Thursday, 7 June 2018

برصغیر ہند، پاک میں عیدالفطر 16 جون کو ہونے کا امکان

برصغیر ہند، پاک میں عیدالفطر 16 جون کو ہونے کا امکان
برصغیر ہند، پاک میں عیدالفطر 16 جون کو ہونے کا امکان ہے جبکہ جنوبی ہند میں 15 جون کو عید ہوسکتی ہے. شوال المعظم کے چاند کی پیدائش عالمی معیاری وقت کے مطابق بروز بدھ 13 جون 2018 کو 19 بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب 12:43 پر ہوگی۔ شعبہ فلکیات جامعة الرشيد کے مطابق پورے ایشیا سمیت اکثر دنیا میں 13 جون کی شام چاند، سورج سے پہلے غروب ہوجائے گا یا اس کی سطح الارضی ولادت ہی غروبِ آفتاب کے بعد ہوگی. 
جمعرات 14 جون بمطابق 29 رمضان کے چاند کے احوال:
اکثر قدیم وجدید تحقیقات کے مطابق اس روز 60 عرضِ شمالی وجنوبی کے مابین جن علاقوں میں چاند نظر آنے کا بالکل واضح امکان ہے وہ یہ ہیں:
(1) اکثر وسط مغربی افریقہ
(2) اکثر جنوبی امریکہ
(3) پورا وسطی امریکہ
(4) اکثر ریاست ہائے متحدہ امریکہ
برنارڈ یالپ برطانیہ اور ICOP کے بانی شوکت عودہ اردن وغیرہ نے 60 عرضِ شمالی و جنوبی کے مابین جن علاقوں میں خالی آنکھ (Naked eye) سے چاند نظر آنے کا معمولی یا انتہائی معمولی امکان ظاہر کیا ہے، وہ یہ ہیں:
(1) جنوبی ایشیا کا کافی حصہ بشمول انتہائی جنوبی پاکستان و جنوبی ہند
(2) اکثر افریقہ
(3) انتہائی جنوب مغربی یوروپ
(4) اکثر کینیڈا
اس روز پاکستان میں چاند نظر آنے کے بارے میں خصوصی تفصیل یہ ہے: 
اکثر معیاراتِ رؤیتِ ہلال حتیٰ کہ ملائیشیا کے ڈاکٹر الیاس کے تینوں معیارات کے مطابق اس روز پاکستان میں چاند نظر آنے کا امکان نہیں جبکہ بعض معیارات کے مطابق صرف انتہائی جنوبی پاکستان میں اس روز چاند نظر آنے کا امکان تو ہے لیکن انتہائی معمولی و مشتبہ سا. 11 سال میں اس 29 رمضان جیسے 42 ناقص الاحوال چاند گزرے ہیں جو شعبہ فلکیات جامعة الرشيد 
کے نمائندوں کو کبھی نظر نہیں آئے اور یہ چاند محکمہ موسمیات کے معیار رؤیت ہلال سے بھی ناقص ہے. الغرض جمعرات 29 رمضان 14 جون کو پاکستان میں چاند نظر آنے کا امکان تقریباً نہیں۔ جس علاقے میں بھی لوگ ایسا ناقص چاند دیکھنے کا دعویٰ کریں اور وہاں کی رویت ہلال کمیٹیوں کے ذمہ داران ان گواہوں کو معتبر جان کر چاند نظر آنے کا فیصلہ کردیں تو انہیں چاہئے کہ وہ گواہوں کے نام ،مقام، تعداد اور ا ن سے پوچھے گئے سوالات پر مشتمل اپنے فیصلے کی تحریری تفصیل شائع فرمائیں تاکہ عالمی سطح پر کام کرنے والے ماہرین فقہ و فلکیات فیصلے کے مندرجات پر غور کرکے اپنی تحقیق میں مزید بہتری لاسکیں یا فیصلہ کرنے والوں کو پتا چل جائے کہ گواہی دینے والے غلظ فہمی یا غلظ بیانی میں مبتلا تھے۔
لہذا ہند، پاک میں عید الفطر ان شااللہ 16 جون بروز ہفتہ کو ہونے کا زیادہ امکان ہے.
رمضان المبارک کے چاند کے متعلق مکمل تحقیق:
ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس کے تقاضوں سے غافل نہیں ہوسکتے چونکہ سائنس دانوں نے اجرام سماویہ میں سے اکثر کی حرکات وسکنات کو ناپا ہوا ہے اور بارہا مشاہدات سے اس کی صحت بھی ثابت ہوچکی ہے لہذا اس کی تحقیق کے لئے کہ چاند واقعی نظر آیا تھا یا نہیں رؤیت کی گواہی کا فنی تجزیہ ضروری ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور اگر چاند نظر آگیا ہوتو اس پر عمل ہوسکے اور اگر نظر نہیں آیا اور کسی کو وہم ہوا ہے تو اس کی غلطی سے پوری قوم کو غلطی میں مبتلا نہ کیا جائے۔ اس مسئلے کی تحقیق کرنے والے احباب کو یہ تفصیلی فتویٰ ضرور پڑھنا چاہئے۔

