رمضان المبارک کا آخری جمعہ
رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو کسی بھی طرح کی کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ اس دن کے روزے کا دوسرے دنوں کے روزے کی بہ نسبت زیادہ ثواب ہے۔ رمضان کے آخری جمعہ کو الوداعی جمعہ سمجھنا، برتنا اور اس پہ حسرت و افسوس کا اظہار کرنا یا اس دن نئے کپڑے، نئے قسم کے کھانے یا کسی خاص عبادت کا اہتمام کرنا بالکل ہی جاہلانہ تصور ہے.
دین سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کرام سے ایسا کچھ بھی ثابت نہیں ہے.
رمضان کے ہر روزہ کے افطار کے وقت اور خصوصا عید الفطر کے دن روزہ داروں کے لئے مسرت وشادمانی کا وقت ہے:
{وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ. صحيح البخاري: 7054}
پھر رمضان کے آخری جمعے میں حسرت و افسوس کا اظہار کرنا یا جمعہ کے خطبہ میں ”الوداع الوداع” یا ”الفراق الفراق یا شھر رمضان” جیسے کلمات پڑھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے؟
رمضان تو ہر سال آتا ہے اور آئے گا! اس کے انوار وبرکات کی فصل بہاراں ہر سال لگے گی!
رحمتوں کی بارش ہر سال برسے گی، پھر اسے الوداع کہنے کا کیا مطلب ہے؟
ہجرت کے دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا اور آخری حج ادا فرمایا اس لئے اس حج کو “حجة الوداع” کہتے ہیں۔ لیکن آپ کے آخری رمضان کے آخری جمعہ کو “جمعة الوداع” اور آپ کی آخری نماز کو “صلوة الوداع” نہ آپ نے خود کہا، نہ کسی صحابی نے کہا، نہ تابعی نے، نہ متقدمین ومتاخرین میں سے کسی امام مجتہد نے۔ لہذا رمضان کے آخری جمعہ کے لئے وداعی جمعہ کا تصور اور اس موقع سے اظہار افسوس کے کلمات واشعار یا اس دن کسی مخصوص عبادت وثواب یا لباس کا اہتمام والتزام غیر شرعی سوچ اور دین میں نئی بات کا اضافہ ہے جو بہر حال قابل ترک ہے۔
شکیل منصور القاسمی
23 رمضان 1439 ہجری
No comments:
Post a Comment