Saturday, 3 October 2015

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہاشمی خاندان کے حسین وجمیل نوجوان تھے، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شکل وصورت اور عادات واطوار کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
” کہ تم شکل وصورت اور عادت و اطوار کے اعتبار سے میرے مشابہہ ہو“۔
8 ہجری ماہِ جمادی الاوّل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر ترتیب دیا جو صرف تین ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا، آپ نے لشکر کی قیادت حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا،
اگر اسے شہید کردیا جائے تو امیر لشکر جعفربن ابی طالب ہوگا۔
اگر اسے بھی شہید کردیا گیا تو امیر لشکر کے فرائض عبداللہ بن ابی رواحہ سرانجام دیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاﺅں کے ساتھ اس لشکر کو الوداع کیا۔ مجاہدین جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار ہوکر منزل مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔ لشکر اسلام نے سرزمین شام کے سرحدی علاقے بلقاءکے قریب موتہ بستی میں پڑاﺅ کیا، یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ شاہ روم قیصر دو لاکھ افراد پر مشتمل مسلح فوج لے کر مقابلے کےلئے پیش قدمی کرتے ہوئے بلقاءکی مشارف نامی بستی میں خیمہ زن ہوچکا ہے۔ مجاہدین یہ صورتحال دیکھ کر حیران ہوئے، باہمی مشاورت کے بعد کہنے لگے ہم صرف تین ہزار ہیں، جبکہ دشمن فوج دولاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مجاہد کو تقریباً ستر افراد کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بعض نے مشورہ دیا کہ ہمیں لڑائی شروع کرنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نازک ترین صورت حال سے آگاہ کردینا چاہئے۔ پھر آپ کی طرف سے جو حکم ملے اس پر عمل کیا جائے۔ اس موقع پر حضرت عبداللہ بن رواحہ جذبہ ایمان سے سرشار ہوکر فرمانے لگے،
میرے مجاہد بھائیو گھبرانے کی کیا بات ہے؟ ہمارے لئے ہر صورت میں کامیابی ہے۔ فتح پالی تو غازی بن کر لوٹیں گے۔ اگر شہید ہوگئے تو سیدھے جنت میں جائیں گے۔ ہمیں بے دریغ دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اس لئے تو ہمیں یہاں بھیجا گیا ہے۔
مجاہدو! اب لڑے بغیر واپسی کا خیال دل سے نکال دو، تمہیں اس سے کیا غرض کہ دشمن کی تعداد زیادہ ہے یا کم، اللہ ہمارا حامی وناصر ہوگا، فتح ونصرت اس کے قبضہ قدرت میں ہے، یہ باتیں سن کر مجاہدین کے حوصلے بلند ہوئے۔
لشکر اسلام کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ دائیں جانب قطبہ بن قتادہ کو سونپی گئی۔ بائیں جانب عبادہ بن مالک انصاری کو سپرد کی گئی۔ مقدمة الحبیش کا کمانڈر زیدبن حارثہ کو بنایا گیا۔ اس کے پیچھے متصل جعفربن ابی طالب کو کھڑا کیا گیا، اور اس کے ساتھ عبداللہ بن رواحہ کو متعین کیا گیا۔ دونوں لشکر آپس میں ٹکراگئے، گھمسان کا رن پڑا۔ تیروں، تلواروں اور نیزوں کی جھنکار، گھوڑوں کی ہنہناہٹ زخمیوں کی چیخ وپکار اور مجاہدین کے نعرہ تکبیر سے میدان جنگ گونج رہا تھا۔ امیر لشکر زیدبن حارثہ رضی الللہ عنہ پر یکبارگی تیروں کی بوچھاڑ ہوئی تو جسم سے خون کے فوارے پھوٹنے لگے۔ آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے تو جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کا جھنڈا تھام لیا۔ اپنی تیز رفتار گھوڑی کی ٹانگیں کاٹ دیں کہ کہیں یہ دشمن کے کام نہ آسکے۔ برق رفتاری سے لڑائی لڑنے لگے۔ جوش وجذبے کی علامت بنے ہوئے بار بار یہ کہہ رہے تھے۔
واہ واہ جنت اور اس کا قرب، صاف ستھرا اور ٹھنڈا مشروب، رومیوں کےلئے عذاب آچکا، مجھ پر فرض ہے کہ جب ان سے ملوں تو ان کی گردنیں اڑاتا چلا جاﺅں۔
یہ کہتے ہوئے بڑے جوش وجذبے کے ساتھ رومیوں کی گردنیں اڑا رہے تھے کہ موقع پاکر ایک رومی فوجی نے بڑے زور سے ان کے دائیں بازو پر تلوار کا وار کیا۔ جس سے ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا۔ انہوں نے فوری طور پر جھنڈا اپنے بائیں ہاتھ میں تھام لیا۔ تھوڑی دیر بعد اس پر وار ہوا تو وہ بھی کٹ گیا۔ تو جھنڈا بازوﺅں میں تھام لیا۔ اسے سرنگوں نہیں ہونے دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ایک دشمن نے آپ کی کمر پر تلوار کا زور دار وار کیا۔ جس سے ان کا جسم کٹ کر دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ اس طرح امیر لشکر حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ جام شہادت نوش کرتے ہوئے جنت الفردوس میں جامقیم ہوئے۔
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ موتہ میں، میں بھی شریک تھا۔ ہم نے جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو تلاش کیا تو ان کا جسدخاکی خون میں لت پت شہداءکی لاشوں میں پڑا ہوا پایا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کے جسم پر تیروں، نیزوں اور تلواروں کے تقریباً نوے گہرے زخم لگے ہوئے تھے، اور یہ سب کے سب زخم سینے کی جانب تھے۔ پیٹھ پر کوئی زخم نہیں تھا۔