شوال المکرم کے چاند کے متعلق مکمل تحقیق قابل غور ہے. سورج اور چاند کے ایک سیدھ میں آجانے کا وقت ولادت قمر چاند کی پیدائش New Moon یا اجتماع شمس و قمر Conjunction کہلاتا ہے اور اس حالت کو ’حالت محاق‘ کہا جاتا ہے۔ ولادت قمر کے بعد گزرنے والا وقت ’چاند کی عمر‘ کہلاتا ہے
عین ولادت کے وقت چاند کی عمر صفر ہوتی ہے۔
ولادت قمر کے وقت چاند کا جو نصف تاریک حصہ ہماری طرف پوتا ہے ہمیشہ وہی حصہ زمین کی طرف رہتا ہے اس کا روشن نصف حصہ ہمارے بالمقابل دوسری جانب ہوتا ہے اسی وجہ سے چاند ہمیں نظر نہیں آتا یہ اجتماع ہر قمری ماہ کے آخری ایک دو دن مین ہوتا ہے چاند یکم کے بعد آہستہ آہستہ آفتاب سے بطرف مشرق دور ہوتا جاتا ہے تو ہمیں اس کا چمکتا ہوا کنارہ نظر آتا ہے وہی کنارہ ’ہلال‘ کہلاتا ہے۔
پھر اس کے روشن حصے کی مقدار بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ چودھویں کا چاند بن جاتا ہے پھر گھٹنے لگتا ہے یہی صورت حال ہر مہینے رہتی ہے۔
نئے چاند کے نظر آنے کےلئے دو بنیادی شرط ہیں:
۱۔ چاند کی ولادت ہوگئی ہو۔
۲۔ چاند افق پر موجود ہو۔
اگر چاند کی ولادت ہی نہیں ہوئی یا چاند غروب ہوگیا ہو تو ایسی صورت میں اسے دیکھنے کا دعوٰی باطل ہے۔
ولادت قمر کے بعد اگر چاند افق پر موجود ہو تو وہ برہنہ آنکھ Naked Eye سے نظر آنے کے قابل کب ہوگا ؟؟ اس بارے میں ماہرین فلکیات کی آرا مختلف ہیں ۔
تمام ماہرین فلکایت کے الگ الگ معیارات Standards ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر چاند نظر آنے کی پیش گوئی کی جاتی ہے اسی طرح پوسٹ کے نقشے میں دیا گیا یہ مشاہداتی قوس Visibility Curve بھی مشہور ماہر فلکیات اور Moonsighting.com کے بانی ’’جناب خالد شوکت صاحب‘‘ کے معیار اور تحقیق کے مطابق بناگیا ہے اسی طرح دوسرے ماہرین فلکیات کے بھی اس طرح کے نقشے مل جاتے ہیں جن میں الگ الگ علاقوں میں چاند کے احوال کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔ چاند کے برہنہ آنکھ سے نظر آنے کے ماہرین کے ڈیڑھ درجن سے زائد معیارات جامعہ الرشید کے شعبہ فلکیات کے رئیس مولانا سلطان عالم صاحب نے اپنی کتاب ’تسہیل رویت ہلال‘ میں صفحہ نمبر 55 میں ذکر کئے ہیں۔ 

