعا فرمائیں، جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی۔
توسل بالاعمال:
هو التقرب إلى الله تعالى بطاعته وعبادته واتباع أنبيائه ورسله وبكل عمل يحبه الله ويرضاه .
(التوصل الی حقیقۃ التوسل لمحمد نسيب الرفاعي: ص13)
ترجمہ: وسیلہ بالاعمال سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت، عبادت، اس کے انبیاء و رسل کی اتباع اور ہر اس عمل کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اور اللہ اس سے راضی ہو۔
توسل بالذات:
و ان یتوسل بالنبی صلی اللہ علیہ و سلم و باحد من الاولیاء العظام جائز بان یکون السوال من اللہ تعالیٰ و یتوسل بولیہ و نبیہ صلی اللہ علیہ و سلم۔
(امداد الفتاویٰ: ج6 ص327)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کسی ولی کی ذات سے وسیلہ کیا جائے جس کی صورت یہ ہے کہ مانگا تو اللہ تعالیٰ سے جائے لیکن واسطہ ولی یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ہو۔
مندرجہ بالا تین اقسام کے پیشِ نظر توسل کی شرعی تعریف کچھ یوں ہے:
و التوسل شرعاً هو التقرب إلى الله تعالی بدعاء النبیین و الصالحین و الاولیاء و شفاعتہم او بکل عمل يحبه الله ويرضاه من عبادتہ کالصلاۃ و الزکوٰۃ و الصیام و غیر ذلک و اتباع أنبيائه ورسله او بجاہ النبیین و الصالحین و بحرمتہم و ببرکتہم و بحقہم علی اللہ سبحانہ و تعالیٰ سواء کان فی حیاتہم او بعد وفاتہم
ترجمہ: شریعت میں توسل سے مرد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے چاہے وہ انبیاء، صالحین اور اولیاء سے دعا کروا کر اور ان کی شفاعت سے حاصل کیا جائے یا ہر اس عمل سے کیا جائے جسے اللہ پسند فرماتا ہے جیسے اس کی عبادت کرنا مثلاً نماز پڑھنا، زکوٰۃ دینا، روزہ رکھنا وغیرہ اور انبیاء ،رسل کی اطاعت کرنا یا انبیاء و صالحین کی جاہ، حرمت، برکت اور ان کے (اللہ پر ہونے والے) حق(یا اس قسم کے دیگر الفاظ مثلاً بطفیل فلاں، بوسیلہ فلاں وغیرہ) سے حاصل کیا جائے چاہےاس دنیوی زندگی میں ہو یا وفات کے بعد والی زندگی میں۔
فائدہ:
توسل کی ان تین اقسام میں سے توسل بالدعاء اور توسل بالاعمال اہل السنۃ وا لجماعۃ اور فریق مخالف [مماتی اور غیر مقلدین] کے ہاں متفق علیہ ہے لیکن توسل بالذات کے اہل السنۃ و الجماعۃ تو قائل ہیں البتہ فریق مخالف اس کا منکر ہے۔ اہل السنۃ وا لجماعۃ اور فریق مخالف کا موقف پیشِ خدمت ہے:
مذہب اہل السنت والجماعت:
1: علامہ تقی الدین علی بن عبد الکافی ابن علی السبکی الشافعی [م756ھ] لکھتے ہیں:
ان التوسل بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم جائز فی کل حال قبل خلقہ وبعدخلقہ فی مدة حیاتہ فی الدنیا وبعد موتہ فی مدة البرزخ
(شفاءالسقام للسبکی: ص358)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا توسل لینا ہر حال میں جائز ہے چاہے آپ کی تخلیق سے پہلے ہو، آپ کی پیدائش کے بعد آپ کی دنیوی زندگی میں ہو یا آپ کی وفات کے بعد آپ کی برزخی زندگی میں ہو۔
2: علامہ احمد بن محمد القسطلانی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ [م923ھ] لکھتے ہیں:
و ینبغی للزائر ان یُکثِرَ من الدعاء و التضرع و الاشتغاثۃ و التشفع و التوسل بہ صلی اللہ علیہ و سلم
(المواہب اللدنیۃ: ج3ص417 الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف الخ)
ترجمہ: زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے، گڑگڑائے، مدد چاہے، شفاعت کی دعا کرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔
3: شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م1176ھ) فرماتے ہیں:
ومن ادب الدعاء تقدیم الثناء علی اللہ و التوسل بنبی اللہ لیستجاب.
(حجۃ الله البالغۃ ج2ص6)
ترجمہ: اور دُعا کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تعریف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف ہو۔
4: علماء دیوبند کی اجماعی و متفقہ دستاویز ”المہند علی المفند“ میں تیسرا اور چوتھا سوال توسل کے متعلق تھا، حضرات علماء دیوبند کا متفقہ مسلک اس سوال و جواب میں ملاحظہ فرمائیں:
السوال الثالث والرابع: ھل للرجل ان یتوسل فی دعواتہ بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الوفاة ام لا؟ ایجوزالتوسل عندکم بالسلف الصالحین من الانبیاء والصدیقین والشھداء واولیاءرب العالمین ام لا؟
الجواب: عندنا وعندمشائخنا یجوزالتوسل فی الدعوات بالانبیاء والصالحین من الاولیاء والشھداء والصدیقین فی حیاتھم وبعدوفاتھم بان یقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل الیک بفلان ان تجیب دعوتی وتقضی حاجتی الی غیرذلک
(المہند علی المفند: ص36، 37)
ترجمہ: تیسرااورچوتھا سوال:کیا وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتوسل لینا دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں ؟ تمہارے نزدیک سلف صالحین یعنی انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور اولیاء اللہ کا توسل بھی جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعا میں انبیاء ،اولیاء، شہداءاور صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی، آدمی یوں دعاکرے: اے اللہ! فلاں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔
5: حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ [م1362ھ] لکھتے ہیں:
و الثالث دعاء اللہ ببرکۃ ھذا لمخلوق المقبول و ھذا قد جوزہ الجمہور الخ
(بوادر النوادر: ص708)
ترجمہ: اور توسل کی تیسری صورت یہ ہے کی کسی مقبول مخلوق کی برکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگے اور اسے جمہور نے جائز قرار دیا ہے۔
لہذا اہل السنت والجماعت کے نزدیک دعامیں کسی نبی یاولی کاوسیلہ دینا مستحب ،اقرب الی الاجابت اورآداب میں سے ہے۔
مذہب اہل بدعت:
موجودہ دور کے غیر مقلدین اورمماتی حضرات توسل کے منکر ہیں اور اسے ہنود و نصاریٰ کا طریقہ کہا، شرک کے اسباب قرار دیا اور مشرکین کا عقیدہ بتلایا۔ اس کا موقف ان کی چند عبارات میں ملاحظہ ہو:
غیر مقلدین حضرات کی عبارات:
1: سید طالب الرحمن صاحب غیر مقلد لکھتے ہیں:
کسی فوت شدہ نبی یا ولی کا وسیلہ دینا جائز نہیں کیونکہ یہ عملِ صالح نہیں۔
(آئیے عقیدہ سیکھیے: ص159)
2: محمود احمد میر پوری صاحب غیر مقلد وسیلہ بالذات کو غیر مشروع قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وسیلے کا یہی وہ غیر مشروع طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے۔
(فتاویٰ صراط مستقیم: ص70)
3: محمد رئیس ندوی صاحب نے توسل بالذات کے بارے میں جس قسم کی زبان استعمال کی اور قائلین توسل پر جو گالیوں کی بوچھاڑ کی وہ صرف انہی کا حصہ ہے۔ گالیاں دیتے دیتے موصوف نے توسل کی اس قسم کو مشرکانہ توسل، دعویٰ مکذوبہ و قبیحہ، حرام وغیرہ کہہ کر دل کی بھڑاس نکالی ہے۔
(مجموعہ مقالات پر سلفی تحقیقی جائزہ از رئیس ندوی: ص856 تا 872)
مماتی حضرات کی عبارات:
1: محمد حسین نیلوی صاحب اپنی کتاب ”ندائے حق“میں لکھتے ہیں:
دراصل یہ مسئلہ (توسل) ہنود ونصاری سے چلاآرہا ہے۔ (ج2 ص349 عنوان: مسئلہ وسیلہ بالذوات وا لاموات کا اصل ماخذ)
2: محمد طاہر صاحب پنجپیری کی کتاب ”البصائر مصنفہ مولوی حمد اللہ الداجوی“ کے حاشیہ میں ہے:
قائلین توسل اور پہلے دور کےمشرکین کاعقیدہ ایک جیسا ہے۔
(حاشیہ البصائر:ص237)
3: عطاء اللہ بندیالوی صاحب لکھتے ہیں:
اسلام میں وسیلہ کاکوئی ثبوت نہیں، جواز وسیلہ پر کوئی ایک آیت ،حدیث یاصحابی کا عمل موجود نہیں۔ لہذا وسیلہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔
(وسیلہ کیا ہے؟ :41، 42، 46، 64)
ایک مقام پر متوسِل کے بارے میں لکھتے ہیں:
اور وہ پاگل اپنے درخواست پیش کرنے کے لیے مخلوق میں سے وسیلوں اور واسطوں کو ڈھونڈتا پھرے۔
(شرک کیا ہے :ص19)
4: میاں محمد الیاس صاحب محمد طاہر پنج پیری صاحب کی ایک تصنیف کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ مولانا کی پہلی مطبوعہ تصنیف ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس کا موضوع”توسل و وسیلہ“ ہے جو کہ پورے ہندوستان میں عام ہے اورشرک کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔
(مولانا طاہر کی خدمات: ص194)
توسل بالذات کا ثبوت:
حضرات انبیاء علیہم السلام اور صالحین رحمۃ اللہ علیہم کی ذاتوں سے توسل کرنے کا جواز کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، اجماع امت اور سلف صالحین کے اقوال سے ثابت ہے۔ خصوصاً حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے توسل کرنے کا جواز عقلاً و نقلاً ثابت ہے۔
عقلاً ثبوت:
1: اعمال کا وسیلہ تو مسلّم ہے حتی کہ فریقِ مخالف بھی اس کا قائل ہے۔ اعمال فرع ہیں اورذات اصل ہے۔ بالفاظ دیگر نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج وغیرہ اعمال فرع ہیں اور ذات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اصل ہے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے نکلنے والے اعمال کا نام ”دین“ ہے۔ جب اعمال اورفرع کا وسیلہ جائز ہے تو ذات پیغمبر اور اصل کا وسیلہ بدرجہ اولیٰ جائز ہوگا۔ نیز اعمال خود نہیں آئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم لائے ہیں۔ اگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہ ہوتے تو اعمال ہمیں نہ ملتے۔ تو وہ اعمال جن کے وسیلے کے تم قائل ہو ان کا وسیلہ خود حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہے۔
2: اعمال صالحہ خداوند تعالیٰ کی جانب سے نعمت ہیں، ان کا وسیلہ جائز ہے۔ حضرت انبیاء علیہم السلام و صالحین حضرات خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تمام نعمتوں کا سرچشمہ بلکہ نعمتِ کبریٰ ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
﴿لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ﴾
(آل عمران:64)
ترجمہ:بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا۔
توجب چھوٹی نعمتوں (اعمال صالحہ وغیرہ) سے توسل کرنا جائز ہے تو بڑی نعمتوں (جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ اور دیگر انبیاء علیہم السلام اور صالحین رحمۃ اللہ علیہم)سے توسل کرنا بدرجہ اولیٰ جائز اور درست ہوگا۔
