Sunday, 4 October 2015

میں آپ جیسا بننا چاہتا ہوں

ایک مرتبہ یہ عاجز کسی ائر پورٹ پر فلائٹ کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ایک نوجوان سامنے سے گزرا۔وہ شراب پی رہا تھا۔ایک مرتبہ تو وہ سامنے سے گزر گیا۔تھوڑی سی دور جا کر وہ پھر لوٹا اور آکر مجھے ہیلو ہائے کرنے کے بعد کہنے لگا،
میں آپ جیسا بننا چاہتا ہوں
جب میں نے اسے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں شراب کی بوتل بھی ہے تو میں یہ سمجھا کہ اس کو یہ پگڑی اور لباس اچھا لگا ہو گا۔۔۔۔ہم سے جب باہر ملک میں لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ نے یہ لباس کیوں پہنا ہوا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ "کیوٹ " لباس ہے۔ان کافروں کو ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ سنت ہے کیونکہ کیا پتہ کہ وہ آگے سے کیا بکواس کر دیں۔اور کیوٹ والا ایسا لفظ ہے کہ جب ہم ان کو جواب میں یہ کہتے ہیں تو وہ آگے بول ہی نہیں سکتے۔
حیر جب اس نے کہا کہ میں آپ جیسا بننا چاہتا ہوں تو میں نے اس سے کہا،
کیا آپ یہ پگڑی اور سفید لباس پسند کرتے ہیں؟
وہ کہنے لگا،
نہیں ، میں آپ کی طرح اس لئے بننا چاہتا ہوں کہ مجھے آپ کے چہرے پر نور نظر آرہا ہے۔
جب اس نے یہ الفاظ کہے تو مجھے فوراً احساس ہوا کہ کیا پتہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔چنانچہ میں نے اس سے کہا،
اے بھائی ! آپ تو مجھ سے بھی بہتر بن سکتے ہیں
وہ کہنے لگا
میں نے کہا
جی ہاں
وہ کہنے لگا،
ٹھیک ہے میں ابھی آرہا ہوں
وہ یہ کہہ کر سامنے واش روم میں چلا گیا۔اس نے میرے دیکھتے ہی شراب کی بوتل پھینکی اور واش بیسن پر کلی کرکےچہرہ دھویا۔وہ تازہ دم ہو کر دوبارہ میرے ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ کہنے لگا
کیا میں آپ کو اپنا تعارف کراؤں؟
میں نے کہا جی کرائیں۔
اب اس نے اپنا تعارف کرایا کہ میرا یہ نام ہے اور میں نے ٹوکیو(جاپان) کی یونیورسٹی سے ایم ایس سی کمپیوٹر سائنسز کیا ہوا ہے اور میں اس وقت فلاں بڑی کمپنی کے اندر منیجر ہوں۔اس نے پھر وہی بات دوہرائی کہ
میں آپ جیسا بننا چاہتا ہوں
میں نے بھی کہا
آپ تو مجھ سے بھی بہتر بن سکتے ہیں۔
وہ کہنے لگا ، یہ کیسے ممکن ہے جبکہ میں نوجوں ہوں۔
میں نے کہا ، تو کیا ہوا؟نوجوان ہی تو بن سکتے ہیں۔
وہ کہنے لگا ، نہیں ، میں آپ کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میری شخصیت کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ میں کتنا خوبصورت ہوں، میرا عہدہ اور تنخواہ بھی آپ کے سامنے ہے مجھے اس ملک میں ہر دن کہیں نہ کہیں سے گناہ کی دعوت ملتی ہے اور میں "ان" کا مہمان ہوتا ہوں آج ادھر عیاشی کر رہا ہوتا ہوں کل اُدھر، میرے گاہک نت نئے ہوتے ہیں، جب معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے تو مجھے بتائیں کہ میں گناہ سے کیسے بچ سکتا ہوں۔
میں کہا بھئی اگر آپ کے لئے گناہوں سے بچنا مشکل ہے تو اللہ تعالیٰ کے لئے تو آپ کو گناہوں سے بچادینا آسان ہے۔
وہ کہنے لگا ، ہاں ، یہ تو ہے۔
میں نے کہا، ہم نے گناہوںسے بچنے کے لئے اپنے بڑوں سے ایک نسخہ سیکھا ہو ہے، میں آپ کو وہ سکھا دیتا ہوں ، پھر اس کی برکت خود دیکھنا۔
وہ کہنا لگا جی بتائیں۔
میں نے اسی جگہ پر بیٹھے ہوئے اس آدمی کو بیعت کے کلمات پڑھائے اور اس کو مراقبہ کرنے کا طریقہ بتایا۔اس نے کہیں اور جانا تھا اور میں نے کہیں اور۔البتہ ہم نے ایڈریس ایکسچینج کر لیا۔
اللہ کی شان کہ تین ماہ بعد اس نوجوان نےانگلش میں خط لکھا۔اس خط کو میں نے محفوظ کیا ہوا ہے۔اس نے اس خط میں دو باتیں لکھی:
٭۔۔۔۔پہلی بات یہ لکھی کہ"میں پانچ وقت کی نماز تو پڑھتا ہی ہوں ، کبھی کبھی تہجد کی نماز بھی مل جاتی ہے"۔
٭۔۔۔۔دوسری بات یہ لکھی کہ"میں اس بات پہ حیران ہوں کہ میں گناہوں کے سمندر میں رہتے ہوئے گناہوں سے بچا ہوا کیسے ہوں؟"
میں نے اس کو جواب میں لکھا کہ
"ہمارے بڑوں کی دعائیں ہمارے گرد پہرہ دیا کرتی ہیں"۔
دور بیٹھا کوئی تو دعائیں دیتا ہے
میں ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے
 افادات: حضرت مولانا شیخ ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم
http://shaykhzulfiqarahmad.blogspot.in/

No comments:

Post a Comment