مسئلہ ذرا غور طلب ہے:
ابھی تک بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چاند کے طلوع و غروب کے اوقات، چاند کا مقام اور بلندی وغیرہ جیسے حسابات محض تخمینی ہوتے ہیں اور ان میں غلطی کا قوی امکان ہوتا ہے لہذا رویت ہلال کے حساس مسئلے میں ان کو استعمال کرنا اور شہادت کے مقابلے میں ان حسابات پر اصرار کرنا درست نہیں۔ ان حضرات سے درخواست ہے آپ اس تحریر کو پڑھیں اور غیر جانب دار ہوکر خود بھی تحقیق کریں۔ یہ تحریر کتاب "تفہیم الفلکیات" مؤلف مفتی اسد اللہ شہباز، رکن شعبہ فلکیات جامعہ الرشید، سے لی گئی ہے. اس سے فلکیاتی حسابات کے متعلق بہت سے اشکالات دور ہوسکتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ فیصلہ رویت پر ہی کیا جائے گا ۔ اگر حسابات کی روشنی میں چاند نظر آنے کا واضح امکان ہو اور مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے نظر نہ آئے تو صرف حسابات کو مدار بناکر رویت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا بلکہ تیس دن پورے کئے جائیں گے۔ صرف اس معاملے میں عالم اسلام کے علما کرام کے مطابق حسابات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ البتہ شہادت کو پرکھنے کے لئے حسابات کا اعتبار کیا جاتا ہے کیوں کہ چاند کی قطعی معلومات سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ چاند کی ولادت نہیں ہوئی یا چاند اس دن سورج سے پہلے غروب ہوجانے کی وجہ سے نظر آنا ممکن نہیں تو اس صورت میں آنے والی گواہیاں خلاف واقع ہوں گی اور ان کو تسلیم نہیں کیا جائے گا اور ان گواہیوں کی اگر فنی جانچ کی جائے تو غلطی معلوم بھی ہوسکتی ہے ۔
اور ان حسابات کی درستگی کا ہر شخص کسی بھی وقت آسانی سے مشاہدہ کرسکتا ہے۔ وہ ایسے کہ جس دن چاند افق کے قریب ہو اس دن ہاتھ کے ذریعے چاند کی بلندی کے درجات معلوم کرلیں اور اس کو ایک کاغز پر نوٹ کرلیں اور پھر فلکیات کے کسی سافٹ ویئر کے ذریعے اپنی دونوں معلومات کو ملائیں آپ کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔
افق پر بلندی کے درجات اس طرح معلوم کریں:
فلکیاتی حسابات کے مختلف درجات: (یہاں سے اگلے صفحات پڑھیں)
نئے چاند کی عمر کتنی ہوتی ہے؟؟
سورج اور چاند کے ایک سیدھ میں آجانے کا وقت ولادت قمر یا اجتماع شمس و قمر کہلاتا ہے اور اس حالت کو ’’حالت محاق‘‘ کہا جاتا ہے ۔
ولادت قمر کے بعد گزرنے والا وقت ’’چاند کی عمر‘‘ کہلاتا ہے
عین ولادت کے وقت چاند کی عمر صفر ہوتی ہے ۔
ولادت قمر کے وقت چاند کا جو نصف تاریک حصہ زمین کی طرف پوتا ہے ہمیشہ وہی حصہ زمین کی طرف رہتا ہے اسی تاریک حصے پر جیسے جیسے سورج کی روشنی زیادہ پڑتی جاتی ہے ویسے ویسیے چاند کی ہلالی شکل بڑھتی جاتی ہے ۔
محاق کی حالت کے بعد چاند مشرق کی جانب تھورا ہٹتا ہے تو ہمیں اس کا چمکتا ہوا کنارہ نظر آتا ہے وہی کنارہ ’’ہلال‘‘ کہلاتا ہے۔
اس بارے میں ماہرین فلکیات کا اختلاف ہے کے ولادت کے بعد چاند کی سورج سے کتنے درجے کی دوری پر چاند نظر آنے کے قابل ہوتا ہے ؟
اس بارے میں چار مشہور اقوال ہیں :
8 درجے
10 درجے
12 درجے
13 درجے
اگر ہم 12 درجے کا قول لیں تو ماہرین کی تصریح کے مطابق جب مہینے کے آخر میں چاند کا سورج کے مغربی جانب فاصلہ 12 درجے یا اس سے کم درجے رہ جائے تو چاند نظر نہیں آتا پھر جب چاند سورج کے سامنے آجاتا ہے تو اس کا درجہ صفر رہ جاتا ہے اور پھر چاند مشرقی جانب بڑھنا شروع کرتا ہے تو 12 درجے کے بعد نظر آنے کے قابل ہوتا ہے ۔ اور آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ چاند دو گھنٹے میں ایک درجہ طے کرتا ہے اس حساب سے 12 درجے کے قول کے مطابق مہینے میں تقریباً 48 گھنٹوں کا وقفہ ایسا ہوتا ہے جس میں چاند نظر نہیں آتا پھر چاند کی سورج سے مشرقی جانب دوری اقوال کی ترتیب کے مطابق 8 درجے ، 10 درجے، 12 درجے یا 13 درجے ہوجاتی ہے تو وہ نظر آنے کے قابل ہوجاتا ہے ۔ اس تمام تفصیل سے آپ یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ چاند کی ولادت کے بعد عمر اقوال کی ترتیب کے مطابق 16 گھنٹے، 20 گھنٹے یا 24 گھنٹے یا 26 گھنٹے ہو تو چاند نظر آئے گا چاند کی عمر زیادہ سے زیادہ 26 گھٹے ہوتو وہ نظر آنے کے قابل ہوگا واضح رہے کہ 13 درجے سے زائد کا قول کسی بھی ماہر فلکیات کے نزدیک نہیں ہے۔ تصویر میں 12 درجے کے مطابق نقشہ بنایا گیا ہے ۔ کیوں کہ 12 درجے (24 گھنٹے) کا قول مناسب معلوم ہوتا ہے۔
(حوالہ: تفہیم الفلکیات ، صفحہ 140)
رمضان المبارک کے چاند کے متعلق مکمل تحقیق روزنامہ اسلام میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے:




No comments:

Post a Comment