3: اعمالِ صالحہ چونکہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہیں، اس لیے ان سے توسل جائز ہے تو انبیاء علیہم السلام ان سے بڑھ کر تقرب کا ذریعہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ایمان نہ ہو تو اعمال صالحہ سے قربِ خداوندی نہیں ملتا اور اگر ایمان ہو اور اعمالِ صالحہ بھی ہوں تو اعمالِ صالحہ سے اتنا قربِ خداوندی نہیں ملتا جتنا پیغمبر کی ذات سے ملتا ہے۔
اول کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾
[سورۃ الزمر:65]
کہ اگر تم نے شرک کا ارتکاب کیا تو تمہارے سارے اعمال غارت جائیں گے اور تم یقینی طور پر سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاؤ گے۔
ثانی کی دلیل حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لا تسبوا أحدا من أصحابي فإن أحدكم لو أنفق مثل أحد ذهبا ما أدرك مد أحدهم ولا نصيفه
(صحیح مسلم: ج2 ص310 باب تحریم سب الصحابہ)
کہ میرے صحابہ کی شان میں نازیبا کلمہ نہ کہنا اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے اور یہ (صحابہ رضی اللہ عنہم) ایک جو مٹھی بھر جَوخرچ کریں تو تمہارا احد پہاڑ کے برابر سونا اِن کی مٹھی بھر جو کے برابر نہیں۔
مٹھی بھرجَو خرچ کرنا چھوٹا عمل ہے، احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا بڑا عمل ہے۔ اب یہاں احد پہاڑ کی مثل سونا مٹھی بھر جَو کے برابر اس لیے نہیں کہ مٹھی بھرجَو کو ذاتِ پیغمبر کی صحبت ملی ہےاور ہمارے احد پہاڑ کی مثل سونے کو ذاتِ پیغمبر کی صحبت نہیں ملی۔ ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ سے اتنا قربِ خداوندی نہیں ملتا جتنا پیغمبر کی ذات سے ملتا ہے۔
کتاب اللہ سے توسل کا ثبوت:
پہلی آیت:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود کے بارے میں فرمایا :
﴿وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا ﴾
(سورۃ البقرة:89)
ترجمہ: اور اس سے پہلے وہ اس نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے۔
شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(م 1239ھ) لکھتے ہیں:
ابو نعیم اوربیہقی اورحاکم نےساتھ اسناد صحیحہ اورطرق متعددہ کے روایت کی ہے کہ یہودی مدینہ کے اوریہودی خیبر کے جس وقت ساتھ بت پرستوں عرب کے یعنی فرقہ بنی اسد اوربنی غطفان اورجہینہ اورغدرہ کے جنگ کرتے تھے، مغلوب ہوجاتے اورشکست کھاتے، لاچارہوکرطرف دانشمندوں اور کتاب اپنے کے رجوع کیا انہوں نے بعدتامل بسیار کے، یہ دعا اپنے سپاہیوں کو تعلیم کی کہ لڑائی کے وقت میں پڑھا کریں، پھرمغلوب نہ ہوئے اورفتح پاتے تھے، دعا یہ ہے:
اللھم ربنا انا نسالک بحق احمدَ النَّبِیِّ الامی الذی وعدتَّنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخرماینزل ان تنصرناعلی اعدائنا۔
(تفسیرعزیزی: ج2ص581)
ترجمہ: اے اللہ!ہم تجھ سے حضرت احمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی ہیں، جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا، اور اس کتاب کے وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔
علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ [م1270ھ] لکھتے ہیں:
وہ لوگ یہ دعا کرتے تھے:
اللهم إنا نسألك بحق نبيك الذي وعدتنا أن تبعثه في آخر الزمان أن تنصرنا اليوم على عدونا .
(روح المعانی:ج1ص320)
ترجمہ: اے اللہ!ہم تجھ سے تیرے اس رسول کے حق اور وسیلے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا، سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔
شیخ ابو محمد عبد الحق حقانی دہلوی رحمہ اللہ(م1336 ھ) لکھتے ہیں:
مدینہ کے یہود بنی اسد اوربنی غطفان وغیرہ قبائل عرب سے جب شکست کھاکرعاجز ہوئے تواپنے علماءکی تعلیم سے دعاکیاکرتے تھے:
اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخرماینزل ان تنصرناعلی اعدائنا
کہ الٰہی ہم کو ببرکت نبی آخرالزمان محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے اورببرکت قرآن مجید کے ہمارے دشمنوں پر فتح یاب کر۔
(تفسیرحقانی: ج1ص510)
شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ(م1394 ھ) اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
حالانکہ نزولِ قرآن اورآپ کی بعثت سے پہلے ہی لوگ کافراوربت پرستوں کے مقابلہ میں آپ کے نام کی برکت سے فتح ونصرت اللہ سے مانگا کرتے تھے۔ چنانچہ یہودمدینہ اوریہودخیبر کی جب عرب کےبت پرستوں سے لڑائی ہوتی تویہ دعا مانگتے:
اللھم ربنا انا نسالک بحق احمد النبی الامی الذی وعدتنا ان تخرجہ لنا فی آخرالزمان وبکتابک الذی تنزل علیہ آخرماتنزل ان تنصرناعلی اعدائنا۔
(تفسیرمعارف القرآن کاندھلوی: ج1ص233)
ترجمہ: اے اللہ!ہم تجھ سے حضرت احمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حق اور وسیلے سے جو نبی امی ہیں، جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کو تو آخری زمانہ میں بھیجے گا، اور اس کتاب کے وسیلہ سے جس کا تو نے آخری زمانہ میں نازل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، سوال کرتے ہیں کہ آج کے دن تو ہمیں ہمارے دشمن پر غلبہ عطا فرما۔
ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ یہود مدینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے قبل آپ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تھے۔
اعتراض:
اس آیت سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ توسل بالذات یہود کا طریقہ تھا اور یہی کچھ مماتی حضرات کہتے ہیں۔
جواب:
اولاً۔۔۔۔ اصول الفقہ کی مشہور کتاب ”نور الانوار“ میں ملا جیون(م 1130ھ) فرماتے ہیں:
شرائع من قبلنا شریعتنا ما لم تنسخ
( نور الانوار: ص227 بحث الفرق بین الہام النبی صلی اللہ علیہ و سلم و غیرہ)
ترجمہ: ہم سے پہلی شریعتیں جب تک منسوخ نہ ہو جائیں توانہیں بھی ہماری شریعت سمجھا جائے گا۔
علامہ محمود آلوسی بغدادی رحمہ اللہ (م1270ھ) فرماتے ہیں:
مذهبنا في شرع من قبلنا وإن كان إنه يلزمنا على أنہ شريعتنا لكن لا مطلقا بل إن قصہ الله تعالى علينا بلا إنكار
(روح المعانى: ج8 ص239 تحت سورة كہف آیت21)
ترجمہ: پہلی شریعتوں کے بارے میں ہمارا مذہب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بغیر انکار کے ہمیں بیان فرما دیں تو ہمارے لیے بھی ان کا حکم ثابت ہو گا۔
شریعت محمدیہ علی صاحبہا السلام میں توسل بالذات سےمنع نہیں آیا بلکہ اس کا اثبات منقول ہے جیسا کہ آگے دلائل میں آرہا ہے۔ لہذا اس آیت سے توسل کا جواز ثابت ہوا۔
ثانیاً۔۔۔ اگر اسی شبہ پر توسل بالذات کا انکار کر دیا جائے کہ یہ پہلی شریعتوں کا مسئلہ ہے تو ہم ان منکرین سے پوچھتے ہیں کہ توسل بالاعمال کے آپ بھی توقائل ہیں اور اس پر جو اصحاب الغار والا واقعہ پیش کرتے ہیں تو وہ بھی اس امت کے اولیاء نہیں تھے بلکہ بنی اسرائیل کے اولیاء تھے، تو پھر اس کا انکار کر دیا جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے توسل کا تذکرہ کیا اور تردید نہیں فرمائی تو وہ اب ہماری شریعت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اصحاب الغاروالی حدیث بیان فرمائی اور تردید نہیں فرمائی تو وہ بھی ہماری شریعت ہے۔
دوسری آیت:
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
(سورۃ النساء:64)
ترجمہ: اور جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آ کر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑامہربان پاتے۔
اس آیت میں دو چیزیں ہیں:
1: ان لوگوں کا اپنا استغفار 2: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا استغفار
اللہ تعالیٰ نے صرف ان کے استغفار پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے استغفار کا بھی ذکر کیا۔ تو جس طرح ان کے اپنے استغفار کا ذکر کیا درمیان میں پیغمبر کی ذات کو بھی ذکر کیا۔ پیغمبر کو شامل کرنے پر دلیل اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿ جَاءُوكَ ﴾ ہے کہ وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں۔ اگر صرف استغفار ہی کافی تھا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ معلوم ہوا کہ عام استغفار کے قبول ہونے میں ان لوگوں کی ذات کو دخل ہے لیکن وہ استغفار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے قریب آکر کیا جائے اس کی قبولیت میں ذاتِ نبوت کو دخل ہے ورنہ ﴿ جَاءُوكَ ﴾ ذکر نہ فرماتے۔
امام مالک بن انس المدنی (م179ھ) اسی آیت سے جوازِ وسیلہ پر استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ منصور مدینہ منورہ آیا اور اس نے امام مالک سے دریافت کیا :
استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ فقال: و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسیلتک و وسیلۃ ابیک آدم علیہ ا لسلام الی اللہ یوم القیامۃ؟ بل استقبلہ وا ستشفع بہ فیشفعہ اللہ۔ قال اللہ تعالیٰ: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم الایۃ.
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ: ج2 ص26 الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ)
ترجمہ: میں قبر نبوی کی زیارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اے امیر! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حالانکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے روزِ قیامت وسیلہ ہیں ، بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب گار رہیے، اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: جب ان لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، اگر یہ اس وقت تمہارے پاس آ کر اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو یہ اللہ کو بہت معاف کرنے والا، بڑامہربان پاتے۔
علامہ تقی الدین السبکی الشافعی (م756ھ ) اس آیت کو توسل بالذوات کی دلیل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
والاحادیث و الآثار فی ذلک اکثر من ان تحصر، و لو تتبعتہا لوجدت منہا الوفاً، و نص قولہ تعالیٰ:﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ﴾ الآیۃ صریح فی ذلک.