(بحوالہ بخاری شریف)
پھر شاہِ امم سلطانِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی قیادت سنبھالی یہ بھی داد شجاعت دیتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے، اس کے بعد قیادت کے فرائض حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئے۔ انہوں نے قیادت سنبھالتے ہی لشکر کی ترتیب فوری طور پر بدلنے کا حکم دیا۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے مجاہدین برق رفتاری سے اپنی جگہیں بدلنے لگے تو یہ ہلچل دیکھ کر دشمن کے اوسان خطا ہوگئے۔ ان کے دلوں میں خوف وہراس پیدا ہونے لگا۔ وہ سوچنے لگے کہ یکدم تبدیلی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید کوئی نئی کمک پہنچ گئی ہے۔ ان کے قدم ڈگمگانے لگے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کا یہ پہلا معرکہ تھا۔ جس میں انہوں نے دشمن پر تابڑ توڑ حملے کرتے ہوئے نو تلواریں توڑیں اور یہ جنگی تاریخ کا ایک منفرد اور انوکھا کارنامہ ہے۔ اس معرکے میں انہیں لسانِ رسالت سے سیف اللہ کا لقب ملا۔
وہ اس طرح کہ جب جنگ موتہ پورے شباب پر تھی تو اللہ رب العزت نے جنگ کا منظر اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف کردیا۔ آپ نے اہل مدینہ کو مسجدنبوی میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ اطلاع ملتے ہی سب لوگ فوری طور پر مسجد میں جمع ہوگئے۔ آپ منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ حمدوثناءکے بعد آپ نے ایسے انوکھے اسلوب میں خطاب کا آغاز کیا، جیسے کہ آپ جنگ کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: لوگو! وہ دیکھو گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے، مقابلہ بہت سخت ہے، لشکر اسلام کے مجاہدین اپنی جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ وہ دیکھو امیر لشکر زیدبن حارثہ جام شہادت نوش کر گئے۔ اللہ اسے جنت نصیب کرے۔ میں اس کےلئے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔
اب لشکر اسلام کا جھنڈا ہاشمی خاندان کے چشم وچراغ جعفربن ابی طالب نے تھام لیا۔ اس کا دایاں ہاتھ کٹ گیا، اب بایاں ہاتھ کٹ گیا، اب جسم دو ٹکڑے ہوا اور زمین پر گرگئے۔ شہادت کا جام پی لیا۔ جنت میں اپنا مقام بنالیا۔ میں اس کےلئے مغفرت کی دعا کرتا ہوں۔ اب لشکر اسلام کی قیادت عبداللہ بن رواحہ نے سنبھال لی۔ اس کے بعد آپ خاموشی کے ساتھ دیکھنے لگے۔ حاضرین کو یوں محسوس ہورہا تھا، جیسے آپ بڑے غور سے کوئی منظر دیکھ رہے ہیں۔ پھر اچانک لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: لو وہ بھی شہید ہوگئے۔ اب مجھے یوں دکھائی دے رہا ہے کہ فرشتے ان تینوں شہداءکو سونے کی چارپائیوں پر رکھ کر جنت کی طرف لے جارہے ہیں۔ سُبحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمدِہ سُبحَانَ اللّٰہِ الَظِیمِ۔
اب لشکر اسلام کی قیادت اللہ کی تلوار خالدبن ولید کے ہاتھ میں ہے۔ وہ لشکر اسلام کو دشمن کے نرغے سے بسلامت نکال کر واپس لوٹ رہے ہیں۔ آپ نے جنگ کی منظر کشی اس انداز میں کی جیسے آپ بچشم خود لڑائی کو دیکھ رہے ہیں۔
شاہِ امم سلطانِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جنگ کا کشف ہوگیا۔ لہٰذا آپ سینکڑوں میل دور لڑی جانے والی جنگ کی لمحہ بہ لمحہ روئیداد مدینہ منورہ میں موجود لوگوں کو سنا رہے تھے۔ خطاب سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جعفربن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔
آپ نے دیکھا کہ اس کی بیوی اسماءبنت عمیس اپنے بچوں کو نہلادھلا کر انہیں اجلے اور صاف شفاف کپڑے پہنا رہی ہے۔
حضرت اسماءبنت عمیس رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ جب میں نے رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں قدم رنجا فرماتے ہوئے دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہاءنہ رہی۔ آپ اندر تشریف لے آئے۔ بچوں کو اپنے پاس بلایا۔ انہیں اپنی گود میں بٹھایا، سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرنے لگے میں نے دیکھا کہ آپ کا چہرہ افسردہ ہے۔ آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے ہیں، میں گھبرا گئی، دل تھام کر پوچھا... یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیر تو ہے کیا ہوا؟ آپ نے آنسو بہاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
اسماءگھبراﺅ نہیں، میں نے جعفربن ابی طالب کو دیکھا ہے کہ وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ محوپرواز ہے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ آلِ جعفر کےلئے کھانا تیار کرو۔ کیونکہ وہ آج غم میں مبتلا ہیں۔

No comments:

Post a Comment