(شفاء السقام: ص376 الباب الثامن فی التوسل وا لاستغاثہ و التشفع بالنبی صلی اللہ علیہ و سلم)
ترجمہ: توسل بالذوات کے بارے میں احادیث و آثار شمار سے باہر ہیں، اگر آپ ان کو جمع کریں تو ان کی تعداد ہزاروں میں پائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان
﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ﴾
توسل بالذوات کے جواز میں نصِ صریح ہے۔
تیسری آیت:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ الایۃ
(سورۃ المائدۃ:35)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔
امام ابو عبد اللہ الحاکم رحمۃ اللہ علیہ (م405ھ) نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ﴾ (اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو) کے بارے میں یہ بات بیان کی ہے:
لقد علم المحفوظون من أصحاب محمد صلى الله عليه و سلم أن ابن أم عبد الله من أقربهم إلى الله وسيلة
(المستدرک علی الصحیحین: ج3ص37 کتاب التفسیر تحت سورۃ المائدۃ)
ترجمہ: بے شک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب میں سے محفوظ حضرات نے جان لیا کہ ابن ام عبد اللہ (حضرت عبد اللہ بن مسعود) وسیلہ کے طور پر اللہ تعالیٰ کی جانب ان حضرات میں سے اقرب اشخاص میں ہیں۔
شیخ الاسلام علامہ زاہد بن الحسن الکوثری رحمہ اللہ (م1371ھ) لکھتے ہیں:
والوسيلة بعمومہا تَشْمَل التوسل بالاشخاص، و التوسل بالاعمال۔۔۔ اما شمول الوسیلۃ فی الآیۃ المذکورۃ للتوسل بالاشخاص فلیس برای مجرد و لا ہو بماخوذ من العموم اللغوی فحسب بل ہو الماثور عن عمر الفاروق رضی اللہ عنہ الخ
(مقالات الکوثری: ص286)
ترجمہ: اس آیت میں لفظ ”الوسیلۃ“ عموم کے پیشِ نظر ذاتوں کے وسیلہ کو بھی شامل ہے اور اعمال کے وسیلہ کو بھی۔۔۔ آیت مذکورہ میں وسیلہ کا توسل بالاشخاص کو شامل ہونا محض رائے سے نہیں اور نہ ہی لفظ کے عمومِ لغوی کا نتیجہ ہے بلکہ یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے الخ۔
آگے علامہ کوثری رحمہ اللہ نے کئی ایک آثار ذکر فرمائے ہیں جن سے توسل بالاشخاص ثابت ہوتا ہے۔
وسیلہ ذوات واعمال دونوں کو اس لئے شامل ہے کہ وسیلہ سے مراد ”قربت“ ہے، جیسا کہ عامہ مفسرین نے فرمایا ہے۔
(دیکھیے تفسیر الدر المنثور، تفسیر ابن کثیر، تفسیر جلالین وغیرہ)
چوتھی آیت:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
(سورۃ الانفال:33)
ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) اللہ ایسا نہیں ہے کہ اِن کو اِس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو اور اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ(م279 ھ)نے ایک حدیث روایت کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری اُمت کے لئے دو امانتیں نازل فرمائیں:
{وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ } {وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ} إذا مضيت تركت فيهم الاستغفار إلى يوم القيامة.
(جامع الترمذی: ج2 ص139 ابواب التفسیر، تحت تفسیر سورۃ الانفال)
ترجمہ: ایک امانت یہ آیت: ”اور اللہ ایسا نہ کرے گا کہ انہیں تیرے ہوتے ہوئے عذاب دے“اور دوسری یہ آیت: ” اللہ انہیں عذاب دینے والا نہیں ہے جب کہ وہ بخشش مانگتے ہوں“۔ پس جب میں (دنیا) سے چلا جاؤں گا تو ان میں استغفار کو قیامت تک کے لئے چھوڑ جاؤں گا۔
عذاب سے بچنے کے دو سبب اس آیت میں ذکر کیے گئے ہیں۔ایک سبب پہلے حصہ میں وارد الفاظ: ﴿وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان میں تشریف فرما ہوں اس وقت تک عذاب نہ آئے گا اور دوسرا سبب ان الفاظ: ﴿وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ سے معلوم ہو رہا ہے۔ تو یہاں پہلا جملہ ﴿وَأَنْتَ فِيهِمْ﴾ ذوات کے بیان کے لئے ہے اور دوسرا جملہ ﴿وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ﴾ اعمال کے بیان کے لئے ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ ذوات کا وسیلہ بھی جائز ہے اور اعمال کا بھی جائز ہے۔
احادیث مبارکہ سے توسل کا ثبوت:
حدیث نمبر1:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ
(صحیح البخاری: ج1ص137 باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا)
ترجمہ: جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا، اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی اللہ عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب کر۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( یعنی بارش ہوجاتی)۔
اعتراض:
اس حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ وسیلہ بالاحیاء تو جائز ہے ، وسیلہ بالاموات جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ دیا ہے۔ اگر اموات کا وسیلہ جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ ذات کا وسیلہ نہ دیا جاتا۔
جواب:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات سے توسل کرنے کی یہ وجوہات ہیں:
1: حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسلیہ سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ جس طرح انبیاء علیہم السلام کا توسل جائز ہے اسی طرح غیر الانبیاء کا توسل بھی جائز ہے۔
2: یہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں، ایک بذات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری توسل باھل قرابت النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔
3: یہ بتانا مقصود تھا کہ غیر انیباء علیہم السلام کا توسل بھی رحمت وبرکت کا باعث ہے۔
4: انسانی طبعیت کا تقاضا یہ ہے کہ محسوس ، موجود اور مبصر پر زیادہ مطمئن ہوتی ہے۔ جیسے اگر کوئی آدمی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جا رہا ہو تو اس کو سلام پہنچانے کا واسطہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ سلام تو فرشتے بھی پہنچاتے جن کی رفتار بھی تیز ہے اور سلام پہنچانا بھی یقینی ہے۔ اسی لیے بتقاضائے انسانی حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات کا توسل لیا۔
رہا معترض کا یہ کہنا کہ ”وسیلہ بالاحیاء تو جائز ہے ، وسیلہ بالاموات جائز نہیں“ بلا دلیل وحجت ہے۔ اس لیے کہ :
1: یہ دعویٰ نہ دلالت النص سے ثابت ہے ، نہ عبارت النص سے ،نہ اشارۃ النص ہے نہ اقتضاء النص سے۔
2: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات سے توسل لینے میں تو توسل بالاموات کا اثبات ہوتا ہے کہ نہ انکار۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا”اللھم انا نتوسل الیک بنبیا فتسقینا “ اور یہ ضابطہ ہے کہ صحابی کے اس قول ”کنا نفعل کذا“ (ہم ایسا کیا کرتے تھے) کا مطلب یہ کہ ہم جوبات کہہ رہے ہیں اس قول کے وقت تک ہمارا یہی عمل ہے۔ا ب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اس وقت تک (یعنی قحط والے سال تک) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا وسیلہ دیتے آئے ہیں۔ اب اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی آپ کی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد والی زندگی دونوں کا زمانہ شامل ہے۔ لہذا اس سے تو توسل بالاحیاء بدرجہ اولیٰ ثابت ہوا۔
3: حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا توسل بھی درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا توسل تھا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ تھے ”وانا نتوسل الیک بعم نبینا“ یہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی جو نسبت حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے یعنی”عم“ (چچا) والی نسبت کو ذکر کیا ہے پھر وسیلہ مانگا ہے۔ معلوم ہوا کہ صرف حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ نہیں بلکہ اس عباس رضی اللہ عنہ کا وسیلہ مانگا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ تو حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات درمیان میں آتی ہے۔
فائدہ:
یہ جوابات اور مؤقف حضرات اکابر کی عبارات اور تصریحات سے واضح ہوتا ہے جنہوں نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے، ذیل میں ان مستدلین حضرات پیش خدمت ہیں:
مستدلین:
1: حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (م 852ھ)نے فتح الباری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سند کے ساتھ اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ ارشاد فرمایا:
إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يرى للعباس ما يرى الولد للوالد فاقتدوا أيها الناس برسول الله صلى الله عليه و سلم في عمه العباس واتخذوه وسيلة إلى الله وفيه فما برحوا حتى سقاهم اللہ
(فتح الباری: ج2ص641 باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا)
ترجمہ:” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مرتبہ ایسا تھا جیسا اولاد کی نظر میں والد ہوتا ہے، اس لیےاے لوگو!حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارےمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتداء کرو اور ان کواللہ تعالیٰ کی جانب وسیلہ بناؤ۔“ ابھی دعا مانگ رہے ہوتے کہ دعا کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔
2: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ(م 1362ھ) اس حدیث مبارک کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
”ف: مثل حدیث بالااس سے بھی توسل کاجواز ثابت ہے اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو جوازتوسل ظاہرتھا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواس قول سے یہ بتلاناتھا کہ غیرانبیاء سے بھی توسل جائز ہے، تو اس سے بعض کا سمجھنا کہ احیاء واموات کا حکم متفاوت ہے بلادلیل ہے۔ اول تو آپ بنص حدیث قبر میں زندہ ہیں، دوسرے جوعلت جواز کی ہے جب وہ مشترک ہے توحکم کیوں مشترک نہ ہوگا ؟
(التکشف: ص675 بعنوان: غیر انبیاء سے بھی توسل جائز ہے)
3: شیخ الاسلام شیخ زاہد بن حسن الکوثری رحمہ اللہ (م1371ھ)اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان قول الصحابی: ((کنا نفعل کذا)) ینصَبُّ علی ما قبل زمن القول فیکون المعنی ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانوا یتوسلون بہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حیاتہ و بعد لحوقہ بالرفیق الاعلیٰ الی عام الرماد و قصر ذلک علی ما قبل وفاتہ علیہ السلام تقصیر عن ہوی و تحریف للنص و تاویل بدون دلیل
(مقالات الکوثری: ص287)
ترجمہ: صحابی کے اس قول کا کہ ((کنا نفعل کذا)) [ہم ایسا کیا کرتے تھے] مطلب یہ ہے کہ یہ فعل اس قول کے وقت سے پہلے والے زمانے میں ہوتا رہا ہے۔ لہذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول (إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ) کا مطلب یہ ہو گا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا توسل آپ علیہ السلام کی حیات میں اور آپ علیہ السلام کے خدا تعالیٰ کے پاس جانے کے بعد سے لے کر قحط والے سال تک کرتے رہے ہیں۔ اس توسل کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے قبل والے زمانے(یعنی صرف حیاتِ دنیوی جو وفات سے پہلے وہ زمانہ ہے) کے ساتھ خاص کرنا خواہشات کی پیروی، نصوص میں تحریف اور بلا دلیل تاویل کرنے کے مترادف ہے۔
4: شیخ الاسلام مولانا ظفراحمدعثمانی رحمہ اللہ (م 1394ھ)ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
حضرات صحابہ کا بعدوصال نبوی علیہ الصلوة والسلام الی یوم القیامہ کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے استسقاء میں توسل کرنا ہرگزاس امر پردال نہیں کہ بعد وصال کے حضور سے توسل فی الدعاء ممنوع ہوگیا تھا۔ اگرکسی کو دعویٰ ہے تو دلالت النص وعبارت النص یا اشارۃ النص واقتضاء النص کے طریق سے کسی طریقہ سے ثابت کرے کہ یہ حدیث اس امر پر کیونکر دال ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو خود اس واقعہ میں بھی توسل بسید الرسل صلی اللہ علیہ وسلم تھا، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں:
((اَللھُم َإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّك وَصِنْوِ اَبِیْہِ))
یہاں بھی در حقیقت حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی سے توسل تھا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اس توسل بالنبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقویت کے لئے آگے کیا تھا۔
(امداد الاحکام: ج1ص133)
5: فقیہ العصر مفتی رشیداحمدلدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ(م1422 ھ) اس حدیث مبارک کو نقل کرکے فرماتے ہیں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے بعض حضرات نے جوازتوسل کی تخصیص بالاحیاء کا دعوی کیا ہے جو صحیح نہیں، جب توسل ثابت ہوگیا تو احیاء و اموات میں ما بہ الفرق کیاہے؟ اگر کچھ فرق تسلیم کر لیا جائے تو مسئلہ برعکس ہونا چاہیئے کیونکہ زندہ انسان تغیرِاحوال سے مامون نہیں، اسی لئے حدیث میں وارد ہے کہ کسی کی اقتداء کرنا چاہو تو میت کی اقتداء کرو:
عن ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ: من كان مستنا فليستن بمن قد مات فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة الحدیث رواہ رزین (مشکوٰ: ص32)
پس جب باجماع صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم توسل با لحی کا استحباب ثابت ہوا توتوسل بالمیت بطریق اولی مستحب ہوگا۔ علاوہ ازیں دلیل اول، ثالث اور رابع توسل بالمیت کے باب میں صریح ہیں۔
باقی رہا یہ اشکال کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےکیوں توسل کیا ؟ سو اس کی چند توجیہات ہوسکتی ہیں:
۱: حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے توسل کے ساتھ آپ کی دعا بھی مقصود تھی۔
۲: اس پرتنبیہ مقصود تھی کہ توسل بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صورتیں ہیں؛ ایک توسل بذاتہ دوسری توسل باہل قرابتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
۳: یہ بتانا مقصود تھا کہ توسل بغیر الانبیاء علیہم السلام من الاولیاء والصلحاء بھی باعث برکت وجالب رحمت ہے۔
۴: طبع انسانی اپنے اندر موجود محسوس مبصر شخص پر زیادہ مطمئن ہوتی ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام بھیجنے اور دعا کی درخواست پہنچانے میں انسانی وسائط کا اہتمام کیا جاتا ہے، حالانکہ ملائکہ کا واسطہ انتہائی سریع ہونے کے ساتھ انتہائی قوی بھی ہے، نہ ادائے امانت میں غفلت کا خطرہ، نہ نسیان کا اندیشہ۔
(احسن الفتاویٰ :ج1ص 334، 335)
حدیث نمبر2:
عن عثمان بن حُنَيْف : أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال ادع الله لی أن يعافيني . فقال ( إن شئت أخرت لك وهو خير . وإن شئت دعوت ) فقال ادعه . فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه . ويصلي ركعتين . ويدعو بهذا الدعاء (اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بمحمد نبي الرحمة . يا محمد إني قد توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى . اللهم فشَفِّعْه فِيَّ )
(سنن ابن ماجۃ: ص99 باب صلوٰۃ الحاجۃ، مسند احمد بن حنبل: ج13ص315 رقم الحدیث 17175، المعجم الصغیر للطبرانی: ص183 من اسمہ طاہر، التاریخ الکبیر للبخاری: ج6ص56 رقم الترجمۃ 2191)
ترجمہ: حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نابیناآدمی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ اللہ سے میرے لئے عافیت اور تندرستی کی دعا مانگیے۔ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو آخرت کے لئے دعا مانگوں، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور چاہو تو (ابھی) دعا کر دوں ؟ اس نے عرض کیا: دعا فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے کہا کہ اچھی طرح وضو کرو اور دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعا مانگو:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلَی رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَی اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ
[اے اللہ ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں رحمت والے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے، اے محمد! میں نے آپ کے وسیلہ سے اپنے پروردگار کی طرف توجہ کی اپنی اس حاجت کے سلسلہ میں تاکہ یہ حاجت پوری ہو جائے، اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش میرے بارے میں قبول فرما لیجئے۔ ]
تصحیح حدیث:
(1) امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ (م273 ھ)نے اس حدیث کو نقل کر کے فرمایا:
قال أبو إسحاق هذا حديث صحيح
(سنن ابن ماجۃ: ص99 باب صلوٰۃ الحاجۃ)
ترجمہ: ابو اسحاق نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے۔
(2) امام ابو عیسیٰ ترمذی (م279 ھ)فرماتے ہیں:
هذا حديث حسن صحيح
(جامع الترمذی:ج2ص198، ابواب الدعوات)
ترجمہ: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(3)امام ابو عبد اللہ الحاکم (م 405ھ)اس حدیث کو نقل کر کے فرماتے ہیں:
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه
(المستدرك للحاکم: ج1ص621 دعاء رد البصر رقم الحدیث 1221)
ترجمہ: یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے لیکن انہوں نے اس کو تخریج نہیں کیا۔
(4) ناصر الدین البانی غیر مقلد(م 1420ھ)اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
صحیح. (جامع الترمذى باحکام الالبانی: رقم الحدیث3578)
کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
(5) مولانا حبیب الرحمٰن الاعظمی اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
اسنادہ صحیح.
(صحیح ابن خزیمۃ: ج2ص225 باب صلاۃ الترغیب الترہیب)
ترجمہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
مستدلین:
1: قاضى محمد بن علی شوكانى(م 1250ھ) لکھتے ہیں:
وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الله عز وجل مع اعتقاد أن الفاعل هو الله سبحانه وتعالى
(تحفۃ الذاكرين: ص208)
ترجمہ: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا توسل پکڑنا جائز ہے، لیکن اعتقاد یہ ہو کہ فاعل (و مختار) ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔
2: حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ(م1362 ھ) يہ حدیث نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں:
”اس سے توسل صراحتا ثابت ہوا اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے لئے دعا فرمانا کہیں منقول نہیں،اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح توسل کسی کی دعا کا جائز ہے اسی طرح توسل دعا میں کسی کی ذات کا بھی جائز ہے۔“
(نشرالطیب: ص240 اڑتیسویں فصل)
3: مفتی اعظم ہند مفتی محمد کفایت اللہ دہلوی علیہ الرحمۃ(م 1372ھ) توسل کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
اکثرجواز کے قائل ہیں۔۔۔ اللھم انی اتوجہ الیک بنبیک نبی الرحمة [الخ] حدیث میں موجود،مذکورہے جوجوازکے لئے دلیل ہے۔
(کفایت المفتی: ج2ص85)
اعتراض:
اس روایت کی سندمیں راوی ”ابو جعفر“سے مراد ”ابوجعفرعبداللہ بن مسور المدائنی“ ہے جوضعیف بلکہ وضاع ہے۔
جواب نمبر1:
یہاں ابوجعفرسے مراد”ابوجعفرعمیربن یزیدالانصاری الخَطْمِی المدنی“ ہے۔
1: امام ابوبکراحمد بن محمد المعروف بابن السنی (م364ھ)نے یہی حدیث نقل کی جس میں ”الخطمی“ کی صراحت ہے: عن أبي جعفر المدني وهو الخطمي
عمل الیوم والیلۃ: رقم الحدیث 627
2: مسند احمد کے بھی ایک طریق میں الخطمی کی صراحت ہے:
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ
مسنداحمد: رقم الحديث 17242
3: أخبرنا حمزة بن العباس العقبي ببغداد ثنا العباس بن محمد الدوري ثنا عون بن عمارة البصري ثنا روح بن القاسم عن أبي جعفر الخَطْمِي عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف رضي الله عنه أن رجلا ضرير البصر[الحدیث]
المستدرك للحاکم: ج2ص213رقم1972
4: أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن بن سهل الدباس بمكة من أصل كتابه ثنا أبو عبد الله محمد بن علي بن زيد الصائغ ثنا أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثني أبي عن روح بن القاسم عن أبي جعفر المدني وهو الخَطْمِي عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وجاءه رجل ضرير فشكا إليه ذهاب بصره[الحدیث]
المستدرك للحاکم: ج2ص213رقم1973
5: عن روح بن القاسم عن أبي جعفر الخَطْمِي المدني [الحدیث]
المعجم الصغير للطبرانی: رقم الحديث 508
6: امام اہل سنت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ترمذی مطبوعہ مصر میں”وھو الخَطْمِي “کے الفاظ ہیں اورہندی نسخہ میں غالباً کتابت کی غلطی کیوجہ سے لفظ ”غیر“زائد ہوگیا۔
تسکین الصدور: ص432
چنانچہ المکتبۃ الشاملۃ میں موجودترمذی کے نسخہ میں ”وھو الخَطْمِی“کی صراحت ہے۔
جامع الترمذى: رقم3578 المکتبۃ الشاملۃ
7: وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث أبي جعفر وهو غير الخَطْمِي
هكذا وقع في الترمذي وسائر العلماء قالوا هو أبو جعفر الخطمي وهو الصواب.
القاعدۃ الجلیلۃ فى التوسل والوسیلۃ لابن تیمیۃ: ج2ص202
جواب نمبر2:
اس روایت کی اسناددرج ذیل ہیں :
سند نمبر1:
حدثنا محمود بن غيلان حدثنا عثمان بن عمر حدثنا شعبة عن أبي جعفر عن عمارة بن خزيمة بن ثابت عن عثمان بن حنيف
جامع الترمذى: رقم3578
سند نمبر2:
حدثنا محمد بن بشار و أبو موسى قالا حدثنا عثمان بن عمر نا شعبة عن أبي جعفر المدني قال سمعت عمارة بن خزيمة يحدث عن عثمان بن حنيف.
صحیح ابن خزیمۃ: رقم 1219
سند نمبر3:
حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَدِينِيِّ قَالَ سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ يُحَدِّثُ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ
مسنداحمد: رقم الحديث 17242
سند نمبر4:
أخبرنا أبو محمد عبد العزيز بن عبد الرحمن بن سهل الدباس بمكة من أصل كتابه ثنا أبو عبد الله محمد بن علي بن زيد الصائغ ثنا أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثني أبي عن روح بن القاسم عن أبي جعفر المدني وهو الخَطْمِي عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف
المستدرك للحاکم: ج2ص213رقم1973
سند نمبر5:
أخبرني زكريا بن يحيى قال حدثنا محمد بن المثنى قال حدثنا معاذ بن هشام قال حدثني أبي عن أبي جعفر عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه
السنن الكبرى للنسائی: ج6ص169رقم 10420
سند نمبر6:
أخبرنا محمد بن معمر قال حدثنا حبان قال حدثنا حماد قال أخبرنا جعفر[والصوب ابوجعفر] عن عمارة بن خزيمة عن عثمان بن حنيف
السنن الكبرى للنسائی:ج6ص168رقم 10419
الحاصل ان روایات میں امام ابوجعفرالخطمی کے اساتذہ یہ ہیں:
1: عمارہ بن خزیمہ 2: ابوامامہ
اورشاگردیہ ہیں:
1: شعبہ 2: روح بن قاسم 3: ھشام 4: حمادبن سلمۃ
کتب اسماء الرجال میں ان حضرات کا شمارامام ابوجعفر المدنی الخطمی کے اساتذہ اورشاگردوں میں کیا گیا ہے نہ کہ ابوجعفرعبداللہ بن مسور المدائنی کے اساتذہ و شاگردوں میں۔
عن ابى جعفر المدينى سمع عمارة بن خزيمة بن ثابت عن عثمان بن حنيف
التاريخ الكبيرلامام البخارى ج6ص210
عن ابى جعفر يزيد بن عمير أو عمير بن يزيد عن ابى امامة بن سهل رضى الله عنه عن عمه
التاريخ الكبيرلامام البخارى ج6ص210
عن روح بن القاسم: عن ابى جعفر المدينى عن ابى امامة بن سهل بن حنيف: عن عمه عثمان ابن حنيف رضى الله عنه
التاريخ الكبيرلامام البخارى ج6ص210
أبو جعفر الخَطْمِي اسمه عمير بن يزيد۔۔۔ يروى عن أبيه وسعيد بن المسيب روى عنه شعبة وحماد بن سلمة
كتاب الثقات لابن حبان رقم الترجمه 10028
عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة أبو جعفر الخَطْمِي بصرى ولجده صحبة روى عن ابيه عن جده وعن ابن المسيب ومحمد بن كعب وروى هو عن جده ايضاً روى عنه حماد بن سلمة سمعت ابى يقول ذلك قال أبو محمد وروى عنه شعبة بن الحجاج وهشام الدستوائى وروح بن القاسم
الجرح والتعديل للرازى ج6ص379رقم الترجمه 2099
أبو جعفر الخَطْمِي واسمه عمير بن يزيد۔۔۔۔ وروى عنه شعبة وحماد ابن سلمة ويحيى بن سعيد القطان
الطبقات الكبرى لابن سعد ج1ص347رقم الترجمه 257
عمير بن يزيد أبو جعفر الخَطْمِي عن بن المسيب وأبي أمامة بن سهل وعنه شعبة والقطان وعدة ثقة
الكاشف لامام ذهبى ج2ص98رقم الترجمه 4290
عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب بن خماشة ويقال ابن حباشة الانصاري أبو جعفر الخَطْمِي المدني۔۔۔ روى عن أبيه وخاله عبدالرحمن بن عقبة وأبي أمامة بن سهل بن حنيف وسعيد ابن المسيب ومحمد بن كعب القرظي وعمارة بن خزيمة بن ثابت والحارث بن فضيل الخَطْمِي وعمارة بن عثمان بن حبيب.وعنه هشام الدستوائي وعدي بن الفضل وشعبة وروح ابن القاسم وحماد بن سلمة ويوسف السمتي ويحيى القطان.
تھذیب التھذیب ج5ص139رقم الترجمہ 2168
جواب نمبر3:
علامہ شمس الدین الذہبی (م748ھ) میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:
ورمزت على اسم الرجل من أخرج له في كتابه من الائمة الستة: البخاري،[خ] ومسلم[م]، وأبى داود،[د] والنسائي، [س] والترمذي، [ت]وابن ماجه [ق]برموزهم السائرة.
(میزان الاعتدال للذہبی: ج1 ص46 مقدمۃ المصنف)
ترجمہ: ہر راوی کے نام کے ساتھ میں نے وہ علامت لگائی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ صحاحِ ستہ میں سے کس کس محدث نے ان سے روایت لی ہے یعنی امام بخاری (کے لیے علامت ”خ“)، امام مسلم (کے لیے علامت ”م“)، امام ابو داؤ (کے لیے علامت ”د“)، امام ترمذی (کے لیے علامت ”ت“)، امام ابن ماجہ (کے لیے علامت ”ق“)۔
اس تفصیل کے بعدعرض ہے کہ ہماری پیش کردہ روایت ترمذی اور ابن ماجہ کی ہے جن کی علامت بالترتیب ”ت“ اور ”ق“ ہے۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ”ابوجعفرالمدائنی“ کے حالات ذکرکئے ہیں (تحت الرقم: 461) اوراس پرجرح بھی نقل کی ہے لیکن اس کے ساتھ علامت ”ت“ اور ”ق“نہیں لگائی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری روایت کا راوی ابوجعفرالمدائنی نہیں جو کہ ضعیف و مجروح ہے بلکہ یہ ابو جعفر عمیربن یزیدالخَطْمِی ہے جو کہ ثقہ ہے۔ اس کی ثقاہت درج ذیل ہے:
قال ابن معين والنسائي: ثقة، وذكره ابن حبان في الثقات وقال عبدالرحمن بن مهدي: كان أبو جعفر وأبوه وجده قوما يتوارثون الصدق بعضهم عن بعض.
قلت [ابن حجر]: وقال أبو الحسن ابن المديني: هو مدني قدم البصرة وليس لاهل المدينة عنه اثر ولا يعرفونه ووثقه ابن نمير والعجلي فيما نقله ابن خلفون وقال الطبراني في الاوسط: ثقة.
تہذیب التہذیب: ج5ص139رقم الترجمہ 2168
عمير بن يزيد بن عمير بن حبيب الأنصاري أبو جعفر الخَطْمِي بفتح المعجمة وسكون الطاء المدني نزيل البصرة صدوق من السادسة 4.
تقريب التہذيب: ج1ص432رقم الترجمۃ 5190
حدیث نمبر3:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم کی وفات ہوئی ، ان کی قبر کھودی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وہاں تشریف لے گئے، اپنے ہاتھ سے قبر کی مٹی نکالی۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان الفاظ سے دعا کی:
الله الذي يحيي ويميت وهو حي لا يموت اغْفِر لِأمِّي فاطمةَ بنتِ أسد ولَقِّنْها حُجَّتَها ووسِّعْ عليها مُدْخَلَها بحق نبيك والأنبياء الذين من قبلي فإنك أرحم الراحمين
(المعجم الکبیر للطبرانی: ج10، ص337 رقم الحدیث20324)
ترجمہ:اللہ کی ذات وہ ہے جو زندہ بھی کرتی ہے اور مارتی بھی ہے، وہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی، اے اللہ! میری ماں فاطمہ بنت اسد کی مغفتر فرما ، اس کو اس کی حجت (دلیل) سکھا دے (تاکہ وہ فرشتوں کو جواب دے سکے)اور اس پر اس کی قبرکو کشادہ کر دے اس حق کے وسیلے سے جو تیرے نبی کا (یعنی میرا) تجھ پر ہے اور جوان انبیاء علیہم السلام کا ہے جو مجھ سے پہلے ہیں۔
تصحیح الحدیث:
امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہما اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کی سند میں روح بن صلاح ہے۔ امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہما اللہ نے اس کی توثیق کی ہے۔
(مقالاتِ کوثری: ص380)
استدلال:
علامہ کوثری رحمہ اللہ (م 1371ھ)اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
و فیہ التوسل بذوات الانبیاء الذین انتقلوا الی الدار الآخرۃ
(مقالاتِ کوثری: ص380)
ترجمہ: اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہےکہ جو انبیاء علیہم السلام حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کا توسل جائز ہے۔
وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں"والأنبياء الذين من قبلي "وہ انبیاء جو مجھ سے پہلے ہیں]کے الفاظ ہیں جو مذکورہ توسل پر واضح دلیل ہیں۔
حدیث نمبر4:
امام ابو عبد اللہ الحاکم نے حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
لما اقترف آدم الخطيئة قال يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي فقال الله : يا آدم و كيف عرفت محمدا و لم أخلقه ؟ قال : يا رب لأنك لما خلقتني بيدك و نفخت في من روحك و رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلاَّأحب الخلق فقال الله : صدقت يا آدم إنه لأحب الخلق إليَّ اُدْعُني بحقه فقد غفرت لك و لولا محمد ما خلقتك
(المستدرک للحاکم: ج3ص517 باب استغفار آدم علیہ السلام بحق محمد صلی اللہ علیہ و سلم، المعجم الصغیر للطبرانی: ص82، ص83)
ترجمہ: جب حضرت آدم علیہم السلام سے خطاء صادر ہو گئی (یعنی وہ امر صادر ہو گیا جسے اس حدیث میں خطاء سے تعبیر کیا گیا ہے) توآپ نے عرض کی:اے رب! میں تجھ سے حق محمد ی کے وسیلہ سے اپنی بخشش مانگتا ہوں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) کو کیسے پہچانا؟ جب کہ میں نے انہیں ابھی پیدا ہی نہیں کیا۔ عرض کیا: اے رب! یہ اس لئے کہ جب تو نے مجھے اپنے دست ِ قدرت سے پیدا فرمایا اور اپنی جانب سے روح مبارک کو مجھ میں ڈالا، میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے ستونوں پر ((لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ)) لکھا ہوا دیکھا، تب میں نے جان لیا کہ تو اپنے پاک نام کے ساتھ کسی کے نام کا اضافہ نہیں فرماتا مگر اس ذاتِ گرامی کے نام نامی کا اضافہ فرماتا ہے جو مخلوقات میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے سچ کہا،بے شک وہ مخلوقات میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اسی کے وسیلہ سے مجھ سے دعا کیجیے۔ میں نےتجھے بخش دیا ہے اور اگر محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم ) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا ہی نہ کرتا۔
تصحیح حدیث:
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث صحيح الإسناد
(المستدرک للحاکم: ج3ص517 باب استغفار آدم علیہ السلام بحق محمد صلی اللہ علیہ و سلم)
ترجمہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اس سے توسل بالذات کا ثبوت ہوا۔ و للہ الحمد
حدیث نمبر5:
امام ابو عبد اللہ محمدابن سعد البصری (م230ھ) نے روایت نقل کی ہے:
عن سليم بن عامر الخبائري أن السماء قحطت فخرج معاوية بن أبي سفيان وأهل دمشق يستسقون فلما قعد معاوية على المنبر قال أين يزيد بن الأسود الجرشي قال فناداه الناس فأقبل يتخطى فأمره معاوية فصعد المنبر فقعد عند رجليه فقال معاوية اللهم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا وأفضلنا اللهم إنا نستشفع إليك بيزيد بن الأسود الجرشي يا يزيد ارفع يديك إلى الله فرفع يزيد يديه ورفع الناس أيديهم فما كان أوشك أن ثارت سحابة في المغرب وهبت لها ريح فسقينا حتى كاد الناس لا يصلون إلى منازلهم
(طبقات ابن سعد: ج7ص444 تحت: مائۃ رجل وسبعۃ نفر)
ترجمہ: سلیم بن عامر الخبائری سے روایت ہے کہ آ سمان سے پانی برسنابند ہوگیا، توحضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما اور اہل دمشق بارش کی دعا کرنے نکلے۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ منبر پر بیٹھے توفرمایا: یزید بن اسود رضی اللہ عنہ جرشی کہاں ہیں؟راوی کہتے ہیں: لوگوں نے انہیں پکارا، تو وہ آگے بڑھتے ہوئےتشریف لائے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں حکم فرمایا تو وہ منبر پر چڑھے اور نیچے کی طرف بیٹھے۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے دعا کی: اے اللہ !آج ہم لوگ تیری جانب اپنے بہترین اور افضل آدمی کی شفاعت طلب کرتے ہیں، اے اللہ! ہم آپ کی بارگاہ میں یزید بن اسود الجرشی کی ذات کوپیش کرتے ہیں، اے یزید! آپ اپنے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب اٹھائیں، حضرت یزید بن اسود نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور لوگو ں نے بھی اپنے ہاتھوں کو اٹھایا۔ جلد ہی مغرب کی جانب ایک بادل اٹھا اور اسے ہوا لے (کر ہماری جانب) اڑی، تب (بارش ہوئی اور) ہم لوگ ایسے سیراب ہوئے کہ لوگوں کا اپنے مکانوں تک پہنچنا تقریباً دشوار ہو گیا۔
مستدلین:
(1) امام ابو اسحٰق ابرا ہیم بن علی (م 476ھ)نے اس روایت کو ”المہذب“ کے ”باب الاستسقاء“ میں روایت کر کے استدلال کیا ہے۔
(المہذب مع شرحہ المجموع: ج6 ص100)
(2) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ(م 676ھ) نے اس واقعہ کو ثابت اور مشہور مانتے ہوئے امام ابو اسحاق ابراہیم بن علی کی تائید کی ہے۔
(المجموع شرح المہذب: ج6 ص101)
مذکورہ احادیث وآثار سے واضح ہوا کہ ذوات سے توسل کرنا جائز ہے۔
حدیث نمبر6:
امام ابو القاسم سلیمان بن احمدطبرانی رحمۃ اللہ علیہ (م360 ھ)نے ایک روایت نقل کی ہے:
عن أبي أمامة بن سهل بن حنيف عن عمه عثمان بن حنيف : أن رجلا كان يختلف إلى عثمان بن عفان رضي الله عنه في حاجة له فكان عثمان لا يلتفت إليه ولا ينظر في حاجته فلقي عثمان بن حنيف فشكا ذلك إليه فقال له عثمان بن حنيف ائت الميضأة فتوضأ ثم ائت المسجد فصلي فيه ركعتين ثم قل اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه و سلم نبي الرحمة
(المعجم الصغیر للطبرانی: ص183 من اسمہ طاہر)
ترجمہ:ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کام کے سلسلے میں آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (غالباً کسی مصروفیت کی وجہ سے) نہ تو اس کی طرف توجہ فرماتے اور نہ ہی اس کی حاجت براری کرتے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور اس بات کی شکایت کی تو انھوں نے فرمایاکہ وضو کی جگہ جا اور وضو کر، پھر مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ، پھر کہہ:اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله عليه و سلم نبي الرحمة [اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور بوسیلہ محمد صلی اللہ علیہ تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں جونبی الرحمۃ ہیں]
اس روایت کے آخر میں تصریح ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا اور دعا کی برکت سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کی تعظیم و تکریم بھی کی اور اس کا کام بھی پورا کر دیا۔
تصحیح حدیث:
1: امام طبرانی(م 360ھ) فرماتے ہیں:
و الحدیث صحیح
(المعجم الصغیر للطبرانی ج1 ص184)
ترجمہ: یہ حدیث صحیح ہے۔
2: علامہ منذری رحمہ اللہ (م 656ھ)بھی ان کی تائیدکرتے ہیں۔
(الترغیب و الترہیب: ج1 ص272 الترغیب فی صلاۃ الحاجۃ و دعائھا)
3:علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ(م 974ھ) فرماتے ہیں:
رواہ الطبرانی بسند جید
(حاشیہ ابن حجر المکی علی الایضاح فی المناسک للنووی: ص500)
ترجمہ: اس حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے سند جید کے ساتھ روایت کیا ہے۔
فائدہ:
یہ واقعہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کا ہے۔حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ اس دور میں یہ دعا سکھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا توسل سکھا رہے ہیں۔ معلوم ہوا کہ توسل بعد الوفات بھی جائز ہے۔
بحمداللہ تعالیٰ ان دلائل سے حضرات انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی ذوات سے توسل کرنا ثابت ہوگیا۔ وللہ الحمد
توسل کا ثبوت اجماع سے:
اس پر حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اور صالحین سے توسل جائز ہے۔
دلیل نمبر1:
جیسا کہ ماقبل میں گزرا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے:
أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ
(صحیح البخاری: ج1ص137 باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا)
ترجمہ: جب لوگ قحط میں مبتلا ہوتے تو عمر بن خطاب، عباس بن عبدالمطلب کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! ہم تیرے پاس تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لے کر آیا کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کرتا تھا، اب ہم لوگ اپنے نبی کے چچا (عباس رضی اللہ عنہ) کا وسیلہ لے کر آئے ہیں، ہمیں سیراب کر۔ راوی کا بیان ہے کہ لوگ سیراب کئے جاتے( یعنی بارش ہوجاتی)۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا ذکر کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
واتخذوه وسيلة إلى الله
(فتح الباری: ج2ص641 باب سوال الناس الامام الاستسقاء اذا قحطوا)
ترجمہ:حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے چچاحضرت عباس رضی اللہ عنہ کواللہ تعالیٰ کی جانب وسیلہ بناؤ۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اس قول وفعل میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر انکار نہیں کیا۔ گویا اس پر اجماع و اتفاق کر لیا۔
دلیل نمبر2:
اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین رحمہم اللہ کی موجودگی میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے توسل کرتے ہوئے بارش کی دعا کی:
اللهم إنا نستشفع إليك اليوم بخيرنا وأفضلنا اللهم إنا نستشفع إليك بيزيد بن الأسود الجرشي
(طبقات ابن سعد: ج7ص444 تحت: مائۃ رجل وسبعۃ نفر)
ترجمہ: اے اللہ !آج ہم لوگ تیری جانب اپنے بہترین اور افضل آدمی کی شفاعت طلب کرتے ہیں، اے اللہ! ہم آپ کی بارگاہ میں یزید بن اسود الجرشی کی ذات کوپیش کرتے ہیں۔
حاضرین میں سے کسی ایک نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس فعل مبارک پر انکار نہیں کیا۔گویا ذوات سے توسل کرنے کے جائز ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین رحمہم اللہ کااجماع ہو گیا۔
دلیل نمبر3:
علامہ محمد بن علی شوکانی (م1250ھ)نے اپنے رسالہ ”الدرالنضید فی کلمۃ اخلاص التوحید“ میں تصریح کی ہے:
و ثبت التوسل بغیرہ بعد موتہ باجماع الصحابۃ اجماعاً سکوتیاً .
(ص20)
کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد آپ کے غیر کا توسّل کرنا اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے۔
اقوال ِسلف اور مسئلہ توسل:
حضرات سلف صالحین مسئلہ توسل میں جواز کے قائل چلے آ رہے ہیں، ذیل میں ہم بعض حضرات کا کلام نقل کریں گے تا کہ معاندین و منکرین پر حجت پوری ہو جائے۔
خلیفۃ رابع حضرت علی کرم اللہ وجہہ (م40ھ)
عن أنس قال: "جاء أعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم وشكا إليه قلة المطر وجَدُوْبَةَ السنة فقال: يا رسول الله لقد أتيناك وما لنا بعير نِيْطَ ولا صبي يَصْطَبَحُ،"فمد رسول الله صلى الله عليه وسلم يده يدعو فما رد يده إلى نحره حتى استوت السماء بأرواقها وجاء أهل البُطَاحِ يَضِجُّونَ يا رسول الله الطرق، فقال: حوالينا ولا علينا، فانجلى السحاب حتى أحدق بالمدينة كالإكليل فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه وقال: "لله در أبي طالب لو كان حيا لقرت عيناه، من ينشدنا قوله،" فقام علي بن أبي طالب فقال: يا رسول الله لعلك أردت قوله:
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ****ثِمَالُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
(کنز العمال: ج8 ص204 باب صلاۃ الاستسقاء رقم الحدیث23544)
کہ حضرت انس رضی ا للہ عنہ سےروایت ہے کہ ایک اعرابی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور بارش کی قلت اور خشک سالی کی شکایت کی اور عرض کی یا رسول اللہ! ہم آپ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوئے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی جانور نہیں رہا اور نہ کوئی آواز نکالنے والا بچہ رہا تو آپ نے دونوں ہاتھ بلند فرمائےاور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ نیچے نہیں فرمائے تھے کہ بادل برسا اور کھل کربرسا۔ تو جن لوگوں کے گھر پانی میں ڈوب رہے تھے وہ آئے اور چیخ و پکار کرنے لگے اور عرض کی: یا رسول اللہ ! آمد و رفت کے راستے ختم ہوگئے تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا کی: اے اللہ! ہم پر بارش نہ برسا قریب والوں پر برسا تو بادل کھلا اور مدینہ کو اس طرح گھیر لیا جس طرح بہت کھانےوالا (کھانے کو گھیر لیتا ہے)۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم مسکرا دیے اور آپ نے فرمایا: ابو طالب کے کیا کہنے! اگر وہ آج زندہ وہتے توان کی آنکھیں ضرور ٹھنڈی ہوتیں، ہمیں ابو طالب کا شعر کون پڑھ کر سنائے گا؟اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا آپ کی مراد ان کا یہ شعر ہے:
وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ****ثِمَالُ الْيَتَامَی عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ
ترجمہ: آپ سفید (گندم گوں) ہیں، آپ کے چہرہ کے وسیلہ سے بارش مانگی جاتی ہے، آپ یتیموں کے فریاد رس ہیں، آپ بیواؤ ں کے نگہبان ہیں۔
اسے سن کر رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں میری مراد یہی تھی۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا (م58ھ)
عن ابی الجوزاء اوس بن عبد اللہ قال قحط اہل المدینۃ قحطا شدیدا فشکوا الی عائشۃ فقالت: انظروا الی قبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم فاجعلوا منہ کَوًّا الی السماء حتی لا یکون بینہ و بین السماء سقف قال: ففعلوا فمطرنا مطراًحتی نبعت العُشْب و سمنت الابل حتی تفتقت من الشحم فسمی عام الفتق۔
(سنن الدارمی: ج1ص56 باب ما اکرم اللہ تعالیٰ نبیہ بعد موتہ، رقم الحدیث 92)
ترجمہ: حضرت ابوالجوزاء اوس بن عبد اللہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے لوگ شدید قحط سالی میں مبتلا ہوئے۔ ان لوگو ں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں درخواست پیش کی توآپ رضی اللہ عنہانے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر مبارک کی طرف دیکھو(یعنی آپ کی قبر پر جاؤ)، پھر آسمان کی طرف ایک روشندان بناؤ کہ آپ کے اور آسمان کے درمیان چھت نہ رہے۔ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، تب بارش سے سیراب ہوئے حتیّٰ کہ سبز گھاس اگی، اونٹ اتنے موٹے ہوئے کہ گویا چربی سے پھٹے جا رہے ہوں۔ تو اس سال کو تنگی والا سال قرار دیا گیا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (م179ھ)
ایک مرتبہ خلیفہ منصور مدینہ منورہ آیا اور اس نے امام مالک سے دریافت کیا :
استقبل القبلۃ و ادعو ام استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم؟ فقال: و لم تصرف وجہک عنہ و ہو وسیلتک و وسیلۃ ابیک آدم علیہ ا لسلام الی اللہ یوم القیامۃ؟ بل استقبلہ وا ستشفع بہ فیشفعہ اللہ۔ قال اللہ تعالیٰ: و لو انہم اذ ظلموا انفسہم الایۃ
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ: ج2 ص26 الباب الثالث فی تعظیم امرہ و وجوب توقیرہ)
ترجمہ: میں قبر نبوی کی زیارت کرتے وقت دعا کرتے ہوئے قبلہ رخ ہوں یا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: اے امیر! آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے منہ کیوں موڑتے ہیں حالانکہ وہ تمہارے لیے اور تمہارے جد اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے روزِ قیامت وسیلہ ہیں ، بلکہ اے امیر! آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب متوجہ رہیے اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کے طلب گار رہیے، اللہ ان کی شفاعت قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ [م204 ھ]
امام ابوبکر احمد بن علی خطیب بغدادی علی بن میمون سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے سنا کہ:
اني لأتبرك بأبي حنيفة وأجيء إلى قبره في كل يوم يعني زائرا فإذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين وجئت إلى قبره وسألت الله تعالى الحاجة عنده فما تبعد عني حتى تقضى
( تاریخ بغداد للخطیب: ج1 ص101 باب ما ذکر فی مقابر بغداد الخ)
ترجمہ: میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے وسیلے سے برکت حاصل کرتا ہوں ہر روز ان کی قبر پر زیارت کے لیے حاضر ہوتا ہوں اور اس کے قریب اﷲ تعالیٰ سے حاجت روائی کی دُعا کرتا ہوں۔ اس کے بعد بہت جلد میری دعا پوری ہو جاتی ہے۔
علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ’’الخیرات الحسان‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: واضح رہے کہ علماء اور اہل حاجات ہمیشہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کرتے اور اپنی حاجات براری میں ان کا وسیلہ پکڑتے رہے ہیں۔ ان علماء میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل ہیں۔
(الخیرات الحسان: ص129)
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرات اہل بیت نبوی سے توسّل کرتے ہوئے یہ شعر فرمایا ہے، جسے علامہ ابن حجر الہیثمی نے نقل کیا ہے: شعر
اٰل النبی ذریتی وھم، الیہ وسیلتی *** ارجو بھم اعطٰی غدابید الیمین صحیفتی
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت اللہ تعالیٰ کی جانب میرا ذریعہ اور وسیلہ ہیں، اور میں امیدکرتا ہوں کہ ان ہستیوں کے وسیلہ سے کل (قیامت) کے دن اللہ تعالیٰ میرا صحیفہ مجھے داہنے ہاتھ میں دے گا۔
(الصواعق المحرقہ:ج2ص524)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (م241ھ)
علامہ یوسف بن اسماعیل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بارے میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے امام شافعی رحمہ اللہ کو وسیلہ بنایا تو ان کے بیٹے عبد اللہ کو تعجب ہوا، اس پر امام احمد بن حنبل نے فرمایا: امام شافعی رحمہ اللہ لوگوں کے لیے آفتاب اور بدن کے لیے صحت کی مانند ہیں۔
(شواہد الحق فی الاستغاثۃ بسیدالخلق: ص 166)
امام ابوعیسیٰ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (م279ھ)
آپ رحمہ اللہ نے ذوات ِ مسلمین سے توسّل کو جائز رکھا ہے۔ چنانچہ جامع الترمذی کے ابواب الجہاد میں سے ایک باب کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے:
باب ما جاء في الاستفتاح بصعاليك المسلمين.
(جامع الترمذی: ج1 ص299 کتاب الجہاد)
کہ یہ فقراء مسلمین کے وسیلہ سے مدد طلب کرنے کے بارے میں آئی ہوئی روایات کا باب ہے۔
پھر حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کی اس حدیث کوروایت کیا ہے:
سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول آبغوني ضعفاءكم فإنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم
ترجمہ: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےسنا کہ آپ فرما رہے تھے: مجھے اپنے ضعفاء میں ڈھونڈو کہ تم لوگوں کو اپنے ضعفاء ہی کی بدولت رزق دیاجاتاہے اور مدد کی جاتی ہے۔
امام محمد بن محمدالغزالی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ [م505ھ ]
آپ نے احیاء علوم الدین کے ” مدینہ منورّہ کی زیارت اور اس کے آداب “ کے باب میں فرمایا کہ زائر جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر آئے تو دیگر دعاؤں کے ساتھ یہ کلمات بھی کہے:
اللهم إنا قد سمعنا قولك وأطعنا أمرك وقصدنا نبيك متشفعين به إليك في ذنوبنا
(احیاء علوم الدین:ج1ص308)
ترجمہ۔اے اللہ! ہم نے آپ کا فرمان سنا اور آپ کے حکم کو مانااور اپنے گناہوں کی بخشش کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت طلب کرتے ہوئے آپ کا قصد کیا۔
امام نووی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ(م676ھ)
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ويستحب إذا كان فيهم رجل مشهور بالصلاح أن يستسقوا به فيقولوا : " اللهم إنا نستسقي ونتشفع إليك بعبدك فلان ". روينا في " صحيح البخاري " أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، كان إذا قحطوا استسقى بالعباس بن عبد المطلب. . . . وجاء الاستسقاء بأهل الصلاح عن معاوية وغيره.
(کتاب الاذکار للنووی: ص218 باب الاذکار فی الاستسقاء)
ترجمہ: یہ مستحب ہے کہ جب لوگوں میں کوئی آدمی پاکیزگی اورتقویٰ کے لحاظ سے مشہور ہوتو اس کے وسیلہ سے استسقاء کر یں اور یوں کہیں:
اللهم إنا نستسقي ونتشفع إليك بعبدك فلان
کہ اے اللہ ! ہم تیری جانب تیرے بندہ فلاں کے وسیلہ سے استسقاء کرتے ہیں اور ان کی شفاعت کی درخواست کرتے ہیں۔
جیسا کہ صحیح البخاری میں روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے استسقاء فرمایااسی طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ سے اہل خیر وپاکیزہ لوگوں کے وسیلہ سے استسقاء کرنا بھی آیا ہے۔
امام کمال الدین بن الہمام الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (م861ھ)
آپ رحمہ اللہ” باب زیارۃقبر النبی صلی اللہ علیہ و سلم “ میں فرماتے ہیں:
ثم يسأل النبي صلى الله عليه وسلم الشفاعة فيقول يا رسول الله أسألك الشفاعة يا رسول الله أسألك الشفاعة وأتوسل بك إلى الله في أن أموت مسلما عن ملتك وسنتك…….. ثم ينصرف متباكيا متحسرا على فراق الحضرة الشريفة النبوية والقرب منها
(فتح القدیر: ج3 ص169 و ص174 کتاب الحج، ا لمقصد الثالث فی زیارۃ قبر النبی )
ترجمہ: پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرے اور یہ کہے: یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں، یا رسول اللہ! میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے شفاعت کا سوال کرتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کے ہاں بطور وسیلہ پیش کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں مروں اور آپ کی سنتوں پر عامل ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوں۔۔۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قرب اقدس سے روتا ہوا اور جد ائی کا غم ساتھ لئے ہوئے واپس ہو۔
علامہ احمد بن محمد القسطلانی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ [م923ھ]
علامہ قسطلانی شافعی رحمہ اللہ نے ”المواہب اللدنیۃ“ میں لکھا ہے کہ:
و ینبغی للزائر ان یکثر من الدعاء و التضرع و الاشتغاثۃ و التشفع و التوسل بہ صلی اللہ علیہ و سلم
(المواہب اللدنیۃ: ج3ص417 الفصل الثانی فی زیارۃ قبرہ الشریف الخ)
ترجمہ: زائر کو چاہیے کہ بہت کثرت سے دُعا مانگے، گڑگڑائے، مدد چاہے، شفاعت کی دعا کرے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پکڑے۔
مسند الہند شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (م1176ھ)
اپنی مشہور زمانہ کتاب ”حجۃ اللہ البالغہ“ میں فرماتے ہیں:
ومن ادب الدعاء تقدیم الثناء علی اللہ و التوسل نببی اللہ لیستجاب
(حجۃ الله البالغۃ ج2ص6)
ترجمہ: اور دُعا کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تعریف اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ کو مقدّم کیا جائے تاکہ دُعا کو قبولیت کا شرف ہو۔
المہند علی المفند کا حوالہ:
علماءدیوبند کی اجماعی و متفقہ دستاویز ”المہند علی المفند“ میں تیسرا اور چوتھا سوال توسل کے متعلق تھا، حضرات علماء دیوبند کا متفقہ مسلک اس سوال و جواب میں ملاحظہ فرمائیں:
السوال الثالث والرابع: ھل للرجل ان یتوسل فی دعواتہ بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد الوفاة ام لا؟ ایجوزالتوسل عندکم بالسلف الصالحین من الانبیاء والصدیقین والشھداء واولیاءرب العالمین ام لا؟
الجواب: عندنا وعندمشائخنا یجوزالتوسل فی الدعوات بالانبیاء والصالحین من الاولیاء والشھداء والصدیقین فی حیاتھم وبعدوفاتھم بان یقول فی دعائہ اللھم انی اتوسل الیک بفلان ان تجیب دعوتی وتقضی حاجتی الی غیرذلک
(المہند علی المفند: ص36، 37)
ترجمہ:
تیسرااورچوتھا سوال:
کیا وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتوسل لینا دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں ؟ تمہارے نزدیک سلف صالحین یعنی انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور اولیاء اللہ کا توسل بھی جائز ہے یا ناجائز؟
جواب:
ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعا میں انبیاء ،اولیاء، شہداءاور صدیقین کا توسل جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور وفات کے بعد بھی، آدمی یوں دعاکرے: اے اللہ! فلاں بزرگ کے وسیلہ سے میری دعا قبول فرما اورمیری اس ضرورت کوپورافرما۔
تنبیہ:
”المہند علی المفند“کی اس دور کے مکہ مکرمہ ،مدینہ منورہ ودیگرعرب ممالک کے علماءکے ساتھ ساتھ اکابرین دیوبند مثلاًحضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ،مولانا مفتی عزیزالرحمٰن ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری ،مولانا محمداحمد قاسمی بن حضرت نانوتوی،مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا عاشق الٰہی میرٹھی اورمولانا محمد یحی سہارنپوری وغیرہ نے تائیدوتصدیق فرمائی تھی۔ گویا جوازِ توسل پر ان تمام حضرات اکابر ومشائخ کا اجماع و اتفاق ہے۔ و للہ الحمد
مسئلہ توسل اور غیر مقلدین:
غیر مقلدین حضرات میں سے بعض حضرات نے مسئلہ توسل کا انکار کیا ہے اور بعض اس کو ثابت مانتے ہیں۔ ذیل میں ہم ان کے کچھ علماء کا ذکر کرتے ہیں جو توسل کو جائز قرار دیتے ہیں۔
قاضی محمد بن علی شوکانی(م1250ھ )
غیر مقلدین کے پیشوا قاضی محمد بن علی شوکانی نے اپنی کتاب ”تحفۃ الذاکرین“ میں لکھتے ہیں:
ويتوسل إلى الله سبحانه بأنبيائه والصالحين أقول ومن التوسل بالأنبياء ما أخرجه الترمذي۔۔۔ من حديث عثمان بن حنيف رضي الله عنه۔۔۔ وأما التوسل بالصالحين فمنه ما ثبت في الصحيح أن الصحابة استسقوا بالعباس رضي الله عنه عم رسول الله صلى الله عليه وسلم
(تحفۃ الذاکرین:ص56)
ترجمہ: اللہ کی جانب اس کے انبیاء اور صالحین سے توسل کیا جائے گا، انبیاءعلیہم السلام سے توسل کرنے کے باب سے وہ حدیث ہے جسےامام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے حضرت عثمان بن حنیف سے روایت کیا ہے۔۔۔ صالحین سے توسل کرنے کے باب سے صحیح بخاری میں یہ حدیث موجودہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے استسقاء کیا۔
حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ والی حدیث کہ” ایک آدمی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس بار بار جاتا تھا الخ“ کوذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وفي الحديث دليل على جواز التوسل برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الله عز وجل
(تحفۃ الذاکرین:ص208)
ترجمہ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اللہ عزوجل کی جانب توسل کرنے کے جواز پر دلیل ہے۔
علامہ شوکانی نے اپنے رسالہ ”الدرالنضید“ میں یہ بھی کہا ہے:
ان التوسل بہ صلی اللہ علیہ و سلم یکون فی حیاتہ، و بعد موتہ، و فی حضرتہ، و مغیبہ
(الدر النضید: ص19، ص20)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم سےتوسل آپ کی حیات میں بھی ہوتا ہے، موت کے بعد بھی، آپ کے سامنے بھی، آپ کے پیچھے بھی۔
اس عبارت کو عبد الرحمٰن مبارکپوری غیر مقلد نے ”تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی“ (ج4ص282) میں بھی نقل کیا ہے۔
علامہ وحید الزمان غیر مقلد [م1338ھ ]
علامہ وحید الزمان اپنی کتاب ”ہدیۃ المہدی“میں لکھتے ہیں:
وقال الشوکانی من اصحابنا: لا وجہ لتخصیص جواز التوسل بالنبی کمازعمہ الشیخ عزالدین بن عبدالسلام والتوسل الی اللہ تعالیٰ باھل الفضل والعلم ھو فی الحقیقۃ توسل باعمالھم الصالحۃ ومزایاھم الفاضلۃ، وقال فی مقام اٰخر: لاباس بالتوسل بنبی من الانبیاء او ولی من الاولیاء او عالم من العلماء والذی جاء الی القبر زائرا ًاودعااللہ وحدہ وتوسل بذلک المیت کان یقول: اللھم انی اسالک ان تشفینی من کذا واتوسل الیک بھذا العبد الصالح، فھذا لاترددفی جوازہ انتھیٰ مختصراً
(ہدیۃ المہدی: ص48، 49)
ترجمہ: ہمارے اصحاب میں سے قاضی شوکانی نے کہا ہے کہ ”توسل کے جواز کو نبی (علیہ السلام) کے ساتھ خاص قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسا کہ عز الدین بن عبد السلام نے گمان کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی جانب اہل فضل اور اہل علم کے ذریعے توسل کرنا درحقیقت ان کے اعمال صالحہ اور ان کے اوصاف فاضلہ سے توسل کرنا ہے۔“ قاضی شوکانی ایک اور جگہ کہتے ہیں کہ ” انبیاء میں سے کسی نبی سے، اولیاء میں سے کسی ولی سے یا علماء میں سے کسی عالم سے توسل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جو بندہ قبر کے پاس آیا، اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس قبر والے سے اس طرح توسل کیا کہ اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ فلاں مرض سے مجھے شفاء بخش اور اہل صالح بندہ سے تیری جانب توسل کرتا ہوں، تواس کے جائز ہونے میں کوئی تردد نہیں ہے “انتہیٰ مختصراً۔
منکرین توسل کے شبہات جا ئزہ
شبہ نمبر1:
قرآن کریم میں ہے کہ مشرکین خدا کو چھوڑ کر دیگر چیزوں کی عبادت کرنے کی وجہ یہ بتاتے تھے:
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى
(سورۃ الزمر:3)
ترجمہ: ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں۔
کافروں کا بھی یہی وطیرہ تھا اور متوسلین بالذات بھی بزرگوں کا توسل اسی لیے لیتے ہیں کہ اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کریں، تو پھر اِن میں اور اُن میں کیافرق رہا؟
جواب:
اس آیت کریمہ میں ”نَعْبُدُهُمْ“ کی تصریح ہے اور غیر اللہ کی عبادت اور ان کو مصائب وحاجات میں براہ راست بلانے کا تذکرہ ہے جو شرکیہ عقائد کو متضمن ہے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ چھوٹے چھوٹے کام جوا ن کے اختیار میں ہیں وہ خود کریں گے اور بڑے کام جو ان کے اختیار میں نہیں تو اس کےلیے ہمارے سفارشی بنیں گے اور وسیلے میں یہ باتیں نہیں ہوتیں بلکہ وسیلہ میں مشکل کشا، عالم الغیب، متصرف الامور اللہ تعالیٰ ہی کو مانا جاتا ہے اور انبیاء اور اولیاء کو قبولیتِ دعا میں محض واسطہ سمجھا جاتا ہے۔ وسیلہ کی حقیقت کو سمجھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارے وسیلہ اور مشرکین کے طرزِ عمل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ارشاد: توسل کی حقیقت یہ ہے کہ اے اللہ! فلاں شخص میرے نزدیک آپ کا مقبول ہے اورمقبولین سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ رحمت ہے المرءمع من احب میں، پس میں آپ سے اس رحمت کومانگتا ہوں۔ پس توسل میں یہ شخص اپنی محبت کو اولیاءاللہ کے ساتھ ظاہر کرکے اس محبت پررحمت وثواب مانگتا ہے اوراولیاءاللہ کا موجب رحمت وثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ متحابین فی اللہ کے فضائل سے احادیث بھری ہوئی ہیں۔
(ملفوظات حکیم الامت: ج21ص48)
لہٰذا اس میں اور مشرکین کے طرزِ عمل میں بہت بڑا فرق ہے۔ دونوں کو ایک سمجھنا کم علمی ہے۔
شبہ نمبر2:
اللہ پر کوئی چیز واجب نہیں اور اس کے ذمہ کسی کا حق نہیں جیسا کہ مرقاۃ میں ہے
” ولا يجب على الله شيء خلافا للمعتزلة “
(مرقاۃ ج1ص237 کتاب الایمان)
لہذا ”بحق فلاں“ کہنا کیسے درست ہو گا؟!
اور صاحب ِ ہدایہ فرماتے ہیں:
ویکرہ ان یقول فی دعائہ بحق فلان او بحق انبیائک او رسلک لانہ لاحق للمخلوق علی الخالق
(ہدایۃ: ج4ص211)
جب کہ متوسلین ”بحق فلاں“ کے ذریعے توسل کے قائل ہیں
جواب :
جس طرح لفطِ ”حق“ وجوبی معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح ”تفضلی واستحسانی“ طورپر بھی استعمال ہوتا ہے، مثلاً:
1:قرآن مجید میں ہے:
” ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقّاً عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ “
(سورۃ یونس: 103)
ترجمہ: پھر ہم ( اس عذاب سے) اپنے پیغمبروں کو اور ایمان والوں کو بچالیتے تھے(جس طرح ان مؤ منین کو ہم نے نجات دی تھی) ہم اسی طرح سب ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں یہ (حسب وعدہ) ہمارے ذمہ ہے۔
2: ایک دوسرے مقام پر ہے:
” وَكَانَ حَقّاً عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ “
(سورۃ الروم:47)
ترجمہ: اور ایمان والوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ تھا۔
3: حدیث مبارک میں ہے :
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من قال حين يمسي رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا كان حقا على الله أن يرضيه
(جامع الترمذی: ابواب الدعوات- باب الدعا اذا اصبح و اذا امسیٰ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شام کے وقت یہ دعا پڑھے: ” رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا“ تو اللہ کے ذمہ ہے کہ اسے (قیامت کے دن) راضی کرے۔
ہمارا اہل السنت والجماعت کا نظریہ ہےکہ کوئی چیز اللہ پر واجب نہیں۔ اس لیے ہم وسیلہ میں”حق“ کو تفضلی معنیٰ استعمال کرتے ہیں نہ کہ وجوب کے معنیٰ میں۔ فقہاء کرام نے بھی جہاں اس دعا ءِ وسیلہ کو مکروہ لکھا ہے جس میں”حق“ بمعنیٰ وجوبی ہے جس کی طرف ”لاحق للمخلوق علی الخالق “سے اشارہ ملتا ہے۔
لہذا اللہ پر حق وجوبی کا عقیدہ رکھتے ہوئے دعا میں بحق فلاں کا لفظ استعمال کرنا مکروہ ہے اور حق سے مراد غیر وجوبی یعنی تفضلی واستحسانی کے ساتھ دعا کرنا بلا کراہت جائز ہے۔
شبہ نمبر 3:
اللہ کادربار ہر وقت کھلا ہے۔ اللہ خود فرماتے ہیں
﴿وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي﴾
[سورۃ البقرۃ: 186]
لیکن قائلین توسل براہِ راست خدا سے عرض و معروض کرنے کی بجائےان بزرگوں کے واسطوں اور وسیلوں کے قائل بنتے ہیں۔
جواب نمبر1:
یہ سوال اس وقت ہو سکتا ہے جب غیر اللہ سے مانگا جائے اور وسیلہ میں غیر اللہ سے نہیں مانگا جاتا بلکہ انبیاء اور اولیا کے وسیلہ سے خدا مانگا جاتا ہے کیونکہ اس طرح دعا کی قبولیت میں اثر ہوتا ہے کہ وہ دعا جو وسیلہ سے مانگی جائے جلد قبول ہوتی ہے۔
جواب نمبر2:
ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ توسل بالذات کے بغیر دعا قبول ہی نہیں ہوتی بلکہ ہمارا موقف یہ ہے کہ توسل کو دعاکے قبول ہونے میں دخل ہے، جیسے زمان، مکان اور افراد کے بدلنے سے قبولیت دعا کی سرعت میں فرق آنا ظاہر ہے۔ مثلاً
٭ عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ الدُّعَائِ اَسْمَعُ قَالَ جَوْفُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُوَدُبُرَالصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ۔
(جامع الترمذی ج 2ص187 باب بلا ترجمۃ ابواب الدعوات ،السنن الکبریٰ للنسائی ج6 ص32 ما یستحب من الدعاء دبر الصلوات المکتوبات)
ترجمہ: حضرت ابو مامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رات کے آخر میں اور فرض نمازوں کے بعد۔
٭ بیت اللہ میں دعا کرنا اجابت کے زیادہ قریب ہے بنسبت عام مسجد اور اپنے گھر میں دعا کرنے سے۔
٭ بنی اور ولی دعا کرے تو اس کی قبولیت بنسبت عام آدمی کے زیادہ ہے۔
جواب نمبر3:
اگر توسل بالذات شرک ہے، جائز نہیں کیونکہ اللہ کا دربار ہر وقت کھلا رہتا ہے کسی کے واسطے کی ضرورت نہیں تو پھر ہم قائلین توسل بالدعاء و الاعمال سے پوچھتے ہیں کہ اس دلیل کی بناء پر توسل بالاعمال بھی ٹھیک نہ ہونا چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ کے دربار میں واسطہ جائز نہیں تو پھر اعمال پیش کرنے کی ضرورت کیا ہے؟! لہذا جس توسل بالاعمال جائز ہے اسی طرح توسل بالذات بھی جائز ہے.


No comments:

Post a Comment